ایک زمین کئی شاعر مرزا غالب اور احمد علی برقی اعظمی مرزا غالب



ایک زمین کئی شاعر
مرزا غالب اور احمد علی برقی اعظمی
مرزا غالب
یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا 
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا 
بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی 
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا 
بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل 
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 
تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے 
تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا 
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے 
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا 
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار 
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا 
باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل 
ابرِ بہار خم کدہ کِس کے دماغ کا! 
عالمی ادبی فورم صبا آداب کہتی ہے کے ۱۳ ویں پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
عنقا سکوں ہے عہدِ رواں میں دماغ کا
جیسے گذر گیا ہو زمانہ فراغ کا
ناسور بن گیا ہے ہر اک زخمِ خونچکاں
کیا ماجرا سناؤں تمہیں دل کے داغ کا
منزل کی سمت جوشِ جنوں میں ہوں گامزن
بس نقشِ پا ہے اس کے وسیلہ سراغ کا
تاریک کررہا ہے وہ کیوں میرے ذہن کو
دینا ہے کام روشنی گھر کے چراغ کا
گلشن کا باغباں نے بُرا حال کردیا
ہر گُل زباں حال سے کہتا ہے باغ کا
جس گلستاں میں پہلے چہکتی تھیں بلبلیں
اب بے سُرا ہے راگ وہاں صرف زاغ کا
شیرازۂ حیات ہے اس طرح منتشر
برقی ہو جیسے دل پہ تسلط دماغ کا



شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں