ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی : ایک تعارف

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی : ایک تعارف
نام :۔ احمد علی قلمی نام: ۔برقی اعظمی تخلص:۔ برقی ؔ ‏ تاریخ پیدائش:۔یوم شنبہ، ٢٥؍ڈسمبر ١٩٥٤‏ مقام پیدائش:۔ اعظم گڑھ
اردو اکادمی دہلی ایوارڈ برائے بہترین کتاب ( شعری مجموعہ روح سخن ) ۲۰۱۳
فخر اردو ایوارڈ : منجانب جموں و کشمیر اردو گلڈ
توصیفی سند: میراث سخن منجانب بزمِ شیدائے ادب ، متھرا، یوپی
خواجہ الطاف حسین حالی ایوارڈ : ادارۂ بیسٹ اردو پوئیٹری
مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ ۲۰۱۶ منجانب محمد اکرم میموریل پبلک سوسائٹی  نجیب آباد بجنور
توصیفی سند منجانب یونیورسل اردو پوسٹ ڈاٹ کام
سند اعزاز : پہلا  سالانہ جگنو انٹرنیشنل ایوارڈ ۲۰۱۵ منجانب جگنو انٹرنیشنل لاہور
لوح تقدیر : توصیفی سند از طرف  کلچرل کونسلر خانۂ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران ، نئی دہلی
احمد علی جناب برقی نے اپنی تعلم ابتدائیہ سے لے کر ‏کالج تک شبلی کالج اعظم گڑھ میں مکمل کی۔ وہاں سے ‏اردو میں یم اے ماسٹرس کرنے کے بعد سنہ ‏‏١٩٧٧میں وہ دہلی چلے آئے اور وہاں جواہرلال ‏نہرو یونیورسٹی سے فارسی میں یم اے اور پی یچ ڈی ‏کی ڈگری حاصل کی ۔ اور ١٩٨٣ سے تا حال آل ‏انڈیا ریڈیو فارسی سے منسلک ہیں۔ ‏ برقی اعظمی نے اپنے والد محترم جناب رحمت الہی ‏برق اعظمی ، جو دیار شبلی کے ایک باکمال صاحب ‏طرز استاد سخن تھے، سے کسب فیض اور شعری ‏تربیت حاصل کی۔ جن کا روحانی تصرف برقی اعظمی ‏کے مرصع کلام کی صورت میں آج تک جاری و ساری ہے۔ ‏ ‏ برقی اعظمی کا اپنا ایک مخصوص لب و لہجہ ہے جو ان ‏کے شعور فکر وفن کی شناخت ہے۔ برقی اعظمی نے ‏اپنے فکر و فن سے غزل مسلسل کی صورت میں روایتی اردو شاعری کو ایک جدید رنگ و آہنگ سے ‏روشناس کیا جو ان کا طرۂ امتیازہے ۔ برقی اعظمی نے ‏اپنا شعری سفر موضوعاتی شاعری سے شروع کیا اور ٢٠٠٣ سے چھ سال تک ان کی موضوعاتی نظمیں سائنس، طب، حالات حاضرہ، آفات ارضی و ‏سماوی جیسے گلوبل وارمنگ، سونامی اور زلزلے وغیرہ سے ‏متعلق دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ سائنس ‏میں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ بعد ازاں باقاعدہ اردو ‏غزل نویسی کی طرف توجہ کی اورآج انٹرنٹ کے ‏وسیلے سے ان کی غزلیں اور نظمیں لوگوں کی لذت کام و ‏دہن کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ برقی اعظمی اردو کی ‏مختلف ویب سائٹس اورادبی فورم سے کسی سے کسی ‏حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان کا کلام اردو کی بیشتر ‏ویب سائٹس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ قارئين گوگل ‏سرچ انجن پر برقی اعظمی لکھ کر ان کی انٹرنٹ پر ‏سرگرمیوں کے متعلق معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ ‏برقی اعظمی آجکل فیس بک پر بہت فعال نظر آتے ‏ہیں اوراس جدید وسیلہ ترسیل ابلاغ سے جو اقوام ‏عالم سے رابطہ کا ایک بہترین ذریعہ ہے بحسن خوبی ‏استفادہ کررہے ہیں۔ برقی اعظمی  جدید اردو غزل میں ، غزل مسلسل کو ‏فروغ دینے میں ایک نمایاں کردار ادا کررہے ہیں ۔ ‏بہ الفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بر قی اعظمی کو غزلِ مسلسل غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ ان کو فی ‏البدیہہ غزلیں اور منظوم تاثرات لکھنے پر بھی ‏قدرت حاصل ہے ۔ اور وہ باقاعدگی کے ساتھ فیس ‏بک پر موجود مختلف ادبی فورمس کے مشاعروں میں ‏شریک ہوتے رہتے ہیں۔ اور کوئی دن ایسا نہیں ‏گزرتا کہ وہ کوئی نہ کوئی نئی غزل فیس پر پوسٹ نہ ‏کرتے ہوں۔ ایک بار مرحوم عزم بہزاد نے لکھا تھا کہ ‏اگر کسی دن برقی اعظمی کی غزلیں فیس بک پرنظر ‏نہیں آتیں تو ناشتے کے دوران شدید تشنگی کا احسا س ‏ہوتا ہے۔ گویا ان کی شاعری زندگی کے روزانہ ‏معمول کاایک جزو لاینفک معلوم ہوتی ہے۔ میرے ‏خیال میں ایک شاعرکیلئے اس سے بہترخراج تحسین ‏نہیں ہوسکتا۔ ‏
برقی اعظمی کے لوگوں کے کلام پر منظوم تاثرات ‏بھی ان کی بدیہہ گوئی اور زبان و بیان پر مکمل ‏دسترس کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ان کے ان فی ‏البدیہہ تاثرات کو یکجا کرلیا جائے تو بدیہہ گوئی سے ‏متعلق ایک شعری مجموعہ ترتیب دیجاسکتاہے ۔ ان کو جیسے ہی مشاہیر اردو کے یوم پیدائش یا برسی ‏سے متعلق کوئی اطلاع ملتی ہے تو ان کا قلم خودبخود ‏حرکت میں آجاتا ہے اور وہ یاد رفتگاں کے عنوان ‏کےتحت اسے صفحہ قرطاس پر منتقل کردیتے ہیں اس ‏طرح یاد رفتگاں سے متعلق بھی ایک مجموعہ ترتیب ‏دیا جاسکتا ہے ۔ ‏ خلاصہء کلام یہ کہ برقی اعظمی کا اشہب قلم صنف ‏سخن کے ہر میدان میں یکساں جولانیاں دکھاتا ہے۔ ‏جو ان کی انفرادیت اور اردو شاعری میں جدید لب و ‏لہجہ کا آئینہ دار ہے۔ کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر :‏ یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ ‏ یاد رکھوفسانہ ہیں ہم لوگ برقی اعظمی کی شخصیت پر پوری طرح صادق ہے ۔ ‏اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی برقی اعظمی مقامی سطح ‏پر غیر معروف ہیں اور میر کی دلی میں گوشہء عزلت ‏میں محصور ہیں۔ جو اس شعر سے ظاہر ہے۔ ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کا شکار نا آشنائے حال ہیں ہمسائے بھی مرے ‏ ایک جگہ اور وہ لکھتے ہیں کہ ۔ ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے ‏ کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کے شکار ‏ ناآشنا وطن میں ہے رنگ سخن مرا ان کا یہ ذہنی کرب اس شعر میں بھی ملاحظہ ‏ہو۔ فصیل شہر سے باہرنہیں کسی کو خبر بہت سے اہل ہنر یونہی مرگئے چپ چاپ

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی اعظم گڑھ کے ایک ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد جناب رحمت الہی برقؔ دبستان داغ دہلوی سے وابستہ تھے اور ایک باکمال استاد شاعر تھے۔ برقیؔ اعظمی ان دنوں آل آنڈیا ریڈیو میں شعبہ فارسی کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد اب بھی عارضی طور سے اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔۔ فی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں آپ کو ملکہ حاصل ہے۔ آپ کی خاص دل چسپیاں جدید سائنس اور ٹکنالوجی خصوصاً اردو کی ویب سائٹس میں ہے۔ اردو و فارسی میں یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ روحِ سخن آپ کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔






بیاد کلیم عاجز مرحوم : احمد علی برقی اعظمی


فیس بُک کی محفلیں اردو کی ہیں خدمتگذار : احمد علی برقی اعظمی


بشیر بدر کے مصرعہ طرح پر قوس قزح ادبی گروپ کے ۳۳ویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی :احمد علی برقی اعظمی


بشیر بدر کے مصرعہ طرح پر قوس قزح ادبی گروپ کے ۳۳ویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
پَلوشن بڑھ رہا ہے دن بہ دن جو کم نہیں ہوتا
’’ ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا‘‘
’’ گلوبَل وارمنگ ‘‘ کی زد میں ہے شیرازۂ ہستی
وگرنہ ناک میں ہرگز سبھی کا دم نہیں ہوتا
سبھی مجبور ہیں شہروں میں جامِ زہر پینے کو
اثر آلودگی کا بڑھ  رہا ہے کم نہیں ہوتا
مٹانے پر تُلا ہے صفحۂ ہستی سے وہ مجھ کو
سرِ تسلیم میرا جس کے آگے خَم نہیں ہوتا
مجھے ڈر ہے نہ رَستے رِستے یہ ناسور ہو جائے
مرے زخمِ جگر کا کیا کوئی مرہم نہیں ہوتا
جَلائے جارہا ہوں اس کو طوفانِ حوادث  میں
چراغِ آرزو پھر بھی مرا مدھم نہیں ہوتا
بسر کب تک کروں گُھٹ گُھٹ کے یونہی زندگی اپنی
نہ جانے کیوں مرا سوزِ دروں یہ کم نہیں  ہوتا
نہ ہوتا سُرخیٔ اخبار ہر سو میرا افسانہ
رقیبِ روسیہ میرا اگر محرم نہیں ہوتا
نہ ہوتا بند میرا ناطقہ احمد علی برقی
نشاط و کیف رنج و غم میں گر مدغم نہیں ہوتا

شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں : پروفیسر آل احمد سرور کے مصرعہ طرح پر دیا ادبی فورم کے ۹۶ ویں علمی آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش






شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں : پروفیسر آل احمد سرور کے مصرعہ طرح پر دیا ادبی فورم کے ۹۶ ویں علمی آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
ہے ادا کرنا جو حقِ بندگی کیسے کریں
بندہ پرور یہ بتائیں آپ ہی کیسے کریں
ہر کوئی خود کو سمجھتا ہے امیر شہر آج
’’ شہر کے اتنے بتوں کی بندگی کیسے کریں‘‘
زد پہ برق و باد کی ہر وقت ہے اپنا چمن
ہم بسر عہدِ رواں میں زندگی کیسے کریں
دندناتے پھر رہے ہیں دائیں بائیں شر پسند
آرزوئے امن و صلح و آشتی کیسے کریں
دوست دشمن میں ہے کرنا اب تو مشکل امتیاز
رونے سے فرصت نہیں ہے دل لگی کیسے کریں
اب نظر آتی نہیں کوئی کرن امید کی
دور گِرد و پیش کی یہ تیرگی کیسے کریں
اس میں ہے درکار برقی اعظمی خونِ جگر
تم ہی ایسے میں بتاؤ عاشقی کیسے کریں

میں اپنے پاس بیٹھا رہ گیا ہوں: فی البدیہہ طرحی غزل بر مصرعہ طرح اقبال کوثر: احمد علی برقی اعظمی






جدید ادبی تنقیدی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۲۹ جون ۲۰۱۲ کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
بجا تھا پہلے بے جا رہ گیا ہوں
نہیں تھا ایسا جیسا رہ گیا ہوں
میرا سایہ ہی میرا ہمنشیں ہے
’’میں اپنے پاس بیٹھا رہ گیا ہوں‘‘
کروں میں کس سے عرضِ حال اپنی
بھری محفل میں تنہا رہ گیا ہوں
سمندر کی طرح ہے میری حالت
ہے پانی پھر بھی پیاسا رہ گیا ہوں
بساطِ زندگی پر کیا بتاؤں
مقدر کا میں مُہرا رہ گیا ہوں
نہیں ہے کوئی میرے آگے پیچھے
میں اپنوں میں اکیلا رہ گیا ہوں
ہیں کُہنہ مشق جو اقبال کوثر
میں ان کے فن کا شیدا رہ گیا ہوں
یہ بزم اعزاز میں جن کے سجی ہے
پڑھا اُن کو تو پڑھتا رہ گیا ہوں
ہے برقی زندگی ایسا معمہ
اسی کے گِرد اُلجھا رہ گیا ہوں

جدید ادبی تنقیدی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۲۹ جون ۲۰۱۲ کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
سیاست کا میں مُہرا رہ گیا ہوں
وہ آقا ہیں میں بندا رہ گیا ہوں
ہے زیرِ لب تبسم کیوں سبھی کے
میں جیسے اک تماشا رہ گیا ہوں
مجھے چشمِ حقارت سے نہ دیکھو
میں فکرو فن میں یکتا رہ گیا ہوں
ہے اتنا شور بزمِ آب و گِل میں
میں گونگا اور بہرا رہ گیا ہوں
نگاہیں دیکھ کر ہیں اس کو خیرہ
اسے دیکھا تو تکتا رہ گیا ہوں
سمجھتے ہیں مجھے وہ جنسِ ارزاں
ہر اک شے سے میں سستا رہ گیا ہوں
دکھائی راہ جن کو زندگی بھر
وہ کہتے ہیں میں اندھا رہ گیا ہوں
نگایہں پھیر لیں جب سے انھوں نے
میں برقی ہکّا بَکّا رہ گیا ہوں





Barqi Azmi With Eminent Urdu Fiction Writer & Secreatary of Bihar Urdu Academy Moshtaque Ahmad Noori


احمد علی برقی اعظمی مشاہیر علم و ادب کی نظر میں


Fayyaz Sheheryar
احمد علی برقی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے لیے مقبول ہیں اور مقتدر بھی ۔ پر گو ہیں اور اصلاح سے بے نیاز بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور کے اساتذہ کی پہلی صف میں بھی انکی جگہ الگ اور نمایاں ہے ۔
فیاض شہریار ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو
ماخوذ از فیس بک
" روحِ سُخن " اُردو غزلیہ شاعری میں ایک بیش بہا اضافہ ہے - یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ برقی صاحب کی شاعری غزل میں نئے تجربوں کی طرف اچھّی پیش قدمی ہے "

سرور عالم راز سرور، امریکا


" آپ ہیئت اور موضوع دونوں اعتبار سے روایت کا دامن تھامے دکھائی دیتے ہیں، مجاز سے حقیقت کی جہت میں سفر اُردو شاعری کی پہچان رہی ہے ،اسی لیے شاعر کا ذہن بھی اسی حقیقت کو موضوعِ اظہار بناتا ہے "

مظفر احمد مظفر، انگلینڈ


" آج وہ شاید واحد شاعر ہیں جو انٹرنیٹ اور سوشل سائنس کی مدد سے دُنیا کے مُختلف حصّوں میں معروف و مقبول ہیں "

عبد الحئی: اسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا نئی دہلی


" جناب برقی اعظمی نئے عہد کے شاعر ہیں اور پوری تعلیم بھی یو نیورسٹیوں اور کالجوں میں ہُوئی ہے - لیکن ان کی علمی و ادبی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر اپنی تہذیب و روایت سے دامن کش نہیں ہوتے "

ڈاکٹر تابش مہدی، بھارت


ڈاکٹر احمد علی برقی صاحب کا بہترین مجموعۂ کلام " روحِ سُخن " اپنی آب و تاب کے ساتھ منظرِ عام پر آگیا ہے جو قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ داد بھی "

سیّد ضیاء خیرآبادی، امریکا


" ڈاکٹر احمد علی برقی کا تخلیقی سفر خلوص اور مُحبّت کے گیت گاتا ہُوا نفرت کی دیواروں کو توڑتا ہوا، ملکوں کی سرحدوں کو پار کرتا ہوا، انسانیت اور تہذیب کے وقار کو بڑھاتا ہوا، امن اور شانتی کا درس دیتا ہوا، حق کا پرچم اُٹھائے دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے "

ڈاکٹر سیّدہ عمرانہ نشتر خیر آبادی، امریکا


ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی، شاعر،نقاد، دانشور اور عصر حاضر کے شگفتہ بیان شاعر ہیں -

ڈاکٹر نصرت جہاں کی نظر میں

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نازِ سخن اور شہنشاہِ سخن ہیں۔

ڈاکٹر ایم زیڈ کنول













گرامیداشت مولانا جلال الدین رومی دکتر احمد علی برقی اعظمی


نعت رسول مقبول ﷺ بعنوان رودادِ دل : احمد علی برقی اعظمی


غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ادبی نشست کا اہتمام




غالب اکیڈمی میں ادبی نشست کا اہتمام
گذشتہ روز غالب اکیڈمی ،نئی دہلی میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت جناب انجم عثمانی نے کی اور ہندی اردو کے شعرا اور افسانہ نگار وں نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔نشست میں عالمی شہرت یافتہ مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر ملال پر رنج وغم کا اظہار کیا گیا۔ انجم عثمانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی ٹونک میں پیدا ہوئے۔دنیا کے مختلف ممالک میں رہ کر کراچی میں رہنے لگے ان کی تحریریں کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ اردو کے بڑے ادیب تھے طنزو مزاح کی دنیا انھیں کے دم سے آباد تھی ان کے جانے سے اردو کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان کی کتابیں چراغ تلے،خاکم بہ دہن،زرگزشت،آبِ گم اور شام شہریاراں نے ان کو امر کردیا یہ اردو ادب کا وہ سرمایہ ہے جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔اس موقع پر انجم عثمانی نے اپنا انشائیہ بھی پڑھ کر سنایا جسے بہت پسند کیا گیا۔چشمہ فاروقی نے جاہل کے عنوان سے ایک افسانہ پڑھا اور شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
رہ عشق میں وہ بھی آتی ہے منزل

نہ ہنستی ہیں آنکھیں نہ روتی ہیں آنکھیں

متین امروہوی
حساب لے کوئی جو بے قصور مارئے گئے

اور اپنی بے ہنری کی قسم بھی کھا نہ سکے

نسیم عباسی
خدا احساس بن کر بولتا ہے

کوئی مجھ میں اتر کر بولتا ہے

سکندر عاقل
خوشی کو بانٹتے اور غم کو چھپانے والے

وہ بھی کیا لوگ تھے رشتوں کو نبھانے والے

سمیر وشسٹھ
تجھ کو مانا کہ ادب کا ہے سلیقہ لیکن

اتنا سر بھی نہ جھکا اپنا کہ دستار گرادے

منوج بیتاب
جب سے اس دل کو میرے تیری چاہت ہوگئی

جینے کی مرمر کے اس کی عادت ہوگئی

ڈاکٹر دویا جین
تیری طلب کی حد نے ایسا جنون بخشا

ہم خود کو بھول بیٹھے تھے یاد کرتے کرتے

عزیز مرزا
اس موقع پر جناب ڈاکٹر مظہر محمود نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ادبی نشستوں کا انعقاد ضروری ہے۔آخر میں سکریٹری غالب اکیڈمی نے بتایا کہ اس سال اردو رسم الخط سکھانے کے لیے اگنو اور اردو اکادمی کے سرٹیفکٹ کورس میں داخلے ہو رہے ہیں ۔جواردو بولنا جانتے ہیں اور شعر بھی کہتے ہیں لیکن اردو رسم الخظ سے واقف نہیں ہیں ۔ ان کے لیے اچھا موقع ہے۔


قلبی واردات اور عصری رجحانات کے شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی: ڈاکٹر مجیب شہزر ، بشکریہ شعرو سخن ڈاٹ نیٹ


http://sherosokhan.net/ahmed-ali-barqi-by-mujeeb-shehzar

قلبی واردات اور عصری رجحانات کے شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی: ڈاکٹر مجیب شہزر ، بشکریہ شعرو سخن ڈاٹ نیٹ

’’ روح سخن ‘‘ برقی اعظمی کے فکر و فن کا آئینہ ۔ تحریر انجیبنئر محمد فرقان سنبھلی ۔ بشکریہ اردو نیٹ جاپان

’’ روح سخن ‘‘ برقی اعظمی کے فکر و فن کا آئینہ
تحریر انجیبنئر محمد فرقان سنبھلی ۔ بشکریہ اردو نیٹ جاپان






DETI HAIN DAWAT E DEEDAR TUMHARI AANKHEIN. BARQI AZMI.PRODUCED BY MOHAM...

دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو : ایک زمین کئی شاعر ندا فاضلی اور احمد علی برقی اعظمی ، بشکریہ ناظم ایک زمین کئی شاعر ، اردو کلاسک اور ایک اور انیک جناب عمر جاوید خان



ایک زمین کئی شاعر
ندا فاضلی اور احمد علی برقی اعظمی
ندا فاضلی
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی
دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو
پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو
وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو

احمد علی برقی اعظمی
رسمِ اظہار محبت کو نبھا کر دیکھو
دل سے دل چاہنے والوں کے مِلا کر دیکھو
ہم کو آپس میں لڑاکر جو جدا کرتی ہے
بُغض و نفرت کی وہ دیوار گِرا کر دیکھو
کیوں ہو گُم سُم کہو کیا حال ہے کچھ تو بولو
نیچی نظروں کو اِدھر اپنی اُٹھا کر دیکھو
بوجھ جو دل پہ ہے ہو جائے گا اِس سے ہلکا
ہنسو دل کھول کے مجھ کو بھی ہنس کر دیکھو
بدگمانی کا نہیں ہے کہیں دنیا میں علاج
پاس آؤ ہمیں نزدیک سے آکر دیکھو
کیوں اندھیرے میں الگ اور تھلگ بیٹھے ہو
’’ دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو ‘‘
گرمجوشی سے وہ تم سے بھی مِلے گا آکر
ہاتھ برقی کی طرف اپنے بڑھا کر دیکھو
غزل دیگر
احمد علی برقی اعظمی
خانۂ دل کو جو ویراں ہے بسا کر دیکھو
حال کیسا ہے مرا سامنے آکر دیکھو
تم پہ ہو جائیں گے اسرارِ حقیقت روشن
شمعِ ایمان و یقیں دل میں جلا کر دیکھو
میں بُلانے پہ نہ آؤں تو شکایت کرنا
پہلے تم مجھ کو بصد شوق بُلا کر دیکھو
موم کی طرح پگھل جائے گا پتھر کا جگر
اُس سے اک بار ذرا پیار جتا کر دیکھو
ہے اسے بارِ سماعت جو اسے رہنے دو
حالِ دل اپنا ہے جو اس کو سناکر دیکھو
وہ تمھیں ٹوٹ کے چاہے گا اگر جاگ گیا
خوابِ غفلت میں ہے جو اس کو جگا کر دیکھو
کیوں ہو برقی سے خفا تھوک دو اپنا غصہ
مان بھی جاؤ اسے اپنا بنا کر دیکھو



ہفت رروزہ فیس بُک ٹائمز کے ۴۳ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرح مشاعرے بتاریخ ۱۸ جون ۲۰۱۸ کے لئے میری کاوش احمد علی برقی اعظمی





ہفت رروزہ فیس بُک ٹائمز کے ۴۳ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرح مشاعرے بتاریخ ۱۸ جون ۲۰۱۸ کے لئے میری کاوش

احمد علی برقی اعظمی
رسمِ اظہار محبت کو نبھا کر دیکھو
دل سے دل چاہنے والوں کے مِلا کر دیکھو
ہم کو آپس میں لڑاکر جو جدا کرتی ہے
بُغض و نفرت کی وہ دیوار گِرا کر دیکھو
کیوں ہو گُم سُم کہو کیا حال ہے کچھ تو بولو
نیچی نظروں کو اِدھر اپنی اُٹھا کر دیکھو
بوجھ جو دل پہ ہے ہو جائے گا اِس سے ہلکا
ہنسو دل کھول کے مجھ کو بھی ہنس کر دیکھو
بدگمانی کا نہیں ہے کہیں دنیا میں علاج
پاس آؤ ہمیں نزدیک سے آکر دیکھو
کیوں اندھیرے میں الگ اور تھلگ بیٹھے ہو
’’ دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو ‘‘
گرمجوشی سے وہ تم سے بھی مِلے گا آکر
ہاتھ برقی کی طرف اپنے بڑھا کر دیکھو