Ahmad Ali Barqi Azmi Recites His Ghazals In A Literary Meet In Hindi Bhawan Jaunpur

مجموعۂ کلام برقی اعظمی : منظوم تاثرات احمد علی برقی اعظمی



مجموعۂ کلام برقی اعظمی : منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی
مجموعۂ کلام ہے ’’ روحِ سخن‘‘ مرا
پیشِ نظر ہے جس میں یہاں فکر و فن مرا
برقی اعظمی کا فیضِ نظر ہے میں جو بھی ہوں
ظاہر ہے نام سے یہ کہاں ہے وطن مرا
گلہائے رنگا رنگ کا گلدستۂ حسیں
اشعار سے عیاں ہے یہی ہے چمن مرا
سوزِ دروں، حکایتِ آشوبِ روزگار
اور ہے حدیثِ دلبری طرزِ کہن مرا
ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کے شکار
نا آشنا وطن میں ہے رنگِ سخن مرا
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا
برقی مرا کلام مرا خضرِ راہ ہے
کہتے ہیں لوگ آج یہ ہے حُسنِ ظن مرا

’’ پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر ملے‘‘ : دیا کے ۵۷ ویں آن لائن عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش احمد علی برقی اعظمی




دیا کے ۵۷ ویں آن لائن عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
میری ہی طرح وہ مجھے شوریدہ سر ملے
مجھ کو رہِ حیات میں جو ہمسفر ملے
منھ موڑ کر گذر گئے وہ مجھ کو دیکھ کر
میں نے انھیں سلام کیا وہ جدھر ملے
لگتا ہے ان سے شمع کو ہے ایک ربطِ خاص
’’ پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر ملے‘‘
جن کے لئے ہیں دیدہ و دل میرے فرشِ راہ
آئیں نہ آئیں ان کی مجھے ہر خبر ملے
کیوں بدگماں ہیں مجھ سے بتائیں تو وہ سہی
پوچھوں گا میں یہ ان سے دوبارہ اگر ملے
در اصل ان کو خود تھی ضرورت علاج کی
ذہنی مریض تھے جو مجھے چارہ گر ملے
ہیں جو زمانہ ساز رہیں مجھ سے دور وہ
مجھ سے ملے خلوص سے کوئی اگر ملے
زد پر تھا برق و باد کی گلزارِ زندگی
دامن دریدہ باغ میں برگ و شجر ملے
دم گُھٹ رہا ہے پینے سے ہر وقت جامِ زہر
تازہ ہوا تو شہر میں شام و سحر ملے
اپنے حصارِ زیست میں محصور ہیں سبھی
ذہنی سکوں بتاؤ تمھیں اب کدھر ملے
جب بھی دیارِ شوق سے میرا گذر ہوا
خانہ بدوش لوگ وہاں در بدر ملے
اک دردِ سر ہے میرے لئے یہ شبِ فراق
سب نالہ ہائے نیم شبی بے اثر ملے
مدعو جہاں تھا اہلِ سیاست کی بزم میں
انساں نما وہاں پہ کئی جانور ملے
دنیائے رنگ و بو میں رہیں سب سکون سے
ہر شخص کو چھپانے کو سر، ایک گھر ملے
برقی کی فضلِ حق سے دعا ہو یہ مستجاب
دل دل سے اور اُن کی نظر سے نظر ملے

قوس قزح کی بزم ہے آؤ غزل کہیں احمد علی برقی اعظمی




قوس قزح کی بزم ہے آؤ غزل کہیں
احمد علی برقی اعظمی
اے جانِ جاں کہاں ہو تم آؤغزل کہیں
قول و قسم تم اپنا نبھاؤ غزل کہیں
رخ سے ذرا نقاب ہٹاؤ غزل کہیں
ناز ونیاز اپنے دکھاؤ غزل کہیں
اوراق منتشر ہیں کتاب حیات کے
آکر انہیں دوبارہ سجاؤ غزل کہیں
مدت سے ہے خموش یہ مضراب ساز دل
تم آکے اس پہ ضرب لگاؤ غزل کہیں
افسانۃ حیات کا عنواں ہو تم مرے
میری سنو اور اپنی سناؤ غزل کہیں
گُل ہو نہ جائے میری کہیں شمعِ آرزو
لو اس کی آکے اور بڑھاؤ غزل کہیں
کب تک یونہی اُداس رہے گا دلِ حزیں
خوابیدہ حسرتوں کو جگاؤ غزل کہیں
کب تک یونہی گزارے گا بے کیف زندگی
برقی کے ساتھ جشن مناؤ غزل کہیں

خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو طرحی غزل نذر میر انیس احمد علی برقی اعظمی


خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
طرحی غزل نذر میر انیس 


احمد علی برقی اعظمی
بناکے تختۂ مشقِ ستم زمینوں کو
نہ کردیں ختم مکانوں سے وہ مکینوں کو
ہمیشہ زد مین ہے طوفاں کی اپنی کشتیٔ عمر
بچائیں کیسے تلاطم سے اِن سفینوں کو
نہ اپنے غمزہ و ناز و ادا پہ اِترائیں
بتادے کاش کوئی جاکے اِن حسینوں کو
ہے اب بھی وقت وہ اُٹھ جائیں خوابِ غفلت سے
’’ خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو‘‘
ذرا سی ٹھیس لگے گی تو ٹوٹ جائیں گے
رکھیں سنبھال کے وہ دل کے آبگینوں کو
ذلیل و خوار ہیں جن کو جہاں میں چھوڑ کے وہ
کہو وہ سیکھ لیں اب بھی اُنھیں قرینوں کو
سبھی نے پھیر لیں آنکھیں زوال کیا آیا
نہ جانے ہو گیا کیا آج ہم نشینوں کو
دلوں پہ آج بھی جوں حکمراں ہیں لوگوں کے
نہ سمجھیں ہیچ وہ اِن بوریا نشینوں کو
کبھی جو دیکھ کے برقی کو خوف کھاتے تھے
چڑھائے پھرتے ہیں ہر وقت آستینوں کو

تمام شد : احمد علی برقی اعظمی



ناپید ہے اب امن و اماں میرے مکاں میں :کنج ادب انٹرنیشنل کے ساتویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی




  

کنج ادب انٹرنیشنل کے ساتویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
ناپید ہے اب امن و اماں میرے مکاں میں
آسیب زدہ سب ہیں وہاں میرے مکاں میں
مِل جُل کے جہاں رہتے تھے آپس میں سبھی لوگ
ہر ہاتھ میں ہے تیر و کماں میرے مکاں میں
ہیں پیر و جواں گردشِ حالات سے نالاں
ایسا تو نہ تھا پہلے سماں میرے مکاں میں
وحشت زدہ ہر شخص ہے ہمسائے سے اپنے
ہر ذہن میں ہے وہم و گماں میرے مکاں میں
یہ سوزِ دروں مجھ کو کہیں مار نہ ڈالے
ہے سامنے آنکھوں کے دھواں میرے مکاں میں
ہیں مغربی تہذیب کے آثار نمایاں
ہر شخص کی چلتی ہے زباں میرے مکاں میں
ہیں خانۂ دل کے در و دیوار شکستہ
برقی نہیں اب تاب و تواں میرے مکاں میں


مجھے اب اور مَت ستاؤ تم : احمد علی برقی اعظمی





  دیا ادبی گروپ کے ۱۶۰ویں آن لاین فی االبدیہہ مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
مجھے اب اور مَت ستاؤ تم
لوٹ کر یوں ابھی نہ جاؤ تم
کہہ رہے ہو چلا کے تیرِ نظر

’’
زخم کھا کر بھی مُسکراؤ تم ‘‘
کیا مجھے تم بھلا سکو گے کبھی
کہہ دیا مجھ سے بھول جاوٌ تم
مُرتَعِش ہو نہ جائے تارِ وجود
رگِ احساس مت دباؤ تم
اپنی رودادِ دل بیان کرو
نہ ڈرو میرے پاس ّؤ تم
آتشِ شوق جو جلائی ہے
آکے خود ہی اسے بجھاؤ تم
ہوتی ہے صبر و ضبط کی اک حد
اور اب مجھ پہ ظلم ڈھاؤ تم
تالی اک ہاتھ سے نہیں بجتی
میں بھی نادم ہوں مان جاؤ تم
بِن بُلائے کہیں نہیں جاتا
آؤں گا میں اگر بُلاؤ تم
ڈوب جائے نہ موجِ غم میں کہیں
کشتیٔ دل مری بچاؤ تم
یوں کسی سے خفا نہیں ہوتے
میں بھی آؤںگا پہلے آؤ تم
بدگماں کس لئے ہو برقی اے
کیوں ہو گُم سُم کھڑے بتاؤ تم

آ گئی فصلِ خزاں ہیں فصلِ گل جانے کے دن: احمد علی برقی اعظمی ۔۔ جناب امین جس پوری ناظم عالمی ادبی فورم صبا آداب کہتی ہے کی برقی نوازی




غزل
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
آ گئی فصلِ خزاں ہیں فصلِ گل جانے کے دن
غنچۂ اُمید کے آتے ہیں مُرجھانے کے دن
ہے شبِ فُرقت ابھی آئے گی کب صُبحِ اُمید
کتنے دلکش تھے وہ زُلفِ یار سُلجھانے کے دن
قدر و قیمت سے تھے جس کی آج تک نا آشنا
دیکھ کر اب آگئے ہیں اُس کو للچانے کے دن
جاتے جاتے کہہ گیاتھا آئے گا واپس ضرور
گِن رہا ہوں اُس کے اب میں لوٹ کر آنے کے دن
تھا بہت مسرور لیکن اب ہوں اُتنا ہی مُلول
جیسے جیسے آتے ہیں نزدیک تر جانے کے دن
آرہا ہے مُحتسب ہو خیر میخانے کی اب
ایسا لگتا ہے گئے اب جام و پیمانے کے دن
مُسکرا کر صُلح جوئی کا دیا اُس نے جواب
اب گئے برقیؔ سمجھنے اور سمجھانے کے دن


ممکن نہ تھا جو کرکے دکھایا حسین نے : کُنج ادب انٹرنیشنل گروپ کے پانچویں فی البدیہہ طرحی مشاعرے بنام سید الشہدا حضرت امام حسین ؓ کے لئے میری نذر عقیدت احمد علی برقی اعظمی




کُنج ادب انٹرنیشنل گروپ کے پانچویں فی البدیہہ طرحی مشاعرے بنام سید الشہدا حضرت امام حسین ؓ کے لئے میری نذر عقیدت
احمد علی برقی اعظمی
ممکن نہ تھا جو کرکے دکھایا حسین نے
ناموسِ مصطفیٰﷺ کو بچایا حسین نے
جو اپنا فرض تھا وہ نبھاتے چلے گئے
دیکھا نہ کچھ بھی اپنا پرایا حسین نے
نقشِ قدم پدر کا پسر کو بھی تھا عزیز
سجدے میں اپنے سر کو کٹایاحسین نے
بچے ،جوان، بوڑھے سبھی ہوگئے شہید
جو کچھ تھا اپنے پاس لُٹایا حسین نے
کس کا لقب ہے سیدِ شُبان خُلد میں
جو پاسکا نہ کوئی وہ پایا حسین نے
شہدائے کربلا کے ہے خوں سے ہرا بھرا
گلزارِ دیں کو ایسے سجایا حسین نے
’’ قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے ‘‘
سچ کرکے اس کو رَن میں دکھایاحسین نے
برقی رہیں گے زندۂ جاوید حشر تک
ایسا جہاں میں نام کمایا حسین نے

ایک زمین کئی شاعر استاد قمر جلالوی و احمد علی برقی اعظمی


ایک زمین کئی شاعر

استاد قمر جلالوی و احمد علی برقی اعظمی

استاد قمر جلالوی
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بجھ گیا جلتے جلتے

انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا "محبت نہ کرتے
تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا؟ بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے"

مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے

بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے

ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے

بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے

وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈوبے ستارے

قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے

احمد علی برقی اعظمی
جو کی جذبۂ شوق نے دستگیری مری جادۂ عشق میں چلتے چلتے
پہنچ ہی گیا اپنی منزل پہ آخر خراماں خراماں ٹہلتے ٹہلتے
چراغ محبت کی لو ہے جو مدھم نہ بجھ جائے یہ ناگہاں جلتے جلتے
نہ ہو جاؤں میں یونہی دنیا سے رخصت شبِ ہجر کروٹ بدلتے بدلتے
تجھے ناز ہے جس پہ اے جانِ جاناں فقط چاندنی ہے وہ اک چاردن کی
جو بَروقت تو مجھ سے مِلنے نہ آیا ترا حسن ڈھل جائے گا ڈھلتے ڈھلتے
یہ سوزِ دروں مار ڈالے نہ مجھ کو ہر اک وقت رہتا ہے مجھ کو یہ خدشہ
کہیں خاک کردے نہ مجھ کو بالآخر مرے جسم میں خوں اُبَلتے اُبَلتے
کہا اُس سے جب یہ غمِ زندگی سے مرا ذہن کب تک رہے گا یہ بوجھل
وہ بولا ہے میٹھا بہت صبر کا پھل بہل جائے کا دل بہلتے بہلتے
نہ کھائی ہو جس نے کبھی کوئی ٹھوکر وہ کیا جانے کیسے سنبھلتے ہیں گِر کر
ہے گِر گِر کے جس کو سنبھلنے کی عادت سنبھل جائے گا وہ سنبھلتے سنبھلتے
جسے جان پیاری ہے جیتا رہے گا وہ ہر حال میں چاہے جس طرح گذرے
بفضلِ خد آج بھی ہے سلامت وہ بحرِ حوادث میں بھی پلتے پلتے
سلامت روی بھی ہے بیحد ضروری بہت ہوگیا اپنی حد میں رہے وہ
بہت اُڑ رہا ہے جو اوجِ فلک پرکہیں گِر نہ جائے اُچھلتے اُچھلتے
کہاں سے اُسے لا کے دوں چاند تارے بضد ہے وہ لے کر ہی مانے گا مجھ سے
کہا میرے معصوم بچے نے اک دن سرِ راہ مجھ سے مچلتے مچلتے
نہ کام آئی کچھ اُس سے عرضِ تمنا ہوا ٹس سے مس وہ نہ اپنی روش سے

کہا اُس نے برقیؔ سے اک روز ہنس کر گلے گی تری دال بھی گلتے گلتے

#Fikr-O-Fann / Sher-O-Sukhan: Hassan Chishti with Azeez Belguami : فکروف...