بیاد گار کلپنا چاولھ

بیاد گار کلپنا چاولھ- بمناسبت سائنس ڈے
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دھلی

ھند کی شان تھی کلپنا چاولھ
قابل رشک جسکا رھا حوصلھ
جب خلا ئی مشن پرروانھ ھووئی
طے کیا کامیابی سے ھر مر حلھ
کر کے اسسی سے زیادہ اھم تجر بے
سات سائنسدانوں کا یھ قافلھ
جب خلا ء سے زمیں پر روانھ ھوئی
لوٹتے وقت پیش آ گیا حادثھ
جان دے کر خلاءمیں امر ھو گئی
ھے یہھ تاریخ کا اک اھم واقعہ
تھی یکم فروری جب وہ رخصت ھوئی
تھا قضا ء و قدر کا یھی فیصلھ
جب مناتے ھیں سب لوگ سائنس ذے
پیش آیا اسی ماہ یہ سانحھ
اھل کر نال تنھا نہ تھےدم بخود
جس کسی نے سنا، تھا وھی غمزدہ
اس سے ملتی ھے تحریک منزل رسی
ھے نھیں رائیگاں کوئی بھی سانحھ
کامیابی کی ھے شرط اول یھی
ھو کبھی کم نہ انسان کا ولولھ
جائے پیدائش اسکی تھی جس کاؤں میں
پو چھتے ھیں سبھی لوگ اس کا پتھ
تم بھی پڑہ لکھ کے اب نام روشن کرو
طے کرو کامیابی سے ھر مرحلہ
ساری دنیا میں رھتے ھیں وہ سرخر
آگے بڑھنے کا رکھتے ھیں جو حوصلھ
کیوں نھیں ھم کو رغبت ھے سائنس سے
ھےھمارے لئے لمحھ فکر یھ
غور اور فکر فطرت کے اسرارپر
ھے یھی اھل سائنس کا مشغلھ
ماہ و مریخ جب تک ھیں جلوہ فگن
ختم ھو گا نہ تحقیق کا سلسلھ
آئۓ ھم بھی اپنا ئیں سائنس کو
آج جو کچھ ھے سب ھے اسی کا صلھ
وقت کی یہ ضرورت ھے احمد علی
کر دیاختم جس نے ھر اک فاصلھ

دیار شبلی کا ایک با کمال استاد سخن

رحمت الھی برق اعظمی – دیار شبلی کا ایک با کمال استاد سخن

استاد الشعراء حضرت رحمت الھی برق اعظمی (1911-1983) اپنے عھد کے ایک بزرگ اور با کمال شاعر تھے-انھوں نے اردو شاعری کے دھلوی دبستان سے بھی کسب فیض کیا تھا اور لکھنوی دبستان سے بھی- منشی سالگ رام کے توسل سے ایک طرف انکا سلسلہ تلمذ دبستان لکھنؤ کے سرخیل ناسخ تک پھنچتا ھے تو دوسری طرف ناخدائے سخن نوح ناروی کی وساطت سے فصیح الملک داغ دھلوی اور خاقانی ھند شیخ محمد ابراھیم ذوق دھلوی سے بھی نسبت حاصل ھے- یھی وجہ ھے کہ ان کی شاعری میں دونوں دبستانوں کا خوبصورت اور دلکش امتزاج نظر آتا ھے- وہ دیار شبلی کے ان خوش نصیب شعراء میں ھیں جن کے فیض تربیت سے ایک دو نھیں درجنوں سخنور تیار ھو گئے- انھوں نے خود کھا ھے کہ :
مثال شمس تھے ھم بھی کہ جب غروب ھوئے
تو بیشمار ستاروں کو جگمگا کے چلے
حضرت برق اعظمی نے شاعری کی جملہ اصناف پر طبع آزمائی کی ھے- اور جس صنف میں بھی طبع آزمائی کی دیکھنے یا سننے والوں پر یھی تاثر قائم ھوا کہ وہ اسی میدان کے شھسوار ھیں- انھوں نے نظمیں بھی کھی ھیں اور مثنویاں بھی- نعت و مناقب میں بھی طبع آزمائی کی ھے اور سلا م و مراثی اور قصائد میں بھی- قطعات و رباعیات بھی ان کے ان کے شعری ذخیرے میں بڑی تعداد میں موجود ھیں – اور تضمینیں اور قطعات تاریخ بھی- لیکن ان کے مزاج و طبیعت کو غزل سے خصوصی مناسبت تھی – ان کی قدرت کلا م ، فنی چابکد ستی اور استادانہ مھارت کے جوھر ھمیں کامل طور پر غزل ھی میں دیکھنے کو ملتے ھیں-یہ شا ید اس لئے بھی کی بادہ و ساغر کے پردے میں مشاھدہ حق کی گفتگو کے زیادہ مواقع غزل ھی میں رھتے ھیں- چنانچہ خود فرماتے ھیں :
پردے پردے میں کیا ذکر محبت میں نے
شمع کی بات نکالی کبھی پروانے کی

غزل جتنی محبوب و ھر دلعزیز صنف سخن ھے اتنی ھی طویل و قدیم اس کی تاریخ بھی ھے- غزل میں نئے اور نادر مضامین کی دریافت ایک دشوار کام ھے – غزل کے فارم میں دو چار شعرموزوں کر لینا تو بھت آسان ھے لیکن کوئی نادر یا اچھوتا مضمون پیش کرکے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنا ھر کسی کے بس کی بات نھیں ھے- اس کے لئے غیر معمولی مشق ومزاولت کے ساتہ ساتہ وسیع مطالعے اور گھرے مشاھدے کی ضرورت ھے- حضرت برق اعظمی اس سلسلےمیں بڑے خوش نصیب واقع ھوئے ھیں- ان کی غزل میں قاری کو پھلی نظر میں اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلا حیت موجود ھے- ان کے ھاں ھمیں تغزل کے بھی معیاری نمونے ملتے ھیں اور تعمیری واخلا قی قدروں کے بھی-اور وہ ھر چیز بھی بدرجہ اتم ملتی ھے جسے ھم شعریت کھتے ھیں- اس میں کوئی شک نھیں کہ ان کے ھاں ساقی و شراب ، زلف، رخساراور گل و بلبل کا تذکرہ بھی ملتا ھے- لیکن اس کا حوالہ کچہ اور ھوتا ھے-
حضرت برق اعظمی کی شاعری کا اھم وصف ان کے بیان کی سادگی ھے-وہ شعر کچہ اس طرح کھتے ھیں کہ مضمون بالکل عام اورسامنے کی چیز معلوم ھوتا ھے- لیکن جب شعر اپنی مکمل شکل میں سامنے آتا ھے تو اپنی ند رت سے قاری ک چونکا دیتا ھے- اور پوری طرح اسےاپنی گرفت میں لے لیتا ھے - کھتے ھیں-
تجھ کو سینے میں جگہ دی پھر بھی انکا ھو گیا
اے مرے دل تجہ سے بڑہ کر بیوفا کوئی نھیں
نکلا حضور ھی کا مکاں یہ تو کیا کروں
بیٹھا تھا میں تو سایہ دیوار دیکہ کر
اے غم تجھے عزیز نہ رکھوں میں کس طرح
تجہ سا کوئی شریک نھیں زندگی کے ساتہ
آلام روزگار سے گھبرا رھا ھے کیا
دل میں خیال یار کو مھماں بناکے دیکہ
خودسر ھے عقل اس کو بنا تابع جنو ں
کافر ھے نفس اس کو مسلماں بنا کے دیکہ
محبت میں کھاں فرق من و تو یہ وہ منزل ھے
جھاں دل ھے وھیں تم ھو جھاں تم ھو وھیں دل ھے
آپ ان اشعار کوپڑھئے دیکھیں گے کی بات با لکل سامنے کی کھی گئی ھے – الفاظ بھی با لکل صاف و سادہ اور سامنے کے ھیں ، لیکن جس ندرت اور نئے پن کے ساتہ مضمون کو نظم کیا گیا ھے وہ بھر حال قابل توجہ ھے- اپنے دل کو رقیب یا بیوفا کے طور پر دیکھنا ، غم کو شریک زندگی کی حیثیت دینا ، خیال محبوب کو آلام زمانہ کا علاج تصور کرنا- عقل کو تابع جنوں اور نفس کو مسلمان بنانے کی بات کرنا اور محبوب اور دل کو لازم و ملزوم قرار دینا، یہ وہ باتیں ھیں جوبظاھر آسان اور سامنے کی معلوم ھوتی ھیں لیکن شاعر کو بیان کی اس منزل تک پھونچنے کے لئے جس مشق اور ریاض سے گذرنا پڑا ھوگا اس کا ادراک اسی کو ھو سکتا ھے جو خود بھی انھیں مراحل سےگزراھو- بیان کی یھی وہ کیفیت ھے جسے شاعرانہ اصطلاح میں سھل ممتنع کھا جاتا ھے – حضرت برق اعظمی جانشین داغ دھلوی حضرت نوح ناروی کے شاگردتھے جو سھل ممتنع او زبان کی شاعری کے لئے خصوصی شھرت رکھتے تھے- انھیں زبان و بیان کا یہ منفرد و نادر انداز یقینا اپنے استاد سے ملا ھوگا- ان کے درج یل اشعارسے بھی داغ اسکول کی نمایندگی ھو تی ھے-
کتنے میں کس حسیں نے خریدا پتہ نھیں
بس بک گیا میں گرمئی بازار دیکہ کر
سکتے کا سا عالم دم گفتار ھوا ھے
ایسا بھی محبت میں کئی بار ھوا ھے
آتش سیال کی صورت ھے رگ رگ میں لھو
جل رھا ھوںسر سے پا تک اور دھواں ھوتا نھیں
آج آئے ھو تم اے جان تسلی دینے
مر گئے ھوتے جو کل ھجر میں ھم کیا ھوتا
جاں نکلتے ھی سب کلفتیں مٹ گئیں
درد حد سے بڑھا تو دوا ھو گیا
جا تا تو ھےاس جلوہ گہ ناز میں اے دل
کیا ھو گا اگر ضبط کا یارا نہ رھے گا
یاد رکہ اے مجھے دیوانہ بنانے والے
میری رسوائی ھے موجب تری رسوائی کا
حضرت برق اعظمی ایک پختہ کار و صاحب طرز غزل گو شاعرکی حیثیت سے سامنے آتے ھیں ان کی غزل کا یہ امتیاز ھے کہ وہ غزلوں کی بھیڑ میں گم نھیں ھوتی – انکی غزل اپنی ایک پھچان رکھتی ھے- ان کے اشعار اپنے مخصوص زاوئے، منفرد انداز فکر اور نادر طرز گفتار کے سبب لاکھوں کی بھیڑ میں پھچان لئے جاتے ھیں- زبان کی صفائی،بندش کی چستی،محاوروں کی صحت، جذبے کا خلوص،موضوع کی سنجیدگی اور فنی رکہ رکھاؤ ان کی شاعری کے اھم اوصاف ھیں-یہ اوصاف ان کی غزل میں قدم قدم پر دامن دل کھینچتے ھوئےملتے ھیں- ایک شاعر کی حیثیت سے انھیں خود بھی اس کا ادراک ھے- ایک جگہ انھوں نے کھا ھے:
کہ دیا برق کو جو کھنا تھا سن کے اب سر دھنا کرے کوئی
حضرت برق اعظمی کی غزل میں ھمیں اسلوبیاتی سطح پر قدم قدم پرجدید لھریں بھی ملتی ھیں، لیکن روایت کا ایک زندہ و متحرک تصور ان کے شعری رویۓ کی اساس ھے- شعری روایت سے ان کا رشتہ نھایت پختہ اور مستحکم ھے- ان کے شعری شعور نے مشق وممارست کی ایک لازمی حد کوعبور کر کے اجتھاد وفکر کو اپنے فن پارے کا جوھر بنایا ھے – اسلئے کہ وہ اس بات سے پوری طرح باخبرھیں کہ اچھاشعر ، شعر گوئی کی منفرد صلاحیت اور روایت کے مناسب امتزاج سے وجود میں آتا ھے- فنی سلیقہ بندی، فطری توانائی اور زبان پر کامل گرفت ان کی شاعری کے اھم عناصر ھیں – ان کا شعری رویہ ان کی گھری فنی آگھی
یافکر و اظھار پر بھرپور گرفت ،پختہ جمالیاتی شعور اور ترسیل کی کامل استعداد کے آمیزے سے وجود میں آتا ھے-
میں شعرو ادب کو سماج یا تھذیب کا معلم و مصلح سمجھتا ھوں- میرا نقطہ نظر ھے کہ ھر فن پارہ اپنے تخلیق کار کی زندگی اور فکر و خیال کا نمائند ہ ھوتا ھے- کوئی بھی ادیب یا شاعر اپنے عھد ، سماج یا قوم کے خارجی و داخلی ماحول اور تھذیب سے بے نیاز نھیں ھو سکتا اور کسی بھی تخلیق کار کواس کے عھد یا سماج سے الگ کر کے اس کے فن پارے کی تعیین قدر نھیں کی جا سکتی- حضرت برق اعظمی کے کلام کا مطالعہ
کرنے سے اس بات کا ا ندازہ ھوتا ھے کہ ان کے ھاں تغزل کی پاکیزہ قدروں کے ساتہ ساتہ ماضی کی صالح روایتوں سے مستحکم و پایہ دار وابستگی بھی ملتی ھے، حال سے کامل با خبری بھی اور مستقبل پر گھری نظر بھی- انھوں نے اشاروں، کنایوں اور علا متوں کے پردے میں اپنے عھد کے سیاسی،سماجی اور معاشی حالات پر دردمندانہ تنقید بھی کی ھے اورایک ھمدرد، دوربیں اور عاقبت اندیش مصلح کی حیثیت سے سیاد ت و رھنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا ھے- ان کے ھاں اس قسم کے اشعار بھی ملتے ھیں
بھڑکتا ھے چراغ صبح جب بحھنے کو ھوتا ھے
قضا آتی ھے جب چیونٹی کے ھو جاتے ھیں پر پیدا

شھنشاھی کی مانگے بھیک کوئی ھم فقیروں سے
کیےاک کملی والے نے ھزاروں تاجور پیدا

چل دیئے اعزہ سب دفن کر کے مٹی میں
عمر بھر کی الفت کا ھم نے یہ صلا پایا

دیا اتار عزیزوں نے دس قدم چل کرج
مرا جنازہ تھا کاندھوں پہ جیسے بار کوئی

حضرت برق اعظمی ایک خوش فکر و نغز گو شاعر کے ساتہ ایک سچے اورصاحب بصیرت مسلمان بھی تھے اس لئے انھوں نے قلم کی پاکیز گی اور زبان و بیان کی طھارت کا ھمیشہ لحاظ رکھا ھے- انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ زبان و قلم کی دولت اللہ تعالی کی ایک امانت ھے اور اس کے بجا و بیجا استعمال کے لئےھمیں اللہ کے حضورجواب دہ ھونا پڑے گا- یہ احساس انکی شاعری میں متعدد مقامات پر ملتا ھے- نمونے کے طور پر دو شعر پیش کرتا ھوں-

اوروں کی طرح فحش مضامیں نہ کر رقم
اے برق اپنے پاک قلم کا ھی کر لحاظ

فحش غزل اور فکر لطیف
کیا میں ھرن پر لاد دوں گھاس

میں نے حضرت برق اعظمی کی شاعری خصوصا غزل کا بغائر مطالعہ کیا ھے- میں اس نتیجے پرپھنچا ھوں کہ ان کے ھاں لفظ کی بڑی اھمیت ھے – وہ لفظ کی پاکیزگی و طھارت کا پورا لحاظ رکھتے ھیں – انھیں لفظوں کے برتنے اور انھیں ان کے شایان شان استعمال کرنے کا ھنر آتاھے- وہ لفظ کو مردہ اور بے جان نھیںتصور کرتے، اسے ایک زندہ و متحرک حیثیت سے دیکھتےاوراس کے معانی و مفاھیم کی تلاش و جستجو کرتے ھیں- ایسی صورت میں ان کی شاعری اپنا منفرد اورمعنیاتی افق خود بناتی ھے- ان کے اس روئے نے انھیں ایک منفرد اور نغزگو شاعر بنا دیا ھے-


ڈاکٹر تابش مھدی

جی اے/5 ابو الفضل انکلیو- نئی دھلی – 110025

ایڈز کا کس طرح ھوگا سد باب

ایڈز کا کس طرح ھوگا سد باب
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دھلی

ھے جھاں میں اک مسلسل اضطراب
ایڈز کا کس طرح ھوگا سد باب
ھے یہ بیماری ابھی تک لا علاج
کھا رھے لوگ جس سے پیچ و تاب
آج کل جو لوگ ھیں اس کے شکار
زند گی ھے انکی گو یا اک عذ اب
اپنی لا علمی سے ابنائے وطن
کر رھے ھیں ان سے پیھم اجتناب
در حقیقت ھے یہ اک مھلک مرض
جس سے ھیں خطرات لاحق بے حساب
جسم و جاں میں ھے توازن لازمی
کیجئے ایسا طریقہ انتخاب
ھو نہ پیدا ان میں کوئی اختلال
جو بھی کرنا ھے اسے کر لیں شتاب
ھوتے ھی کمزور جسمانی نظام
روح میں ھوتا ھے پیدا اضطراب
سلب ھو جاتی ھے طاقت جسم کی
دینے لگتے ھیں سبھی اعضاء جواب
رفتہ رفتہ آتا ھے ایسا زوال
جسم کھو دیتا ھے اپنی آب و تاب
ماھرین طب ھیں سرگرم عمل
تا کہ اس کا کر سکیں وہ سد باب
جس طرح "ٹی بی" تھی پھلے لا علاج
آج ھے اس کا تدارک دستیاب
اس کا بھی مٹ جائے گا نام و نشآں
ھو گئی کوشش جو ان کی کامیاب
اک نہ اک دن تیرگی چھٹ جائے گی
دور ھو جا ئے گا ظلمت کا سحاب
کیجئے احمد علی حسن عمل
ھے ضروری ایک ذھنی انقلاب

بصد خلوص و نیاز محترم پروفیسر شمیم حنفی

بصد خلوص و نیاز محترم پروفیسر شمیم حنفی
کی نذر
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر ، نئی دھلی

شمیم حنفی ھیں اردو ادب کی وہ آواز
ھمیشہ اھل نظر کو رھے گا جن پر ناز
جھان شعر و ادب میں وہ ھیں بھت ممتاز
سپھر علم پہ انکی بلند ھے پرواز
ھر ایک صنف ادب پر قلم ھے ان کا رواں
ھے ان کا طرز بیاں روح عصر کا غماز
وہ عھد نو میں ھیں معیار فکر و فن کے نقیب
اسی لئے انھیں حاصل بھت سے ھیں اعزاز
قدم بڑھائے تو مڑ کر کبھی نھیں دیکھا
اگر چہ راہ میں آئے بھت نشیب و فراز
بنائی رھگذر اپنی نئی سوئے منزل
ھمیشہ ساز بنایا اسے جو تھا نا ساز
ھیں متفق سبھی اس بات پر وہ ھیں برقی
سخن شناس، ادب دوست، صاحب اعجاز

آئی ٹی سے ھند ھے سارے جھاں میں نامور

آئی ٹی سے ھند ھے سارے جھاں میں نامور
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دھلی

ھند تھا ھر دور میں گھوارہ علم و ھنر
اس لئے یہ سر زمیں تھی مرجع اھل نظر
تھا درخشاں اس کا ماضی، حال بھی ھے تابناک
ھو گا مستقبل بھی روشن کہ رھے ھیں دیدہ ور
قافلہ تحقیق کا ھے سوۓ منزل گامزن
کچہ بھی ناممکن نھیں ھے ھو اگر عزم سفر
آج کمپیوٹر کو حاصل ھے کلیدی حیثیت
ھے یہ عصری آگھی کا اک وسیلہ کارگر
ھیں سر فھرست " وپرو" اور "ستیم" آج کل
نام ھے ان کا جھان فکر و فن میں معتبر
"پریم جی" نے" آئی ٹی"میں کر کے برپا انقلاب
ھند کو سارے جھاں میں کر دیا ھے نامور
"آئی ٹی"میں آج ھے "بنگلور"کو حاصل شرف
اس لئے اس شھر پر سارے جھاں کی ھے نظر
ھے یہ سب "انفارمیشن ٹکنولوجی" کا کمال
لوگ گرد وپیش کے حالات سے ھیں باخبر
ملک کی تعمیر نو ھیں جو سرگرم عمل
رھنمائی کر رھی ھے ان کی یہ شام وسحر
ھے محیط آدھی صدی پر اس کی علمی پیشرفت
ھے سبق آموز اس کی کامیابی کا سفر
استفادہ کر رھے ھیں آج اس سے خاص و عام
آج یہ راہ ترقی میں ھے سب کی ھمسفر
لوگ ھر شعبے میں اس سے ھو رھے ھیں فیضیاب
عصرحاضر میں ھے یہ نخل سعادت کا ثمر
"ورلڈ وائب ویب" کا پھیلا ھر طرف ھے ایک جال
تیز تر "ای میل" سے کوئی نھیں ھے نامہ بر
ھم فضائی ٹکنولوجی میں کسی سے کم نھیں
دیتا ھے " انسیٹ" ھم کو سارے عالم کی خبر
آج کل ھے "کال سینٹر"سے سبھی کا رابطہ
اس سے پیھم متصل ھیں کارگاہ بحر وبر
الغرض ھر چیز ھےاب "آئی ٹی سے منسلک
کوئی شے ایسی نھیں ھے جس کو ھو اس سے مفر
منحصرھے "آئی ٹی" پر آج سارا میڈ یا
اس کی تد ریجی ترقی کا نہ ھوگا بند در
آئۓ احمد علی برقی کریں تجدید عھد
طے کریں گے ھم مسلسل کامیابی کا سفر

شبلی کالج کی نمایاں شان ھے

شبلی کالج کی نمایاں شان ھے
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
598/9 ذاکر نگر، نئی دھلی

شبلی کالج کی نمایاں شان ھے
شھر اعظم گڈہ کی جو پھچان ھے
ھے یہ شبلی کی روایت کا امین
اس لئے سب سے عظیم الشان ھے
ھے یہ ان کا ایک علمی شاھکار
جس کا جاری ھر طرف فیضان ھے
تھے وہ سر سید کے سچے جانشین
جن کا ملک وقوم پراحسان ھے
تھے وہ عصری آگھی کے ترجمان
عھد نو کا آج جو رجحان ھے
ھے یہ کالج ان کا میدان عمل
جس پہ ھر اھل نظر قر بان ھے
ھے یھاں پر آج سب کچہ دستیاب
جو بھی اھل ذوق کاسامان ھے
اقتضاۓ وقت ھیں عصری علوم
جو نہ اپناۓ انھیں نادان ھے
آئۓ اپنائیں ھم سائنس کو
عھد حاضر کا یھی فرمان ھے
آئی ٹی کا ھے زمانہ آج کل
آج جو ھر علم و فن کی جان ھے
جو بھی حاصل ھے مجھے احمد علی
شبلی کالج کا ھی وہ فیضان ھے

آج ھے انفارمیشن ٹکنالوجی کی بھار

آج ھے انفارمیشن ٹکنالوجی کی بھار
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دھلی

آج ھے انفارمیشن ٹکنولوجی کی بھار
کوئی "گوگل" پر فدا ھے کوئی " یاھو پر نثار
کوئی " اردوستان" و "وکیپیڈ یا" کا ھے اسیر
ھے کسی کو صرف "ٹو سرکلس نیٹ" کا انتظار
ھے " بلاگ اسپاٹ" کا گرویدہ کوئی اور کوئی
کر رھا ھے دوسری ویب سائٹوں پر انحصار
"انڈیاٹائمز"ھو، "جی میل" ھو یا " ھاٹ میل"
چل رھا ھے "آئی ٹی" سسے آج سب کا کاروبار
آج ھے سسائنس پر ھر چیز کا دار و مدار
اب نئی قدروں پہ ھے اھل جھاں کا اعتبار
اب نھیں کچہ فرق قرب و بعد میں "ای میل" سے
لوگ آخر کیوں کریں اب نامہ بر کا انتظار
زندگی کا کوئی بھی شعبہ نھیں اس سے الگ
آج کمپیوٹر پہ ھے سارے جھاں کا انحصار
ھو فضائی ٹکنولوجی یا نظام کائنات
کرتے ھیں معلوم اس سے گردش لیل و نھار
جانتے ھیں لوگ اس سے کیا ھے موسم کا مزاج
کیوں فضا میں اڑ رھے ھیں ھر طرف گرد و غبار
اس کا ھے مرھون منت آج سارا میڈ یا
جتنے سیٹ لائٹ ھیں سب کا ھے اسی پر انحصار
ھے سبھی سیٹ لائٹوں کا اس سے پیھم رابطہ
ورلڈ وائب ویب سے ھے یہ ھر کسی پر آشکار
عصر حاضر میں نھیں اس سے کسی کو ھے مفر
پڑتی ھے اس کی ضرورت ھر کسی کو بار بار
"آئی ٹی" کو آپ بھی اپنائۓ احمد علی
آج ھے اس کے لئے ماحول بیحد سازگار

بیاد سر سید

بیاد سر سید
از
ڈاکٹر احمد علی برقی
ذاکر نگر، نئی دھلی

ھے یہ سرسید کا فیضان نظر
جس نے شھر علم کے کھولے ھیں در
ھے علی گڈہ میں جو ان کی یادگار
ان کے نخل آرزو کاھے ثمر
گامزن راہ ترقی پر ھیں ھم
ان کی تعلیمات کا ھے یہ اثر
اپنے فرض منصبی کے ساتھ ساتھ
ان کی تھی حالات پر گھری نظر
لکھ کے اسباب بغاوت پر کتاب
قوم کے تھے رھنما بعد از غدر
جس گھڑی کوئی نہ تھا پرسان حال
تھی بھلائی قوم کی پیش نظر
وہ شعور فکر و فن کے تھے نقیب
علم کی عظمت سے تھے وہ با خبر
قوم کو ترغیب دے کر علم کی
زندہ جاوید ھے وہ دیدہ ور
یوم سرسید منائیں کیوں نہ ھم
ان کا ھے احسان ملک و قوم پر
زیب تاریخ جھاں ھے ان کا نام
کام ھے ان کا نھایت معتبر
تھے وہ بزم علم فن کی روشنی
هر طرف جو آج تک ھے جلوہ گر
علم ھے قفل سعادت کی کی کلید
علم سے ھے سرخرو نوع بشر
علم سے بڑہ کر نھیں ھے کوئی شے
اس کے آگے ھیچ ھے سب مال وزر
ان کا برقی ھے یہ احسان عظیم
ھم علوم عصر سے ھیں با خبر

پولیو کی ھے ضروری روک تھام

پولیو کی ھے ضروری روک تھام
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دھلی

پولیو کی ھے ضروری روک تھام
کیجۓ بر وقت اس کا انتظام
تندرستی کا ھے ضامن یہ ڈراپ
اس لۓ لازم ھے اس کا اھتمام
ھے یہ بچوں کے لئے جام صحت
تندرستی کی علامت ھے یہ جام
ھے اگر درکار حفظان صحت
اس مشن کو کیجئے لوگوں میں عام
قوم کے معمار ھیں بچے یھی
ملک کا جو کل سنبھالیں گے نظام
ھے ضروری ان کی ذھنی تربیت
ان میں شاید ھو کوئی عبد الکلام
ھے نمونہ جس کا کردار و عمل
ھے زباں پر ھر کسی کی جس کا نام
شاید ان میں کوئی سرسید بھی ھو
جس کا جاری آج تک ھے فیض عام
ھے علی گڈہ جس کا میدان عمل
ملک کا روشن کیا ھےجس نے نام
کوئی شاید ھو حکیم عبد الحمید
جس کا ھے ھمدرد اک نقش دوام
تھا جو اپنے آپ میں اک انجمن
خدمت خلق خدا تھا جس کا کام
جامعہ ھمدرد ھے اس کا ثبوت
استفادہ کر رھے ھیں خاص و عام
ھر کہ خدمت کرد او مخد وم شد
ذات پر صادق ھے انکی یہ کلام
پولیو در اصل ھے سو حان روح
اس کا ھوگا کب نہ جانے اختتام
ھو سکا اس کا نہ اب تک سد باب
ھے یہ برقی ایک عبرت کا مقام

ارتباط ھند و ایران زندہ باد

ارتباط ھند و ایران زندہ باد
از
دکتر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، دھلی نو، ھند

مر کز امید ایران زندہ با
رھبر نھضت گرایان زندہ باد
دوستدار اسوہ حضرت علی
ناشر احکام قرآن زندہ باد
پاسدار طبقہ مستضعفین
چارہ ساز بینوایان زندہ باد
شاہ ایران را ز ایران راندید
خد متی کردید شایان زندہ باد
دام پر تزویر امریکا شکست
یافت استقلال ایران زندہ باد
غرب زدگی کاملا ازبین رفت
شمع ایمان شد فروزان زندہ باد
خواستار است از خدا احمد علی
ارتباط ھند و ایران زندہ باد

ارتباط ھند و ایران زندہ باد

ارتباط ھند و ایران زندہ باد
از
دکتر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، دھلی نو، ھند

مر کز امید ایران زندہ با
رھبر نھضت گرایان زندہ باد
دوستدار اسوہ حضرت علی
ناشر احکام قرآن زندہ باد
پاسدار طبقہ مستضعفین
چارہ ساز بینوایان زندہ باد
شاہ ایران را ز ایران راندید
خد متی کردید شایان زندہ باد
دام پر تزویر امریکا شکست
یافت استقلال ایران زندہ باد
غرب زدگی کاملا ازبین رفت
شمع ایمان شد فروزان زندہ باد
خواستار است از خدا احمد علی
ارتباط ھند و ایران زندہ باد

بیاد علامہ شبلی نعمانی
از
دکتر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، دھلی نو

نام شبلی در صف نام آوران
کار شبلی مرجع دانشوران
سبک او در نقد شعر فارسی
در روانی ھمچو بحر بیکران
بر سپھر فارسی شعر العجم
می درخشد ھمچو ماہ ضو فشان
ذکر او پیداست در شعر بھار
ھست او در وصف او رطب اللسان
شاھکار اوست در شعر و ادب
منبع دانش در اقصای جھان
می سراید نغمہ ھای دلپذیر
عندلیب گلشن ھند وستان
نخلبند گلشن مھر و وفا
فخر دوران، نکتہ سنج و نکتہ دان
شبلی کالج مظھر فیضان اوست
شبلی منزل ھست گنج شایگان
می کنند از یادگارش کسب فیض
دوست داران معارف در جھان
نام او احمد علی باشد مدام
در جھان علم و دانش جاودان

عالیجناب اے پی جے عبد الکلام

عالیجناب اے پی جے عبد الکلام کو انکی علمی خد مات کے
اعتراف میں رائل سوسائٹی آف لندن کی جانب سے شاہ چارلس دوم میڈل ملنے پر منظوم تا ثرات
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ذاکر نگر، نئی دھلی

نازش ھند وستاں ھیں اے پی جےعبد الکلام
باعث عز و شرف ھےجن کا تزک و احتشام
اپنے طرز کار سے ھیں سب میں وہ ھر دلعزیز
ان کا ابناۓ وطن کرتے ھیں بیحد احترام
ھے نھایت معتبر لندن کی شاھی انجمن
منتخب جس نے کیا سارے جھاں میں ان کا نام
انکے علمی کارنامے آج ھیں تاریخ ساز
ان کی عظمت کا نشاں ھے بین الاقوامی انعام
شاہ اکیھیتو ھوئے تھے پھلے اس سے سرفراز
دوسرے وہ شخص ھیں جن کو ملا ھے یہ انعام
ان کے علم و فضل کا سپ کر رھے ھیں اعتراف
ان کے ذریں کارناموں کا صلہ ھے یہ انعام
مرد میزائل بھی ھیں وہ اور صدر مملکت
اشھب سائنس کی ھے جن کے ھاتھوں میں لگام
ان کا ھے یہ ٹارگٹ آیندہ تیرہ سال میں
ھند کا ھوگا ترقی یافتہ ملکوں میں نام
چاھتے ھیں اس لئے وہ ٹکنالوجی کا فروغ
تاکہ ھو فکر و عمل کا اس سے مستحکم نظام
ملک و ملت کی ترقی ان کا نصب العین ھے
ھرکسی پر جاری و ساری ھے انکا فیض عام
نونھالان وطن سے ان کو ھے بیحد لگاؤ
ان کی شفقت سے سپھی چھوٹے بڑے ھیں شادکام
کام سے ھیں اپنے وہ سارے جھاں میں سر بلند
عالمی تاریخ میں روشن رھے گا ان کا نام
خاکساری کا ھے پیکر ان کی عملی زندگی
پیش کرتا ھے انھیں احمد علی برقی سلام

فخردوراں اے پی جے عبد الکلام

فخردوراں اے پی جے عبد الکلام
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی

فخردوراں اے پی جے عبد الکلام
جن کا ھے سائنس میں اعلی مقام
کام سے ھیں اپنے وہ ھر دلعزیز
جس سے ھے سارے جھاں میں ان کا نام
ھیں ابوالآ باۓ میز ائل وھی
ھند کا ھے جس سے تزک و احتشام
ملک و ملت کی ترقی کے لئے
جاری و ساری ھے ان کا فیض عام
وقف کر دی زندگی سائنس پر
اس لئے ھیں لا یق صد احترام
ان کے زریں کار نامو ں کے سبب
زیب تاریخ جھا ں ھے ان کا نام
ھر کہ خد مت کرد او مخدوم شد
ذات پر ھے ان کی صادق یہ کلام
ان کا ھے تنھا یھی قومی مشن
جملہ ابنائےوطن ھوں نیک نام
اشھب دوراں کی انکے ھاتھ میں
علم و فضل و آگھی سے ھے لگام
کارگاہ زند گی میں اھل ھند
ھوں ھمیشہ سرخرو اور پیش گام
ھے نمونہ ان کی عملی زند گی
کیجئے اس کا تتبع صبح و شام
یہ شرف سائنس کا ھے جس سے وہ
ھند میں ھیں ملک و ملت کے امام
خاکساری کا ھے پیکران کی ذات
کرتا ھے احمد علی ان کو سلام

فخردوراں اے پی جے عبد الکلام

فخردوراں اے پی جے عبد الکلام
جن کا ھے سائنس میں اعلی مقام
کام سے ھیں اپنے وہ ھر دلعزیز
جس سے ھے سارے جھاں میں ان کا نام
ھیں ابو الآ باۓ میز ائل وھی
ھند کا ھے جس سے تزک و احتشام
ملک و ملت کی ترقی کے لئے
جاری و ساری ھے ان کا فیض عام
وقف کر دی زندگی سائنس پر
اس لئے ھیں لا یق صد احترام
ان کے زریں کار نامو ں کے سبب
زیب تاریخ جھا ں ھے ان کا نام
ھر کہ خد مت کرد او مخدوم شد
ذات پر ھے ان کی صادق یہ کلام
ان کا ھے تنھا یھی قومی مشن
جملہ ابنائےوطن ھوں نیک نام
اشھب دوراں کی انکے ھاتھ میں
علم و فضل و آگھی سے ھے لگام
کارگاہ زند گی میں اھل ھند
ھوں ھمیشہ سرخرو اور پیش گام
ھے نمونہ ان کی عملی زند گی
کیجئے اس کا تتبع صبح و شام
یہ شرف سائنس کا ھے جس سے وہ
ھند میں ھیں ملک و ملت کے امام
خاکساری کا ھے پیکران کی ذات
کرتا ھے احمد علی ان کو سلام

ھے وزون کی تہ حفاظت کا خول

ھے وزون کی تہ حفاظت کا خول
از
ڈ اکٹر احمد علی برقی اعظی ، ذاکر نگر، نئی دھلی

تباھی کی زد میں ھے اوزون ھول
نھیں آج اس پر کوئی کنٹر ول
زمیں پر ھے جب تک یہ سایہ فگن
مسلط نہ ھو گاکبھی ایرو سول
تمازت ھے سورج کی سوحان روح
ھے اوزون کی تہ حفاظت کا خول
توازن میں ھو تے ھی اس کے خلل
نہ قائم رھے گا کو ئی کنٹر و ل
یہ سطح زمیں پر ھے نقصا ن دہ
خلاء میں ھے لیکن اھم اس کا رول
اسی سے صحتمند ھے ھر بشر
صحت کا نھیں ھے کھیں کوئی مول
بنفشی شعاؤ ں کا فطر ی عمل
نہ ماحول میں دے کھںزھر گھو ل
نہ برھم ھو اس سے نظام حیا ت
سبھی کو ھے کر نا ادا اپنا رول
جو ھیں آج دنیا می بیدار مغز
فقط خد مت خلق ھے ان کا گول
صحت کا ھے احمد جھاں تک سوال
ھے اس ضمن میں نا روا تول مول

فخردوراں اے پی جے عبد الکلام

فخردوراں اے پی جے عبد الکلام
جن کا ھے سائنس میں اعلی مقام
کام سے ھیں اپنے وہ ھر دلعزیز
جس سے ھے سارے جھاں میں ان کا نام
ھیں ابو الآ باۓ میز ائل وھی
ھند کا ھے جس سے تزک و احتشام
ملک و ملت کی ترقی کے لئے
جاری و ساری ھے ان کا فیض عام
وقف کر دی زندگی سائنس پر
اس لئے ھیں لا یق صد احترام
ان کے زریں کار نامو ں کے سبب
زیب تاریخ جھا ں ھے ان کا نام
ھر کہ خد مت کرد او مخدوم شد
ذات پر ھے ان کی صادق یہ کلام
ان کا ھے تنھا یھی قومی مشن
جملہ ابنائےوطن ھوں نیک نام
اشھب دوراں کی انکے ھاتھ میں
علم و فضل و آگھی سے ھے لگام
کارگاہ زند گی میں اھل ھند
ھوں ھمیشہ سرخرو اور پیش گام
ھے نمونہ ان کی عملی زند گی
کیجئے اس کا تتبع صبح و شام
یہ شرف سائنس کا ھے جس سے وہ
ھند میں ھیں ملک و ملت کے امام
خاکساری کا ھے پیکران کی ذات
کرتا ھے احمد علی ان کو سلام

تازہ ترین تصنیف " عظمت کے نشاں " پر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کا منظوم تبصر

تازہ ترین تصنیف " عظمت کے نشاں " پر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کا منظوم تبصرہ
الیاس اعظمی کی یہ عظمت کے ھیں نشاں
روشن ھیں اس کتاب میں جو مثل کھکشاں
طرز بیاں ے اس کا دل انگیز اور روا ں
جس طرح موجزن ھو کوئی بحر بیکراں
اھل نظر کے ذوق کی آئیینہ دار ھے
سب کے لئے ھے لذ ت کام و دھن یھاں

ارباب علم و فضل کا ھے اس میں تذکرہ
ھیں مھر و ماہ شعر و ادب اس میں ضوفشاں
حسن بیاں ھے اس سے مصنف کا آشکار
جو ھے سخن شناس، اد ب دوست ، نکتہ داں
گلھای رنگا رنگ کا گلد ستہ حسیں
مشاطہ سخن ھے برائے سخن وراں
ھر جا ھیں آ شکار تراکیب دلنشیں
اب دیکھئے ٹھر تی ھے جا کر نظر کھاں
دار المصنفین سے ھیں جو بھی منسلک
وہ لوگ ھیں روایت شبلی کے پاسباں
شبلی جھان شعر و اد ب میں وہ نام ھے
جسکے بغیر اد ھوری ھے ارد و کی داستاں
شبلی اکیڈ می کا جو ھےترجمان آج
یہ بات ماھنامہ " معارف " سے ھے عیاں
ھوتے رھیں گے اھل نظر اس سے فیضیاب
عرفان و آگھی کا یہ ھے گنج شا یگاں
یہ بھی انھیں کے نقش قد م پر ھیں گامزن
یہ قافلہ ھے جانب منزل رواں دواں
کر تا ھے پیش ھد یہ تبریک و تھنیت
احمد علی ھے اس کے محاسن کا قدرداں

منحصر ھے آج انٹرنیٹ پہ دنیا کا نظام

منحصر ھے آج انٹرنیٹ پہ دنیا کا نظام
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ذاکر نگر، نئی دھلی

منحصر ھے آج انٹرنیٹ پہ دنیا کا نظام
اشھب دوراں کی ھے اس کے ھی ھاتھوں میں لگام
ورلڈ وائبب ویب میں ھے ممتاز گوگل ڈاٹ کام
استفادہ کر رھے ھیں آج اس سے خاص و عام
سب سوالوں کا تسلی بخش دیتی ھے جواب
اس لئے مشھور ھے سارے جھاں میں اس کا نام
ھیں ریڈیف میل اور یاھو بھی نھایت کارگر
جاری و ساری ھے انکا بھی سبھی پر فیض عام
خدمت اردو میں ھے مصروف اردوستان اور
انڈین مسلمس،ٹو سرکلس، خبر ین ڈاٹ کام
ھے ذخیرہ علم کا انمول وکیپید یا
کر رھے ھیں فیض حاصل آج جس سے خاص و عام

ھیں وسیلہ رابطے کا یہ سبھی ویب سائٹیں
کر رھی ھیں خدمت خلق خدا جو صبح و شام
فاصلہ کچھ بھی نھیں ھے آج قرب و بعد میں
چند لمحوں میں کھیں بھی بھیج سکتے ھیں پیام
فارم بھرنا ھو کوئی یا بک کرانا ھوٹکٹ
آج انٹرنیٹ سے ھے معقول اس کا انتظام
ریڈیو ، اخبار، ٹی وی، میڈ یا ، اھل نظر
استفادہ کر رھے ھیں آج اس سے خاص و عام
ھے معاون آج یہ سائنس کی تحقیق میں
ٹکنو لوجی میں بھی اس سے لے رھے ھیں لوگ ک کا م
قافلہ تحقیق کا جب تک رھے گا گامزن
کام آئیگا مسلسل اس کا حسن انتظام
ھیں یہ ویب سائٹ ضرورت وقت کی احمد علی
اس لئے اھل نظر کرتے ھیں ان کا اھتمام

منحصر ھے آج انٹرنیٹ پہ دنیا کا نظام

منحصر ھے آج انٹرنیٹ پہ دنیا کا نظام
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ذاکر نگر، نئی دھلی

منحصر ھے آج انٹرنیٹ پہ دنیا کا نظام
اشھب دوراں کی ھے اس کے ھی ھاتھوں میں لگام
ورلڈ وائبب ویب میں ھے ممتاز گوگل ڈاٹ کام
استفادہ کر رھے ھیں آج اس سے خاص و عام
سب سوالوں کا تسلی بخش دیتی ھے جواب
اس لئے مشھور ھے سارے جھاں میں اس کا نام
ھیں ریڈیف میل اور یاھو بھی نھایت کارگر
جاری و ساری ھے انکا بھی سبھی پر فیض عام
خدمت اردو میں ھے مصروف اردوستان اور
انڈین مسلمس،ٹو سرکلس، خبر ین ڈاٹ کام
ھے ذخیرہ علم کا انمول وکیپید یا
کر رھے ھیں فیض حاصل آج جس سے خاص و عام

ھیں وسیلہ رابطے کا یہ سبھی ویب سائٹیں
کر رھی ھیں خدمت خلق خدا جو صبح و شام
فاصلہ کچھ بھی نھیں ھے آج قرب و بعد میں
چند لمحوں میں کھیں بھی بھیج سکتے ھیں پیام
فارم بھرنا ھو کوئی یا بک کرانا ھوٹکٹ
آج انٹرنیٹ سے ھے معقول اس کا انتظام
ریڈیو ، اخبار، ٹی وی، میڈ یا ، اھل نظر
استفادہ کر رھے ھیں آج اس سے خاص و عام
ھے معاون آج یہ سائنس کی تحقیق میں
ٹکنو لوجی میں بھی اس سے لے رھے ھیں لوگ ک کا م
قافلہ تحقیق کا جب تک رھے گا گامزن
کام آئیگا مسلسل اس کا حسن انتظام
ھیں یہ ویب سائٹ ضرورت وقت کی احمد علی
اس لئے اھل نظر کرتے ھیں ان کا اھتمام

تھے ضیاء الدین اصلا حی اد یب باوقار

تھے ضیاء الدین اصلا حی اد یب باوقار
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ، ذاکر نگر، نئ دہلی


تھےضیاء الدین اصلا حی ادیب باوقار
انکی تصنیفات ہیں اردو ادب کا شاہکار
تھے معارف کے ایڈ یٹر ناظم اصلاح بہی
گلشن شبلی میں انکی ذات تہی مثل بہار
تھی وہ پہلی فروری جب شومئ تقدیر سے
ناگہاں اک حادثے کے ہو گۓ تہے وہ شکار
شبلی کالج بہی ہے اس غم میں برابرکاشریک
غمزدہ سلمان سلطاں ، مضمحل ہیں افتخار
ان کو الیاس اعظمی سے تھا جو اک فطری لگاؤ
اس لۓ وہ فرط غم سے ہیں مسلسل اشکبا ر
ساکت و صامت ہیں رفقاء شبلی منزل کے سبھی
فرط غم سے ان کا بھی ناگفتہ بہ ہے حال زار
تھی عظیم المر تبت ان کی مثالی شخصیت
یاد ہے لوگوں کو اب تک ان کا عجزو انکسار
ان کی عملی زندگی تھی پیکر مہرو وفا
تھےہمیشہ ہر کسی کےخیرخواہ و غمگسار
شبلی منزل کی تھیں رونق ان کی بزم آرائیاں
یاد آئیں گی جو ارباب نظر کو بار بار
مختصر سی نظم میں اس کا احاطہ کیا کریں
ان کے تھے احمد علی ادبی محاسن بیشمار

تھے ضیاء الد ین اصلاحی ادیب خوش بیاں

تھے ضیاء الد ین اصلاحی ادیب خوش بیاں
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دہلی

تھے ضیاء الدین اصلاحی ادیب خوش بیاں
اک سڑک کے حادثے میں چل بسے جو ناگہاں
تھے وہ شبلی کی روایت کے حقیقی پاسباں
ھے معارف آج جن کے فکر و فن کا ترجماں
ان کا فیضان نظر تھا ایک گنج شایگاں
جا بجا بکھرے ہوئے ہیں ان کی عظمت کے نشاں
گلشن شبلی میں ان کی ذات تھی مثل بہار
انکے جانے سے یہاں پر آگئی فصل خزاں
ان کی عملی زندگی تھی مظہر صدق و صفا
انکی علمی شخصیت تھی مرجع دانشوراں
ان کی اسلامی ادب پر تھی بہت گہری نظر
ان کے رشحات قلم ہیں مظہر حسن بیاں
ان کا ھے اردو ادب پر ایک احسان عظیم
مٹ نہیں سکتے کبھی ان کے نقوش جاوداں
وہ شریف النفس تھے سب کو ھے اس کا اعتراف
اپنے حسن خلق سے تھے وہ دلوں پر حکمراں
ان کی قبل از وقت رحلت سے سبھی ھیں سوگوار
ھو نھیں سکتی تلافی جسکی ، ھے یہ وہ زیاں
ان کے رفقا ء صدمہ جانکاہ سے ھیں مضمحل
تھے وہ برقی عندلیب گلشن ھندوستا ں
جلد ھی حج کی سعادت سے ھوۓ تھے سرفراز
ان کا مسکن آج ھے احمد علی باغ جناں

سب سے بھتر ھے آج اردستان

سب سے بھتر ھے آج اردستان
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
ذاکر نگر، نئی دھلی

جتنی ویب سائٹیں ھیں اردو کی
سب سے بھتر ھے ان میں اردستان
اس کا اردو ادب پہ ھے احسان
اس کی خد مات ھیں عظیم الشان
علم و دانش کا کوئی شعبہ ھو
دسترس میں ھے اسکی ھر عنوان
کرتے ھیں کسب فیض سب اس سے
اس میں ھے سب کے ذوق کا سامان
منعکس ھو رھا ھےسب اس سے
عصر حاضر کا جو بھی ھے رجحان
آپ چاھے جھاں بھی رھتے ھوں
اس کا جاری ھے ھر طرف فیضان
سرحدیں ھو گئیں ھیں بے معنی
کردیا کام نٹ نے یہ آسان
ھو ریڈ یف میل، یاھو، یا جی میل
سب کی اپنی الگ ھے اک پھچان
کوئی عقدہ نھیں ھے لا ینحل
لے بصیرت سے کام گر انسان
ھے یہ سائنس کا کرشمہ سب
جس کا چلتا ھے ھر طرف فرمان
سوۓ مریخ گامزن ھے بشر
چاند پر جا چکا ھے اس کا یان
ھے یہ اکیسویں صدی برقی
جس کی درا صل آئی ٹی ھے جان

عالمی ارض ڈے مناتے ھیں

عالمی ارض ڈے مناتے ھیں
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
9\598 ذاکر نگر، نئی دھلی

جس زمیں پر سب آتے جاتے ھیں
داستاں اس کی ھم سناتے ھیں
سب زمیں پر ھی جنم لیتے ھیں
اور پس از مرگ اسی میں جاتے ھیں
کچہ نہ ھوگا اگر زمین نہ ھو
جو بھی اگتا ھے اس میں کھاتے ھیں
ھے زمیں قصر زیست کی بنیاد
ھم اسی پر ھی گھر بناتے ھیں
گھر کی تعمیر میں در و دیوار
لکڑی اور اینٹ سے بناتے ھیں
لکڑی ملتی ھے ھم کو جنگل سے
پیڑ پودے جسے سجاتے ھیں
گھر کی زینت ھے پیڑ پودوں سے
گھر کی رونق یھی بڑھاتے ھیں
ان سے ملتی ھے ھم کو صاف ھوا
اس لۓ پیڑ ھم اگاتےھیں
صاف آب و ھوا ضروری ھے
لوگ کیوں اس کو بھول جاتے ھیں
تندرستی ھزار نعمت ھے
اس لۓ لوگ پارک جاتے ھیں
ماہ اپریل میں سبھی ھر سال
عالمی ارض ڈے مناتے ھیں
آؤاس عھد کی کریں تجدید
وعدہ ھر حال میں نبھاتے ھیں
باز آجائیں اپنی حرکت سے
جوبھی آ لودگی بڑھاتے ھیں
چشمہ آب سوکہ جاۓگا
پانی بیکار کیوں بھاتے ھیں
اس سے بڑہ کر نھیں کوئی دولت
مفت میں کیوں اسے لٹاتے ھیں
زندہ رھتا ھے صرف نام ان کا
دوسروں کے جوکام آتے ھیں
ھے یھی فرض عین ھم سب کا
جو صحیح بات ھے بتاتے ھیں
خواب غفلت سے ان کو اے برقی
آيۓ مل کے ھم جگاتے ھیں

شبلی کی یادگار ھے دارالمصنفین

شبلی کی یادگار ھے دارالمصنفین
از
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
9/598ذاکر نگر، نئی دھلی

شبلی کی یادگار ھے دارالمصنفین
شبلی کا شاھکار ھے دارالمصنفین
سوغات جس ادارے کی ھے سیرت النبی
وہ فخرروزگار ھے دارالمصنفین
جسکا کتابخانہ ھے اک گنج شایگاں
وہ در شاھوار ھے دارالمصنفین
کرتے ھیں جس سے اھل نظر اکتساب فیض
وہ بزم باوقار ھے دارالمصنفین
اظھار فکروفن کا معارف ھے ترجماں
اردو کی پاسدار ھے دارالمصنفین
اردو ادب کے جتنے ادارے ھیں ھند میں
ان سب میں شاندار ھے دارالمصنفین
ان کے لۓ جنھیں ھے زبان و ادب سے عشق
پرکیف و سازگار ھے دارالمصنفین
قایم دیار شرق کی ھے جس سے آبرو
وہ وجہ افتخار ھے دارالمصنفین
احمد علی ھے اس کے محاسن کا قدرداں
میزان اعتبار ھے دارالمصنفین