ہفت روزہ فیس بک ٹائمز انٹرنیشنل کے ۱۰۰ ویں فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دو فی البدیہہ غزلیں احمد علی برقی اعظمی






ہفت روزہ فیس بک ٹائمز انٹرنیشنل کے ۱۰۰ ویں فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
عشق میں اس کے مبتلا ہوکر
رہ گیا دردِ لادوا ہوکر
خانۂ دل میں تھا جو راحتِ جاں
جارہا ہے وہ اب خفا ہوکر
کچھ سمجھ میں مری نہیں آتا
کیسے اس سے رہوں جدا ہوکر
رنج و غم سے ہے میرے ناواقف
وہ مرا درد آشنا ہوکر
کیوں ڈبونے پہ ہے تُلا مجھ کو
کشتی دل کا ناخدا ہوکر
جس کو اپنا سمجھ رہا تھا میں
وہ نہ تھا میرا دلربا ہوکر
ہجر میں میری اس کے اے برقی
زندگی رہ گئی سزا ہوکر
ہفت روزہ فیس بک ٹائمز امٹرنیشنل کے ۱۰۰ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
لے اُڑا دل وہ دلربا ہوکر
چل دیا مجھ سے پھر جُدا ہوکر
کی نہ اُس نے مری مسیحائی
زخم رِستا رہا ہرا ہو کر
جس نے میری وفا کی قدر نہ کی
جی سکے گا نہ بے وفا ہوکر
جل اُٹھا شمعِ رُخ کی سوزش سے
مثلِ پروانہ میں فدا ہوکر
میرا پُرسان حال کوئی نہیں
کیا تھا اب رہ گیا میں کیا ہوکر
جو سمجھتا تھا خود کو اب تک شاہ
پھر رہا ہے وہ اک گدا ہوکر
کچھ بتاتا نہیں وہ برقی سے
جا رہا ہے کہاں خفا ہوکر




میرے دیدہ و دل میں تشنگی کا موسم ہے : احمدعلی برقی اعظمی ۔ موج غزل ادبی گروپ کے۱۷۱ ویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۲۷ جولائی ۲۰۱۷ کے لئے میری طبع آزمائی



موج غزل ادبی گروپ کے۱۷۱ ویں عالمی فی البدیہہ طرحی  مشاعرے  بتاریخ ۲۷ جولائی ۲۰۱۷ کے لئے میری طبع آزمائی
مصرعہ طرح : روز شعر کہتا ہوں، شاعری کا موسم ہے (ضیا شہزاد )
احمد علی برقی اعظمی
میرے دیدہ و دل میں تشنگی کا موسم ہے
اُس کی چشمِ میگوں میں میکشی کا موسم ہے
فرشِ راہ ہیں آنکھیں وہ ابھی نہیں آیا
کہہ رہا تھا جو مجھ سے دل لگی کا موسم ہے
اُس کا دلنشیں چہرہ ہے مرے تصورمیں
’’ روز شعر کہتا ہوں شاعری کا موسم ہے‘‘
یاد ہے مجھے اب بھی اس کا وعدۂ فردا
کیسے اُس کو سمجھاؤں آگہی کا موسم ہے
وہ مرے درِ دل پر جانے دے گا کب دستک
میرے قلبِ مضطر میں بے بسی کا موسم ہے
تازگی تھی جواِن میں ہوگئی ہے وہ عنقا
جسم و جاں میں اب میرے خستگی کا موسم ہے
کیا جواب دوں اُن کو زہرخند کا اُن کے
وہ جو مجھ سے کہتے ہیں آپ ہی کا موسم ہے
فصل گل بھی ہے برقی ان دنوں خزاں دیدہ
گلشنِ محبت میں دلکشی کا موسم ہے





برقی اعظمی کی شاعری کا یک صفحہ : بشکریہ اردو سخن




برقی اعظمی کی شاعری کا یک صفحہ
http://www.urdusukhan.com/2011/04/ahmda-ali-barqi-azmi-احمد-علی-برقی-اعظمی-کی-شاعری-سے-ایک/

یہ صفحہ اردو سخن پر ہے جو میرا جلوہ گر 
دیتا ہے اہل نظر کو دعوت فکر و نظر 

ہے یہ برقی کے شعور فکر و فن کا آئینہ
فیصلہ اس کا کریں گے دیکھ کر اہل نظر
احمد علی برقی اعظمی
بشکریہ اردو سخن

موجِ سخن کے ۴۳ ویں عالمی آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش احمد علی برقی اعظمی



موجِ سخن کے ۴۳ ویں عالمی آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
عبور کرنا ہے جو وہ ندی نہیں آئی
’’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘
جو پہلے میری روش تھی اسی پہ قایم ہوں
مری وفاؤں میں اب تک کمی نہیں آئی
تھا اُس کا وعدۂ فردا مرے لئے جانسوز
مجھے تھی جس کی تمنا کبھی نہیں آئی
جو میری بیخ کنی کرتا ہے پسِ پردہ
اسے نبھانا کبھی دوستی نہیں آئی
ہے صبر آزما اب اور انتظار مجھے
جسے سمجھتا تھا میں زندگی نہیں آئی
ہمیشہ کرتا ہے یوں تو وہ صلح کی باتیں
امید جس کی تھی وہ آشتی نہیں آئی
وہ سبز باغ دکھاتا ہے اس کا روز مجھے
مگر وصال کی اب تک گھڑی نہیں آئی
ہمیشہ دیکھ کے ہنستا ہے حالِ زار مرا
نگاہِ ناز میں اس کی نمی نہیں آئی
لکھا ہے ٹھوکریں کھانا مرے مقدر میں
اسی لئے مجھے منزل رسی نہیں آئی
بہار میں بھی نمایاں خزاں کے ہیں آثار
شگفتہ گلشنِ دل میں کلی نہیں آئی
بھٹکتا رہتا ہوں میں تیرگی کی راہوں میں
جو رہنما ہو مری، روشنی نہیں آئی
ضروری خونِ جگر ہے سخنوری کے لئے
وہ شعر کہتے ہیں پر شاعری نہیں آئی
تمھاری قدر بھی برقی کریں گے بعد از مرگ
وہ کہہ رہے ہیں ابھی وہ صدی نہیں آئی
بشکریہ : موج سخن


ادا جعفری کی زمین میں سائبان ادبی گروپ کے مصرعہ طرح بیاد ادا جعفری پر میری فی البدیہہ طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی


حمد باری تعالی احمد علی برقیؔ اعظمی : بشکریہ : ناظم عالمی ادبی گروپ ’’ صبا آداب کہتی ہے ‘‘ جناب امین جس پوری





حمد باری تعالی
احمد علی برقیؔ اعظمی
ہے تو ہی عالم آرا پروردگار عالم
ہرسو ترا نظارا پرورگار عالم
کیسے کروں گذارا پروردگار عالم
بس ہے ترا سہارا پروردگار عالم
مختار کُل تو ہی ہے محتاج سب ہیں تیرے
کچھ بھی نہیں ہمارا پروردگار عالم
فضل و کرم سے اپنے تو بخش دے وہ مجھ کو
جو ہو تجھے گوارا پروردگار عالم
ہے بحرِ بیکراں میں جس کا گِھرا سفینہ
ملت ہے بے سہارا پروردگار عالم
میں گُل سمجھ رہا تھا جوشِ جنوں میں جس کو
ہے مثلِ سنگِ خارا پروردگار عالم
کر سکتا ہے مسخر تو دل کو اُس کے جس سے
میں جیت کر بھی ہارا پروردگار عالم
اظہارِ مدعا کیا اپنا کروں میں تجھ سے
ہے تجھ پہ آشکارا پروردگار عالم
فضل و کرم کا تیرے محتاج ہے یہ برقیؔ
رنج و الم کا مارا پروردگار عالم

Ahmad Ali Barqi Azmi | Naye Puraney Chiragh 2019 Mushaira | Urdu Academy.. Courtesy : True Media And Urdu Academy Delhi.

Tamam Shud - Poet Ahmad Ali Barqi Azmi -Courtesy:Syed Abubaker Maliki محبوب کبریا پہ رسالت تمام شد

:ستم سہہ کے بھی مسکرانا پڑا ہے : احمد علی برقی اعظمی



بشکریہ سائبان ادبی گروپ
ارشاد احمد نیازی کے مصرعہ طرح پر سائبان ادبی گروپ کے عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۱۷ اگست ۲۰۱۷ کے لئے میری طبع آزمائی 
احمد علی برقی اعظمی
ستم سہہ کے بھی مسکرانا پڑا ہے
یہ کیوں میرے پیچھے زمانا پڑا ہے
اسے آج مجھ کو منانا پڑا ہے
ہر اک ناز اس کا اُٹھانا پڑا ہے
جو رہتا تھا اکثر مرے آگے پیچھے
بُلانے پہ اب اُس کے جانا پڑا ہے
جو سائے سے بھی میرے ڈرتا تھا اس کی
مجھے ہاں میں ہاں اب مِلانا پڑا ہے
سلیقہ نہیں دل لگانے کا جن کو
اُنھیں سے مجھے دل لگانا پڑا ہے
مجھے وہ جو پہلے مرے رہنما تھے
’’ چراغوں کو رستہ دکھانا پڑا ہے ‘‘
جنہیں بے وفائی کا ہے میری شکوہ
مجھے بھی انہیں آزمانا پڑا ہے
بٹھا کر میں جس پر گُھماتا تھا اس کو
اُسی پُشت پر تازیانہ پڑا ہے
کبھی آج تک جو نہ گایا تھا برقی
مجھے وہ ترانہ بھی گانا پڑا ہے


ایک زمین کئی شاعر مرزا غالب اور احمد علی برقی اعظمی مرزا غالب



ایک زمین کئی شاعر
مرزا غالب اور احمد علی برقی اعظمی
مرزا غالب
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا 
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا 
بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی 
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا 
بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل 
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 
تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے 
تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا 
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے 
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا 
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار 
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا 
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل 
ابرِ بہار خم کدہ کِس کے دماغ کا! 
عالمی ادبی فورم صبا آداب کہتی ہے کے ۱۳ ویں پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
عنقا سکوں ہے عہدِ رواں میں دماغ کا
جیسے گذر گیا ہو زمانہ فراغ کا
ناسور بن گیا ہے ہر اک زخمِ خونچکاں
کیا ماجرا سناؤں تمہیں دل کے داغ کا
منزل کی سمت جوشِ جنوں میں ہوں گامزن
بس نقشِ پا ہے اس کے وسیلہ سراغ کا
تاریک کررہا ہے وہ کیوں میرے ذہن کو
دینا ہے کام روشنی گھر کے چراغ کا
گلشن کا باغباں نے بُرا حال کردیا
ہر گُل زباں حال سے کہتا ہے باغ کا
جس گلستاں میں پہلے چہکتی تھیں بلبلیں
اب بے سُرا ہے راگ وہاں صرف زاغ کا
شیرازۂ حیات ہے اس طرح منتشر
برقی ہو جیسے دل پہ تسلط دماغ کا



کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا : عالمی ادبی فورم صبا آداب کہتی ہے کے ۱۳ ویں پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی : احمد علی برقی اعظمی



بشکریہ : صبا آداب کہتی ہے فورم
عالمی ادبی فورم صبا آداب کہتی ہے کے ۱۳ ویں پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
عنقا سکوں ہے عہدِ رواں میں دماغ کا
جیسے گذر گیا ہو زمانہ فراغ کا
ناسور بن گیا ہے ہر اک زخمِ خونچکاں
کیا ماجرا سناؤں تمہیں دل کے داغ کا
منزل کی سمت جوشِ جنوں میں ہوں گامزن
بس نقشِ پا ہے اس کے وسیلہ سراغ کا
تاریک کررہا ہے وہ کیوں میرے ذہن کو
دینا ہے کام روشنی گھر کے چراغ کا
گلشن کا باغباں نے بُرا حال کردیا
ہر گُل زباں حال سے کہتا ہے باغ کا
جس گلستاں میں پہلے چہکتی تھیں بلبلیں
اب بے سُرا ہے راگ وہاں صرف زاغ کا
شیرازۂ حیات ہے اس طرح منتشر
برقی ہو جیسے دل پہ تسلط دماغ کا





اس کی چشم میگوں میں میکشی کا موسم ہے : احمد علی برقی اعظمی


میری قربانیوں کا صلہ کچھ نہیں :حریم سخن گروپ کے تیسرے فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش احمد علی برقی اعظمی



حریم سخن گروپ کے تیسرے فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
میری قربانیوں کا صلہ کچھ نہیں
آج تک اس نے مجھ کو دیا کچھ نہیں
اپنے من کی ہی وہ بات کرتا رہا
اس سے کہتا رہا پَر سُنا کچھ نہیں
میں اندھیرے میں یونہی بھٹکتا رہا
’’ چاند، سورج، ستارہ ، دیا کچھ نہیں ‘‘
کرکے عرضِ تمنا ہوں اس سے خَجِل
چَل دیا سن کے وہ اور کہا کچھ نہیں
فرض ہے جس کا حاجت روائی مری
اُس کی جانب سے مجھ کو مِلا کچھ نہیں
اُس کی ہرزہ سرائی سے حیران ہوں
یوں تو اُس نے کہا بَرمَلا کچھ نہیں
فردِ جُرم اُس کی پہلے سے تیار تھی
کیوں مجھے دی سزا یہ پتہ کچھ نہیں
نکتہ چینی کی برقی ہے عادت جسے
آگے پیچھے اُسے سوجھتا کچھ نہیں



ازخود : تعارفی سلسلہ :1 شخصیت : احمد علی برقیؔ اعظمی بشکریہ : ادبی گروپ کرچیاں



بشکریہ : ادبی گروپ کرچیاں
کرچیاں اردو کا ہے ایسا گروپ
جس میں ہے عصری ادب کا انتخاب
ہو یہ معیاری ادب کا پاسدار
اس کے ہوں شرمندۂ تعبیر خواب
اقتضائے وقت ہیں ایسے گروپ
کرسکیں جو فکر و فن کا احتساب
ازخود : تعارفی سلسلہ :1
شخصیت : احمد علی برقیؔ اعظمی
میں احمد علی برقیؔ اعظمی ۲۵؍ دسمبر ۱۹۵۴ء کو شہر اعظم گڑھ (یو۔پی) کے محلہ باز بہادر میں پیدا ہوا۔ میں درجہ پنجم تک مدرسہ اسلامیہ باغ میر پیٹو، محلہ آصف گنج، شہر اعظم گڑھ کا طالبعلم رہا، بعد ازآں شبلی ہائر سیکینڈری اسکول سے دسویں کلاس کا امتحان پاس کرنے کے بعد انٹرمیڈیٹ کلاس سے لے کر ایم۔اے اُردو تک شبلی نیشنل کالج، اعظم گڑھ کا طالب علم رہا۔ میں نے ۱۹۶۹ء میں ہائی اسکول، ۱۹۷۱ء میں انٹرمیڈیٹ، ۱۹۷۳ء میں بی۔اے اور ۱۹۷۵ء میں ایم۔اے اُردو کی سند حاصل کی اور شبلی کالج سے ہی ۱۹۷۶ء میں بی۔ایڈ کیا۔
بعد ازآں مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے
۱۹۷۷ء میں دہلی آ کر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی میں ایم۔اے فارسی میں داخلہ لیا اور یہاں سے ۱۹۷۹ء میں ایم۔اے فارسی کی سند حاصل کی اور بعد ازآں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ہی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
میرے والد کا نام رحمت الٰہی اور تخلص برقؔ اعظمی تھا جو نائب رجسٹرار قانون گو کے عہدے پر فائز تھے۔میرے والد ایک صاحب طرز اور قادر الکلام استاد سخن تھے جنہیں جانشینِ داغؔ حضرت نوحؔ ناروی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ میرے بچپن کا بیشتر حصہ والد محترم کے سایۂ عاطفت میں گزرا۔ مجھے کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بیشتر وقت والد صاحب کے فیضِ صحبت میں گزرتا تھا جس سے میں نے بہت کچھ حاصل کیا اور آج میں جو کچھ ہوں انہیں کا علمی،قلمی اور روحانی تصرف ہے۔ میرا اصلی نام احمد علی اور تخلص والد کے تخلص برقؔ کی مناسبت سے برقیؔ اعظمی ہے۔ والد صاحب کے فیضِ صحبت کی وجہ سے شعری اور ادبی ذوق کی نشوو نما بچپن میں ہو گئی تھی جو بفضلِ خدا اب تک جاری و ساری ہے۔ والد صاحب کے ساتھ مقامی طرحی نشستوں میں با قاعدگی سے شریک ہوتا رہتا تھا۔ اس وجہ سے تقریباً
۱۵؍سال کی عمر سے طبع آزمائی کرنے لگا۔ ادبی ذوق کا نقطۂ آغاز والدِ محترم کا فیضِ صحبت رہا اور میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا انھیں کا فیضانِ نظر اور روحانی تصرف ہے۔ اصنافِ ادب میں غزل میری محبوب ترین صنفِ سخن ہے۔ غزل سے قطع نظر مجھے موضوعاتی نظمیں لکھنے کا ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۹ء تک کافی شوق رہا اور میں نے اس عرصہ میں ماحولیات، سائنس، اور مختلف عالمی دنوں کی مناسبت سے بہت کچھ لکھا جو ۶؍سال تک مسلسل ہر ماہ ایک مقامی میگزین ماہنامہ ’’سائنس‘‘ میں شائع ہوتا رہا اور اتنی نظمیں لکھ ڈالیں کی ایک مستقل شعری مجموعہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ سے خاصی دلچسپی ہے چنانچہ میں بیشتر شعرا، ادیبوں اور فنکاروں کے یومِ وفات اور یوم تولد کی مناسبت سے اکثر و بیشتر لکھتا رہتا ہوں۔ اس سلسلے میں نے حضرت امیر خسروؔ، ولیؔ دکنی، میرؔ، غالبؔ، حالیؔ، شبلیؔ، سر سیّد، احمد فرازؔ، فیضؔ، پروینؔ شاکر، ناصر کاظمیؔ، مظفرؔ وارثی، شہریارؔ، بابائے اُردو مولوی عبدالحق، ابن انشا، جگرؔ، شکیلؔ بدایونی، مجروحؔ سلطانپوری، مہدی حسن، صادقین، مقبول فدا حسین وغیرہ پر بہت سی موضوعاتی نظمیں لکھی ہیں جن کا بھی ایک مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ میں عملی طور سے میڈیا سے وابستہ ہوں اور ۱۹۸۳ء سے آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے وابستہ تھا اور بحیثیت انچارج شعبۂ فارسی ۳۳ سال کی خدمات کے بعد ۳۱ دسمبر ۲۰۱۴ کوملازمت سے سبکدوش ہوگیا اور فی الحال عارضی طور پر اسی شعبے سے وابستہ ہو۔
فیضؔ، ساحرؔ، مجروحؔ، جگر، حسرتؔ، فانیؔ، پروین شاکر، اور ناصر کاظمیؔ وغیرہ میرے پسندیدہ شعرا ہیں۔ ادیبوں میں سرسید احمد خاں اور شبلی نعمانی سے بیحد لگاؤ ہے۔ میں اُردو ویب سائٹس اور فیس بک پر بہت فعال ہوں اور فیس بک پر میری
۴۰۰۰ سے زائد غزلیں او ر نظمیں البم کی شکل میں موجود ہیں۔
موجودہ دور میں ادب اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور اس کی توسیع اور ترویج کے امکانات روشن ہیں۔معاصرانہ چشمک اور گروہ بندی فروغ زبان و ادب کی راہ میں سدِّ راہ ہیں۔ سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر اگر ادبی تخلیق کی جائے اور اس میں خلوص بھی کارفرما ہو تو فروغِ ادب کے امکانات مزید روشن ہو سکتے ہیں۔میں اپنی خوئے بے نیازی کی وجہ سے گوشہ نشین رہ کر اپنے ادبی اور شعری ذوق کی تسکین کے لئے انٹرنیٹ اور دیگر وسائلِ ترسیل و ابلاغ کے وسیلے سے سرگرمِ عمل ہوں۔ میں اُردو کی بیشتر ویب سائٹس اور اور فیس بُک کے بیشمار فورمز سے وابستہ ہوں۔مجھے خوشامدپسندی اور زمانہ سازی نہیں آتی اس لئے مقامی سطح پر غیر معروف ہوں۔
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے..
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا..
ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کے شکار..
نا آشنائے حال ہیں ہمسائے بھی مرے..
عرضِ حال
ہوتے ہیں اُن کے نام پہ برپا مشاعرے..
معیار شعر اُن کی بَلا سے گِرے گِرے..
جن کا رسوخ ہے انہیں پہچانتے ہیں سب..
ہم دیکھتے ہی رہ گئے باہرکھڑے کھڑے..
جو ہیں زمانہ ساز وہ ہیں آج کامیاب..
اہلِ کمال گوشۂ عزلت میں ہیں پڑے..
زندہ تھے جب تو ان کو کوئی پوچھتا نہ تھا..
ہر دور میں ملیں گے بہت ایسے سر پھرے..
برقیؔ ستم ظریفیِ حالات دیکھئے..
اب ان کے نام پر ہیں ادارے بڑے بڑے..
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، غزل میری محبوب صنف سخن ہے۔ میرے اسلوبِ سخن پر غیر شعوری طور سے غزلِ مسلسل کا رنگ حاوی ہے۔ گویا میری بیشتر غزلوں میں جیسا کہ بعض احباب نے اس کی طرف اشارہ کیا، غزل کے قالب میں نظم یا مثنوی کا گمان ہوتا ہے جو بعض احباب کی نظر میں محبوب اور بعض لوگوں کے خیال میں معیوب ہے۔ میرا شعورِ فکر و فن میرے ضمیر کی آواز ہے۔ میری غزلیں داخلی تجربات و مشاہدات کا وسیلۂ اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ بقول جناب ملک زادہ منظور احمد صاحب ’’حدیثِ حسن بھی ہیں اور حکایتِ روزگار بھی‘‘۔ میں جس ماحول کا پروردہ ہوں میری شاعری اس کے نشیب و فراز اور ناہمواریوں اور اخلاقی اقدار کے زوال کی عکاس ہے۔ میں جو کچھ اپنے اِرد گِرد دیکھتا یا محسوس کرتا ہوں اسے موضوعِ سخن بنانا اپنا اخلاقی اور سماجی فریضہ سمجھتا ہوں جس کے نتیجے میں میری بیشتر شعری تخلیقات اجتماعی شعور کی بازگشت کی آئینہ دار ہیں۔ میں کلاسیکی روایات کا پاسدار ہونے کے ساتھ ساتھ جدید عصری میلانات و رجحانات کو بھی موضوع سخن بنانے سے گریز نہیں کرتا۔ حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں بیدار مغز سخنور اور قلمکارجس ذہنی کرب کا احساس کرتے ہیں ان کی تخلیقات میں شعوری یا غیر شعوری طور سے اس کا اظہار ایک فطری اور ناگزیر امر ہے۔
چنانچہ…...
ہیں مرے اشعار عصری کرب کے آئینہ دار..
قلبِ مضطر ہے مرا سوزِ دروں سے بیقرار..
آپ پر ہوں گے اثر انداز جو بے اختیار..
میری غزلوں میں ملیں گے شعر ایسے بے شمار..
صفحۂ قرطاس پر کرتا ہوں اس کو منتقل..
داستانِ زندگی ہے میری برقیؔ دلفگار..
احمد علی برقیؔ اعظمی کے کلام سے کچھ اشعار اور دو چند غزلیں بطورِ انتخاب.....
ہے یہ میری شامتِ اعمال یا کچھ اور ہے..
میں سمجھتا تھا جسے آرامِ جاں خاموش ہے.
نیند آنکھوں سے شبِ ہجر اڑانے والا..
خواب گر، خواب نما، خواب کی تعبیر بھی تھا..
🍂🍂🍂🍂🍂
جان میں جان ہے جب تک رہیں سر گرمِ عمل..
وہ گراتا ہے اگر آپ بنانے لگ جائیں..
🍂🍂🍂🍂🍂
جاری رہے نہ جانے یہ سیلِ اشک کب تک..
یہ دل سمندروں کی گہرائی چاہتا ہے..
حساس ہے جو برقی انسان اس صدی کا..
دنیا کے شور و غل سے تنہائی چاہتا ہے..
🍂🍂🍂🍂🍂
غارتگرِ سکوں ہے یہ اُس دلربا کی نیند..
ٹوٹے گی جانے کب مرے درد آشنا کی نیند..
آنکھیں ہیں فرشِ راہ مری کب وہ آئے گا..
کتنا مجھے جگائے گی اُس بے وفا کی نیند..
اُس کا پیام دے کے وہ جو چاہے سو کرے..
ٹوٹی نہیں ہے کیا ابھی بادِ صبا کی نیند..
کیساہے خوابِ ناز کہ آنکھیں ہیں نیم باز..
ہے دلنواز اس کی یہ ناز و ادا کی نیند..
اوراق منتشر ہیں کتابِ جمال کے..
صبر آزما ہے کتنی یہ اُس بے ردا کی نیند..
جاگے تو جا کے اس سے کروں عرضِ مدعا
آنکھوں میں اس کی رہتی ہے برقیؔ بَلا کی نیند
🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂
تیرِ نظر کے اتنے نشانے لگے مجھے..
جو زخم تھے نئے وہ پرانے لگے مجھے..
پہلے ہی خون تھا آتشِ سیال جسم میں..
’’پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے‘‘..
اپنا سمجھ رہا تھا جنہیں میں تمام عمر..
وہ اپنے اپنے رنگ دکھانے لگے مجھے..
تھا سادہ لوح آ گیا اُن کے فریب میں..
پھر کیا تھا سبز باغ دکھانے لگے مجھے..
بہترتھا چھوڑ دیتے مجھے میرے حال پر..
احسان کرکے مجھ پہ جتانے لگے مجھے..
دیدہ دلیری دیکھئے اُن کی کہ بزم میں..
میرا ہی شعر آکے سنانے لگے مجھے..
رہتے تھے سرنگوں جو سدا میرے سامنے..
برقی وہی اب آنکھ دکھانے لگے مجھے..
🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂
سائے بھی اپنے آج ڈرانے لگے مجھے..
پھر یوں ہوا چراغ جلانے لگے مجھے..
میں سن رہا تھا اور وہ پڑھتے تھے فردِ جُرم..
الزام جو تھے مجھ پہ بتانے لگے مجھے..
جو کہہ رہے تھے اس کا نہ سر تھا نہ کوئی پیر..
وہ جُرمِ بیگناہی گنانے لگے مجھے..
ریشہ دوانیوں میں مہارت ہے اس قدر..
اپنا ہدف ہمیشہ بنانے لگے مجھے..
وہ چاہتے تھے اُن کی مِلاؤں میں ہاں میں ہاں..
وہ اُنگلیوں پہ اپنی نچانے لگے مجھے..
شیشے مین اُن کے جب نہ مکمل اُتر سکا..
از روئے مصلحت وہ رجھانے لگے مجھے..
میں نے کہاکہ مُردہ نہیں ہے مرا ضمیر..
پھر کیا تھا وہ ٹھکانے لگانے لگے مجھے..
میزانِ عدل ناگہاں آئی مجھے نظر..
کچھ لوگ تھے وہاں جو بچانے لگے مجھے..
مہدی حسن کی ناگہاں آئی صدا مجھے..
وہ ماجرائے شوق سنانے لگے مجھے..
اردو غزل ہے آج یہ برقی کی چارہ ساز..
سب جس کے دلنواز ترانے لگے مجھے..

ازخود : تعارفی سلسلہ :1
شخصیت : احمد علی برقیؔ اعظمی
بشکریہ : ادبی گروپ کرچیاں

.
🍂