میرے نادیدہ دوست عزیز مظفر احمد مظفر کے نام منسوب ایوارڈ سے سرفراز ہونے والوں کو منظوم تبریک و تہنیت :احمد علی برقی اعظمی



میرے نادیدہ دوست عزیز مظفر احمد مظفر کے نام منسوب ایوارڈ سے سرفراز ہونے والوں کو منظوم تبریک و تہنیت
احمد علی برقی اعظمی
ہیں مظفر میرے اک نادیدہ یار
شخصیت ہے جن کی وجہہ افتخار
ان سے ہےمنسوب جو ادبی ایوارڈ
اس سے ان کا مرتبہ ہے آشکار
مل رہا ہے جن کو یہ اعزاز آج

ہو فزوں تر اُن کا بھی عزو و قار

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یومِ تاسیس کی مناسبت سے محبانِ جامعہ کی خدمات پر منظوم تاثرات :احمد علی برقی اعظمی





جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یومِ تاسیس کی مناسبت سے محبانِ جامعہ کی خدمات پر منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی
جامعہ ہے وہ سپہرِ علم و فن کی کہکشاں
روشنی سے ہے منور جس کی اقصائے جہاں
جامعہ کی تھے حکیم اجمل سدا روحِ رواں

ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں جن کی عظمت کے نشاں
کام سے ناآشنا ہے اُن کے کیوں نسلِ جواں
آج ہونا چاہئے تھا جن کو زیبِ داستاں
اُن کی حازق ہے جہاں میں علمِ طِب کا شاہکار
مٹ نہیں سکتے کبھی ان کے نقوشِ جاوداں
جامعہ عہدِ رواں میں آج اپنے کام سے
گنگا جمنی ہند کی تہذیب کا ہے ترجماں
ذاکر و جوہر ہو ں یا مختار انصاری کا نام
جامعہ کے صفحہ تاریخ پر ہے ضوفشاں
بابِ محمودالحسن ہے اُن کی زریں یادگار
جن کی علمی شخصیت ہے نازشِ ہندوستاں
ہے سرِ فہرست اس کے محسنوں میں ان کا نام
ہیں مجیدِ خواجہ کی خدمات بھی سب پر عیاں
جنگِ آزادی میں بھی تھے وہ ہمیشہ پیش پیش
ہیں محبانِ وطن کے وہ دلوں پر حکمراں
صدق دل سے ملک و ملت کے تھے برقی خیر خواہ
ذہن میں ان کے نہ تھا ہرگز کبھی سود و زیاں
جامعہ ہے وقارِ ہندوستاں
احمد علی برقی اعظمی
جامعہ ہے وقارِ ہندوستاں
جس کی عظمت کا معترف ہے جہاں
ہے یہ اک ایسا مطلعِ انوار
روشنی جس کی ہے سبھی پہ عیاں
اہلِ دانش کو ناز ہے جس پر
ہے یہ وہ درسگاہِ ہندوستاں
ہر تعصب سے ہے جو بالا تر
ہے سبھی کے لئے یہ فیض رساں
اس کے محسن تھے وہ حکیم اجمل
جن کی ’’حاذق‘‘ ہے علمِ طب کا نشاں
کام سے اپنے کام ہے اس کو
کچھ نہیں امتیازِ سود و زیاں
کیوں نہ مداح اس کا ہو برقیؔ
جامعہ ہے وقارِ ہندوستاں


GHAZAL PASS ATE BHI NAHIN AUR BULATE BHI NAHIN-GAZALBY AHMAD ALI BARQI...

فرزانہ شمسی کے افسانوں کے مجموعے ”بحرِ بیکراں“ پر منظوم تاثرات احمد علی برقیؔ اعظمی



فرزانہ شمسی کے افسانوں کے مجموعے ”بحرِ بیکراں“ پر منظوم تاثرات
احمد علی برقیؔ اعظمی
ہے مرے پیشِ نظر فرزانہ شمسی کی کتاب
جس میں ہے اکیس افسانوں کا دلکش انتخاب
ابتدا  ”مشکور“ سے ہے انتہا ہے ”پرورش
جس کا شمس الدین خاں کے نام سے ہے انتساب
زین شمسی اور حقانی کے ہیں جو تجزئے
ان میں اِن افسانوں کا ہے ناقدانہ احتساب
ہے یہ عصری کرب کے اظہار کا وہ آئینہ
جس کا ہر کردار اس میں کھا رہا ہے پیچ و تاب
اس کے جس افسانے کا عنوان ہے ”نفرت کا زہر
عہدِ حاضر کا عیاں ہے اس سے ذہنی اضطراب
کوچہ و بازار میں جو ہورہا ہے اِن دنوں
ہے کتابِ زندگی کا ابن آدم کی وہ باب
نام ”بحر بیکراں“ ہے جس کا برقی ؔ اعظمی
ہے یہ افسانوں کا مجموعہ نہایت کامیاب

ہفت روزہ فیس بک ٹائمز انٹرنیشنل کی برقی نوازی

























ہفت روزہ فیس بک ٹائمز انٹرنیشنل کی برقی نوازی
ہفت روزہ فیس بُک ٹائمزانٹرنیشنل کے
۵۸ عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے بنام احمد علی برقی اعظمی کے انعقاد کے لئے منظوم اظہار امتنان و تشکر
احمد علی برقی اعظمی
فیس بُک ٹائمز کی محفل ہے جو برقی کے نام
اس کے رفقا کے لئے ہے بادۂ عشرت کا جام
ان کی اس برقی نوازی کا نہایت شکریہ
پیش کرتا ہوں سبھی احباب کو اپنا سلام
جس کی ہیں روح رواں این اے قمر اور ان کے دوست
اپنی بزم آرائیوں سے ہر طرف ہے نیک نام
ہیں وہ اقصائے جہاں میں آج اردو کے سفیر
کرتے ہیں بے لوث جو بزمِ سخن کا اہتمام
اس کا چرچا ہر طرف ہے انجمن در انجمن
ارفع و اعلی ہے اس کے کام سے اس کام مقام
قدرداں ہیں اس کے دنیا بھر میں برقی اہل ذوق
اردو کی ترویج میں یہ انجمن ہے پیشگام
ہمارے اس ہفتے کے معزز مہمان ہیں احمد علی برقیؔ اعظمی صاحب. "جلوہ گر ہے جن کے ہاتھوں میں مری روح سخن". احمد علی برقیؔ اعظمی صاحب( انڈیا ) دہلی کے خاص تہذیبی اور شاعرانہ ماحول ومزاج کی نمائندگی کرنے والے شاعروں کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کی ولادت 25 دسمبر ا954 1 میں ہوئی ۔ ان کا اصل نام احمد علی اعظمی۔ برقیؔ تخلص کرتے ہیں ۔ سنئیر جرنلسٹ اور براڈ کاسٹر ہیں . آپ آل انڈیا ریڈیو سے خبریں پڑھنے کے علاوہ اناؤسنمنٹ کے شعبہ کے ساتھ ساتھ ایکس ٹرانسلیٹر بھی رہ چکے ہیں.
اردو کے روشن خیال ادیبوں نے نئے افکار ، جدید سالیب اور زندگی کی نئی معنویت کو موضوعاتی شاعری کی اسا س بنایا. اس عہد میں ہمیں تمام اہم شعراء کے ہاں اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں. احمد علی برقیؔ صاحب کی موضوعاتی شاعری جہاں کلاسیکی روایات کا پرتَو لیے ہوئے ہےوہاں اس میں عصری آگہی کا عنصر بھی نمایاں ہے.معاشرے میں سماج اوراقوامِ عالم کے ساتھ قلبی وابستگی کے معجزہ نما اثر سے ان کے ہاں ایک بصیرت اور علمی سطع فائقہ دکھائی دیتا ہے. وہ جس علمی سطح سے تخلیقِ فن کے لمحوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اس کا براہِ راست تعلق آفاقیت سے سے ثابت ہوتا ہے.
فرد، معاشرے، سماج،وطن، اہلِ وطنِ،حیات، کائنات، اور اس سے بھی آگےارض و سما کی لامحدودنیرنگیاں ان کی موضوعاتی شاعری میں اس دلکشی سے سماگئی ہے کہ قاری ان کے اسلوبِ بیاں سے مسحور ہوجاتا ہے. ان کی موضوعاتی شاعری منظوم تذکرےکی ایک منفرد صورت قرار دی جاسکتی ہے. ان کے ہاں موضوعاتی شاعری میں جو منظوم انداز میں جو تنقیدی بصیرتیں جلوہ گر ہیں وہ ا پنی مثال آپ ہیں .اس سے قبل ایسی کوئی مثال اردو شاعری میں موجود نہیں. انسان شناسی اور اسلوب کی تفہیم میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا. موضوعاتی نظموں میں جو منفرد اسلوب انہوں نے آزمایا ہے وہ اوروں سے تقلیدی طور پر ممکن نہیں. برقیؔ صاحب لفظوں میں تصویر کھینچ کے رکھ دیتے ہیں اور قاری چشمِ تصور سے تمام حالات و واقعات سے آگاہ ہوجاتا ہے .وہ اصلاحی اور تعمیری اقدار کو اساس بنا کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں. ان کی شاعری میں قصیدہ گوئی یا مصلحت کا اندیشی کا کہیں گزر نہیں. وہ صلے اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز حریتِ فکر کے مجاہد کی طرح اپنئ ضمیر کی اواز پر لبیک کہتے ہوئے حرفِ صداقت لکھتے چلے جاتے ہیں .
احمد علی برقیؔ صاحب کی موضوعاتی شاعری کا تعلق ذیادہ تر مرحوم ادیب، شاعر، فنونِ لطیفہ کے نابالغہ روزگار افراد اور فطرت کے مظاہر ہیں. حق گوئی ، بے باکی اور فطرت نگاری ان کی موضوعاتی شاعری کا موضوعِ خاص رہے ہیں. موضوعات کے اس روایتی بیان کو ان کی زبان کی صٖفائی اور روزمرہ کے خوبصورت استعمال نے خاصے کی چیز بنادیا ہے . احمد علی برقیؔ صاحب کی شاعری موضوعاتی لحاظ سے تو اسی روایتی مزاج کی ہی ہے جو اس وقت کے اہم موضوعات ہیں لیکن موضوعاتی اور عشقیہ شاعری کے ساتھ انہوں نے مختلف ادبی موضوعات پر مضامین بھی لکھے ہیں۔ احمد علی برقیؔ صاحب کو بیک وقت ہندی، اردو اورانگلش کے علاوہ فارسی زبان میں پر بھی عبور حاصل ہے .
احمد علی برقیؔ صاحب کی شاعری میں موضوعات،کا تنوع، جدّت اورہم گیری ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے. اردو ادب میں موضوعاتی شاعری پر بہت کم توجہ دی گئی ہے . اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ ہر موضوع کا تعلق بہ ظاہر محدود متن اورپس منظر سے ہوتا ہے. یہ بھی حقیقت ہے کہ موضوعاتی شاعری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا
منوالیا ہے.
احمد علی برقیؔ اعظمی کا عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر کا منظوم اردو ترجمہ:
دو عالم از اثرِ شعلۂ جمالت سوخت
بجز متاعِ محبّت کہ در پناہِ من است
عرفی شیرازی
جل گئے دو جھاں ترے شعلۂ حُسن سے مگر
تیری متاعِ شوق ہے اب بھی مری پناہ میں
احمد علی برقیؔ اعظمی
ایک اور نمونہء خاص جو سات سال پہلے لکھا گیا تھا:
ہیں یہ بچے گلشنِ ہستی کے پھول
اِن کی آنکھوں میں نہ جھونکیں آپ دھول
اِن کی ذھنی تربیت ایسی کریں
سیکھ جائیں جس سے یہ زریں اصول
ان کو بتلائیں ہےکیا حُسنِ سلوک
ہےاگر یہ مشورہ میرا قبول
ہےضروری کاروبارِ زندگی
ایسے میں ان کو کہیں جائیں نہ بھول
ہیں یہ برقی آپ ہی پر مُنحصِر
آپ کی یہ سرد مہری ہےفضول
اس کے علاوہ:
مجھ سے محوِ گفتگو ہے آج ٹی وی ذی سلام
کرتا ہوں مجروح کے بارے میں اظہارِخیال
احمد علی برقی اعظمی


ایک موضوعاتی نظم بعنوان الکشن بشکریہ ارمغان ابتسام


روح سخن : شعری مجموعہ احمد علی برقی اعظمی ۔ بشکریہ پنجند ڈاٹ کام

Urdu Poetry By Dr Ahmad Ali barqi Azmi| Delhi| Badri Times : Courtesy : Badri Times





ہوں مبارک بدری کے اس لطف کا منت گزار
دے جزائے خیر انھیں اس کے لئے پروردگار
ان کا چینل خدمت شعرو ادب کرتا رہے
اس کی خدمات ادب ہوں باعثِ صد افتخار
سپاسگذار


احمد علی برقی اعظمی


بشکریہ ایک زمین کئی شاعر : حسن کمال اور احمد علی برقی اعظمی



ایک زمین کئی شاعر
حسن کمال اور احمد علی برقی اعظمی
حسن کمال
کسی نظر کو ترا انتظار آج بھی ہے
کہاں ہو تم کہ یہ دل بیقرار آج بھی ہے

وہ وادیاں وہ فضائیں کہ ہم ملے تھے جہاں
مری وفا کا وہیں پر مزار آج بھی ہے

نجانے دیکھ کے کیوں ان کو یہ ہوا احساس
کہ میرے دل پہ انھیں اختیار آج بھی ہے

وہ پیار جس کیلئے ہم نے چھوڑ دی دنیا
وفا کی راہ میں گھائل وہ پیار آج بھی ہے

یقیں نہیں ہے مگر آج بھی یہ لگتا ہے
مری تلاش میں شاید بہار آج بھی ہے

نہ پوچھ کتنے محبت کے زخم کھائے ہیں
کہ جن کو سوچ کے دل سوگوار آج بھی ہے

غزل
احمد علی برقی اعظمی
فراق میں وہ مرے گلعذار آج بھی ہے
’’ مری تلاش میں شاید بہار آج بھی ہے ‘‘
ہر اک ادا سے مجھے اس کی پیار آج بھی ہے
جنونِ شوق یہ سرپر سوار آج بھی ہے
نہ پوچھو کیسے گذرتے ہیں روز و شب میرے
تھا جیسے پہلے وہی انتظار آج بھی ہے
اگرچہ وعدۂ فردا ہے اس کا وعدۂ حشر
نہ جانے پھر بھی یہ کیوں اعتبار آج بھی ہے
مزاج پُرسی کو آئے گا وہ ضرور اک دن
متاعِ زیست اسی پر نثار آج بھی ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا اسی پہ کیوں آخر
سکونِ دل کا مرے انحصار آج بھی ہے
شراب چشم سے سرشار جس کی تھا برقی
نگاہِ شوق میں اس کا خمار آج بھی ہے


.


نذرِ والِدِ محترم رحمت الٰہی برق اعظمی مرحوم احمد علی برقی اعظمی



نذرِ والِدِ محترم رحمت الٰہی برق اعظمی مرحوم
احمد علی برقی اعظمی
میرے والد کا ہے روحانی تصرف میرا فن
دیکھ سکتے کاش ان کی آپ ’’ تنویرِ سخن‘‘
گُلشنِ شبلی میں اُن کی ذات تھی مثلِ بہار
اُن کے گلہائے سخن سے روح پرور تھا چمن
اُن کی شہرت بس فصیلِ شہر تک محدود تھی
راس آتا ہی نہ تھا اُن کو زمانے کا چلن
پاسداری فکر و فن کی تھی انہیں بیحد عزیز
تھے کلاسیکی روایت پر ہمیشہ گامزن
بندشِ الفاظ میں اُن کا نہ تھا کوئی جواب
شخصیت تھی ان کی برقی فخرِ ابنائے وطن