تبصرہ ’’ صریر خامہ ‘‘ صاحبہ شہریار ( شعری مجموعہ ) مبصر : فاروق ارگلی

‘‘تبصرہ ’’ صریر خامہ 
صاحبہ شہریار ( شعری مجموعہ ) 
مبصر : فاروق ارگلی
عہدِ حاضر کی ایک قادرالکلام اور خوش فکر شاعرہ کی حیثیت سے محترمہ صاحبہ شہریار کا نام نامی محتاجِ تعارف نہیں۔ گذشتہ دو عشروں کے دوران اردو کے شعری افق پر نمایاں ہونے والی شاعرات کی صف میں صاحبہ کو خاصا اہم مقام حاصل ہے۔اب تک اُن کے چار خوبصورت شعری مجموعے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔برگِ چنار ، شاخِ لرزاں ، آگہی کا درد اور صریر خامہ کو ادبی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی اور پسندیدگی حاصل ہوئی ہے۔صریر خامہ صاحبہ شہریار کا تازہ ترین مجموعہ ہے جو ابھی حال ہی میں اشاعت پذیر ہوا ہے۔ ان کے اس شعری مجموعے کو ان کے سابقہ مجموعوں کی طرح ارباب فکر ونظر نے نسائی ادب میں قابلِ قدر اضافہ قرار دیا ہے۔لیکن اس جگہ یہ عرض کرنا ناگزیر ہے کہ بحیثیت شاعرہ اردو دنیا میں صاحبہ کو دوسری مشہور و معروف ہم عصر شاعرات کی طرح عوامی شہرت حاصل نہیں ہوئی جس کی وہ مستحق ہیں ۔اس کی وجہ بھی بیحد خاص ہے۔ در اصل صاحبہ ایسی محفلوں اور مشاعروں میں شرکت نہیں کرتیں جہاں عام سامعین کا مجمع ہواور شاعرات شعرا کے ساتھ اسٹیج پر اپنا کلام سناتی ہیں۔صاحبہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، سلیقہ شعار اور باحیا مشرقی خاتون خانہ ہیں ۔انہوں نے اس حد تک اپنے خاندانی اور سماجی وقار اور روایات کی پاسداری کی ہے کہ اپنے شعری مجموعوں تک میں اپنی تصویر شایع نہیں کرائی ۔صاحبہ نے اپنی شاعری اور تخلیقی ریاضت کو اپنی زبان اور تہذیب سے والہانہ لگاؤ ، ذوق و شوق اور اپنے جذبات و احساسات کے ذاتی وسیلے تک محدود رکھا ہے۔شعر و ادب کا یہ ذوق و شوق انھیں اپنے بزرگوں سے ورثہ میں ملا ہے۔ اردو زبان سے محبت ، لہجے کی سلاست اور فصاحت انھیں اپنے اہلِ علم گھرانے سے حاصل ہوئی ہے۔ان کے والد جناب مہندر رینا کشمیر کے معروف شاعر ، ادیب، صحافی اور دانشور تھے ۔ ان کی پرورش وادئ کشمیر کی کی حسین و جمیل وادیوں میں ہوئی، علمی ادبی ماحول میں ہوش سنبھالا اور شعرو ادب کے ماحول میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ موزوں طبع تھیں لہذا اوائلِ عمر سے ہی شعر کہنے لگیں۔ ذہن و شعور کی پختگی کے ساتھ ساتھ فنی ریاضت بھی بالیدہ ہوتی گئی۔خوش نصیبی سے شریک حیات جناب فیاض شہر یار بھی نہایت اعلیٰ علمی و ادبی ذوق کے مالک ہیں ۔ در اصل شہریار صاحب ہی ان کے پہلے سامع ، ناقد اور مشیر سخن ہیں سو کلام کو نکھرنا ہی تھا۔زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں اور گِردوپیش کی زندگی کے مشاہدات و محسوسات نے انھیں ایک حساس اور جذباتی شاعرہ بنانے میں اہم کردار عطا کیا ہے۔او ر آج ہم صاحبہ کو اپنے عہد کی ایک شاعرہ کے روپ میں دیکھ رہے ہیں جس کے یہاں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایک باکمال غزل گو سے عبارت ہے۔ صاحبہ کے تیسرے مجموعے آگہی کا درد کے پیش لفظ میں اکتشافی تنقید کے عظیم نقاد ، ممتاز دانشور جناب حامد کاشمیری نے صاحبہ کی شاعری کے بارے میں بالکل درست فرمایا ہے۔ 
’’ آگہی کا درد میں ایک خود آگاہ عورت کا کردار اُبھرتا ہے جو حد درجہ دردمند اور حساس ہے۔ وہ گرد و پیش کے معاشرے میں اونچ نیچ کے پیدا کردہ انسانی دکھ کو شدت سے محسوس کرتی ہیں۔خاص طور پر صاحبہ کی نظرطبقۂ نسواں کی بے چارگیوں اور مایوسیوں پر مرکوز رہتی ہے۔ اور اس دکھ کو ذاتی سطح پر محسوس کرتی ہے، وہ اپنی شخصیت کے تحفط کے لئے رومانی خوابوں ، آرزوؤں کی حسین وادیوں ، فطرت کے حسین مناظر اور رشتوں کی پاگیزگیوں میں پناہ لینے کی کوشش کرتی ہیں۔لیکن یہ رویہ دور تک فن کا ساتھ نہیں دیتا اور وہ خوابوں کی شکست سے دوچار ہوتی ہیں اور ان کی المناکی فزوں تر ہوتی ہے ۔ اس طرح خواب اور شکستِ خواب ان کے شعری رویے کی پہچان ہے۔ ‘‘
یہ خواب اور شکستِ خواب کی پہچان ان کے اس تازہ شعری مجموعے ’’ صریر خامہ ‘‘ میں شامل غزلوں میں بھی برقرار ہے جن میں داخلی کرب، ، شدتِ جذبات اور زندگی کی سچائیوں کو گہرے تک لینے کی فطری صلاحیت پوری آب و تاب سے جلوہ فگن ہے۔صاحبہ کی شعر گوئی کا خاص وصف یہ ہے کہ ان کے یہاں آورد کا شائبہ نہیں ہے ۔ اشعار میں تصنع اور لسانی کاریگری بھی نہیں ہے۔ان کی زبان بالکل سادہ، صاف ستھری اور آسان ہے وہ جو کچھ کہتی ہیں خیالات کے وفور اور ذہن کی وجدانی کیفیت میں شعر کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے، سہلِ ممتنع میں ایسی فطری شاعری غزل کا حسن بن کر دلوں میں گہرے اُتر جانے کی قوت حاصل کرلیتی ہے۔ صریر خامہ کی ایک سو سات غزلوں میں ایک محبت کرنے والی جذباتی عورتت کے جذبات ، ہجر و وصال کا کیف و کرب ، محرومی و کامرانی ، غم و خوشی ہر طرح کی کیفیات کی بھر پور عکاسی کے ساتھ ساتھ عصری حسیت اور زندگی کے نشیب و فراز کو ایک دوربیں شاعر کی نگاہ سے دیکھنے کی وہ خوبیاں موجود ہیں جو شاعرہ کے فن کو اعتبار بخشنے کے لئے کافی ہیں۔ صاحبہ کی یہ خوبی ان کے سابقہ مجموعوں کی طرح ’’ صریر خامہ ‘‘ میں مزید پختگی کے ساتھ واضح ہوتی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ صاحبہ جو کچھ کہتی ہیں غزل کے تلازمات اور فنی ضابطوں کی پاسداری کے ساتھ ساتھ بالکل سیدھے اور صاف اسلوب میں کہتی ہیں ۔ ان کے کلام میں کہیں گھماؤ پھراؤ یا الجھاؤ نہیں ہے۔ ان کے یہاں فلسفہ اور منطق نہیں ہے لیکن ان کے دل سے جو بات نکلتی ہے بالکل سیدھی اور سچی ہوتی ہے، اسے انسانی زندگی کا فلسفہ کہہ سکتے ہیں۔ صاحبہ نے اپنے اس مجموعۂ غزلیات کا عنوان ’’ صریر خامہ ‘‘ غالبؔ کے اس مشہور شعر سے عمداََ مستعار لیا ہے ۔
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں 
اور اس لحاظ سے کتاب کا یہ نام اسم با مسمیٰ سمجھا جا سکتا ہے کہ صاحبہ نے ارادتاََ مضمون سوچ کر اور قافیہ ردیف کی بندشوں میں غزلیں نہیں تراشیں ، غیب سے جو خیال آیا شعر بن کر بزمِ شعور میں آراستہ ہوتا گیا۔صاحبہ کا کمال فن یہ بھی ہے کہ ان کے اشعار کسی تجزئے ، تشریح یا صراحت کے محتاج نہیں ، مختلف رنگوں کے چند شعر دیکھ لیں میری گفتگو کی تصدیق ہوجائے گی۔
ہراک سے محبت سے پیش آؤ زمانے میں 
جینے کا مرے دل نے اک رستہ دکھایا ہے
قدم قدم پہ وہ اپنی روش بدلتا رہا 
یہ اور بات کہ وہ ساتھ میرے چلتا رہا 
میں ڈھونڈتی ہی رہی آئینے میں عکس اس کا 
ہر ایک لمحے میں وہ آئینے بدلتا رہا 
موج سے موج ملے گی تو بدل جائے گا وقت 
جو ہے زوروں پہ یہ سیلاب اُتر جائے گا
محبت زندگی میں اب کہاں ہے 
یہ دنیا کس قدر آزارِ جاں ہے
باطل کو کسی طور بھی حق کہہ نہیں سکتے
کیا کیجئے ہم کو یہ دکھاوا نہیں آتا
ذات کو اپنی زمانے سے چھپا کررکھا 
اس حقیقت کو بھی افسانہ بنایا میں نے
یہ کسی روز بدل دیں گے نظامِ دنیا 
ان غریبوں کو ابھی محوِ فغاں رہنے دے
صاحبہ اہلِ سیاست نہیں بدلیں گے کبھی
یہ بدل دیتے ہیں کیوں اپنا بیاں رہنے دے
صاحبہؔ غم کی یہ سوغات کسے ملتی ہے
درد کی دنیا سے میں ہنس کے گزر جاؤں گی
بحیثیت مجموعی صاحبہ کا یہ مجموعہ صریر خامہ ہر لحاظ سے اردو کے شعری سرمائے میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے ۔ پیپر بیک میں دیدہ زیب سرورق ، خوبصورت کمپوزنگ ، اور اچھے کاغذ پر شائع ہونے والے صریر خامہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہندی رسم الخط میں اس کا علٰحدہ ایڈیشن بھی ایک ساتھ شائع ہوا ہے۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں