میں جہاں ہوں ہم وطنو جانے کیسی بستی ہے : احمد علی برقی اعظمی


ہرایک شخص تمھارے لئے پرایا ہے : احمد علی برقی اعظمی


ہمیشہ ملتا ہے کیوں مجھ سے اجنبی بن کر : احمد علی برقی اعظمی


نخلِ حیات کے مرے برگ و ثنر بدل گئے : احمد علی برقی اعظمی


درکار نہیں مجھ کو کوئی تیرے سوا اور : احمد علی برقی اعظمی


میری اور اس کی کہانی اور ہے : احمد علی برقی اعظمی


جس طرف دیکھو اُدھر اک حشر برپا ہوگیا : احمد علی برقی اعظمی


لوگ جیسے عالمِ محشر میں ہوں : احمد علی برقی اعظمی


بے رخی اُن کی یہ عادت تو نہیں : احمد علی برقی اعظمی


تھے جتنے اپنے شناسا ہیں آزمائے ہوئے : احمد علی برقی اعظمی


وہ مجھے بھول گیا مجھ سے بُھلایا نہ گیا : احمد علی برقی اعظمی


خانۂ دل سے مرے اور کہاں جائیں گے آپ : احمد علی برقی اعظمی


اچانک اس نے بُلایا تو آنکھ بھر آئی :احمد علی برقی اعظمی


سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج : احمد علی برقی اعظمی


ناز و ادا سے ہوش سبھی کے اُڑا گئے : احمد علی برقی اعظمی


درپردہ میر ا دشمنِ جاں یار ہی رہا : احمد علی برقی اعظمی


مرزا غالب کے ۲۲۰ ویں یوم تولد پر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کا مزار غالب پر منظوم خراج عقیدت

شہزاد احمد کے مصرعہ طرح پر ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز کے ۱۸ ویں آنلاین فی البدیہہ عالمی طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی


گوگل کا خوبصورت ڈوڈل سے مرزا غالب کو ان کے ۲۲۰ ویں یوم تولد پر خراج تحسین : احمد علی برقی اعظمی Google Paying Tribute To Mirza Ghalib On His 220th Bith Anniversary


An Evening in Kirori Mal College Delhi University With Ahmad Ali Barqi Azmiکروڑی مل کالج دہلی میں ایک شام برقی اعظمی کے نام

Ahmad Ali Barqi Azmi in Mahfile Sher - O - Sukhan

APKA HUSN E AMAL Ghazal Barqi Azmi Recited by Mohammad Zaheeruddin Of Ca...

عصری شاعری میں غزلیہ ہیئت کے نگہبان۔ ۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی ڈاکٹر محمد صدیق نقویؔ ادونی، آندھرا پردیش۔ ہند

عصری شاعری میں غزلیہ ہیئت کے نگہبان۔ ۔ ڈاکٹر برقیؔ اعظمی
ڈاکٹر محمد صدیق نقویؔ
ادونی، آندھرا پردیش۔ ہند

اظہارِ ذات اور اظہارِ کائنات کے لیے دورِ حاضر میں نظم کو اہمیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جب کہ طویل عرصے تک قطعہ بند اور غزلیہ اشعار کے توسط سے ہی تمام اظہارات کو مربوط کر دیا گیا تھا، اگر چہ عصری آگہی کی رمق نظم نگاری کے زیرِ اثر پروان چڑھ رہی ہے اور آزاد نظم اور معرّیٰ نظم کے علاوہ نثری نظم کے عنوانات سے بیشتر شعراء کیفیاتی فضا اور ماحولیاتی اظہار کو نمونہ بنا کر شاعری کی جوت جگا رہے ہیں لیکن نظم کے وسیع میدان میں غزل کی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے موضوعاتی غزلِ مسلسل لکھ کر اپنا تعارف اور اردو کے مرحوم شعراء کو خراجِ عقیدت اور پھر غزل گوئی کے ذریعے منفرد لب و لہجے کی نمائندگی کرنے والے شاعروں میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کا شمار ہوتا ہے جو رواں بحروں کے انتخاب اور اضافتوں سے اجتناب برتتے ہوئے خالص سہلِ ممتنع میں غزل لکھنے پر کافی عبور رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنا تعارف خود غزلیہ انداز میں منظوم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غزل کی شعری ہیئت پر انہیں کافی عبور حاصل ہے اور مردّف ہی نہیں بلکہ غیر مردّف غزلیہ ہیئت کے ذریعے وہ نعتِ شریف لکھنے اور غزل کے موضوعات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شاعروں کو منظوم نذرانہ پیش کرنے کے لیے بھی غزل کی ہیئت کا استعمال کرتے ہیں۔ کسی شاعر کی یہ انفرادیت ہی اس کی ادبی شناخت کے لیے کافی ہے۔ برقی اعظمی نے اس چھ غزلیہ اشعار میں جس انداز سے اپنا منظوم تعارف پیش کیا ہے اس سے خود اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ سادہ لفظوں اور رواں تراکیب کے ذریعے شعر گوئی کرنے اور اس میں معنویت کے دفتر کے دفتر پوشیدہ رکھنے کا ہنر احمد علی برقی اعظمی کو خوب آتا ہے اور انہوں نے اپنی شاعری کے لیے غزل کی ہیئت کا استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اکیسویں صدی میں قدم رکھتے ہوئے غزل کی ہیئت میں اس قدر جان ہے کہ وہ عصرِ حاضر کے تمام نئے مسائل کو اسی ہیئت میں پیش کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ سب سے پہلے شاعر کے تعارف کو ملاحظہ فرمائیے کہ وہ کس روانی کے ساتھ غزل لکھتا ہے اور اسی غزل میں اپنے تعارف کو بھی پیش کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔ شاعر کا منظوم تعارف غزلیہ لب و لہجے میں ملاحظہ ہو ؂

شہر اعظم گڑھ ہے برقی میرا آبائی وطن
میرے والد تھے وہاں پر مرجعِ اہلِ نظر

نام تھا رحمت الٰہی اور تخلّص برق تھا
آج میں جو کچھ ہوں وہ ہے اُن کا فیضانِ نظر

راجدھانی دہلی میں ہوں ایک عرصے سے مقیم
ریڈیو کے فارسی شعبے سے ہوں میں منسلک

جس کی عظمت کے نشاں ہیں ہر طرف جلوہ فگن
جن کے فکر و فن کا مجموعہ ہے تنویرِ سخن

ضو فگن تھی جس کے دم سے محفلِ شعر و سخن
اُن سے ورثے میں ملا مجھ کو شعورِ فکر و فن

کر رہا ہوں میں یہاں پر خدمتِ اہلِ وطن
میرا عصری آگہی برقی ہے موضوعِ سخن

سادہ اور رواں لفظوں کے ذریعے غیر مردّف غزلیہ اشعار کے توسط سے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے جس ہمہ دانی کے ساتھ تعارف کروایا ہے وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر کو علمِ عروض اور شاعری ہی نہیں بلکہ شعری پیراہن میں کسی کیفیت کو بیان کرنے کی خصوصیت پر پوری طرح عبور حاصل ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں یہ صلاحیت خدا کی جانب سے عطا ہوئی ہے اور مشقِ سخن نے انہیں مکمل شاعر کی حیثیت سے رُوشناس کرایا ہے۔ اس منظوم تعارف سے خود اندازہ ہو جاتا ہے کہ برقی اعظمی عصری حسّیات سے مالا مال ایسے شاعر ہیں جو صرف اور صرف غزلیہ پیراہن کے توسط سے ہر موضوع اور ہر کیفیت کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں چنانچہ نعت جیسی مشکل صنف کو بھی رواں بحر میں پیش کر کے برقی اعظمی نے اپنی فنی خوبیوں کا اظہار کیا ہے جس کو محسوس کرنے کے لیے نعت کے چند اشعار پیش ہیں جن میں روانی اور تسلسل کے علاوہ خیال کے بہاؤ کی ایسی خوبی پائی جاتی ہے کہ جس کی مثال اردو کے بہت کم شعراء کے کلام میں دکھائی دیتی ہے۔

ہدایت کی شمعِ فروزاں تم ہی ہو
ہے قول و عمل جس کا یکساں تم ہی ہو

نہیں جس کا کونین میں کوئی ثانی
زباں جس کی برقیؔ ہے قرآنِ ناطق

خدا خود ہے جس کا ثنا خواں تم ہی ہو
کتابِ سعادت کا عنواں تم ہی ہو

ہیں جن و بشر جس پہ نازاں تم ہی ہو
جو ہیں سر بسر نورِ یزداں تم ہی ہو

بلا شبہ فخرِ موجودات، احمدِ مجتبیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کے لیے جس دل گداز لب و لہجے کو استعمال کر کے برقی اعظمی نے شعری فن کا اظہار کیا ہے اس کی مثال نعتیہ شاعری میں بھی ملنی مشکل ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ برقی اعظمی صرف تفننِ طبع یا پھر شعر گوئی کا حق ادا کرنے کے لیے کلام نہیں لکھتے بلکہ علمِ عروض کی پنہائیوں کو اپنے اندر سمو کر جب شاعری میں ڈوب جاتے ہیں تب شعر کہتے ہیں اسی لیے اُن کی شاعری میں نہ صرف اصلیت اور سادگی بلکہ جوش کے علاوہ تفحّصِ الفاظ اور مشاہدۂ ذات و کائنات کی وہ تمام خوبیاں شامل ہو جاتی ہیں جنہیں مولانا حالی نے شاعری کی ضرورتیں قرار دے کر یہ ثابت کیا تھا کہ ان پانچوں عوامل کے ملنے کی وجہ سے ہی اعلیٰ ترین شاعری کے نمونے منظرِ عام پر آتے ہیں۔ غرض اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے مولانا حالی کی تنقیدی روایات کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے برقی اعظمی نے غزل کی ہیئت کی برقراری کے ساتھ ایک ایسی دنیا سجائی ہے جس میں موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ اظہارات کی ہمہ گیری اور خیالات کی پیش قدمی کا ایسا رجحان پایا جاتا ہے کہ جس کی مثال اردو شاعری میں دو صدیوں میں ملنی مشکل ہے۔ حالی نے شاعری کو سادہ اور آسان بنایا لیکن حالی کے بعد کے تمام نظم نگار شعراء جیسے چکبستؔ، دیا شنکر نسیمؔ، تلوکؔ چند محروم،  علامہ اقبالؔ، جوشؔ ملیح آبادی حتیٰ کہ ترقی پسند شاعروں نے بھی نظم کی شاعری کو پیچیدہ تراکیب اور تشبیہات اور استعارات کی دنیا سے وابستہ کر کے شاعری کو سادگی سے دور کر دیا، اگر اُس دور میں سادہ لفظیات کے ساتھ شاعری کو فروغ دینے والے شعراء کا نام لیا جائے تو اُن میں جگرؔ، فانیؔ، حسرتؔ اور خمارؔ جیسے شعراء دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے سادہ لفظیات کے ساتھ شاعری میں پُرکاری کے حُسن کو شامل کر دیا، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی اسی روایت کی توسیع کے علمبردار نظر آتے ہیں اور انہوں نے بطورِ خاص غزل کے لب و لہجے اور اُس کی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے موضوعاتی شاعری کر کے یہ ثابت کر دیا کہ غزل کی ہیئت صرف حسن و عشق اور گل و بلبل کی شاعری کی نمائندہ نہیں بلکہ عصرِ حاضر کے مسائل کی پیش کشی اسی غزلیہ ہیئت کی شاعری میں ممکن ہے۔ چنانچہ انہوں نے دورِ حاضر کے نمائندہ مسائل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایسی شاعری کی طرف توجہ دی جو موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے بہتر اظہار کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس اظہار کے لیے انہوں نے انگریزی لفظیات کو بھی غزلیہ اشعار کا پیرہن بخش دیا۔ غزل کی ہیئت میں لکھی اُن کی نظم’’ ہے آلودگی نوعِ انسان کی دشمن‘‘ کے چند اشعار پیش ہیں جس میں شاعر نے انگریزی لفظیات کو بھی غزلیہ آہنگ میں شامل کرتے ہوئے نئی ندرت کا ثبوت فراہم کیا ہے۔

سلو پوائزن ہے فضا میں پلیوشن
ہر اک شخص پر یہ حقیقت ہے روشن

یوں ہی لوگ بے موت مرتے رہیں گے
نہ ہو گا اگر جلد اس کا سلیوشن

بڑے شہر ہیں زد میں آلودگی کے
جو حسّاس ہیں اُن کو ہے اس سے اُلجھن

فضا میں ہیں تحلیل مسموم گیسیں
ہیں محدود ماحول میں آکسیجن

جدھر دیکھیے ’’کاربن‘‘ کے اثر سے
ہیں مائل بہ پژ مردگی صحنِ گلشن

کسی کو ہے ’’دمّہ‘ کسی کو ’’الرجی‘‘
مکدّر ہوا ہے کسی کو ہے ٹینشن

سلامت رہے جذبۂ خیر خواہی
چھڑائیں سبھی اس مصیبت سے دامن
؂
طویل نظم کے چند اشعار پیش کر کے یہ بات ثابت کی جا رہی ہے کہ احمد علی برقی اعظمی نے ایک ایسے عہد میں موضوعاتی غزلیں لکھ کر نظمیہ کیفیت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور دورِ حاضر کے مروجہ انگریزی الفاظ کو اُن میں جگہ دے کر اسلوب کی ایسی سطح نمودار کی ہے جسے برقی اعظمی کی جدّت ہی نہیں بلکہ اُن کی ایجاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ برقی اعظمی معاصر ادب کے ایک ایسے نبّاض شاعر ہیں جنہوں نے عصری ماحول اور اُس میں پیدا ہونے والی بے ضابطگیوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف بیماری کی شناخت کی ہے بلکہ اُس کے لیے موزوں اسلوب کی دوا بھی پیش کر دی ہے۔ انہوں نے غزل کی محدود ہیئت کو لامحدود بنا کر موضوعاتی تنوع کو اس انداز سے شامل کیا ہے کہ غزل میں بھی نظم کا حُسن نمایاں ہو رہا ہے اس لیے انہیں مبارک باد دی جانی چاہیے کہ اُن کی غزلیہ شاعری نے سماجی موضوعات کی پیش کشی میں کامیابی حاصل کر کے غزل کی ہیئت کی مؤثر نشاندہی کر دی ہے۔ رواں بحروں اور سادہ لفظوں کے ذریعے پُر اثر بنانے والے شاعروں میں جگرؔ مراد آبادی اپنی انفرادی شناخت رکھتے ہیں اور برقی اعظمی کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جگرؔ کی شاعری سے استفادے کی ایک نئی صورت منظرِ عام پر لائی ہے اور وہ جگرؔ کے تمام شاگردوں میں اس لیے ممتاز اور ممیز ہیں کہ جگر کے مدح خوانوں نے یا تو غزل کی شاعری کو اپنایا یا پھر خالص ہندوستانی کھیت کھلیان کی کیفیت کو شاعری میں پیش کر کے جگرؔ کی نمائندگی کا حق ادا کیا،  اس کے بجائے برقی اعظمی نے جگرؔ کے لب و لہجے کو سلامت رکھتے ہوئے غزل کی دنیا میں نظمیہ لطافت کو شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور یہی خوبی برقی اعظمی کی شعری شناخت کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
دورِ حاضر کے جدید موضوعات میں خاص طور پر’’ گلوبل وارمنگ‘‘ کو ہی ردیف بنا کر انہوں نے طویل غزلیہ نظم لکھی اسی طرح انٹرنٹ، عالمی سائنس ڈے، عالمی ارض ڈے، ایڈز کا سدِّ باب، آلودگی باعثِ حادثات، آلودگی مٹائیں جیسے موضوعات کو بھی غزلیہ شاعری میں پیش کرتے ہوئے برقی اعظمی نے ندرتِ فکر اور موضوع کی پیش کشی کے معاملے میں حد درجہ کامیابی حاصل کی ہے۔
ہر موضوع پر اُن کی شاعری میں غزلیہ ہیئت کی نظمیں موجود ہیں اور رواں لب و لہجے کی وجہ سے اُن کی شاعری نہ صرف عام فہم اور دل کو متاثر کرتی ہے بلکہ اُس کی روانی شعر کو گنگنانے اور اُسے یاد کر لینے کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ اُن کی غیر مردّف غزلیہ ہیئت میں پیش کردہ موضوعاتی غزل کا عنوان ہے ’’منحصر ہے آج انٹر نٹ پہ دنیا کا نظام‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں انٹر نٹ کی انگلش لفظیات کو انہوں نے بڑی ہی چابکدستی کے ساتھ استعمال کیا۔ نظم کے غزلیہ لہجے میں اظہار اور تسلسل کی روانی کو ہر ادب دوست محسوس کرسکتا ہے۔

منحصر ہے آج انٹرنٹ پہ دنیا کا نظام
اشہبِ دوراں کی ہے اس کے ہی ہاتھوں میں لگام

’’ورلڈ وائڈ ویب ‘‘میں ہے ممتاز ’گوگل ڈاٹ کام‘
استفادہ کر رہے ہیں آج اس سے خاص و عام

سب سوالوں کا تسلّی بخش دیتی ہے جواب
اس لیے مشہور ہے سارے جہاں میں اس کا نام

ہیں ’’ریڈف میل‘‘ اور ’’یاہو‘‘ بھی نہایت کارگر
جاری و ساری ہے ان کا بھی سبھی پر فیضِ عام

خدمتِ اردو میں ہے مصروف’’اردستان‘‘ اور
’’انڈین مسلمس‘‘، ’’ٹو سرکلس‘‘ خبریں ڈاٹ کام

ہیں یہ ویب سائٹ ضرورت وقت کی احمد علی
اس لیے اہلِ نظر کرتے ہیں ان کا اہتمام

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے غزلیہ ہیئت کو کام میں لاتے ہوئے جتنی بھی نظمیں لکھی ہیں اُن میں اکثر جگہوں پر مردّف رویے کو اختیار کیا ہے کہیں کہیں غیر مردّف لہجے کی بھی نمائندگی کی ہے۔ بلا شبہ غزلیہ ہیئت میں خیالات نظم کرنے کے لیے غیر مردّف ہیئت کو ہی ترسیل کی تکمیل کا موقع حاصل ہو جاتا ہے اس لیے برقی اعظمی کی شاعری میں اسی طرز کی مؤثر نمائندگی موجود ہے،  اس کے علاوہ برقی اعظمی کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی کہ انہوں نے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ کے زیرِ عنوان اردو کے مرحوم شاعروں اور ادیبوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بھی غزلیہ ہیئت میں اظہارِ خیال کیا ہے، انہوں نے معاصر شاعروں اور ادیبوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ’’شخصی مرثیہ‘‘ کے توسط سے ابنِ صفی، مشتاق احمد یوسفی، احمد فراز اور فیض احمد فیض اور علامہ اقبال کی ستائش کے لیے غزل کی ہیئت میں بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ہر شاعر اور ادیب پر لکھی ہوئی اُن کی غزل نما نظموں کو نمونے کے طور پر پیش کرنا سخت دشوار ہے اس لیے ابنِ صفی کی یاد میں اُن کا منظوم خراجِ عقیدت بطورِ نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔ غزل کے اس انداز میں بھی انہوں نے یادِ رفتگاں کے زیرِ عنوان غیر مردّف غزلیہ ہیئت کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ابنِ صفی مرحوم کی یاد میں اُن کے چند اشعار بطورِ نمونہ پیش ہیں۔

ابنِ صفی سپہرِ ادب کے تھے ماہتاب
اردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب

وہ اپنے دوستوں کے دلوں میں ہے آج تک
ویب سائٹ اُن کی کیوں نہ ہو عالم میں انتخاب

جاسوسی ناولوں میں جو ہیں اُن کے شاہکار
اپنی مثال آپ ہیں وہ اور لاجواب

کرداروں کی زبان سے اپنے سماج کے
وہ کر رہے تھے تلخ حقائق کو بے نقاب

برقیؔ جو اُن کا فرض تھا وہ تو نبھا گئے
ہے اقتضائے وقت کریں اُس کا احتساب

ڈاکٹر احمد علی برقی نے مرحوم شاعروں اور ادیبوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بھی سادہ لب و لہجے کی توسط سے غزلیہ ہیئت میں فن کے گُن گائے ہیں اس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ برقی اعظمی ہر خیال اور موضوع کو پوری تابناکی کے ساتھ شعر میں پیش کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں البتہ یہ ایک حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے غزل کی ہیئت کے لیے بے شمار عروضی آہنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف ان ہی بحروں کا انتخاب کیا جو رواں اور دل بستگی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی بحر میں استعمال ہونے والی کئی موضوعاتی نظمیں اور خراجِ عقیدت کا انداز اُن کی شاعری کو یکسانیت سے ہم آہنگ کر دیتا ہے لیکن اُن کے شاعرانہ تشخّص کو بہر حال قبول کیا جانا چاہیے۔ بے شمار موضوعاتی نظموں،  یادِ رفتگان اور اپنے تعارف کے علاوہ نعت اور غزلوں کے ذریعے برقی اعظمی نے اعلیٰ انداز کی محفل سجائی ہے اور اُن کی غزلوں میں بھی وہی سادگی اور روانی کام کر جاتی ہے جو شعر کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اُس کی ترسیل کا حق بھی ادا کرتی ہے۔ چونکہ انہیں جگرؔ مراد آبادی کے رنگِ تغزّل سے خصوصی دلچسپی ہے اور وہ خود کو جگرؔ کے پیرو قرار دیتے ہیں اس لیے جگرؔ کی غزلوں کی زمینوں میں انہوں نے نذرِ جگر مرادآبادی کا جو ایوان سجایا ہے وہ بھی بذاتِ خود ادب کا ایک اہم حصّہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جگر کو اُن کی غزلوں کی زمینوں میں خراجِ عقیدت پیش کرنا بھی ایک مشکل رویہ ہے لیکن اس مرحلے میں بھی برقی اعظمی ثابت قدمی سے اپنی راہ کا تعیّن کر لیتے ہیں۔ جگر کے بارے میں اُن کی نذرِ جگر والی غزلیہ ہیئت کی نظموں سے چند اشعار پیش ہیں جس میں انہوں نے جگر کی غزلوں کی زمینوں کو بروئے کار لایا ہے۔

ہے جگر کی شاعری برقی حدیثِ دلبری
اس تغزّل نے بنا ڈالا ہے دیوانہ مجھے

نذرِ جگر کے چند اور شعر جو بذاتِ خود برقی اعظمی نے جگر کے لب و لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے پیش کیا ہے ملاحظہ ہو ؂

میں جدائی تری کس طرح سہوں شام کے بعد
بن ترے تُو ہی بتا کیسے رہوں شام کے بعد

جُز ترے کون کرے گا مری وحشت کا علاج
کس سے میں اپنا کہوں حالِ زبوں شام کے بعد

آتا رہتا ہے مرے ذہن میں اکثر یہ خیال
کیا ملے گا کبھی مجھ کو بھی سکوں شام کے بعد

ضبط کرتا ہوں بہت احمد علی برقیؔ مگر
بڑھنے لگتا ہے مرا جوشِ جنوں شام کے بعد

برقی اعظمی نے کئی غزلوں میں جگرؔ کے انداز کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں اُن کی زمینوں میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اُن کی غزلوں میں بھی فطری روانی اور غزل کی چابکدستی نمایاں ہوتی ہے۔ وہ طویل غزلیں لکھنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں اور اُن کی غزلوں میں قافیے بڑے چست اور معنی خیز ہوتے ہیں۔ وہ بڑی چابکدستی کے ساتھ خیالات کو لفظوں کے بندھن میں باندھنے کا ہنر رکھتے ہیں اور خاص بات یہی ہے کہ انہوں نے غزل کی روایتی خصوصیات کو بنائے رکھنے میں اپنے فن کو شدّت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اُن کی غزلوں سے کسی مختص شعر کا انتخاب کر کے پیش کرنا سخت دشوار ہے کیونکہ ہر شعر اپنی وحدت اور خیال کی باریک بینی کی وجہ سے کیفیاتی فضا قائم کرنے میں منفرد ہے البتہ انہوں نے اپنے مقطعوں میں جس ندرت اور پاکیزہ خیالی کو پیشِ نظر رکھا ہے اُس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُن کی غزلوں کے چند مقطعے بطورِ نمونہ پیش ہیں۔

طبیعت ہے برقیؔ کی جدّت پسند
کسی نے نہیں جو کیا کر چلے

کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں
سو صفر جوڑے مگر برقیؔ نتیجہ تھا صفر

ناکامیوں سے کم نہ ہوا میرا حوصلہ
برقیؔ قدم میں آگے بڑھاتا چلا گیا

سفر دشتِ تمنا کا بہت دشوار ہے برقیؔ
پہنچ جاؤں گا میں لیکن وہاں لغزیدہ لغزیدہ

برقیؔ کے حالِ زار تھی اُس نے نہ لی خبر
وہ کر رہا تھا نامہ نگاری تمام رات

برقی اعظمی رواں بحروں میں غزل لکھنے کی حسن کاری سے بخوبی واقف ہیں اور وہ جمالیاتی احساس کو غزل میں شامل کر کے ایک جانب تو شعری کائنات سجاتے ہیں تو دوسری جانب احساس کی گرمی کے توسط سے اپنے کلام کو تاثیر سے وابستہ کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری کے یہ چند ایسے اوصاف ہیں جو عصرِ حاضر کے شاعروں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اس لیے روانی اور سبک روی کے ساتھ غزل کی کائنات سجانے پر برقی اعظمی کے کلام کا استقبال کرنا چاہیے اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے غزل کے اظہاری وسیلے کو وسعت دے کر اکیسویں صدی میں غزلیہ شاعری کی اہمیت اور افادیت کو حد درجہ مستحکم کر دیا ہے۔ 



ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری بقلم : ڈاکٹر غلام شبیر رانا

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری
بقلم : ڈاکٹر غلام شبیر رانا
 اردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر بہت کم  توجہ دی گئی ہے۔ قلی قطب شاہ سے لے کر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی تک اردو ادب میں موضوعاتی شاعری نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس کا ایک طویل پس منظر ہے۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر موضوع کا تعلق بہ ظاہر محدود  متن اور پس منظر سے ہو تا ہے مگر جہاں تک اس کے دائرہ کار کا تعلق ہے تو یہ لا محدود ہو تا ہے۔ ماضی میں اس رجحان کو انجمن پنجاب کی خیال انگیز اور فکر پرور تحریک سے ایک ولولہ تازہ نصیب ہوا۔ آقائے اردو مولانا محمد حسین آزاد ، خواجہ الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، اسمعیل میرٹھی  اور متعد دزعما نے خون جگر سے اس صنف شاعری کی آبیاری کی اور اسے پروان چڑھانے میں اپنی  تمام  صلاحیتیں صرف کیں۔ ۔ موضوعاتی شاعری اور اس کے پس پردہ کارفرما  لا شعوری محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ معاصر ادبی دور میں موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روا یت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا منوا لیا ہے۔ اس طرح یہ روایت تاریخ کے مسلسل عمل کے اعجاز سے پروان چڑھتی ہوئی دور جدید میں داخل ہوئی۔ اس عہد میں ہمیں تمام اہم شعرا کے ہاں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب اور دانشور محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ ’’موضوعاتی شاعری ‘‘ کے نام سے آج سے پندرہ برس قبل شائع ہو ا تھا۔ اس طرح ا  ولیت کا اعزاز انھیں ملتا ہے۔ ان کی نظم ’’شہر آشوب کراچی‘‘ مقبول موضوعاتی نظم ہے۔ اردو کے روشن خیال ادیبوں نے نئے افکار، جدید اسالیب، اور زندگی کی نئی   معنویت کو موضوعاتی شاعری کی اساس بنایا۔
      ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی شاعری میں موضوعات کا تنوع، جدت اور ہم گیری ان کی انفرادیت کا  ثبوت ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری جہاں کلاسیکی روایات کا پر تو لیے ہوئے ہے وہاں اس میں عصری آگہی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ معاشرے، سماج اور اقوام عالم کے ساتھ قلبی وابستگی کے معجز نما اثر سے ا ن کے ہاں ایک بصیرت اور علمی سطح فائقہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ جس علمی سطح سے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اس کا برا ہ راست تعلق آفاقیت سے ثابت ہو تا ہے۔ فرد،  معاشرے، سماج، وطن، اہل وطن، حیات، کائنات اور اس سے بھی آگے ارض و سما کی لا محدود نیرنگیاں ان کی موضوعاتی شاعری میں اس دلکشی سے سما  گئی ہیں کہ قاری ان کے اسلوب بیاں سے مسحور ہو جاتا ہے۔ ان کی یہ موضوعاتی شاعری منظوم تذکرے کی ایک منفرد صورت قرار دی جا سکتی ہے اس موضوعاتی شاعری میں منظوم انداز میں جو تنقیدی بصیرتیں جلوہ گر ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سے قبل ایسی کوئی مثال اردو شاعری میں موجود نہیں۔ انسان شناسی اور اسلوب کی تفہیم میں کوئی ان کا مقا بلہ نہیں کر سکتا۔ موضوعاتی نظموں میں جو منفرد اسلوب انھوں نے اپنایا ہے وہ اوروں سے تقلیدی طور پر بھی ممکن نہیں۔ وہ لفظوں میں تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں اور قاری چشم تصور سے تما م حالات و واقعات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ وہ اصلاحی اور تعمیری اقدار کو اساس بنا کر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قصیدہ گوئی یا مصلحت اندیشی کا کہیں گزر نہیں۔ وہ وستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز حریت فکر کے مجاہد کی طرح اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حرف صداقت لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق زیادہ تر مرحوم ادیب، شاعر، فنون لطیفہ کے نابغہ روزگار  افراد اور فطرت کے مظاہر ہیں۔ حق گوئی، بے باکی اور فطرت نگاری ان کی موضوعاتی شاعری کا نمایاں ترین وصف ہے۔
        ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ مین اترنے کی جو کامیاب سعی کی ہے  وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ ان کا تشخص اپنی تہذیب، ثقافت، کلاسیکی ادب اور اقوام عالم کے علو م و فنون کے ساتھ قرار پاتا ہے۔ وہ اقتضائے وقت کے مطابق تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا  کے ساتھ عہد وفا استوار رکھتے ہیں اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیتے ہیں۔ وہ  اس امرکی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی قوم اپنے اسلاف کی عظمت اور فکری میراث سے چشم پوشی کی مہلک غلطی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس نے گویا یہ بات طے کر لی ہے کہ اسے اپنی ترقی اور عظمت سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے عالمی شہرت کے حامل تخلیق کاروں کے بارے میں نہایت خلوص اور درد مندی سے کام لیتے ہوئے مثبت شعور اور آگہی پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ کلاسیکی اردو شعرا کے متعلق ان کی موضوعاتی شاعری ان کی انفرادیت کے حیران کن پہلو سامنے لاتی ہے۔ اس موضوعاتی شاعری میں ایک دھنک رنگ منظر نامہ ہے۔ تخلیق کار نے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے۔ اس میں موضوعات کی ندرت، معروضی حقائق، خارجی اور داخلی کیفیات، انفرادی اور اجتماعی زندگی کے جملہ معمولات اس مہارت سے اشعار کے قالب میں ڈھالے گئے ہیں کہ قاری  حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے   

                  اے مصور تیرے ہاتھوں کی بلائیں لے لوں

       اپنی موضوعاتی شاعری میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے جن عظیم شخصیات کو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ان میں میر تقی میر، میرزا اسداللہ خان غالب، احمد فراز، پروین شاکر، شبنم رومانی، فیض احمد فیض، سید صادقین نقوی، مظفر وارثی اور متعدد  تخلیق کاروں کو انھوں نے زبر دست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کے اسلوب میں پائی جانے والی اثر آفرینی قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر کر دامن دل کھینچتی ہے۔
       انسانیت اور زندگی کی اقدار عالیہ کے ساتھ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی والہانہ محبت ان کی موضوعاتی شاعری میں جس انداز میں جلوہ گر ہے وہ ان کے ندرت تخیل اور انفرادی اسلوب کی شاندار مثال ہے۔ بے لوث محبت اور درد کا یہ رشتہ ان کی ایسی تخلیق ہے جس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔ وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے داعی اور علم بردار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جغرافیائی حدود اور زمان و مکاں کے دائروں سے آگے نکل کر انسانیت کے آفاقی محور میں اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سائنس کے غیر شخصی انداز سے قطع نظر ان کے اسلوب میں شخصی اور انفرادی انداز کی بو قلمونی اپنا رنگ جما رہی ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری میں ان کا انفرادی اسلوب اس دلکش انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتا ہے کہ ان کے قلبی احساسات، سچے جذبات، الفاظ اور زبان کی گہری معنویت، پر تاثیر اشاراتی کیفیات اور سب سے بڑھ کر تہذیبی میراث کا تحفظ ان کا مطمح نظر قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہمارے ادب، تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی مستحسن اور عزیز ترین اقدار و روایات کو صیقل کیا ہے ان کی اس فکری و فنی کاوش نے متعدد تجربات، مشاہدات اور بصیرتوں کو پیرایہ ء اظہار عطا کیا ہے۔ ان کے سوتے ہمارے اسلاف کی فکری میرا ث سے پھوٹتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے قاری ان تمام مآخذ اور منابع سے آگہی حاصل کر لیتا ہے جن پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ چکی ہے۔ ہمارا معاشرہ اور فطرت کے تقاضے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ رخش عمر مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں
ہیں۔ ان تمام تناسبوں اور تقاضوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے۔ شعوری سوچ اور گہرے غور و فکر کے بعد ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے موضوعاتی شاعری کو اپنے اسلوب کے طور پر اپنایا ہے۔ یہ سب کچھ  تاریخی شعور کا مرہون منت ہے جو حدود وقت، زماں اور لا مکاں اور ارضی و سماوی قیود سے بالا تر ہے۔ ایک جری اور زیرک تخلیق کار اسی شعور کو رو بہ عمل لاتے ہوئے روایت کو استحکام عطا کرتا ہے۔ وہ اپنی داخلی کیفیت سے مجبور ہو کر کسی بھی موضوع پر بر جستہ اور فی البدیہہ لکھنے پر قادر ہیں۔ یہ ان کی قادر الکلامی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ان کا یہ اسلوب انھیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی تخلیقی فعالیت اور ادب پاروں سے اردو زبان و ادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے  وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے۔ ان کے بار احسان سے اردو زبان و ادب کے شیدائیوں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ ان کے فن پاروں کی حقیقی قدر و قیمت کا تعین کرتے وقت قاری اس بات پر ضرور توجہ دیتا ہے کہ تخلیق کار نے کامیاب ابلاغ کے تمام طریقے پیش نظر رکھے ہیں ان میں اسلوب کی انفرادیت، الفاظ کا عمدہ انتخاب، سادگی اور سلاست، خلوص اور صداقت شامل ہیں۔ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی موضوعاتی شاعری کا حقیقی استحسان کرنے کے لیے ذوق سلیم کا ہونا اشد ضروری ہے۔ وہ تزکیہ نفس کی ایسی صو رتیں تلاش کر لیتے ہیں کہ فریب سود و زیاں سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے مواد اور ہیئت کے جمالیاتی عناصر کو اس طرح شیر و شکر کر دیا ہے کہ ان کی موضوعاتی شاعر ی پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ ان کی ادبی کامرانیوں کا اعتراف بہت ضروری ہے۔ تاریخ ہر دور میں اس نابغہ روزگار ادیب کے نام کی تعظیم کر ے گی۔
        پچاس صفحات پر مشتمل  ’’ برقی شعاعیں ‘‘ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی وہ معرکہ آرا تصنیف ہے جس میں انھوں نے تاریخ ادب میں پہلی بار ماحولیات کے تحفظ کے موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔ یہ تمام نظمیں برقی کتاب کی شکل میں انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ سر سید احمد خان نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے1857میں بر صغیر پاک و ہند کے عوام کی فلاح  اور ملت اسلامیہ کی تعلیمی ترقی کے لیے جو فقید المثال خدمات انجام دیں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں
           بیاد سر سید:

ہے یہ سر سید کا فیضان نظر
جس نے شہر علم  کے کھولے ہیں در

جس گھڑی کوئی نہ تھا پرسان حال
تھی بھلائی قوم کی پیش نظر

ان کا برقی ہے یہ احسان عظیم
ہیں علوم  عصر سے ہم باخبر

     جدید اردو ادب ہو یا قدیم کلاسیکی ادب ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وہ ہر موضوع پر بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں  ا۔ پنے جذبات کا اظہار کرتے  وقت وہ نہایت دل نشیں انداز میں تمام حقائق کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ مشتے از خروارے کے مصداق چند  موضوعاتی نظموں سے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔ ان کے مطالعہ سے تخلیق کار کے اسلوب کا استحسانی مطالعہ ممکن ہے۔

   میر تقی میرؔ
میر کی شاعری میں ہے سوز دروں
منعکس جس سے ہوتا ہے حال زبوں

ان کا رنگ تغزل ہے سب سے جدا
آج بھی جس سے ملتا ہے ذہنی سکوں

مرزا اسداللہ خان غالبؔ

شہر دہلی ہے دیار غالب
یہیں واقع ہے مزار غالب

آج تک اردو ادب کے برقی
محسنوں میں ہے شمار غالب

شبنم رومانیؔ

چلے گئے شبنم رومانی بجھ گئی شمع شعر و سخن
اہل نظر کو یاد رہے گا ان کا شعور فکر و فن

ابن صفیؔ
ابن صفی سپہر ادب کے تھے ماہتاب
اردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب

شادعظیم آبادی
قصر اردو کے تھے ستوں شاد عظیم آبادی
فکر و فن کے تھے فسوں شاد عظیم آبادی

عمر خالدی
چل بسے اس جہاں سے عمر خالدی
درس حسن عمل تھی جن کی زندگی

راغب مراد آبادی
راغب مراد آبادی جہاں میں نہیں رہے
جو تھے جہاں اردو میں اک فخر روزگار

اردو ادب کو ان پہ ہمیشہ رہے گا ناز
جن کے نوادرات ہیں اردو کا شاہکار

ابن انشاؔ (شیر محمد)
ابن انشا کا نہیں کوئی جواب
ان کا حسن فکر و فن ہے لا جواب

ان کا طرز فکر و فن سب سے جدا
ان کا فن روشن ہے مثل  آفتاب

ممتاز منگلوریؔ
ڈاکٹر ممتاز منگلوری بھی رخصت ہو گئے
کیوں نہ ہو دنیائے اردو ان کے غم میں سوگوار

ان کی تصنیفات ہیں اردو ادب کا شاہکار
ان کی ہیں خدمات ادبی باعث صد افتخار

صادقین
شاعر و خطاط و دانشور تھے سید صادقین
جن کا ہوتا تھا عظیم الشان لوگوں میں شمار

سر حدوں کی قید سے آزاد ہیں ان کے فنون
جن کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بے شمار

ڈاکٹر وزیر آغا
ستون اردو لرز رہا ہے نہیں رہے اب وزیر آغا
جسے بھی اردو سے کچھ شغف ہے وہ نام سے ان کے ہے شناسا

نقوش ہیں لازوال ان کے تمام اصناف فکر و فن میں
سبھی کو ہے اعتراف اس کا ادب کے محسن تھے وہ سراپا

   مظفر وارثی
چھوڑ کر ہم کو ہو ئے ر خصت مظفر وارثی
جن کی عملی زندگی تھی مظہر حب نبی

نعت گوئی میں تھے وہ حسان ثانی بر ملا
ان کی غزلیں اور نظمیں تھیں سرود سرمدی
         ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ان کی موضوعاتی شاعری میں اس عشق کا بر ملا اظہار ملتا ہے۔ کسی قسم کی عصبیت ان کے اسلوب میں نہیں پائی جاتی۔ ان کا پیغام محبت ہے اور وہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے مبلغ ہیں۔ اردو کی فنی اور جمالیاتی اقدار کے فروغ میں ان کا جو کردار رہا ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ ان کی انفرادیت نے ان کو صاحب طرز ادیب کے منصب پر فائز کیا ہے۔ ان کے ادبی وجود کا اثبات اور استحکام ان کی جدت، تنوع اور انفرادیت کا مرہون منت ہے۔ وہ تقلید کی کورانہ روش سے دامن بچا کر نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کے متمنی ہیں ان کا خیال ہے کہ افکار تازہ ہی سے جہان تازہ کا سراغ ملتا ہے۔ ایسے زیرک اور فعال تخلیق کار کا ادبی کام قابل قدر ہے۔ انھوں نے اپنی مستعدی اور تخلیقی فعالیت سے جمود کا خاتمہ کیا اور دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادب کا کوئی دیانت دار نقاد ان کی اس تخلیقی فعالیت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ انھوں نے قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ ان کی شاعری اور اسلوب جس حسین اور دلکش انداز میں قاری کے شعور کو وسعت اور ذہن و ذکاوت کو لطافت سے فیض یاب کرتا ہے وہ ان کے بلند پایہ تخلیق کار ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری کی باز گشت  تا ابد سنائی دیتی رہے گی۔
                       پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ                   مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں