ہفتہ وار 151 واں طرحی و تنقیدی مشاعرہ:ادارہ :عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری پروگرام آرگنائزر:جناب توصیف ترنل ہانگ کانگ رپورٹ: امینؔ جس پوری


ہفتہ وار 151 واں طرحی و تنقیدی مشاعرہ:ادارہ :عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
پروگرام آرگنائزر:جناب توصیف ترنل ہانگ کانگ
رپورٹ: امینؔ جس پوری
-------------------------------------
آج مورّخہ 28 اپریل 2018ء بروز ہفتہ کو بوقتِ شام 7 بجے ادارہ : عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کا 151 واں ہفتہ وار شاندار عظیم الشّان طرحی مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ اس مشاعرے کاا شتہار ادارے کی جانب سے مورّخہ 27 اپریل 2018 کو جاری کیا گیا 
۔ جس کے مطابق مصرعۂ طرح: مرزا غالبؔ کے اس شعر سے اخذ کیا گیا۔
"نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
یعنی برائے مصرعۂ طرح:
"بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
کو منتخب کیا گیا۔غالب کی اس زمین کے افاعیل:مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ،قوافی:ہم، کم دم، خم وغیرہ اور ردیف: نکلے، قائم کی گئی۔ مشاعر ے میں شرکاء کے لئے دیگر تفصیلات اس طرح جاری کی گئیںکہ:
" شعراء حضرات 7 یا 9 /اشعار پر مشتمل اپنا مکمل کلام مشاعرے کی وال پر پیش فرمائیں ۔ نیز 28 /اپریل 2018 بروز ہفتہ کو شام( 00-7بجے) دورانِ مشاعرہ بھی پیش فرمائیں ۔ اسی شب 12 بجے تک ملنے والے منتخب کلام کو تزئین کاری کے بعد شائع کیا جائے گا۔ خیال رہے،آپ کے کلام پر ناقدین، تنقید بھی فرمائیں گے۔ جس کی رپورٹ عالمی ماہنامہ "آسمانِ ادب" شمارہ مئی 2018ء میں شائع کی جائے گی۔" علاوہ ازیں مشاعرے کی دیگر تفصیلات حسبِ ذیل رہیں:
ادارہ :عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے 151 ویں ہفتہ وار مشاعرے کی صدارت آل انڈیا ریڈیو نشریات فارسی برائے ایران(بھارت) کے شعبہ فارسی کے سابق انچارج ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے فرمائی۔ لیکن مشاعرے میں بطورمہمانانِ خصوصی: پروفیسر رضیہ سبحان کراچی پاکستان اور محترمہ سیما گوہرؔ (بھارت) کو مدعو کیا گیا اور بطورمہمانِ اعزازی": اتّراکھنڈ اردو اکادمی کےسابق ایکزیکیوٹو ممبر جناب امینؔ جس پوری صاحب (بھارت ) سے شامل رہےلیکن اس مخصوص انعقاد میں طرحی کلام پر تنقید کی ذمّہ داریاں جن قابل قدر ناقدین کے سپر فرمائی گئیں ان کے اسمائے گرا ہیں جناب مسعود حساس بھارت، اور محترم ضیا ؔشادانی بھارت۔ مشاعرےکے جملہ پہلوؤں کو بحسن و خوبی اور بڑی چابکدستی کے ساتھ اپنے زبردست نظامت سے جناب علیم طاہر/ بھارت نے حسنِ آہنگ بخشا اور مشاعرے کی دل کشی اور جاذبیت کو اپنے منفرد دعوتِ کلام کے د ل نشین اندازسے چار چاند لگا دیئے۔ 
چونکہ مشاعرے کا منصوبہ نہایت چابکدستی سے تیار کیا گیا تھا۔ کلام پیش فرمانے کے لئے ہر سخنور کا مقام طے کر دیا گیا تھا، لیکن افسوس بعض ارضی علاقوں میں موسم کی خرابی، بارش ژالہ باری،آندھیوں اور تیز ہواؤںکے سبب نیٹ ورک بحال نہ رہنے کی وجہ سے بعض شعرا کی پیش کش موخّر و مقدّم ہو گئی اسی سبب ناقدین حضرات کے لئے ہر کلام کے بعد فوراً تنقید کے مواقع بھی ضائع ہو گئے۔ اس پروگرام کو آن لائن جن احباب نے دیکھا سنا اس میں شریک ہوئے وہ پہلی نظر میں ناکام قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ پروگرام کے شرکاء نیٹ کی عدم بحالی کے سبب اپنی صورت حال اور مشاعرے کی کاروائی سے بروقت واقف نہ رہ سکے اور اپنی صورت حال کو طے نہ کرنے کے سبب اپنا کردار بروقت ادا نہ کر سکے۔ لیکن اس رپورٹ سے اندازہ ہوگا کہ یہ پروگرام کتنا شاندار تھا۔ کیونکہ حسب توقع مگر بے ترتیب سبھی احباب نے دل و جان سے پروگرام میں شرکت فرمائی اور بیش تر کلام پر زبردست تنقید بھی پیش کی گئی جسے اصحابِ کلام نے خندہ پیشانی سے قبول فرمایا۔
جملہ پرستارانِ اردوکے اس مخلص تعاون سے ادارہ: عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کو اپنی کاوشوں کی کامیابیوں کا جہاں یقین ہوا وہیں مزید دلجمعی سے ادارے کے کارکنان اور اراکین انتظامیہ میں مزید جوش و خروش اور ولولوں کے ساتھ انہماک کے ساتھ کام کرنے اور اردو کی ترویج کا جذبہ پروان چڑھا۔ ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری اپنے جملہ معاونین کو حقائق کے روبرو کرانا چاہتا ہے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ اسی خیال کے مدِّ نظر یہ خصوصی رپورٹ آپ کی نذر ہے 
ناظرین! آپ اس رپورٹ کو ملاحظہ فرما کر ادارے کی انتظامیہ کو بھی مطلع فرمائیں کہ ادارے کی کاوشیں کہاں تک کامیاب رہیں۔ اور ہماری کوتاہیاں کیا کیا رہیں۔ اس رپورٹ میں شعرا کے کلام اور اس پر کی گئی تنقید کو منصوبے کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے۔ مشاعرے میں شرکت فرمانے والے ادب نواز شعراء کے اسمائے گرامی، حسبِ مراتب، حسبِ ذیل ہیں۔ 
1۔صدر:محترم احمد علی برقی اعظمی بھارت
2-مہمانِ خصوصی محترمہ رضیہ سبحان کراچی پاکستان
3-مہمانِ خصوصی محترمہ سیما گوہرؔ بھارت
4-مہمان اعزازی محترم امین ؔجس پوری صاحب بھارت
5-تنقید نگارمحترم مسعود حساس بھارت
6-تنقید نگار محترم ضیا شادانی بھارت
7-ناظمِ مشاعرہ محترم علیم طاہر بھارت 
https://static.xx.fbcdn.net/images/emoji.php/v9/fd6/1.5/16/2712.png8-نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی(انڈیا)
9-محترم علیم طاہر بھارت 
10-محترم احمد کاشف مہاراشٹر۔انڈیا
11-محترم عثمان محمود صاحب آزاد کشمیر
12-محترم علی اکبر، پاکستان
13-محترمہ گل نسرین پاکستان
14-محترم عبدالحمید صفی ربانی پاکستان
16-محترم نصیر حشمت گرواہ پاکستان 
16-محترم اصغر شمیم،کولکاتا ،انڈیا
17-محترم ملک سکندر چنیوٹ پاکستان
18-محترم خاور چشتی پاکستان
19- محترم سید انوار زینؔ 
20- محترم امیر الدّین امیرؔ بیدر کرناٹک(بھارت)
21- محترم شکیل انجم مینا نگری
22-ڈاکٹر شاہد رحمٰن، فیصل آباد
-------------------------
مشاعرے کا آغازکرتے ہوئے ناظمِ مشاعرہ جناب علیم طاہر صاحب نےاعوذ ب اللہ و بسم اللہ شریف کی تلاوت کے بعد مشاعرے کے اشتہار میں پیش کی گئی تفصیلات کو بیان کیا۔
شام 7 بجتے ہی جناب توصیف ترنل صاحب نے آن لائن حاضر ہو کرمشاعرے میں شرکت فرمانے کے متمنّی احباب کو آن لائن حاضر ہو جانے اور اپنی موجودگی سے با خبر کرانے کے لئے مسیج کے ساتھ وائس کلپ بھی پوسٹ کیا۔ جس پر مشاعرے کے رپورٹر امینؔ جس پوری نے سب سے پہلے لبّیک کہتے ہوئے جملہ متوقع شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے استقبالیہ کلمات پوسٹ کئے اور اپنی آن لائن موجودگی کو یقینی بنا دیا۔ تب تک جناب توصیف ترنل صاحب ادارے کی جانب سے استقبالیہ اشتہار بھی پوسٹ کر چکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جناب صدر ڈاکٹر احمد علی برقی صاحب نے ان منظوم کلمات کے ساتھ اپنی موجودگی کو یقینی بنا دیا:
آپ کی برقیؔ نوازی کا نہایت شکریہ
دے جزائے خیر اس کی آپ کو پرور دگار
آج کی بزمِ ادب میں سب کا استقبال ہے
جو کریں گے پیش اس میں اپنے ادبی شاہ کار
اور اسی کے ساتھ جناب توصیف ترنل صاحب نے مشاعرے کے باقاعدہ آغاز کے لئے نعتِ پاک پیش فرمانے کے لئے جناب احمد کاشف ؔصاحب کو مدعو فرمایا اور بغیر کسی تاخیر کے جناب احمد کا شف صاحب نے اپنی یہ نعتِ پاک پوسٹ فرمائی:
نعتِ پاک
عشق کا سرمہ تو آنکھوں میں لگا
پھر بتا طیبہ تجھے کیسا لگا 
غیر بھی اخلاق کے ہیں معترف
آپ کا حسنِ عمل ایسا لگا
اے شبِ معراج تجھ پہ ہو سلام 
ہٹ گیا جو بیچ تھا پردا لگا
واپسی سورج کی یا شق القمر
آپ کا ہر معجزہ پیارا لگا
نعتِ احمد لکھی تو ہٹتا گیا
سرحدوں پر سوچ کی پہرا لگا
چاند سورج کہکشاں پھیکے لگے
نور شاہِ دو سَرَا اچھا لگا
احمد کاشف مہاراشٹر(انڈیا)
---------------------
نعت ِ پاک کو سراہا گیا اور سبحان اللہ اور مشا اللہ کے کلمات پوسٹ ہوتے رہے۔ اور مناسب وقت کے بعد ثانی نعتیہ کلا پیش فرمانے کے لئے جناب توصیف ترنل صاحب نے جناب عثمان محمود صاحب کشمیر، کو دعوتِ نعت پاک دی۔ جناب عثمان محمود صاحب نے اپنا یہ مبارک کلا م پوسٹ فرمایا:
نعت پاک
چشم و جگر کی،قلب کی،سینے کی آبرو
نعتِ نبی سے ہے مرے جینے کی آبرو
روضہ بہشت ہے،سو ہے دل میں اِسی لیے
جنت سے بڑھ کے اُن کے دفینے کی آبرو
گرداب میں گِھرے نہ مری ناؤ اب کہیں
آقا! بچا لیں میرے سفینے کی آبرو
نعتِ نبی ہے میرا خزانہ، سو حشر تک
ہوتی رہے گی میرے خزینے کی آبرو 
پھولوں کے باب سے یہ کُھلا ہے، گُلاب میں
رکّھی خدا نے اُن کےپسینے کی آبرو
عشقِ رسول دل میں رکھو، بغض سے بچو
ہوتی نہیں ہے دین میں کینے کی آبرو
عثمان! احتیاط سے بولو یہاں سدا
اس بارگاہ میں ہے قرینے کی آبرو
عثمانؔ محمود آزاد کشمیر
اس نعتِ پاک کی توصیف و تحسین فرماتے ہوئے جناب صدرنے یہ شعر پوسٹ کیا:
ہے یہ دلکش نعتِ محبوبِ خدا
دے جزائے خیر رب العالمین 
نعت کو احباب کی جانب سے احباب کی کافی پزیرائی حاصل ہوئی۔ ان مقدّس کلام کی برکات کے ساتھ طرحی مشاعرے کا بہاریہ دور کا آغاز محترمہ گلِ نسرین صاحبہ پاکستان کو دعوتِ کلام دیتے ہوئے جناب توصیف صاحب نے فرمایا:
اب میں دعوتِ کلام دیتا ہوں ایک ایسی کوتری/ شاعرہ کوجنہیں آپ پہلےسے بخوبی جاتے ہیںمحترمہ گلِ نسرین،پاکستان، آپ اچھی اور منجھی ہوئی مشاق ناظمِ مشاعرہ بھی ہیں، ہمارے پروگراموں کی نظامت بھی فرما چکی ہیں ساتھ آپ کے ہسبینڈ محترم علی اکبر صاحب کو بھی درخواست کرتا ہوں کہ آپ بھی اپنا کلام پیش فرمائیں دونوں ہسبینڈ وائف کا پرجوش خیرمقدم کیا جاتا ہے اداریہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے پلیٹ فارم پر۔ 
اور محترمہ گلِ نسرین صاحبہ نے اپنا یہ طرحی کلام پوسٹ فرماتے ہوئے مشاعرے کو روانی بخشی:
غزل
1-محترمہ گل نسرین پاکستان
بہت ہی نامرادی کے بھنور سے ہو کے ہم نکلے 
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے 
صلہ اس نے ہمیں اکثر دیا ہے یوں وفاؤں 
وفا کی سر زمینوں پر وفاداروں کا دم نکلے 
کبھی جو بے دھیانی میں ذرا سی آنکھ بھی جھپکی 
تری یادوں کی بارش کے وضو میں وہ بھی نم نکلے 
فراقی پانیوں میں بھی بغاوت کا ہنر جاگا 
یزیدی لشکروں سے حر کبھی جو کھا کے خم نکلے 
پیاسے تھے حسینی سب ،پیاسا ہے مرا من بھی 
شہادت کے لہو سے گل پیاسوں کا ہی دم نکلے
٭
اس کلام پر محترم ناقد جناب ضیاؔ شادانی صاحب نے تنقید فرماتے ہوئے کہا: محترمہ گلَ نسرین صاحبہ کی طرحی غزل نظر کے سامنے ہے۔مطلع کہنے کی بہت اچھی کوشش کی ہے ایک ہی مصرع کہہ کر انھوں نے غالبؔ کے مصرعے کو اپنا لیا۔ اچھا مطلع ہو گیا ہے۔ مبارکباد! لیکن محترم ضیاؔ شادانی صاحب دقت ِنظر کے سبب محترمی گل نسرین صاحبہ کے کلام کو حقیقی طور پر پڑھ نہیں سکے اس لئے بعض اشعار پر تنقید نہیں فرما سکے۔ مگر کچھ اشعار مبہم بھی تھے جن تنقید سے محروم رہ گئے۔ ٹائپنگ کی اس کوتاہی کو اپنی ایک وائس کلپ میں محترمی گل نسرین صاحب نے بھی قبول فرماتے ہوئے معذرت طلب کی۔ساتھ ہی ترنل صاحب نے محترمہ گلِ نسرین صاحبہ کے شائع ہوچکے شعری مجموعے کی رونمائی کی اطلاع بھی اپنی ایک وائس کلپ کے ذریعے پوسٹ کی۔ کلام پر ضیاؔشادانی صاحب نے مزید تبصرہ فرمایا:
پیاسے تھے حسینی سب ،پیاسا ہے مرا من بھی 
شہادت کے لہو سے گل پیاسوں کا ہی دم نکلے
واہ منظر کشی فرما دی آپ نے،بہت اچھی غزل ہے ۔ مبارکباد!
٭
اور ساتھ ہی جناب علی اکبر صاحب پاکستان ، نے بھی اپنا یہ طرحی کلام پوسٹ فرمایا:
محترم علی اکبر، پاکستان
غزل.
محبت کی کہانی میں کوئی ایسا نہ غم نکلے
خدا جانا جنہیں ہم نے وہ پتھر کا صنم نکلے
جنازہ اپنی حسرت کا اٹھائے اپنے کاندھے پر
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
سہارا بن بھی سکتی ہے ہمارا آج جینے کا
مگر اک آہ سینے سے ہمارے کم سے کم نکلے
خدا کا شکر ہے مشکل گھڑی میں شانا بہ شانا
ہمارے ساتھ چلنے کو بہت اہلِ قلم نکلے
نگاہ رکھتے موبائل پر اگر تھی دیکھنی دنیا
ہماری سادگی کہیے جو لینے جامِ جم نکلے
وجد طاری تمہارے حسن پر ایسے ہمارا ہے
نظر کے اک اشارے سے تری زلفوں کا خم نکلے
گھٹن اتنی کہ دوبھر ہوگیا ہے سانس کا لینا
لحد میں گر گئے اکبرؔ آدم نکلے تو دم نکلے
محترم ناقد ضیاء شادانی صاحب نے فرمایا: علی اکبر صاحب کی غزل نظرکےسامنے ہے
محبّت کی کہانی میں کوئی ایسا نہ غم نکلے
خدا جانا جنہیں ہم نے وہ پتھّر کا صنم نکلے
جنازہ اپنی حسرت کا اٹھائے اپنے کاندھے پر
"بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
بہتر غزل ہے بہر حال کسی کے مصرعے پر کلام کہنے کے لئے اس کے مصرعے کو عزّت دینا لازمی ہے۔چچا تو فرماتے تھے کہ
" نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں ،لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
اچھّی کاوش ہے
سہارا بن بھی سکتی ہے ہمارا، آج جینے کا
مگر اک آہ، سینے سے ہمارے کم سے کم نکلے
بہت اچھّی غزل میرے سامنے ہے یہ:
جو لامحدود رستے تھےفقط دو ہی قدم نکلے
کچھ اس جذبِ محبّت سے تلاشِ جامِ ہم نکلے
نہ جانے بات ایسی کیا ہے، ظالم تیری محفل میں
جسے دیکھو جگر پارہ کئے وہ چشمِ نم نکلے
تجھے زاہد مبارک ہوں تری راتیں عبادت کی
مرےمدہوش سجدوں کو مگر یہ عمر کم نکلے
یہاں ردیف آپ کی کام نہیں کر رہی ہے،عمر کم ہے ، عمر کم تھی یا کم ہوگی، لیکن کم نکلے سے،معافی چاہتا ہوں۔
اے واعظ! مجھ شکستہ دل کا خوں کیوں سر پہ لیتےہو
کہ اس کو بھولنے کی بات پر میرا تو دم نکلے
اسی کلام پر جناب مسعود حسّاؔس صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:اب مرے سامنے یہ غزل جناب علی اکبر صاحب کی پاکستان سے۔
محبّت کی کہانی میں کوئی ایسا نہ غم نکلے
خدا جانا جنہیں ہم نے وہ پتھّر کا صنم نکلے
غم نکلنا، غم کا برآمد ہونا یا، یہ اپنے آپ میں کس طرح کی زبان ہے اس کے تعلّق سے میں لا علم ہوں۔اس لئے اس پر کوئی نقدو جرح کرنہیں سکتااور اگر غم نکلتا ہے ، اردو ادب کے اندر مروّج ہے تو واقعتاًیہ بڑا چھّا مطلع ہےاور پہلے مصرعے کے اندر انھوں نے ایک آرزوبیان کی ہے اور دوسرے کے اندر خدشہ بیان کیا ہے ا ور آرزو اور خدشہ کے اندماج کے ذریعے سے جو مطلع کی تکمیل ہے بڑی خوبصورت ہے۔
جنازہ اپنی حسرت کا اٹھائے اپنے کاندھے پر
"بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
"اپنی حسرت کا جنازہ اٹھانے کے لئے اپنے کاندھے پر" اس میں بے آبرو ہونے کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ تو اس بنیاد پر تضمین کا یہ باہمی اتصال ہو ہی نہیں رہا ہے پہلے مصرعے سے۔ اس لئے اس بنیاد پر اسے کمزور شعر کہا جائے گا۔
٭
سہارا بن بھی سکتی ہے ہمارا، آج جینے کا
مگر اک آہ، سینے سے ہمارے کم سے کم نکلے
واہ بھئی یہ شعر ہے"سہارا بن بھی سکتی ہے ہمارا، آج جینے کا "یعنی"آہ" دیکھا آپ نے!
بغیر کسی لفظ کی موجودگی کے اشارہ"آہ" کی جانب کر دیا گیا ہے۔ اور آخیر کے مصرعے کے اندر لفظِ آہ کو برت کر بتایا گیا ہے کہ واقعی یہ شخص شعر گری کے اوپر قادر ہے۔واہ بھئی واہ۔۔۔
خدا کا شکر ہے مشکل گھڑی میں شانہ بشانہ 
شانہ بشانہ کو دیکھ لیجئے مجھے لگ رہا ہے اس بحر اندر فٹ نہیں آ رہا ہے
ہمارے ساتھ چلنے کو بہت اہلِ قلم نکلے
مفہوم انتہائی خوبصورت ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے تھا س کی وجہ یہ ہے کہ"اہلِ قلم" کو اس خوبصورت کے ساتھ میں مکمّل موضوع کے ساتھ میں مربوط کیا گیا ہے کہ اس سے مفہوم چھَن کے سامنے آیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے دودھیا روشنی ، چاندنی رات میں چھن چھن کے آ رہی ہے۔
نگاہ رکھتے موبائل پر اگر تھی دیکھنی دنیا
ہماری ساگی کہئے جو لینے جامِ جم نکلے
یہاں بھی وہی بات نظر آ رہی ہے کہ موبائل پر نگاہ رکھتے دنیا اگر دیکھنی تھی، ہماری سادگی کہئے جو لینے جامِ جم نکلے۔تو اب جامِ جم کے ساتھ اتنا زیادہ تو مربوط تو نظر نہیں آ رہا ہے ۔ بس یہ ہے کہ بات پوری ہو گئی ہے ،۔ شعر ہو گیا ہے۔ اس لئے کہ جامِ جم کسی بادشاہ کا ہوا کرتا تھا اس میں پوری دنیا دیکھ لیا کرتا تھا وہی صورتِ حال آج موبائل کی ہے اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر دنیا پر نگاہ رکھنی تھی تواپ ڈیٹ کسی چیز کو سامنے رکھ لیتے جامِ جم لینے کی کیا ضرورت، یہ ہماری سادگی تھی۔ اس طرح بات تو پوری ہو گئی ہے لیکن اعلیٰ پیمانے کی کوئی گفتگو نہیں ہو پائی۔
وجد طار ی تمہارے حسن پر ایسے ہمارا ہے
لفظ وَجْد ہے لیکن باندھا گیا ہے وَجَد۔یہاں پر بھی دیکھ لیں، پلیز!
نظر کے اک اشارے سے تری زلفوں کا خم نکلے
یہاں پر بھی قدر تعلّی کا مفہوم پایا جا رہا ہے اورخوبصورت مفہوم ہے کہ نظر کے اک اشارے سے تری زلفوں کا خم نکلے۔ نظر کا اک اشارہ ہوا کہ زلفوں کے خم اس کے سامنے سر نگوں ہو گئے۔ یہ بڑا اچھّا لگا۔
گھٹن اتنی کہ دوبھر ہو گیا ہے سانس کا لینا
لحد میں گر گئے اکبرؔ آدم نکلے تو دم نکلے
یہ شعر قدرے غنیمت ہے لیکن بہت اچھّا شعر نہیں کہا جا سکتا۔لیکن بہر حال اس کے اندرجو اہلِ قلم کے ساتھ میں ایک مفہوم لایا گیا ہے وہ بڑا چھّا ہے کاش کہ اس کے اندر شانہ بشانہ کو دیکھ لیا جائے۔
٭
نیٹ کی عدم بحالی کے سبب ناظمِ مشاعری جناب علیم طاہر صاحب کی غیر حاضری کا ازالہ فرماتے ہوئے جناب توصیف ترنل صاحب نے جناب عبدالحمید صفی ربّانی صاحب کو دعوتِ کلام دی اور ربّانی صاحب نے انپے اس طرحی کلام سے مشاعرے کو وقار بخشا
محترم عبدالحمید صفی ربانی پاکستان
غزل
جو لا محدود رستے تھے فقط دو ہی قدم نکلے
کچھ اس جذبِ محبت سے تلاشِ جاں میں ہم نکلے
نہ جانے بات ایسی کیا ہے ظالم تیری محفل کی؟ 
جسے دیکھو! جگر پارہ کیے وہ چشمِ نم نکلے 
تجھے ذاہد مبارک ہوں تری راتیں عبادت کی
مرے مدہوش سجدے کو مگر یہ عمر کم نکلے
اے واعظ! مجھ شکستہ دل کا خوں کیوں سر پہ لیتے ہو 
کہ اُس کو بھولنے کی بات پر میرا تو دم نکلے 
مرا جامِ سفال اب کے بہت سنبھال کر رکھنا! 
عجب کیا ہے کہ فردا میں یہ بھی اک جامِ جم نکلے 
قسم میں توڑ کر اُن کی گیا جب بزمِ رنداں میں
مرے ساقی تو وہ ہی حضرتِ شیخِ حرم نکلے 
صفیؔ! ہے عہد جدت کا مگر ہم راہِ ماضی پر
چلے ہیں جستجو لے کر کہیں باغ ِ ارم نکلے 
اس کلام پر محترم ضیاؔء شادانی صاحب کی تنقید ملاحظہ فرمائیں۔ جناب ضیاؔشادانی صاحب نے فرمایا:بہت اچھی غزل میرے سامنے ہے یہ۔ مطلع خوب ہے۔ظالم کے ساتھ اچھی بات کہی ہے
مرے مدہوش سجدے کو مگر یہ عمر کم نکلے
یہاں پر آپ کی ردیف نے کام نہیں کیا ہے اس پر غور فرمائیں
٭
محترم نصیر حشمت گرواہ پاکستان
میری طرحی کاوش 
نظر پڑتے ہی ہر دھڑکن رکے اور سب کا دم نکلے 
اچانک بن سنور کے گھر سے جو میرا صنم نکلے 
نجانے کس لیے اک میری الفت کو نہیں سمجھا 
بنا میرے تمہارے واسطے سب محترم نکلے 
نہ اس کے بعد آئی ہم میں ہمت سر اٹھانے کی 
"بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
یقیناً مجھ تلک پھرکوئی بھی غم نہ پہنچ پائے 
مری قسمت میں جو یا رب ترا لطف و کرم نکلے 
تمہیں ملنےسے پہلےمیں بہت زیادہ تھا افسردہ 
تمہیں دیکھاتو میرےدل سےسب رنج والم نکلے 
بہاروں کی انا لوٹے ، خزاؤں کا بھرم ٹوٹے 
جو قدرت مہرباں ہو تو ہر اک ذرہ ہی نم نکلے 
نصیراس شخص کوجنت ملےگی رب کاوعدہ ہے 
اسی کی راہ میں نکلےہیں جب اس کےقدم نکلے 
نصیر حشمت گرواہ چنیوٹ پاکستان
٭
محترم اصغر شمیم،کولکاتا ،انڈیا نے اپنا یہ کلام پیش فرمایا:
غزل
کرم ان کا ہزاروں پر مرے حصے ستم نکلے
بھری محفل سے ان کے آج پھر حیران ہم نکلے
جسے دیکھو وہ آسانی سے دنیا چھوڑ جاتا ہے 
کہیں ایسا نہ ہو کے سخت مشکل اپنا دم نکلے
بھلا کب تک سہوں گا درد یہ تنہا جدائی کا 
کبھی کچھ تو ہمارا ان کی آنکھوں سے بھی غم نکلے
جہاں میں لوگ کچھ ایسے بھی آئیں ہیں نظر مجھ کو
اندھیری رات میں لے کر دیا وہ چشم نم نکلے
ذرا سا عیب ان کا ہم نے ان کو کیا دکھایا کے
سنا ہے آئینہ لے کر وہ میرے ہم قدم نکلے
بہت امید لے کر آئے تھے اس بزم میں ان کی
بڑے بے آبرو ہو کر بھری محفل سے ہم نکلے
دھڑکتا دل یہ اپنا لے کے آخر میں کدھر جاؤں 
جدھر بھی میں گیا اصغرؔ تو پتھر کے صنم نکلے
ادارے آرگنائز جنا توصیف ترنل صاحب نے تنقید نگار جناب مسعود حسّاؔس صاحب کو جناب اصغرؔ شمیم صاحب کے کلام پر تنقید کے مدعو فرمایا۔ جناب مسعود حسّاؔس صاحب نے اپنے بیباک تنقید اور اپنے آن لائن تاخیر سے حاضر ہونے کی وضاحت اور معذرت طلب کے ساتھ فرمایا:
کرم ان کا ہزاروں پر مرے حصے ستم نکلے
بھری محفل سے ان کے آج پھر حیران ہم نکلے
دونوں مصرعوں کے درمیاں کوئی ایسا تفاہم نہیں پایا جاتاکہ جس کی بنیاد پر اس کو شعر تسلیم کیا جائے اور دوسری اہم بات یہ کہ پہلے مصرعے کے درمیان میں ہزاروں پر مرے، یہ مرے مؤخّر اور پر کا مقدّم ہو جانا یہاں پر زبان مکمّل طور پرمجروح ہو چکی ہے،کرم ان کا ہزاروں پر، مرےحصّے ستم نکلے،اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ "پر" لفظ استثناء ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ مستثنیات بیان کر رہے ہیں تو بھی یہ بات ثابت نہیں ہو پا رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ما فی الضّمیر کی ادائیگی یہاں اس بنیاد پر کجی کا شکار ہو رہی ہے۔ کرم ان کا ہزاروں پر مرے حصے ستم نکلے"تو یہاں یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ" کرم ان کا ہزاروں، پر مرے حصّے ستم نکلے"تو لا جلا کر مطلع میری سمجھ سے بالا تر ہے
٭
محترم ملک سکندر چنیوٹ پاکستان
عدد میں گرچہ سب سے کم مرے سارے ہی غم نکلے
ترازو میں جو پہنچے تو کسی سے بھی نہ کم نکلے
"بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
ترے ارمان تو نکلے ترے سینے کے غم نکلے
مرے تو خون میں شامل اخوت کا یہ جزبہ ہے 
کسی کی آنکھ دکھتی ہے تو میری آنکھ نم نکلے
یہی دستور رائج ہے زباں بندی کا عالم میں 
اِدھر سقراط نکلا تو ادھر سے رسمِ سَم نکلے
ہماری ناخدائی کا ہنر موجوں سے جا پوچھیں
سمندر دیکھ لے کشتی تو اس کے دم سے دم نکلے
بتانے کو تعلق ان گنت یاروں کا تھا ہم سے
نبھانے کو ہزاروں میں بھی اپنے کم سے کم نکلے
ہمارے عزم کی ہیبت سے رستے کھول دیں سینہ
کہ ہم جب اک قدم نکلیں تو منزل دو قدم نکلے
فغاں بلبل کی ، پروانے کا جلنا ہے بجا لیکن
سبھی کے غم ملا کر بھی ہمارے غم سے کم نکلے
خزاں سے زرد پتوں کا تو گرنا سب نے دیکھا ہے
چمن میں لٹ گئے جو ہم ، بہاروں کے کرَم نکلے
میں کس کے نام پر لکھوں سکندرؔ مرثیہ اپنا
کہ قاتل کی طرفداری میں منصف کے قلم نکلے
ملک سکندر،چنیوٹ ۔ پاکستان 
نے بھی تاخیر سے یہ کلام پوسٹ فرمایا:
محترم خاور چشتی پاکستان 
غزل
محبت کے جہاں میں تھے بہت سے پیچ و خم نکلے
اداسی نے ہمیں گھیرا یے یوں لگتا ہے دم نکلے
کہیں سے کوئی بھی امید بر آتی نہیں دل کی
جنہیں ہم جاں سمجھتے تھے وہ پتھر کے صنم نکلے
بہت ہی شور تھا خطرہ ہے جاں کا لوٹ جاؤ تم
کہیں کچھ بھی نہیں تھا سب رقیبوں کے بھرم نکلے
منانے کو تمہیں آئے تھے سوچا لے کے جائیں گے
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
بہت مشکل ہوا جینا تمہارے بن او جانِ جاں
کبھی جرات نہیں تھی جن کی وہ میرے قدم نکلے
بڑے انداز سے جب وہ حسیں تھامے مجھے آ کر
گلے میں سانس رک جائے لگے جیسے کہ دم نکلے
پڑے مشک کبھی خاورؔ تو ہو جاتے ہیں اپنے گم
ہوئے جو ذات پر میری، مرے رب کے کرم نکلے
٭
جناب سید انوار زینؔ کا کلام بھی تاخیر کی نذر ہو گیا تھا
غزل
کہاں پہ زندگی روٹھے کہاں پہ اب یہ دم نکلے
جہاں پہ بھی یہ دم نکلے وہیں مرا صنم نکلے
مچلتی ہیں تری سانسیں نظر کو گدگداتی ہیں
بہکتی سانس سے تیری بدن کے زیر و بم نکلے
رہے ہیں وحشتوں میں ہی ہمارے روز و شب جن میں
بکھرتی سی تری زلفوں کے سارے پیچ و خم نکلے
تری ہی یاد سے آباد رہتا ہے دلِ ویراں
تری ہی یاد کے بادل ہمارے ہم قدم نکلے
تمہارے اشک بھی جیسے ہماری آنکھ میں سمٹے
ہماری آنکھوں کے گوشے ہجر میں کب نہ نم نکلے
ذرا سی کیا ملی فرصت ادھم سا مچ گیا دل میں
ادھر سے کوئی غم نکلے ادھر سے کوئی غم نکلے
بنے تھے آئینہ ٹوٹے تو بکھرے اس طرح سے ہم
یہاں سے زینؔ ہم نکلے وہاں سے زینؔ ہم نکلے
٭
امیر الدّین امیرؔ بیدر کرناٹک(بھارت)صاحب نئ اس طرحی کلام کے ساتھ مشاعرے کو وقار بخشا:
بڑی ہی جستجو میں جانبِ منزل قدم نکلے 
بہت دشوار لیکن راستے کے پیچ وخم نکلے 
بھٹکتے ہی رہے صحرا بہ صحرا گھر نہ پہنچے ہم 
جنونِ عشق میں جب بھی ترے کوچے سے ہم نکلے 
سمجھتا تھا کوئی اسباب ہیں ویرانیء دل کے 
مگر دل کو ٹٹولا جب تو سب تیرے ہی غم نکلے 
بھٹکتا پھر رہا ہوں سر پٹکتا دشتِ وحشت میں 
خدایا کاش !اس وحشت کے عالم میں دم نکلے 
تمنا ہے تمہارے سایۂ گیسو میں رہ جاؤں 
خدایا! دل کی یہ اک آرزو تو کم سے کم نکلے 
امیرؔالدین امیر اس بات پر حیرت ہوئی لیکن 
ستم سے بھی زیادہ مجھ پہ کچھ اُن کےکرم نکلے
٭ 
مشاعرے کو روانی بخشتے ہوئے جناب توصیف ترنل صاحب نے فرمایا:اب دوبارا چلتے ہیں مسعودحسّاؔس صاحب کے پاس دیکھتے اگلی غزل پر وہ کیا تنقید فرماتے ہیں۔باقی دوست احباب بھی پروگرام سماعت فرما رہے ہیں۔میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، سردار امجد صاحب یو کے سے سماعت فرما رہے ہیں ،آتشؔ اعظمی صاحب بھی سن رہے ہیں توجہ دے رہے ہیںاور کشمیر سے نازؔ مظفّر آبادی صاحب سن رہے ہین۔ اِدھر ہانگ کانگ سے محمّد علی صاحب سن رہے ہیں باقی دوست احباب ابھی صبح کے وقت آن لائن نہیں ہوں گے جب وہ آن لائن ہوں گے امّید ہے چیک کریں گے۔وہ اپنے خیالات کا ظہار بھی کریں گے۔اگر آپ کو ہمارا یہ پروگرام برائے تنقید پسند آ رہا ہے تواسے آگے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں۔ ملاحطہ فرمائیں اگلے کلام پر تنقید۔
امیر الدّین صاحب امیرؔ
بڑی ہی جستجو میں جانب منزل قدم نکلے
بہت دشوار لیکن راستے کے پیچ و خم نکلے
جناب مسعود حسّاؔس صاحب نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ جنا ب امیرؔ الدّین امیرؔ صاحب اپنے مطلعےکے اندراپنی صلاحیت کے مطابق مفہوم کو نہیں پِرو پائے ہیں۔ہم جس مقام پر حضرت کو سمجھتے ہیں اس مقام کے اعتبار سے یہ مطلع بہت کمتر درجے کا ہے۔:"بڑی ہی جستجو میں" بڑی ہی جستجومیں"یہ جوپہلا ہی جملہ ہے یہ آدھا جملہ اگر دیکھ لیں، مصرعے کا آدھا حصّہ دیکھ لیںتو یہاں پر محسوس ہوتا ہے کہ زبان سکڑ رہی ہے۔اور زبان کے نادر چاشنی جو ان کے یہاں آتی ہے وہ چاشنی اپنے شباب پر نہیں ہے۔
بڑی ہی جستجو میں جانبِ منزل قدم نکلے، جبکہ یہ جستجو یہاں پر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ان کا مفہوم بتا رہا ہے کہ جوش و ولولے کی بات کر رہے ہیںاور لفظ"جستجو" لے آئے ہیں۔
بہت دشوار لیکن راستے کے پیچ و خم نکلے۔
٭
محترم شکیل انجم مینا نگری نے اپنے اس عمدہ طرحی کلام کے ساتھ باوقار شرکت فرمائی: 
غزل 
عجب رشتوں کے خم نکلے، عجب دل کے بھرم نکلے
جنھیں اہلِ کرم جانا، وہی اہلِ ستم نکلے
معزز دور میں ہم اس لیے بھی محترم نکلے
خزانے میں ہمارے جو فقط کاغذ قلم نکلے
رچی جب جب بھی خوشیوں نے ہمارے قتل کی سازش
حفاظت میں ہماری بارہا رنج و الم نکلے
وہ منہ کے بل گرے جو امتحاں لینے کو آئے تھے
محبت میں تو ہم ان سے بھی آگے دو قدم نکلے
بزرگوں کی ڈپٹ اور ڈانٹ نے مجھ کو سنوارا ہے
ستم جن کو سمجھتا تھا مرے حق میں کرم نکلے
خوشی کے درمیاں نکلے کہ نکلے درمیانِ غم
یہی ہے آرزو ایمان کے بستر پہ دم نکلے
صبا کی خوش بیانی پر کمر بستہ ہوئے لیکن 
ہوا نے قہر برسایا، جدھر اپنے قدم نکلے
یہی ہے خوابِ حسن و عشق کی تعبیر محفل میں
جلے وہ شمع کچھ ایسی کہ پروانے کا دم نکلے
وہاں پانی کی ارزانی ، جہاں دریا بہے انجمؔ 
غنیمت ہے یہاں بھائی اگر مٹی بھی نم نکلے
شکیل انجم مینانگری جلگاؤں 
٭
ڈاکٹر شاہد رحمٰن، فیصل آباد اپنے اس گراں قدر کلام کے ساتھ شریکِ مشاعرہ ہوئے۔
نظر میں روشنی لے کر یہاں پر لوگ ہی کم نکلے
محبت کا کوئی جادو دکھا کر ہم نہ تم نکلے
نہ نقش پا ملا ہے اور نہ صورت دکھائی دی
تلاشِ یار میں اک عمر سے دیکھو ہیں ہم نکلے
کہیں تتلی کہیں بلبل کہیں پھولوں نے گھیرا ہے
چمن میں سیر کرنے کو ادھر جیسے ہی ہم نکلے
یہاں ہر شخص کو شاہدؔ بہت جلدی تھی آنے کی
سامان زندگی لے کر نہ ہم نکلے نہ تم نکلے
٭
جناب علیم طاہر صاحب ناظم مشاعرہ نے جناب امین جس پوری کو مدعو فرمانے کے لئے 
یہ تمہیدیہ اشعار پڑھے
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کے پیار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصوّر کا فریبِ رنگ و بو
مَیں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
اس طرتح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
اور کہا:جگرؔ مرادآبادی کے ان شعروں سے میں محترم امینؔ جس پوری صاحب، جو بھارت سے تعلّق رکھتے ہیں انتہائی ادب و احترام سے انھیں آوازدے رہا ہوں کہ وہ تشریف لائیں اور اپنی طرحی غزل مشاعرے میں پیش فرمائیں۔
محترم امین جس پوری صاحب بھارت
غزل
جو ہم نے دل میں پالےتھے سبھی سچّے بھرم نکلے
عدو جتنے ملے ہم سےکہاں اہلِ ستم نکلے
جو تھے نا آشنا مجھ پر ستم کرتے تو کیوں کرتے
مری بربادیوں میں آشناؤں کے کرم نکلے
جو میخانے کو نکلا تھا اسے لے آئے مقتل تک
نہایت کار آمد اپ کے نقشں قدم نکلے
فقیہوں نے گنہگاروں میں ہم کو کر دیا شامل
خدا کی آرزو ہم کیا لئے سوئے عدم نکلے
رہے کافر کے کافر کچھ نمازِ عشق پڑھ کر بھی 
بتوں کی بار گہہ میں سجدہ رو اہلِ حرم نکلے
شکایت کس سے کرتا منصفوں کی میں عدالت میں
جو ان کے جرم تھے وہ نام پر میرے رقم نکلے
دیا کرنے کو روشن جن کے گھر ماچس نہ ہوتی تھی
رئیسِ شہر کا کہنا ہے ان کے گھر سے بم نکلے
دھرم کے نام پر غارت گری کرتے ہیں وہ اکثر
توقّع دل میں کیا کیا لے کے پہنچے تھے ترے درتک
"بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے"
فضاؤں میں سسکتی چاندنی کا درد کیا بکھرا
ہراک غنچے کے گل کے صبح دم رخسار نم نکلے
امین جس پوری کے کلام کو دادو تحسین سئ نوازتے ہوئے صدرِ محترم جناب برقی اعظمی صاحب نے فرمایا:
عصری حسّیت کا آئینہ دار بہترین اور استادانہ کلام ہے۔
امینؔ جس پوری کے رنگِ سخن میں دل کشی ہے۔
پیش کرتا ہوں مبارکباد میں اس کے لئے
ادارے کے آرگنائزر جناب توصیف ترنل نے جناب مسعود حسّاسؔ صاحب کو امینؔ جس پوری کے کلام پر تنقید کے لئے مدعوکیا۔ امین جس پوری کے کلام کو جناب مسعود حسّاؔس صاحب نے اپنے ان ادبی گہرہائے کمیاب سے اعزاز بخشا ۔
امینؔ جس پوری صاحب کی غزل ہے۔ امینؔ جس پوری صاحب نستعلیق شخصیت کے مالک ہیں بڑے اچھّے غزل گو ہیں، نثّار ہیں،تنقید نگار ہیں، کرم فرما ہیں۔اپنے چھوٹوں کو بہت آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کی غزل کے اندر فن بولتا ہے۔فلسفہ اپنے اونچے مقام پرہوتا ہے، زبان پرگرفت اعلیٰ پیمانے کی ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس مقام پر پہنچ کرآنحضرت کلام کرتے ہیں اس مقام پر ہمارے جیسوں کے پہنچنے کی اکّا دکّا شعر میںاک آرزو اور تمنّا ہی ہوا کرتی ہے۔یہ ہمارے کرم فرماؤں سے ہیںاور یہ ہمارے وقت کے کہئے کی شاہکار ہیرا جواہرات میں سے ہیں۔امینؔ جس پوری صاحب کا اپنا ایک مقام ہے۔اس معنیٰ آپ سے مری سےپہلے مری گفتگو ہوا کرتی تھی، لیکن دو چار سال ہو گیا پانچ سال، جب سے میں شعروشاعری سے برگشتہ ہوا تب سے آنحضرت سے نیاز بھی نہ ہو سکی۔بہر حال امینؔ جس پوری صاحب، السّلام علیکم!
تمام سامعین کو بھی میری جانب سے سلام اور اللہ آپ لوگوں کو جزائے خیر دے کہ آپ لوگ مجھے ا س لائق سمجھتے ہیں کہ مری لا اُبالی پن کی باتوں کو بھی اچھّا تصوّر کرتے ہیں۔
امین جس پوری صاحب کامطلع ہے :
جو ہم نے دل میں پالےتھے سبھی سچّے بھرم نکلے
عدو جتنے ملے ہم سےکہاں اہلِ ستم نکلے
امینؔ جس پوری صاحب کو جو میں ان کے تعلّق سے ان کو تھوڑا سا بریف کر رہا تھا، بریف کرنے کا مطلب بھی تھاکچھ۔ اس لئے کہ جس پائے کی وہ شخصیت ہیں اس پائے کا مطلع نہیں ہو پایا۔اچھّا مطلع کیوں نہیں ہو پایا ہے اس کے کچھ اسباب ہیں ۔
نمبر-1: جو ہم نے دل میں پالےتھے سبھی سچّے بھرم نکلے، ہم نے دل میں پالے تھے وہ بھرم سبھی کے سبھی سچّے نکلے۔یہ ہے اس کی نثر۔ بڑی بات یہ ہے کہ دل میں ہی پالے جاتے ہیں بھرم،پران میں نہیں پالے جاتے ہیں۔پاؤں میں نہیں پالے جاتے ہیں۔اگر آپ نے بھرم ہی کہہ دیا تھا تو دماغ میں آ چکی تھی بات کہ وہ دل میں ہی پلا ہوا ہے اور جب آدمی بھرم پال لیتا ہے تو دل میں ہی پالتا ہے۔اس کو حاصلِ محصول کہیں گے۔تو یقینی طور پر ایک سبب یہ ہے کہ جس کی بنیاد پر میں کہوں گا کہ مطلع الوئے مرتبت سے خالی ہے ان کے اعتبار سے۔
عدو جتنے ملے ہم سےکہاں اہلِ ستم نکلے،
عدو جتنے بھی ملے ہیں وہ اہلِ ستم نہیں نکلے۔عدو جتنے ملے ہم سےکہاں اہلِ ستم نکلے، لفظی استفہام ہے"کہاں" اور اس استفہام کے ذریعے جملہ کو استفہامیہ بنا کر اسے انکاریہ بنایا گیا ہے۔ اسے نافیہ بنایا گیا ہےاور دوسری بات یہ ہے کہ عمومی طور پر عدو کے تعلّق سے جو بھرم پالا جاتا ہے وہ تو مکّاری کا،وحشی پن کا ہی پالا جاتا ہے لیکن حضرت نے اس کے بر عکس یہاں پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ چیز بھی میں اس میں ایڈ کروں گا کہ یہ وہ اسباب نہیں جن کی بنیاد پر میں کہوں گا کہ ا مینؔ جس پوری صاحب کی جو اپنی شخصیت ہے جس کے لئے وہ جانے جاتے ہیں۔جس کی بنیاد پر ہم انھیں لائق و فائق تصوّر کرتے ہیں اس پائے کا یہ مطلع نہ رہا۔
٭
محترمہ سیما گوہر بھارت نے اپنے معیاری کلام سے مشاعرے کی زیب و زینت کو دوبالا کر دیا:
غزل
یہ کیسی رات آئی آنکھ سے پھر کچھ اشک نم نکلے
لو پھر سے گُونجتے اس ذہن میں اُن کے ستم نکلے
جنھیں مُدت ہوئی تھی بھول کر پھر بھی نجانے کیوں
یہ کیسے درد تھے پیوست دل میں اب بھی ضم نکلے
مٹا ڈالا ہے جس کی چاہتوں میں خود کو اے ہم دم! 
وہ تھے نزدیک دل کے جانے کیوں پھر بے رحم نکلے
منایا خود کو پھر سے لوٹ آئے تری اُلفت میں
ترے کوچے سے جب بھی زخم کوئی لے کے ہم نکلے
کدورت کچھ تو کم ہو گی مرے زخموں کی اب گوہرؔ
چلو آنکھوں کے رستے آج پھر کچھ درد و غم نکلے
محترمہ سیما گوہر صاحبہ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے جناب مسعود حسّاسؔ نے فرمایا:
سیماؔ گوہر صاحبہ کی غزل ہے۔سیما گوہر صاحبہ، اچھی خاتون ہیں۔ایک دو دفع مجھ سے بھی بات ہوئی ہے بہت محبّت اور اپنائیت سے بات کرتی ہیں اور لوگوں کے مراتب کو پہچانتی ہیں۔حسبِ مرتبت گفتگو کرتی ہیںاور جو آدمی حسبِ مراتب اور حفظِ مراتب کا خیال کرے وہی شعر بھی کہنا صحیح جان سکتا ہے۔اس لئے کہ وہ لفظوں کی حرمت کو پہچانتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ کس لفظ کو کہاں پہ رکھا جائے۔کس حرف کی تقدیم سے کیا معنیٰ ہو جائیں گےکس حرف کی تاخیر سے کیا معنیٰ تبدیل ہو جائیں یہ ساری چیزیں وہ جانتا ہوگا۔سیما گوہر ؔ صاحبہ ان ہی میں سے ایک ہیں۔
سیما گوہرؔ صاحبہ کی غزل:
یہ کیسی رات آئی آنکھ سے پھر کچھ اشک نم نکلے
مرا خیال ہے کہ "پھر" یہاں پہ تو نہیں آنا چاہئے
یہ کیسی رات آئی آنکھ سے کچھ اشک نم نکلے
لو پھر سے گُونجتے اس ذہن میں اُن کے ستم نکلے
تو پھر میرا خیال ہے کہ لفظ"پھر"غلطی سے ٹائپ ہو گیا ہے ورنی غزل بے بحری نہیں ہے۔
یہ کیسی رات آئی آنکھ سے کچھ اشک نم نکلے
سیما گوہرؔ صاحبہ معاف کیجئے گا،اس لفظ کے لئے، مطلع آپ کے قد کا نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشک ہوگا وہ نم ہی ہوگا۔اشک ایسا تو نہیں کہ خشک ہوگا۔تو اشک جو ہوگا وہ نم ہی ہوگا نہ۔تو اشک ظاہر سی بات ہے ایک سیّال مادّہ ہے۔تو بہر حال آپ مطلعے پر دوبارا غورکریں۔
عدد میں میں گرچہ سب سے کم مرے سارے ہی غم نکلے
ترازو میں جو پہنچے تو کسی سے بھی نہ کم نکلے
اچھّا تو یہاں بات ہو رہی ہے کمیّت کیاور پھر اس کے بعد میں اس کی ثقالت کی۔تو یہاں پرکوالٹی اور کوانٹٹی سے گفتگو کی گئی ہے۔ سبحان اللہ اچھا لگا۔اوسط درجے کا مطلع۔
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
ترے ارمان تو نکلے ترے سینے کے غم نکلے
یہ پتہ نہیں کیا کہنا چاہ رہے ہیں
مرے تو خون میں شامل اخوّت کا یہ جذبہ ہے
کسی کی آنکھ دکھتی ہے تو میری آنکھ نم نکلے
یہی دستور رائج ہے زباں بندی کا عالم میں
ادھر سقراط نکلا تو ادھر سے رسمِ سم نکلے
پرانا مفہوم ہے نئے طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کہ اس کے اندر سلاست و صلابت آئی ہی نہیں۔
٭
محترمہ رضیہ سبحان کراچی پاکستان اپنے گراں قدر کلام سے اس مشاعرے کو معیار کی بلندیوں سے ہم کنار کرتے ہوئے وقار عنایت فرمایا۔ 
غزل
خوشی سمجھا کئے جس کو وہ سارے اشکِ غم نکلے
کبھی نہ زیست کی زلفوں سے پھر تو پیچ و خم نکلے
لبِ دریا پہ رہ کر بھی ہماری پیاس قائم تھی
کہ اپنے دل میں کچھ ارمان ایسے تھے جو کم نکلے
کہاں ہم اور کہاں ہم پر محبت کی یہ برساتیں
کہ اپنے بخت میں تو آپ سے پتھر صنم نکلے
بساطِ زندگی پر چال مہروں نے عجب کھیلی
کئی دشمن ملے ایسے جو اپنے ہم قدم نکلے
کوئی منزل تو وہ بھی ہو جہاں پر خامشی ٹوٹے
کبھی تو آپ کا بھی روبرو اپنے بھرم نکلے
خبر کیا ہے تمھیں کیونکر یہ ٹوٹا مان اپنا جب
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
مہمانِ خصوصی کے کلام کو منظوم داد پیش کرتے ہوئے جناب صدر برقی اعظمی صاحب ان الفاظ سے نوازا:
خوب ہے رضیہؔ کا معیاری کلام
ان کے حسنِ فکروفن پر آفریں
رضیہ سبحان صاحبہ کی غزل پر جنا ب مسعود حسّاؔس کی مختصر تنقید ان الفاظ پر مستعمل رہی:رضیہ سبحان صاحبہ کی غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی سمجھا کئے جس کو وہ سارے اشکِ غم نکلے
کبھی نہ زیست کی زلفوں سے پھر تو پیچ و خم نکلے
یعنی جسے ہم خوشی سمجھ رہے تھے وہ سارے اشکِ غم نکلے۔اچھّا ۔۔۔!غم کے بھی اشک ہو تے ہیں۔چلیے! اچھّا زاویہ(خوشی کے آنسو ہو سکتے ہیں تو غم کے آنسو بھی ہو سکتے ہیں۔ممکن ہےیہاں رضیہؔ صاحبہ نے ا سی رعایت کے سبب اشکِ غم استعمال کیا ہو گا۔) 
کبھی نہ زیست کی زلفوں سے پھر تو پیچ و خم نکلے
کبھی نہ، نا ہو گیا ہے۔ اس لئے یہاں زبان کی لطافت مجروح ہو رہی ہے۔
کبھی نہ زیست کی زلفوں سے پھر تو پیچ و خم نکلے
اگر کبھی لوگوں کو ایسا محسوس ہو جائے میں اپنی جانب سے ایک مشورہ دے رہا ہوں۔کبھی یہ محسوس ہو جائے کہ لفظِ نا ہی لانا اور دو حرفی لانا ہے تو اس صورت میں آپ ن اور ے ، نے بنا دیجئے، فارسی کا ہو جائے گا۔وہ فارسی کا شعر ہے نہ کہ
بر غریبِ ما مزارا نے صدائے بلبلے
ایسا کوئی شعر ہے، صحیح سے یاد نہیں آ رہا ہے، بہر حال ایسا کچھ شعر ہے یاد تھا بھول گیا ہوں
بر غریبِ ما مزارا نے صدائے بلبلے
ایسا کسی نے کہا تھا تو لفظِ نے آ یا ہوا ہے وہ نا مے معنی میں ہی ہوتا ہے لیکن وہ فارسی سے ہوتا ہے اور درست ہوتا ہے۔جب جب آپ اردو کے اندر لفظِ نہ استعمال کریں ایک حرفی ہوگا دو حرفی کبھی نہیں سکتا۔
کبھی نہ زیست کی زلفوں سے پھر تو پیچ و خم نکلے
پیچ و خم کا نکلنا بڑا خوبصورت ہے اور چونک اس کی نفی ہو رہی ہے اور آدمی اپنے آپ کی اپنی زندگی کی کسمپرسی کو درشا رہا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کی بنیاد پرغزل کو اچھّا کہا جانا چاہئے۔مفہوم کو اچھّا کہا جانا چاہئے غزل ۔کہاں سے کہہ دیں گے آپ۔
لبِ دریا پہ رہ کر بھی ہماری پیاس قائم تھی
کہ اپنے دل میں کچھ ارمان ایسے تھے جو کم نکلے
بہت خوب اچھّا ہے شعر۔۔۔۔۔
کہاں ہم اور کہاں ہم پر محبت کی یہ برساتیں
کہ اپنے بخت میں تو آپ سے پتھر صنم نکلے
یہ بھی شعر ہو ہی گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بساطِ زندگی پر چال مہروں نے عجب کھیلی
کئی دشمن ملے ایسے جو اپنے ہم قدم نکلے
واہ واہ واہ۔ یہ شعر ہے صاحب بالکل نیا زاویہ ہے۔جب کہیں پہ چونکانے والی بات آتی ہے تو ایک دم سے دل اچھل جاتا ہے بلّیوں اچھلنے لگتا ہے۔بساطِ زندگی پر چال مہروں نے عجب کھیلی۔
مہروں نے۔حالانکہ ہونا چاہئے کہ مہروں والوں نے۔لیکن انھوں نے مہرہ ہی کہہ دیا یہ بھی مبالغے کا صیغہ استعمال کیا۔مبالغے کا زاویہ لیا ہے مبالغے کا خوبصورت ترین بات ہوئی
کئی دشمن ملے ایسے جو اپنے ہم قدم نکلے
اور کئی دشمن ملے ایسے جو میرے ہمقدم نکلے۔
٭
1۔صدر:محترم احمد علی برقی اعظمی بھارت
نیٹ ورک کی عدم بحالی کے چلتے ایک بار پھرجناب توصیف ترنل صاحب نے نظامت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے فرما یا:اب میں دعوتِ کلام دینا چاہوں گاآج کے اس پروگرام کے صدرِ مشاعرہ آج کے پروگرام کے مہر منوّرمحترم احمد علی برقیؔ اعظمی صاحب جوآپ بھارت سے تعلّق رکھتے ہیں اور آل انڈیا ریڈیو نشریات فارسی برائے ایران(بھارت) کے شعبہ فارسی کے سابق انچارج رہے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ تشریف لائیں اور اپنے گراں قدر کلام کو شیئر فرمائیں ۔ موسٹ ویلکم ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی صاحب!
صاحب صدر جنا ب احمد علی برقیؔ اعظمی صاحب!یو ںگویا ہوئے!
السّلام علیکم احباب! آج کا دارۂ بیسٹ اردو پوئیٹری کا151 واں مشاعرہ، ماشا اللہ بہت کامیاب رہا۔اب دہلی سے احمد علی برقیؔ اعظمی کا خطبۂ استقبالیہ اور خطبۂ صدارت سماعت فرمائیں۔
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے ۱۵۱ ویں،طرحی مشاعرے کیلئے 
احمد علی برقی ؔ اعظمی کا منظوم خطبۂ صدارت
بیسٹ اردو شاعری کی بزم تھی یہ کامیاب
قائم و دایم رہے اس کی ہمیشہ آب و تاب
مصرعۂ غالب پہ کی ہر شخص نے مشقِ سخن
اردو دنیا میں نہیں ہے آج تک جن کا جواب
کارآمد اس میں تھا نقدِ سخن کا سلسلہ
تاکہ اصلاحِ سخن سے ہو سکیں سب فیضیاب
دی بقدرِ ظرف سب نے سب کے فکر و فن کی داد
ندرتِ فکر و نظر اشعار میں تھی لاجواب
تھے شریکِ بزم جو بھی مبتدی و مُنتہی
شاعری میں منعکس تھا ان کی، ذہنی اضطراب
تھی حدیثِ حُسن بھی عرضِ ہُنر سے آشکار
بیشتر غزلوں میں عصری کرب کی تھی بازتاب
دلنشیں توصیف ؔترنل کا ہے ادبی ذوق و شوق
ہے امیںؔ جس پوری کی تزئین کاری لاجواب
کرتی ہے اعزاز سے یہ بزم ان کو بہرہ ور
جن کا معیارِ سخن ہوتا ہے اس میں انتخاب
میں سبھی احباب کا اس کے لئے ممنون ہوں
ہے صدارت بزم کی میرے لئے عزت مآب
اختلافَ رائے مُثبت ہو اگر، ہے دلنشیں
کھولتی ہے بزم یہ، برقی ؔ !درِ دانش کے باب
بیسٹ اردو شاعری کی بزم تھی یہ کامیاب
قائم و دایم رہے اس کی ہمیشہ آب و تاب
والسّلام
جناب توصیف ترنل صاحب نے مشاعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا۔تھینک یو سومچ جناب احمد علی برقی اعظمی صاحب۔ میں ممنون و شکر گزار ہوں۔جناب صدر محترم احمد علی برقی صاحب نے اپنے اس گراں قدر کلام سے مشاعرے کو وقار بخشا
غزل
جدھر سے شاد و خرم ہوکے شیخِ محترم نکلے
’’ بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے ‘‘
اُلجھ کر رہ گیا میں ان کو سُلجھانے کی کوشش میں
بہت دشوار زلفِ خَم بہ خَم کے پیچ و خم نکلے
ابھی تک ہم سمجھتے تھے جنھیں درد آشنا اپنا
ہمارا ناک میں کرنے وہی احباب دَم نکلے
کھٹکتے تھے جو مثلِ خار اب تک اُن کی آنکھوں میں
بہ اندازِ دِگر کرنے اُنھیں پر وہ کرم نکلے
تُلے ہیں جو سزا دینے کو جُرمِ بے گُناہی کی
پٹاخے رکھ کے میرے گھر میں وہ کہتے ہیں بَم نکلے
وہ کرکے چند سکوں کے لئے ایمان کا سودا
چِلَم بردار بھرنے کے لئے ان کی چِلَم نکلے
بزرگوں کے ہمارے چاٹتے تھے پہلے جو تلوے
نئی تاریخ کرنے کے لئے اپنی رَقَم نکلے
پس از رحلت بھی اُن کے بج رہے ہیں نام کے ڈنکے
جہاں میں دور کرنے جو سبھی کے رنج و غم نکلے
بہت دشوار تھا برقیؔ سفر راہِ محبت کا
ہمارے جادۂ اُلفت میں جس جانب قَدم نکلے
صدر محترم کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب مسعود حسّاؔس صاحب نے محترم برقی اعظمی صاحب کی شخصیت کا خاکہ بھی ان کلمات کے ساتھ پیش فرمایا:
آخیر میں خطبۂ صدارت ہے جو منظوم ہے جناب برقی اعظمی صاحب کا۔ برقی اعظمی صاحب کے کیا کہنے۔ایک زمانہ تھا کہ ہم بے تکلّف دوستوں کے درمیان انھیں طرحی اعظمی کہتے تھے۔اللہ نے ہمارے زمانے کے اندر جتنا پوٹیشیل حضرت علّامہ احمد علی برقی اعظی کے اندر رکھا ہوا ہے شاید باید کسی کے یہاں ہو۔برقی صاحب میرے محسنوں میں سے ہیں۔اور برقی صاحب نے ایک منظوم میرے تعلّق سے میرے دیوان پر لکھا تھا وہ دیوان کے آخری صفحے پر لکھا ہوا ہے۔
برقی صاحب جتنا زود نویس ہیں شاید و باید ہی کوئی شخص اتنا ہو۔میرا خیال ہے کہ برقی اعظمی صاحب کے تعلّق سے ، اگر ان کو موقع ملے تو یہ روزانہ20-15 غزلیں لکھ لیں گے اور اگر یہ اپنی جان کے اوپر بوجھ ڈالیں۔تب کم لکھتے ہیں یعنی جس دن یہ 4-3 غزلیں لکھتے ہیں تو سمجھ لیجئے ان کے اوپر بڑا بوجھ رہتا ہے اور جب 10-7-5 غزلیں لکھ لیتے ہیں تب جا کر ان کو انشراح ملتا ہو گا۔بہر حال برقی اعظمی صاحب کی اپنی سندِ امتیاز تو ہے ہی۔پہلی دفع جب انھوں نے اپنا مسوّدہ پیش کیا تھا تو اس میں اتنی غزلیں تھیں کہ جتنا ایک شاعر اپنی پوری زندگی میں لکھتا ہے


شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں