حفیظ الرحمان احسن کے مصرعہ طرح پر انحراف کے ان لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر 439 مورخہ 28 فروری 2020 پر میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی




انحراف کے ان لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر 439 مورخہ 28 فروری   2020 
پر میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
صبر آزما بہت ہیں یہ دن انتظار کے
مثلِ خزاں ہیں جھونکے نسیمِ بہار کے
وہ ماجرے خیالی سناتے ہیں پیار کے
لمحے گذررہے ہیں شبِ انتظار کے
فصلِ خزاں ہے ان کے تعاقب میں اس لئے
’’ ہیں تتلیوں کے ہاتھ میں پرچم بہار کے ‘‘
ہے دیکھنا تو دیکھ لیں شاہین باغ میں
تیور ہیں کیسے آج وہاں گلعذار کے
اپنے ہی من کی سب کو سناتے ہیں بات جو
قصے سنیں گے کب وہ مرے حالِ زار کے
اُن کے خرامِ ناز کے مُشتاق ہیں سبھی
وہ جس طرف بھی جاتے ہیں زلفیں سنوار کے
حرکت سے اپنی باز نہ آئیں گے وہ کبھی
دیکھے ہیں اُن کے ساتھ کئی دن گذار کے
قائم رہا نہ وعدوں کا اُن کے کوئی بھرم
قصّے خیالِ خام ہیں قول و قرار کے
دنیائے رنگ و بو کا یہ کیسا نظام ہے
گُل ساتھ ساتھ رہتے ہیں ہر وقت خار کے
ذہنی سکوں کسی کو مُیسر نہیں ہے آج
مارے ہوئے ہیں گردشِ لیل و نہار کے
جی چاہے جتنی مشقِ ستم اِس پہ کرلیں وہ
برقیؔ کو تجربے ہیں غمِ روزگار کے

دل تو لگتا نہیں ہمارا بھی ( مصرعہ طرح افتخار راغب ) دیا ادبی فورم کے ۷۹ویں آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش احمد علی برقی اعظمی




 دیا ادبی فورم کے ۷۹ویں آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
زندگی کا ہے جو سہارا بھی
جیتے جی ہے اسی نے مارابھی
کاش اس کی مجھے خبر ہوتی
اس سے ملنے میں ہے خسارا بھی
ضرب کاری تھی اتنی سخت اس کی
چور ہوجائے سنگِ خارا بھی
آگیا دل نہ جانے کیوں اس پر
جس سے ملنا نہ تھا گوارا بھی
ہو گئی اُلٹی میری ہر تدبیر
کام آیا نہ استخارا بھی
میرا جس مہ جبیں پہ دل آیا
دلربا بھی تھا اور دلآرا بھی
کیا کریں اس سے بن ملے برقی
’’
دل تو لگتا نہیں ہمارا بھی‘‘


تہنیت برائے خصوصی شمارہ جشن میر باہتمام قوس قزح ادبی فورم بشکریہ شہناز شازی و جناب امین جس پوری



غالب اکیڈمی،نئی دہلی کے یوم تاسیس اور مرزا غالب کے ۱۵۱ ویں یوم وفات پرطرحی مشاعرہ کا انعقاد


                                            

غالب اکیڈمی،نئی دہلی کے یوم تاسیس اور مرزا غالب کے ۱۵۱ ویں یوم  وفات پرطرحی مشاعرہ کا انعقاد
            غالب اکیڈمی ہرسال مرزا غالب کی یوم وفات اور غالب اکیڈمی  کے یوم تاسیس کے موقع پر ادبی و ثقافتی تقریبات کا اہتمام کر تی آرہی  ہے جس کو بے حدسراہا جاتا رہا ہے۔اس سال بھی طرحی مشاعرے کا شاندارانعقاد کیا گیا۔ سکریٹری غالب اکیڈمی نے شعرا،مہمان و سامعین کا خیر مقدم کیا۔ مشاعرے کی صدارت عصر حاضر کے ذی وقار شاعر جناب وقارمانوی  نے کی اور نظامت کے فرائض معروف شاعرمعین شاداب نے ادا کئے۔ طرح کے تین مصرعے (1)گر نہ اندوہ ِشبِ فرقت بیاں ہو جائے گا (2)بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے (3)ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے۔ ان تین طرحوں میں دہلی کے معروف و مشہور شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔اشعار پیش خدمت ہیں   ؎
جیسے بھی ہو ہمین بھی دکھا اپنی اک جھلک
ہم بھی کہیں کہ صاحبِ دیدار ہم ہوئے
وقار مانوی
جانے کس خطہئ عالم سے گزر ہے میرا
میں ہوں ایماں سے پریشاں میرا ایماں مجھ سے
جی آر کنول
بات کرنے لگے،ہر سیرت انساں مجھ سے
حامل ِ باطل وشر، سب ہیں پریشاں مجھ سے
ظفر مراد آبادی
شہریت کا مری جو مانگتے ہیں مجھ سے ثبوت
کچھ بتائیں تو سہی کیوں ہیں ہراساں مجھ سے
احمد علی برقی اعظمی
کارواں سب کچھ ہے میرا،وہ نہیں تو کچھ نہیں
وقت پر سب کچھ نثار کارواں ہوجائے گا
تابش مہدی
کیسے بتلاؤں جو پوچھے دل ناداں مجھ سے
 میں ہوں عالم سے کہ ہے عالم امکاں مجھ سے
 احمد محفوظ
جب تری یاد کے جگنو سر مژگاں چمکے
روشنی مانگنے آئی شبِ ہجراں مجھ سے
 جلیل نظامی (دوحہ قطر)
بے ثباتی تعلق کا یقین مجھ کو ہوا
میرے احباب ہوئے جب سے گریزاں مجھ سے
فصیح اکمل
ہے پریشان بہت فتنۂ  دوراں مجھ سے
اس نے دیکھے تھے کہاں سوختہ ساماں مجھ سے
نسیم عباسی
شاخ گل ہے یہ مرے ہاتھ میں شمشیر نہیں
جانے کیوں خوفزدہ ہیں یہ حریفاں مجھ سے
فاروق ارگلی
اہل جنوں کے واسطے تیغ و سناں سے کہا
 ہونٹوں پہ جاں تھی، حوصلے پھر بھی نہ کم ہوئے
شفا کجگاؤنوی
فضل سے میرے ہے شاداب گلستاں مجھ سے
رنگ ایک ایک کلی کا ہے نمایاں مجھ سے
سرفرازاحمد فراز
ایسی نظر پیار کی دونوں نے پیش کی
 مذہب کی فکر چھوڑ کے وہ ہم قدم ہوئے
ممتا کرن
کیوں کر اگے گا سبزہ یہاں کی زمین پر
عرصہ ہوا ہے گاؤں کی مٹی کو نم ہوئے
عمران عظیم
میرے دامن میں تو وحشت ہے جنوں ہے شاہد
 کیا سنور سکتی ہے تقدیرِ بیاباں مجھ سے
شاہد انور
ظلم بتلاؤں کسے وہ رازداں ہوجائے گا
 فاصلہ پھر اس کے میرے درمیاں ہوجائے گا
نسیم بیگم
بار بار آنا مرے ذہین پہ دستک دنیا
جانے کیا چاہتی ہے عمر گریزاں مجھ سے
جمیل مانوی
میری  آنکھوں نے سنواری ہے تری نوک پلک
یوں نگاہیں نہ بدل شہر نگاراں مجھ سے
شاہد انجم
زندگی ہے شرابوں کا تعصب یعنی
ہر قدم دوریئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
سمیر دہلوی
عشق سے خالی اگر سارا جہاں ہوجائے گا
چاندنی بجھ جائے گی سورج دھواں ہوجائے گا
ارشد ندیم
ساری فضیلتیں نہیں ملتیں لباس سے
دستار اوڑھ کر بھی کب محترم ہوئے
معین شاداب
            آخر میں سکریٹری غالب اکیڈمی نے شعرا و شرکا اور سامعین کا شکریہ اداد کیا۔



جسے دیکھو لگا ہے درہم و دینار کے پیچھے ۔ قوس قزح ادبی فورم کے ۳۵ ویں فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری کاوشیں : احمد علی برقی اعظمی



ان کا کیا جرم ہے کیوں ان کی ہے حالت ایسی ہیں جو یہ غربت و افلاس کے مارے بچے


بشکریہ : محترم حسن چشتی ، شیکاگو
ان کا کیا جرم ہے کیوں ان کی ہے حالت ایسی 
 ہیں جو یہ غربت و افلاس کے مارے بچے


میں حسن چشتی کے لطفِ خاص کا ممنوں ہوں
جن کی ہے برقی نوازی باعث عز و شرف


تونے جس بات پہ کہرام بچا رکھا ہے ۔ ۲۶ ویں عبدالستار مفتی میموریل آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش احمد علی برقی اعظمی


۲۶ ویں عبدالستار مفتی میموریل آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
جس نے کہرام زمانے میں مچا رکھا ہے
نگہہِ ناز میں وہ تیر قضا رکھا ہے
جس سے روشن ہے مری شمعِ شبستانِ حیات
تیری الفت کا دیا دل میں جلا رکھا ہے
محو حیرت ہیں ترا دیکھ کے وہ حسن و جمال
چاند تاروں نے بھی منھ اپنا چھپا رکھا ہے
کب اسے آکے تو آباد کرے گا آخر
قصر دل تیرے لئے اپنا سجا رکھا ہے
غمزہ و ناز و ادا ہوش ربا ہیں تیرے
جس نے مجھ کو ترا دیوانہ بنا رکھا ہے
مار ڈالے نہ یہ دزدیدہ نگاہی تیری
انگلیوں پر مجھے کیوں اپنی نچا رکھا ہے
حسن برقی کے لئے ہے یہ ترا توبہ شکن
جس نے رکھا یہ ترا نام بجا رکھا ہے

تونے جس بات پہ کہرام مچا رکھا ہے ۔۔ ۲۶ ویں عبدالستارمفتی میموریل آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش۔۱




۲۶ ویں عبدالستارمفتی میموریل آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
دیدہ و دل کو سرِ راہ بچھا رکھا ہے
ہر گذرگاہ کو پھولوں سے سجا رکھا ہے
دیکھئے ہوتا ہے مایل بہ کرم کب مجھ پر
حال دل میں نے اسے اپنا سنا رکھا ہے
آکے خود دیکھ لے گر دیکھنا چاہے اس کو
کیا بتاؤں دلِ بیتاب میں کیارکھا ہے
کس کی ہے ریشہ دوانی مجھے معلوم نہیں
’’تونے جس بات پہ کہرام مچا رکھا ہے‘‘
میں ہوں وہ صید ہے صیاد زمانہ جس کا
اس نے ہر گام پہ اک جال بچھا رکھا ہے
قید ہوسکتا ہے زندان بلا میں وہ بھی
جس میں مظلوم کو بے جرم و خطا رکھا ہے
ڈھونڈتی رہتی ہیں برقی کو کہیں جانا ہو
اُس نے گھر اُس کا بلاؤں کو بتا رکھا ہے


Fayaz Shaheryaar's Impressive Speech at Ghalib Academy Book Inauguration...









Fayaz Shaheryar's Impressive Speech at Ghalib Academy While Releasing Mahshar E Khayal Poetry Collection Of Dr.Ahmad Ali Barqi Azmi
Courtesy : 
GNK URDU

POWER OF VOTE : AHMAD ALI BARQI AZMI






ایک زیرو کو بنا سکتا ہے ہیرو یہ نشاں
ووٹ کی طاقت کو اپنے آپ اگر پہچان لیں
احمد علی برقی اعظمی
एक जीरो को बना सकता है हीरो यह निशाँ
वोट की ताक़त को अपने आप अगर पहचान लें
अहमद अली बर्क़ी आज़मी
Ek zero ko bana sakta hai Hero yeh nishan
Vote ki taqat ko apne aap agar pahchan leiN


قوس قزح ادبئ فورم کے زیر اہتمام جشن میر کے لئے میری غزل نذر میر تقی میر احمد علی برقیؔ اعظمی : بشکریہ شہناز شازی اور امین جس پوری



قوس قزح ادبئ فورم کے زیر اہتمام جشن میر کے لئے میری غزل نذر میر تقی میر
احمد علی برقیؔ اعظمی
اُس کے وعدے پہ اعتبار کیا
مستقل اُس کا انتظار کیا
خانۂ دل میں کرکے حشر بپا
اس طرح مجھ کو بیقرار کیا
صرف اس کے لئے بصد اخلاص
مذہبِ عشق اختیار کیا
اب مجھے ہو رہا ہے یہ احساس
میں نے کس بے وفا سے پیار کیا
تا کہ اُس کو نہ ہو کوئی شکوہ
میں نے ماحول سازگار کیا
اور اس کے سوا میں کیا کرتا
اُس پہ جو کچھ بھی تھا نثار کیا
کاش ایسا نہیں کیا ہوتا
پُشت پر میری اُس نے وار کیا
اُس کی دلجوئی کے لئے برقیؔ
اُس نے جو چاہا اختیار کیا




جشنِ خدائے سخن : میر تقی میر زیر اہتمام قوس قزح ادبی فورم کے لئے منظوم تہنیت نامہ بشکریہ : محترمہ شہناز شازی اور محترم امین جس پوری احمد علی برقی اعظمی



جشنِ خدائے سخن : میر تقی میر زیر اہتمام قوس قزح ادبی فورم کے لئے منظوم تہنیت نامہ
بشکریہ : محترمہ شہناز شازی اور محترم امین جس پوری
احمد علی برقی اعظمی
کیوں نہ جشنِ میر ہو قزح میں شاندار
جن کی عصری معنویت آج بھی ہے برقرار
ضوفگن ہے جس سے شمع علم و دانش آج تک
بحر ذخارِ ادب کی تھے وہ درِ شاہوار
تھا یہاں پر میر جیسا صاحب فکر و نظر
اہلِ دہلی کے لئے ہے باعث صد افتخار
میرکا رنگِ تغزل بن گیا ان کی شناخت
مرزا غالب کو بھئ تھا ان کے سخن پر اعتبار
میر کا ثانی نہ تھا کوئی بھی ان کے دور میں
میر اقلیم سخن کے تھے حقیقی تاجدار
ہیں نقوش جاوداں ان کے خزاں ناآشنا
گلشنِ اردو میں ان کی ذات تھی مثلِ بہار
تھی کسی کو بھی نہیں تابِ سخن ان کے حضور
تھے معاصر ان کے ان کے سامنے مثلِ غبار
صرف برقی ہی نہیں ان کے سخن کا قدرداں

سب مشاہیر سخن میں ان کا کرتے ہیں شمار

جشن میر زیر اہتمام قوس قزح ادبی فورم کے میری کاوش نذر میر تقی میر احمد علی برقی اعظمی


جشن میر زیر اہتمام قوس قزح ادبی فورم کے میری کاوش
نذر میر تقی میر
احمد علی برقی اعظمی
سب اپنی چُھپا کر جو پہچان  نکلتے ہیں
کس شان سے سڑکوں پر حیوان  نکلتے ہیں
پہچاننا  مشکل ہے اپنے و پرائے کو
انسان کی صورت میں شیطان نکلتے ہیں
ہے میرے نشیمن پر ہر وقت نظر  جن  کی
دربدری کا وہ لے کر فرمان نکلتے ہیں
ہر چیز میں آتا ہے ان کا ہی نظر چہرہ
’’ جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں ‘‘
دستور زباں بندی کردیں نہ کہیں نافذ
ہر روز نئے جن کے فرمان نکلتے ہیں
رہ رہ کے مچلتی ہے اک حسرتِ دیرینہ
سب پورے کہاں دل کے ارمان نکلتے ہیں
محفوظ نہیں ان سے کوئی بھی کہیں برقی
جو لے کے تباہی کا سامان نکلتے ہیں



Amaravati Poetic Prism 2019 - HIGHLIGHTS






Poetic
Compliment To 
5th Amararavati Poetic Prism- 2019
Ahmad Ali Barqi Azmi
Tha yeh ek 21 aur 22
December yaadgar
Thee Vijyawada meiN ek
taqreb e adabi shandar
Padmaja Paddy then is
taqreeb ki rooh e rawaaN
Jis meiN shamil the
kaii mulkoN ke shuara beshumar
Multi-Lingual sheri
majmooye ka ijra tha wahaaN
Jiske hai safhaat ke
zeenat kalam e khaksar
Mukhtalif lehjoN meiM
usloob e bayaaN tha dilnasheeN
Iske mundarjaat haiN
asri adab ke shahkar
Gosh bar aawaaz the
sab log sunne ke liye
Jinke gulha e mazameeN
se fiza thee muskbaar
5 vaaN majmooa e
ashaar haiyeh dilnasheeN
Jiske hai safhaat ki
Barqi zakhamat ek hazaar