رحمت الہی برق اعظمی حیات اور شاعری : ڈاکٹر افروز جہاں


رحمت الہی برق اعظمی حیات و شاعری : ڈاکٹر افروز جہاں

احمد علی برقیؔ اعظمی اور اُن کی شاعری عبدالحئی اسسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا، ’’فکر و تحقیق‘‘ اور ’’بچوں کی دُنیا‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی






احمد علی برقیؔ اعظمی اور اُن کی شاعری
عبدالحئی
اسسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا،  ’’فکر و تحقیق‘‘ اور ’’بچوں کی دُنیا‘‘
قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی سحرانگیز شخصیت ایسی ہے کہ جو بھی ان سے ایک دفعہ مل لے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان سے پہلی ملاقات آل انڈیا ریڈیو میں مدن کے چائے خانے پر ہوئی تھی۔ شاید صبح کے سوا چھ بج رہے تھے۔ ان دنوں میں وہاں اُردو یونٹ میں Casual News Reader تھا۔ میرے یونٹ کے ایک سینئر ساتھی نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ انھوں نے میری تعلیم کے متعلق پوچھا۔میں نے  جے۔ این۔ یو۔ کا نام لیا تو انھوں نے فرط مسرت سے گلے لگا لیا اور کہا کہ میں بھی جے۔ این۔ یو۔ کا طالب علم ہوں۔ انھوں نے اپنے تعلیمی دور کے کئی قصے بھی سنائے۔ مجھے اس دن ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ عام سا نظر آنے والا سادگی  پسند شخص مشہور و معروف شاعر برقیؔ اعظمی ہے۔ جو اپنے انداز و اظہار کا یکتا شاعر ہے۔ ان سے بعد میں بھی لگاتار ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کے شاعرانہ جوہر مجھ پر آشکارا ہونے لگے۔ احمد علی برقیؔ اعظمی کو موجودہ دور میں بلاشبہ عہدساز شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ان کی شاعری میں جہاں جدید شاعری کا عکس نظر آتا ہے وہیں کلاسیکی نقوش بھی واضح طور پر موجود ہیں۔ میرے خیال میں موجودہ عہد میں یہ واحد ایسے شاعر ہیں جو کسی بھی موضوع پر یا کسی بھی موقع محل کی مناسبت سے فی البدیہہ اشعار وضع کرسکتے ہیں۔ موضوعاتی شاعری اور مصرع طرح پر شعر موزوں کرنا بے حد مشکل کام ہے اور اس میں شاعر کو شاعری کے فن سے انصاف کرنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن احمد علی برقی اس معاملے میں قابل تعریف ہیں کہ ان کی شاعری فن کی سطح پر بھی کھری اترتی ہے۔
برقیؔ اعظمی کو شاعری اپنے والد رحمت الٰہی برقؔ اعظمی سے ورثے میں ملی ہے جو خود بھی بڑے شاعر تھے۔ برقیؔ اعظمی اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور فارسی میں بھی عمدہ شاعری کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک خاص ندرت و جدت نظر آتی ہے۔ موضوع کلام، بحور و قوافی، موضوع و خیالات، منظر نگاری، تشبیہات و استعارات کا عمدہ استعمال ان کی شاعری کو انفرادی حیثیت دیتا ہے۔ اوزان اور بحور کے انتخاب میں بالغ نظری اور فنی پختگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے اشعار ان کی قادرالکلامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عصری میلانات، نئی تازگی، والہانہ پن، سلاست روانی، الفاظ کا در و بست، اسلوب کی تازہ کاری وغیرہ ان کی شاعری کے امتیازی جوہر ہیں۔ شعر کو سنوارنے اور اسے خوبصورتی عطا کرنے کا    بے مثال فن انھیں آتا ہے۔
وہ ایک سدابہار اور ہمہ جہت تخلیق کار ہیں۔ برقیؔ اعظمی کو نہ صرف شعر و ادب کی تمام اصناف حمد، نعت، قصیدہ، منقبت، غزل، نظم وغیرہ پر دسترس حاصل ہے بلکہ آج  وہ شاید واحد شاعر ہیں جو انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس کی مدد سے دُنیا کے مختلف حصوں میں معروف و مقبول ہیں۔ انٹرنیٹ پر مختلف ادبی گروپوں کے ممبر ہیں۔ سائبر مشاعرے منعقد کرتے ہیں اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے تمام احباب و سخن شناس ان کے اشعار و قطعات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔
انھوں نے موضوعاتی شاعری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ عظیم شخصیات کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنا ہو، کسی خاص دن پر شعر کہنا ہو، کوئی تہوار ہو، کوئی حادثہ، واقعہ ہو، کسی رسالے کا خاص شمارہ ہو، کوئی کتاب ہو، انھوں نے سبھی کو اپنے منظوم کلام میں سمو کر دوام عطا کیا ہے۔
ان کے مجموعہ کلام ’’روح سخن‘‘ میں حمد و نعت، غزلیں اور یاد رفتگاں کے عنوان کے تحت آرزوؔ لکھنوی، علامہ اقبالؔ، اصغرؔ گونڈوی، فیض احمد فیضؔ، ابن صفی، ابن انشا، مجازؔ، کیفیؔ، مجروؔح وغیرہ شعرا و ادبا پر منظوم خراجِ عقیدت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ فارسی کلام بھی شامل ہیں۔ ’’روح سخن‘‘ کا سرسری طور پر مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ ان کے کلام میں روایتی و قدیم شاعری کا عکس موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اشعار تو ایسے ہیں جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اور کئی دنوں تک ذہن میں گونجتے رہیں گے۔ ملاحظہ ہو…
کیا ملے گا اُجاڑ کر تم کو
دل کی دُنیا مرے بسی ہے ابھی
سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج
شکست خواب ہے ہر شخص کا مقصد آج

کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں
سو صفر جوڑے مگر برقیؔ نتیجہ تھا صفر

وہ تو کہیے آ گیا احوال پرسی کے لیے
ورنہ اس کا ہجر تھا صبر آزما میرے لیے

رزم گاہِ زیست میں ہر گام پر خود سر ملے
راہزن تھے قافلے میں مجھ کو جو رہبر ملے

عمر بھر جن کو سمجھتا تھا میں اپنا خیرخواہ
آستینوں میں انھیں کی ایک دن خنجر ملے
المختصر یہ کہ احمد علی برقیؔ اعظمی موجودہ عہد کے ایک باصلاحیت اور باکمال شاعر ہیں۔ ’’روح سخن‘‘ کی اشاعت پر ڈھیر ساری مبارکباد، اُمید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ کلام اُردو ادب میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرے گا اور اُردو ادب کے ناقدین بھی اس عظیم شاعر کی جانب مزید توجہ دیں گے۔
٭٭٭

مری جانب نگاہیں اس کی ہیں دُزدیدہ دُزدیدہ :احمد علی برقی اعظمی

مرکزِ ادب فی البدیہہ واٹس ایپ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی سب کا ہے جو حکمراں اُس حکمراں تک جائے گی


مرکزِ ادب فی البدیہہ واٹس ایپ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
سب کا ہے جو حکمراں اُس حکمراں تک جائے گی
میری آہِ آتشیں یہ آسماں تک جائے گی
ہے اگر بارِ سماعت اُن کو تو ہوتی رہے
بات پہنچاؤں گا میں اپنی جہاں تک جائے گی
کوچہ و بازار میں وردِ زباں ہو جاؤں گا
’’
کیا پتہ تھا اپنی رسوائی وہاں تک جائے گی ‘‘
جس کو دیکھو عہدِ نو میں مصلحت اندیش ہے
بات نکلی ہے تو پھر سود و زیاں تک جائے گی
دیتا ہے ہربات کا میری نفی میں جو جواب
جانے کب تک یہ نہیں بھی اُس کی ہاں تک جائے گی
جنگ کرنے کا ارادہ ہے تو پہلے سوچ لیں
یہ تباہی جنگ کی آہ و فغاں تک جائے گی
مطلعِ انوار ہے جو میری یادوں کی برات
روشنیٔ فکر و فن وہ کہکشاں تک جائے گی
زال دنیا تھک کےخود لوٹ آئے گی برقی کے پاس
جارہی ہے جانے دو آخر کہاں تک جائے گی


مرکزِ ادب فی البدیہہ واٹس ایپ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی وعدۂ فردا کیا ہے آتے آتے آئے گی





مرکزِ ادب فی البدیہہ واٹس ایپ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
وعدۂ فردا کیا ہے آتے آتے آئے گی
دل سے میرے یاد اس کی جاتے جاتے جائے گی
نغمۂ عیش و طرب وہ گاتے گاتے گائے گی
ہوگا جو پانا اسے وہ پاتے پاتے پائے گی
کم نہ ہوگی اس کی یہ حرص و ہوس تا زندگی
جوبھی کھانا ہے اسے وہ کھاتے کھاتے کھائےگی
لے رہی ہے امتحاں وہ تیرے صبر و ضبط کا
شکل و صورت تیری اس کو بھاتے بھاتے بھائے گی
تازہ ہے زخمِ جگر جو مندمِل ہو جائے گا
ذہن و دل پر اب ترے وہ چھاتے چھاتے چھائے گی
رفتہ رفتہ بے وفائی جس کی فطرت میں ہے اب
ظلم و جورِ ناروا وہ ڈھاتے ڈھاتے ڈھائے گی
اپنی مرضی کی ہے مالک نامہ بر بادِ صبا
مژدۂ جانبخش برقی لاتے لاتے لائے گی

Barqi Azmi Paying Poetic Tribute To Mirza Ghalib At Mazar E Ghalib On His Birth Anniversary.

بیادِ مرزا غالب ( آج ۲۷ دسمبر جن کا یوم تولد ہے) Remembering Mirza Ghalib On His Birth Anniversary


بیادِ مرزا غالب ( آج ۲۷ دسمبر جن کا یوم تولد ہے) Remembering Mirza Ghalib On His Birth Anniversary


Remembering Mirza Ghalib On His Birth Anniversary


DR. AHMAD ALI BARQI AZMI RECITES HIS GHAZAL IN INTERNATIONAL POETS MEET ...

Ahmad Ali Barqi Azmi On https://wikivisually.com/wiki/Ahmad_Ali_Barqi_Azmi

A GHAZAL BY DR AHMAD ALI BARQI AZMI RECITWD BY YAQUB MALIK KHAN

Dr Fariyad Azer Speaks About The Services Of Sardar Ali To The Cause Of Urdu In Monthly Literary Meet Of Ghalib Academy New Delhi In Which He Was Chief Guest

Ahmad Ali Barqi Azmi Paying Poetic Compliment To Janab Sardar Ali Admin https://sherosokhan.net/ For His Services To The Cause Of Urdu Language And Literature Through His Website And Also Reciting His Ghazal In The Monthly Literary Meet Of Ghalib Academy New Delhi



نذر ادب و ادیب نواز ناظم شعرو سخن ڈاٹ نیٹ محترم سردار علی، ٹورانٹو کینیڈا
خوش آمدید بہ غالب اکیڈمی نئی دہلی
احمد علی برقی اعظمی
ٹورانٹو ، کینیڈا سے جناب سردار علی کے زیر ادارت شایع ہونے والی شہرۂ آفاق ویب میگزین شعرو سخن ڈاٹ کام پر منظوم تاثرات
https://sherosokhan.net/
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
اردو کی شعر و سخن اک ایسی ہے ویب میگزین
جس کے دنیا بھر میں ہیں موجود لاکھوں شایقین
اِس کے ٹورانٹو میں ہیں سردار علی واحد مدیر
کرتے ہیں ہموار جو فکری تناظر کی زمین
حق شناسی کا تقاضا ہے کہ کچھ اُن پر لکھوں
میں سمجھتا ہوں اسے اک اپنا فرضِ اولین
میرے کہنے پر نہ جائیں آپ خود ہی دیکھ لیں
آپ کو بھی دیکھ کر ہوجائے گا اس کا یقین
اُن کی یہ خدمات ہیں سود و زیاں سے بے نیاز
ہے یہ ترویجِ ادب کا کارنامہ بہترین
خدمتِ اردو ہے روحانی غذا اُن کے لئے
اپنی تہذیب و ثقافت کے ہیں وہ برقیؔ امین

Ahmad Ali Barqi Azmi Paying Poetic Compliment To Janab Sardar Ali Admin https://sherosokhan.net/ For His Services To The Cause Of Urdu Language And Literature Through His Website And Also Reciting His Ghazal In The Monthly Literary Meet Of Ghalib Academy New Delhi

مجاز کی زمین میں ایک غزل (نذرِ مجاز ) احمد علی برقی اعظمی






یک زمین کئی شاعر
احمد علی برقی اعظمی اور مجاز لکھنوی
مجاز لکھنوی

تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی، وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی، واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے

آشفتگیِ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں، ہم رازِ تبسّم پا بھی گئے

رُودادِ غمِ الفت اُن سے، ہم کیا کہتے، کیوں کر کہتے
اِک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

اربابِ جنوں پر فرقت میں، اب کیا کہیے، کیا کیا گزری
آئے تھے سوادِ الفت میں، کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے

یہ رنگِ بہارِ عالم ہے، کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تری سونی نہ ہوئی، کچھ اُٹھ بھی گئے، کچھ آ بھی گئے

اِس محفلِ کیف و مستی میں، اِس انجمنِ عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے، ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

مجاز کی زمین میں ایک غزل (نذرِ مجاز )
احمد علی برقی اعظمی

وہ ایک جھلک دکھلا بھی گئے،وعدوں سے ہمین بہلا بھی گئے

اک لمحہ خوشی دےکر ہم کو،برسوں کے لئے تڑپا بھی گئے

دیدار کی پیاسی تھین آنکھیں،کچھ دیر وہ کاش ٹھہر جاتے

اک چشمِ زدن میں ایسے گئے،ہم کھو بھی گئے اور پا بھی گئے

آنکھوں مین شرابِ شوق لئے،دروازۂ دل سے یوں گذرے

میخانۂ ہستی مین آکر ،وہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

ہے رنگِ مجاز بہت دلکش،جو شعرو سخن میں تھے یکتا

اپنے اشعار سے جو سب کو ،بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

کچھ دیر انہیں نہ لگی برقی،آئے بھی اور گذر بھی گئے
وہ غنچۂ دل کو کھلا بھی گئے،جو کِھلتے ہی مُرجھا بھی گئے


اردو زبان و تہذیب کے سب سے بڑے جشن ’جشن ریختہ ‘ کی آمد · پانچویں جشن ریختہ کی سہ روزہ تقریبات ۱۴۔۱۵۔۱۶ دسمبر کو میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم ، دلی میں منعقد ہوں گی۔







اردو زبان و تہذیب کے سب سے بڑے جشن ’جشن ریختہ ‘ کی آمد

·      پانچویں جشن ریختہ کی سہ روزہ تقریبات ۱۴۔۱۵۔۱۶ دسمبر کو میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم ، دلی میں منعقد ہوں گی۔
·      جشن کا افتتاح ۱۴ دسمبر کو  معروف اور مقبول روحانی  پیشوا مراری باپو  کریں گے۔
·      افتتاح کے بعد  جشن کی تقریبات  کا آغا ز معروف صوفی موسیقی کار اور  قوال وڈالی صاحبان   کی پیشکش سے ہوگا۔
·      جشن میں ہر بار کی طرح اس بار بھی ادب ، فلم ،تھیٹر  اور  آرٹ  کی دنیا سے اہم ترین شخصیات شامل ہورہی ہیں، جن میں خاص طور پر  معروف فکشن نویس  اقبال مجید ،  گوپی چند نارنگ،شارب ردولوی ،شمس الرحمان فاروقی، شمیم حنفی،رتن سنگھ، پروشتم اگروال، جاوید اختر  ، شبانہ اعظمی، مالنی اوستھی ،وشال بھاردواج، استاد اقبال احمد خان،انو کپور، گائتری اشوکن ، وارثی برادر،نوراں سسٹر ، قابل ذکر ہیں۔
·      خواتین فن کاروں کی بھر پور نمائندگی کے لیے ’خواتین کا مشاعرہ‘ جشن ریختہ کی تقریبات کا اہم حصہ ہے۔
·       اردو تہذیب کے مخلتف رنگوں اور ذائقوں کو نمایاں کرنے کے لیے اردو بازار بھی جشن کی ایک خاص پیشکش ہوگی۔
·      ’ایوان ذائقہ ‘کھان پان کے شوقین لوگوں کے لئے ایک مخصوص مقام ہوگا، جس میں کشمیری،حیدر آبادی ، لکھنوی اور پرانی دلی کے پکوانوں کی بہار ہوگی۔
·      جشن ریختہ میں داخلہ مفت ہوگا ، صرف رجسٹریشن لازمی ہے، جو جشن ریختہ ویب سائٹ یا تقریب کے مقام پر کیا جا سکتا ہے

(نئی دہلی  ۱دسمبر ۲۰۱۸) پانچویں جشن ریختہ کی سہ روزہ  تقریبات کا آغاز ۱۴ دسمبر سے دلی کے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے جارہا ہے۔ جشن ریختہ اپنی گزشتہ چار تقریبا ت  کی غیر معمولی کامیابی کے سبب دنیا بھر میں اردو زبان و تہذیب کے سب سے بڑے جشن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس بار پھر سال کے اختتام پر یہ جشن دلی اور باہر کے لوگوں کے لیے اردو زبان ،ادب اور تہذیب کو قریب سے جاننے اور اس کے  مختلف ذائقوں کو محسوس کرنے کا سبب بنے گا۔
۱۴ دسمبرشام چھ           بجے معروف روحانی شخصیت مراری باپو جشن کا افتتاح کریں گے ۔اس کے بعد انتہائی مقبول صوفی موسیقی کار اور قوال وڈالی صاحبان اپنے نغموں سے رونق بخشیں گے۔ ۱۵ اور ۱۶ دسمبر   کو ادبی مذاکرے، داستان گوئی،چہار بیت، ڈراما، قوالی،غزل سرائی ،نوجوان شاعروں کی محفل ، خواتین کا مشاعرہ ،تمثیلی مشاعرہ، خطاطی،فلم اسکرینگ اور بہت سی دلچسپ تقریبات  کے ذریعے اردو زبان اور اس کے تہذیبی رنگوں  کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔جشن میں ہر بار کی طرح اس بار بھی ادب ، فلم،تھیٹر  اور  آرٹ  کی دنیا سے اہم ترین شخصیات شامل ہورہی ہیں، جن میں خاص  طور پر  معروف فکشن نویس  اقبال مجید ،  گوپی چند نارنگ،شارب ردولوی،شمس الرحمان فاروقی، شمیم حنفی،ذکیہ مشہدی ،رتن سنگھ، پروشتم اگروال، صدیق الرحمان قدوائی ،سدھیر چندرا،جاوید اختر  ، شبانہ اعظمی، مالنی اوستھی ،وشال بھاردواج، استاد اقبال احمد خان،انو کپور، محمود فاروقی ،جاوید جعفری ،گائتری اشوکن،شروتی پاٹھک، وارثی برادر،نوراں سسٹر ، قابل ذکر ہیں۔
جشن  میں ہر سال کی طرح اس سال بھی چار اسٹیج ہوں گے اور چاروں پر ایک ساتھ الگ الگ رنگ اور ذائقے بھرے پروگرام چل رہے ہوں گے۔ ۱۵ تاریخ کوبزم خیال یعنی  آڈیٹوریم میں اردو پریمیوں کے لیےممتاز فکشن نویس اقبال مجید  اور رتن سنگھ کو سننا ایک یاد گار تجربہ ہوگا ۔اس کے بعد گوپی چند نارنگ فیض احمد فیض  کی زندگی اور ان کے عشق  پر بات کریں گے ،وہیں  محفل خانے میں جاوید اختر اور شبانہ اعظمی جانثار اختر اور کیفی اعظمی کی زندگی اور شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔اسی دن چہار بیت بھی جشن ریختہ کی ایک خاص پیشکش ہوگی۔ ہندی سے پروشتم اگروال اورعبدل بسم اللہ معروف ٹی وی میزبان دبانگ کے ساتھ کبیر کی روحانی وراثت اور ان کے انہد ناد پر بات کریں گے۔
اس بار جشن میں ایک اہم گفتگو ادب کے سماجی رشتے کے حوالے سے بھی ہوگی۔ اس سیشن میں معروف نقاد شارب ردولوی ، علی احمد فاطمی او ر ہندی کے معروف شاعر  اسد زیدی شامل رہیں گے۔ اگلے دن کی شروعات دلی گھرانے کے استاد اقبال احمد خاں کے صوفی کلام سے ہوگی ۔ اسی کے ساتھ فارسی اور سنسکرت کے رشتوں پر ایک گفتگو میں اہم علمی و ادبی  شخصیات شامل رہیں گی۔ممتاز نقاد شمس الرحمان فاروقی  محمود فاروقی کے ساتھ انتظار حسین کی کہانیوں پر بات کریں گے۔صوفی  موسیقی کے شائقین کے لیے وارثی برادران اور نوراں بہنوں کو سننے کا بھی  ایک خاص موقع ہوگا۔ساتھ ہی  معروف فلم اداکار   اور موسیقی کار انو کپور مجروح سلطان پوری کی زندگی، شاعری اور ان کے نغموں پر مشتمل  ایک بہترین پروگرام پیش کریں گے۔عسکری نقوی کی سوز خوانی اور مالنی اوستھی کے فوک نغمے اور موسیقی کا لطف بھی خاصے کی چیز ہوگی۔ اس سب  کے علاوہ متعدد علمی و ادبی شخصیتیں جشن کی رونق میں اضافہ کریں گی۔
اردو تہذیب اور کلچر کی نمائندگی کے لیے اردو بازار  کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے ،جس میں اردو تہذیب کی یادگاروں کو نمائش اورخرید و فروخت کے لیے پیش کیا جایے  گا۔ کھان پان کے شوقین لوگوں کے لیے ایک فوڈ کورٹ بھی لگایا جا رہا ہے جس میں کشمیری،حیدر آبادی ، لکھنوی اور پرانی دلی کے پکوانوں کی بہار ہوگی۔
جشن ریختہ کے موقعے پر ریختہ فاؤنڈیشن کے بانی سنجیو صراف کا کہنا ہے کہ ’’ہماری کوشش ہر ممکن ذریعے سے اردو زبان  و تہذیب  کو فروغ دنیا ہے۔ ریختہ ویب سائٹ کے ساتھ جشن ریختہ کی تقریبات  بھی ہماری انہیں کوششوں کا حصہ ہیں۔ گزشتہ چار  برس میں جشن ریختہ  کو  ملی بے پناہ کامیابی  اور ہر طبقے و عمر کے لوگوں میں اس کی مقبولیت نے ہمارے ارادوں کو مضبوط کیا ہے۔اس سال بھی ہم پوری توانائی  کے ساتھ  اس جشن کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے  کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ جشن  اردو کی مٹھاس  اور اس کی تہذیب میں پوشیدہ یگانگت کے پیغام کو دور تک لے کر جائے گا‘‘۔



اردو کی شہرۂ آفاق ویب سایٹ ریختہ کی علمی و ادبی خدمات پر منظوم تاثرات
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
ریختہ جس کا بڑا نام ہے کیا عرض کروں
یہ ہمارے لئے انعام ہے کیا عرض کروں
فالِ نیک اس کاہے اردو کے لئے اپنا وجود
جس کا فیضانِ نظر عام ہے کیا عرض کروں
آپ خود دیکھ لیں کہنے پہ نہ جائیں میرے
وہ بھی اس میں ہے جو گُمنام ہے کیا عرض کروں
میرا مجموعۂ اشعار ہے اس کی زینت
بادۂ شوق کا یہ جام ہے کیا عرض کروں
اپنی میراثِ ادب کرتے ہیں کیسے محفوظ
اِس کا سب کے لئے پیغام ہے کیا عرض کروں
کسی مسلم کو نہ دی اِس کی خدانے توفیق
آپ بھی دیکھ لیں کیا کام ہے کیا عرض کروں
یہ کُتبخانۂ معروف ادب کا برقیؔ
ایسی اک جلوہ گہہِ عام ہے کیا عرض کروں


شہرۂ آفاق اردو ویب سایٹ ریختہ ڈاٹ او آرجی کے بانی اور روح رواں جناب سنجیو صراف کی نذر
احمد علی برقیؔ اعظمی
مستحق اعزاز کے ہیں ایس صراف
ریختہ ہے جن کی منظورِ نظر
ہے یہ ویب سایٹ نہایت معتبر
اس لئے ہے مرجعِ اہلِ نظر
کارنامہ ہے یہ اک تاریخ ساز
ہے جو نخلِ علم و دانش کا ثمر
پیش کرتا ہوں مبارکبا د اسے
اس کا جلوہ ہر جگہ ہو جلوہ گر
ہو چکے ہیں اس کے اب تک چار جشن
جشن پنجم سے بھی سب ہوں بہرہ ور
جاری و ساری ہو اس کا فیض عام
اس کے ہوں مداح برقیؔ دیدہ ور

    





DarakhshaN Siddiqi is Reciting Dr. Barqi Azmi's Ghazal at Ghalib Academy of Canada's Annual Tarhi mushaera which took place on 18th November, 2018 in Canada.