دیا ادبی گروپ کے پینتالیسویں فی البدیہہ دیا عالمی مشاعرے میں میری کاوش احمد علی برقی اعظمی


دیا ادبی گروپ کے پینتالیسویں فی البدیہہ دیا عالمی مشاعرے میں میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی

جانے وہ کس گماں میں رہتا ہے
فکرِ سود و زیاں میں رہتا ہے

دیکھتا ہے وہ خواب محلوں کا
خود جو کچے مکاں میں رہتا ہے

مجھ کو اندیشۂ نہیں لاحق
جانے کیوں اس کی ہاں میں رہتا ہے

کیا بتاؤں میں حالِ دل اپنا
جیسے آتش فشاں میں رہتا ہے

غمزہ و ناز اس کا ہے ایسا 
تیر جیسے کماں میں رہتا ہے

تجھ سے آباد ہے یہ خانۂ دل
’’ تو مرے جسم و جاں میں رہتا ہے‘‘

زندہ رہنے کا حوصلہ برقی
میرے عزمِ جواں میں رہتا ہے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں