مرکزِ ادب فی البدیہہ واٹس ایپ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی سب کا ہے جو حکمراں اُس حکمراں تک جائے گی


مرکزِ ادب فی البدیہہ واٹس ایپ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
سب کا ہے جو حکمراں اُس حکمراں تک جائے گی
میری آہِ آتشیں یہ آسماں تک جائے گی
ہے اگر بارِ سماعت اُن کو تو ہوتی رہے
بات پہنچاؤں گا میں اپنی جہاں تک جائے گی
کوچہ و بازار میں وردِ زباں ہو جاؤں گا
’’
کیا پتہ تھا اپنی رسوائی وہاں تک جائے گی ‘‘
جس کو دیکھو عہدِ نو میں مصلحت اندیش ہے
بات نکلی ہے تو پھر سود و زیاں تک جائے گی
دیتا ہے ہربات کا میری نفی میں جو جواب
جانے کب تک یہ نہیں بھی اُس کی ہاں تک جائے گی
جنگ کرنے کا ارادہ ہے تو پہلے سوچ لیں
یہ تباہی جنگ کی آہ و فغاں تک جائے گی
مطلعِ انوار ہے جو میری یادوں کی برات
روشنیٔ فکر و فن وہ کہکشاں تک جائے گی
زال دنیا تھک کےخود لوٹ آئے گی برقی کے پاس
جارہی ہے جانے دو آخر کہاں تک جائے گی


شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں