میری کچھ فی البدیہہ غزلیں : احمد علی برقی اعظمی

ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز انٹرنیشنل کے ۵۷ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
مجھ سے مِلنے تمھیں آنے کی ضرورت کیا ہے
اس طرح فرض نبھانے کی ذرورت کیا ہے
جیت کا جشن منانے کی ضرورت کیا ہے
سبز باغ اور دکھانے کی ضرورت کیا ہے
کرلیا پہلے ہی جب ترک تعلق مجھ سے
’’ گھر میں دیوار اٹھانے کی ضرورت کیا ہے ‘‘
چھوڑ دیتے مجھے جس حال میں تھا ۔ تم مجھ کو
کرے احسان جتانے کی ضرورت کیا ہے
جیتے جی پُرسشِ احوال نہ کی جس نے ، اُسے
قبر پر اشک بہانے کی ضرورت کیا ہے
آتشِ شوق کی کیا پہلے اذیت کم تھی
خونِ دل اور جلانے کی ضرورت کیا ہے
دیکھ کر مجھ کو سرِ راہ گُذر جاتے ہو
خواب میں آکے ستانے کی ضرورت کیا ہے
کرکے اخبار میں کردار کُشی برقی کی
اس طرح نام کمانے کی ضرورت کیا ہے


جہانگیر شیخ کے مصرعہ طرح پر عشق نگر اردو شاعری کے ۳۵ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
جہاں جہاں بھی تھپیڑے ہیں موج نفرت کے
تلاش کرتے ہیں گوہر وہاں محبت کے
وہ پیدا کرتے ہیں حالات خوف و دہشت کے
جو ان کی مُہرہ شطرنج ہیں سیاست کے
یہ کہدے جاکے کوئی اُن سے اپنی حد میں رہیں
نہیں ہیں دیرپا جلوے یہ شان و شوکت کے
جنھیں غرور ہے جاہ وحشم پہ اپنے ، وہ
بدل سکیں گے نہ ہرگز نظام فطرت کے
یہ کھوٹے سکے انھیں کے گلے نہ پڑ جائیں
نہ کام آئیں گے یہ شعبدے تجارت کے
کہیں نہ پھٹ پڑے آتش فشاں عداوت کا
ہر ایک سمت ہیں آثار اب قیامت کے
امیر شہر کی کرتے ہیں ناز برداری
اصول بھول کے برقی سبھی صحافت کے
غزل
احمد علی برقیؔ اعظمی
ہم نہیں بھولے ابھی تک وہ فسانہ یاد ہے
’’پم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ‘‘
لوحِ دل پر آج بھی ہیں نقش یادوں کے نقوش
کرکے وعدہ اور نہ آنے کا بہانہ یاد ہے
شوخئ رفتار اور گفتار بھی ہے ذہن میں
تیری دُزدیدہ نگاہی کا نشانہ یاد ہے
چھاؤں تھی جس کی سکونِ دل کا باعث جو کبھی
تیری زلفوں کا وہ دلکش شامیانہ یاد ہے
تھا نشاط و کیف کا سامان جو میرے لئے
روح پرور اور سنجیدہ ترانہ یاد ہے
ہے مشامِ جاں معطر آج بھی اس سے مری
گلشنِ ہستی میں تیرا گُل کھلانا یاد ہے
تھا نشاط روح تیرا ہر عمل میرے لئے
تیرا آ آ کر وہ خوابوں میں ستانا یاد ہے
میں ترا طرزِ تغافل بھی کبھی بھولا نہیں
میرا وہ صبر و تحمل آزمانا یاد ہے
آج جو ویراں ہے وہ پہلے کبھی آباد تھا
خانۂ دل میں مرے تیرا ٹھکانہ یاد ہے
مُرتَعِش ہو جاتا تھا جس سے مرا تارِ حیات
تیرا زیرِ لب مجھے وہ مُسکرانا یاد ہے
عشوہ و ناز و ادا تیرے ہوں جیسے کل کی بات
چال مجھ کو اب بھی تیری شاطرانہ یاد ہے
تیرا وہ مجھ پھیر لینا دیکھ کر اکثر مجھے
پُشت پر جیسے ہو کوئی تازیانہ یاد ہے
مُندمِل ہوتا نہیں ہے زخمِ دل یہ کیا کروں
تیری اب بھی وہ نگاہِ قاتلانہ یاد ہے
آج بھی بھولا نہیں ہے کچھ بھی برقیؔ اعظمی
تیرا جانا یاد ہے میرا بُلانا یاد ہے

دیا ادبی فورم کے ۱۵۳ ویں آنلاین عالمی فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
مری روح رواں ہو جاں جاں ہو
میں کب سے منتظر ہوں تم کہاں ہوں
تمہیں تو میرے یارِ مہرباں ہو
تمہیں تو باعثِ آرامِ جاں ہو
کِھلاؤ غنچۂ ٔ امید اس میں
تمہیں تو باغِ دل کے باغباں ہو
سکونِ قلب عنقا ہوگیا ہے
چلے آؤ وہاں سے تم جہاں ہوں
ہیں نمدیدہ مری بے نور آنکھیں
نظر کے سامنے جیسے دھواں ہو
تغزل میں ہے میرے تم سے رونق
سپہرِ فکر و فن کی کہکشاں ہو
سنے گا کون تم بِن میرے احوال
تمہیں ہمدم بھی ہو اور ہم زباں ہو
دکھاؤ گے مجھے کب اپنی صورت
ہوں ایسا جیسے کوئی نیم جاں ہو
دلِ درد آشنا ہو تو سمجھ لو
تمہیں تو صرف میرے رازداں ہو
ہوئے تم دوست جس کے اس جہاں میں
تو دشمن اس کا کیسے آسماں ہو
مجھے دیکھا تو بولے چیخ کر وہ
یہاں تم بِن بُلائے میہماں ہو
اسی نے پھونک ڈالا میرا مسکن
جسے کہتا تھا میرے پاسباں ہو
چرا کر وہ مقالہ میرا بولا
تمہارا نام کیوں وردِ زباں ہو
خدا حافظ ہے ایسے قافلے کا
جہاں رہزن امیرِ کارواں ہو
وہ طوفان حوادث سے ڈرے کیوں
خدا کا جس کے سر پر سائباں ہوں
نہیں الفاظ دیتے ساتھ برقی
تو پھر حال زبوں کیسے بیا ں ہو

موج سخن کے ۱۳۱ ویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
نہیں ہے اور کوئی تجھ سے مدعا لے جا
یہ کام آئے گی تیرے مری دعا لے جا
ہے اب بھی پاس مرے جوبچا کُھچا لے جا
نہ اور میرے لئے خونِ دل جلا لے جا
ترے بغیر گزاروں گا زندگی کیسے
’’ اگر چلا ہے تو جو کچھ مجھے دیا لے جا‘‘
نہیں ہے ٹکڑوں پہ پلنا ترے مجھے منظور
تو اپنے مال و زر و سیم لے ، اُٹھا لے جا
کروں گا تجھ سے نہ اپنے ضمیر کا سودا
نہیں قبول ترے غمزہ و ادا لے جا
اسی بہانے تری یادآئے گی مجھ کو
تو ساتھ زخمِ جگر کی مرے دوا لے جا
رگوں میں آتشِ سیال ہے لہو میرا
تو اپنے ساتھ یہ سوزِ دروں مرا لے جا
کروں گا از سرِ نو اپنا آشیاں تعمیر
ہیں سنگ و خشت بچے جو انھیں اُٹھا لے جا
نہیں ہے ظاہر و باطن میں میرے فرق کوئی
ریا یہ کام کی تیرے ہے واعظا لے جا
نگاہِ مست ہی کافی ہے تیری برقی کو
 تو اپنے شیشہ و ساغر یہ ساقیا لے جا

غزل
احمد علی برقیؔ اعظمی
ہو دلِ درد آشنا جس میں وہی انسان ہے
آدمی کی آدمیت آدمی کی شان ہے
ساتھ جائے گا نہ کچھ بھی مال و دولت عز و جاہ
محترم ہے وہ کشادہ جس کا دسترخوان ہے
چار دن کی چاندنی ہے یہ جہانِ رنگ و بو
چند روزہ اس جہاں میں ہر کوئی مہمان ہے
منبعِ رشد و ہُدیٰ ہے اپنا قرآنِ مجید
صاحبِ ایماں ہیں یہ اللہ کا فیضان ہے
جذبہئ حُبِ وطن اپنا کبھی ہوگا نہ ختم
جسمِ خاکی میں سلامت اپنی جب تک جان ہے
حسن نیت حکمرانوں کے اگر ہو درمیاں
امن و صلح و آشتی کا آج بھی امکان ہے
صاحبِ دیواں کبھی ہوتا نہ برقیؔ اعظی
اُس پہ یہ رحمت الہی برقؔ کا فیضان ہے

سائبان ادبی گروپ کے ۶۳ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرح ی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
وہی تھا دشمنِ جاں ، تھا جو آشنا مجھ سے
میں جس کا ہوگیا اس نے نہ کی وفا مجھ سے
مِلا رقیب سے میرے نہ کچھ کہا مجھ سے
’’ وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے ‘‘
سمجھ رہا تھا جسے یارِ غمگسار اپنا
وہ ساتھ رہتے ہوئے بھی رہا جُدا مجھ سے
مِلا رہا تھا ہمیشہ جو ہاں میں ہاں میری
نہ جانے کرلیا کیوں قطعِ رابطہ مجھ سے
ہر اک سزا مجھے منظور ہوگی لیکن وہ
بتادے کاش مجھے کیا ہوئی خطا مجھ سے
ہمیشہ کرتا تھا جس کی میں ناز برداری              
بصد خلوص کبھی وہ نہیں مِلا مجھ سے
ہر ایک راز سے واقف ہوں جس ستمگر کے
چھپا رہا ہے وہی اپنا ماجرا مجھ سے
وہ کہہ رہا ہے کہ برقی کو جانتا ہی نہیں
دعا سلام رہی جس سے بارہا مجھ سے

            موجِ سخن کے ۱۲۵ ویں آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
تم اپنے قول و عمل کے حصار میں رہنا
’’ ہمیں بھی آتا ہے اپنے مدار میں رہنا ‘‘
خلش ہمیشہ دلِ بیقرار میں رہنا
ہے جیسے حسرتِ دل کا مزار میں رہنا
خزاں نے کردیا جینا حرام گلشن میں
میں چاہتا تھا ہمیشہ بہار میں رہنا
کھٹکتے رہتے ہیں گلشن میں سب کی نظروں میں
گلوں کا جیسے مقدر ہے خار میں رہنا
یہ کہہ کے وعدہ شکن آج تک نہیں لوٹا
ضرور آؤں گا تم انتظار میں رہنا
اُلجھ نہ جائے کہیں اس میں نفس امارہ
بچا کے دامنِ دل کوئے یارمیں رہنا
قفس میں جسم کے کہتا ہے اب یہ طائرِ روح
نہیں پسند مجھے ایسے غار میں رہنا
امیر شہر کو شاید بُرا نہیں لگتا
غریبِ شہر کا گرد و غبار میں رہنا
بھٹک رہا ہوں میں برقی مہاجروں کی طرح
پڑے گا کیا یونہی راہِ فرار میں رہنا

انحراف ادبی فورم کے مصرعہ طرح : بانٹ لیتا ہوں غم بہانے سے پر میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
آمدِ گل ہے میرے آنے سے
 اور فصلِ خزاں ہے جانے سے
میں چلا جاؤں گا یہاں سے اگر
 نہیں آؤں گا پھر بُلانے سے
تم تَرَس جاؤ گے ہنسی کے لئے
 باز آؤ مجھے رُلانے سے
ہو گیا میں تو خانماں برباد
 فائدہ کیا ہے دُکھ جتانے سے
اس سے کہہ دو کہ وقت ہے اب بھی
 باز آئے مجھے ستانے سے
ورنہ جاہ و حشم کا اُس کے یہ
 نقش مِٹ جائے گا زمانے سے
ہم بھی مُنھ میں زبان رکھتے ہیں
 ہم کو پرہیز ہے سنانے سے
یا تو ہم بولتے نہیں ہیں کچھ
 بولتے ہیں تو پھر ٹھکانے سے
ایک پَل میں حباب ٹوٹ گیا
 کیا مِلا اُس کو سر اُٹھانے سے
اشہبِ ظلم و جور و استحصال
 ڈر زمانے کے تازیابے سے
قَفَسِ عُنصری کو گھر نہ سمجھ
 کم نہیں ہے یہ قید خانے سے
روح ہے قید جسمِ خاکی میں
 کب نکل جائے کس بہانے سے
ہنس کے بجلی گِرا رہے تھے تم
 ہے جَلن میرے مُسکرانے سے
کیوں دھواں اُٹھ رہا ہے گاہ بگاہ
 صرف میرے ہی آشیانے سے
دلِ درد آشنا سے ہوں مجبور
 ’’ بانٹتا ہوں میں غم بہانے سے‘‘
لمحۂ فکریہ ہے یہ برقی
 سبھی واقف ہیں اس فسانے سے

دیا ادبی گروپ کے ۷۷ ویں آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
ہے یہ سوغات مجھے اس سے شناسائی کی
دیدہ و دل سے مری اس نے پذیرائی کی

خانۂ دل میں جلا کر مرے یادوں کے چراغ
عالمِ خواب میں یوں انجمن آرائی کی

زیر و بَم طرز تکلم میں تھا اس کے ایسا
دور سے جیسے صدا آتی ہو شہنائی کی

زخم خوردہ تھیں یہ دیدار کی پیاسی آنکھیں
اس کی تصویر تصور نے مسیحائی کی

اس قدر ذہن پہ حاوی تھا مرے جوش جنوں
نہ رہی فکر کوئی ذلت و رسوائی کے

ایسا لگتا تھا کہ ہے دوشِ صبا پر وہ سوار
’’ اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘

بے وفائی کا میں شکوہ کروں کیسے اس کی
’’ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘

رنگ پروینؔ میں ہے حسن تغزل ایسا
جس کے ہر شعر میں معراج ہے زیبائی کی

خامہ فرسائی ہے برقی کی غزل اس کے حضور
 صرف کوشش ہے یہ اک قافیہ پیمائی کی

ایک فی البدیہہ طرحی غزل
احمد علی برقی اعظمی
اس کا محفوظ خدا جلوۂ زیبا رکھے
اس کا تاعمر یونہی حُسن دلآرا رکھے
لب کشا سامنے اس کے ہوں کہاں اپنی مجال
’’ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے‘‘
اس کی تصویرِ تصور سے ہے آباد یہ دل
میں تو تنہاہوں خدا اس کو نہ تنھارکھے
ہے دعا میرا وہ منظورِ نظر یونہی رہے
نہ کوئی قلبِ حزیں حسرتِ بیجا رکھے
ہے یہ صناعِ ازل سے مری ہروقت دعا
میں اسے اور مجھے اپنا وہ شیدا رکھے
جس سے روشن ہے مری شمعِ شبستانِ حیات
حسن اس چہرۂ انور کا دوبالا رکھے
ہے یہ خلاقِ دوعالم سے دعا سب کے لئے
جسم اور روح کو تا عمر توانا رکھے
موجِ طوفانِ حوادث سے ڈروں کیوں برقی
 کون چکھ سکتا ہے اس کو جسے اللہ رکھے


اردو لٹریری فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر ۸۴ بتاریخ ۱۱ اگست ۲۰۱۲ میری تیسری کاوش
نامِ رسولِ پاک کو دل سے لیا کرو
اُن کے ہی راستے پہ ہمیشہ چلا کرو


رمضان کا ہر ایک کو لازم ہے احترام
پھر اُس کے بعد جتنا بھی کھایا پیا کرو


افطا اور سحر کا کرو خوب اہتمام
بھوکے ہیں جو تم ان کی خبر بھی لیا کرو


پڑھنا اگر ہے اس کو پڑھو ترجمے کے ساتھ
قرآں کو دل لگا کے ہمیشہ پڑھا کرو


ایمان کا تمہارےاتقاضا ہے یہ بھی ایک
جو کچھ پڑھا ہے اُس پہ عمل بھی کیا کرو


قرآن اور حدیث کا جب بھی ہو ذکرِ پاک
اس کو بگوشِ ہوش ہمیشہ سنا کرو


تم سے یہ التجا ہے بصد عجز و انکسار
گر ہو سکے تو برقی کے حق میں دعاکرو

اردو لٹریری فورم کے فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر ۸۴ بتاریخ ۱۱ اگست ۲۰۱۲ کے لئے میری دوسری طرحی غزل
احمد علی برقی اعظمی


مِل جُل کے ایک ساتھ ہمیشہ رہا کرو
کوئی اگر بُرا بھی کرے تم بھلا کرو


میزانِ عدل سامنے اپنے رکھا کرو
جو ہے تمہارا فرض بخوبی ادا کرو


تم ہو خدا رسیدہ،یہ بندہ گناہگار
’’اس روسیہ کے باب میں کچھ بھی دعا کرو‘‘


تسخیرِ قلب کے لئے یہ گُر ہے لاجواب
ہو بے وفا بھی کوئی تو اُس سے وفا کرو


حُسنِ سلوک سے نہیں بہتر کوئی عمل
حُسنِ عمل سے کام ہمیشہ لیا کرو


تم کو سنوارنی ہے اگر اپنی عاقبت
بندوں ک حق کبھی بھی غصب مت کیا کرو


کرنا ہے تم کو جو بھی کرو وہ بصد خلوص
برقی ریا سے دور ہمیشہ رہا کرو

اردو لٹریری فورم کے فی فی البدیہ طرحی مشاعرہ نمبر ۸۴ بتاریخ ۱۱ اگست ۲۰۱۲ کے لئے میری طرحی غزل
احمد علی برقی اعظمی


اپنا نہ عرض اس سے کبھی مدعا کرو
جو کچھ سنائے شوق سے سُنتے رہا کرو


اس کا رہے خیال کہ وہ زود رنج ہے
تم اس لئے کبھی بھی نہ اس کو خفا کرو


ہے چاردن کی چاندنی انساں کی زندگی
ملنا ہے تم کو جس سے بھی ہنس کر مِلا کرو


نسخہ یہ زندگی کا بہت کامیاب ہے
سب جس سے خوش رہیں وہی باتیں کہا کرو


عقلِ سلیم کام میں لانا نہ بھولنا
پھر جو بھی جی میں آئے اسی کو کیا کرو


گُھٹ گُھٹ کے روز مرنے سے کیا فایدہ تمہیں
ہے چند روزہ زندگی ہنس کر جیا کرو


کہتے ہیں تم سے میر جو برقی اسے سنو
’’اس روسیہ کے باب میں کچھ بھی دعا کرو‘‘


اردو لٹریری فورم کے فی البدیہہ آن لائن طرحی مشاعرہ نمبر ۸۳ بتاریخ ۲۸ جولائی ۲۰۱۲کے لئے میری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
اسلام ہے کیا ہمدم دنیا کو یہ بتلادے
 ’’ پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے‘‘
کیوں نسل کُشی پر ہیں آمادہ یہ دیوانے
 حالات ہیں برما کے کیا سب کو یہ جتلا دے
مظلوموں کی مظلومی اب دیکھی نہیں جاتی
 اب اس سے نکلنے کا یارب کوئی رستا دے
ان مردہ ضمیروں کو جینے کا سلیقہ دے
 عقبیٰ بھی سنور جائے آسایشِ دنیا دے
سب قبضۂ قدرت میں،ہے تیرے مرے مولا
 رمضان میں رحمت کا وہ معجزہ دکھلا دے
طاقت کے نشے میں ہیں، اندھے جو انہیں یارب
 اوقات ہے کیا ان کی اب وقت ہےبتلا دے
کچھ گونگے ہیں کچھ بہرے،کچھ اندھے ہیں اے برقی
 اقبال کے سر میں تھا،جو ہم کو وہ سودا دے

اردو لٹریری فورم کے فی البدیہہ آن لائن طرحی مشاعرہ نمبر ۸۳ بتاریخ ۲۸ جولائی ۲۰۱۲کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمیٓ
دکھلائے حقیقت جو وہ دیدۂ بینا دے
 قاصر ہیں سمجھنے سے جو ان کو یہ سمجھا دے
اقبال نے دیکھا تھا جو ہم کو بھی دکھلا دے
 ’’پھر شوقِ تماشا دے،پھر ذوقِ تقاضا دے‘‘
لوہا جو زمانے میں اسلام کا منوا دے
 وہ پرچمِ حق پھر سے اس دور میں لہراد ے
اس عظمتِ رفتہ کا ہموار ہو پھر رستہ
 وہ ذوقِ عمل دے دے، جو خون کو گرمادے
قوموں کی تباہی کا باعث ہے تن آسانی
 سرگرمِ عمل ہو جو سر میں وہی سودا دے
پھر ہم کو عطا کر وہ حق گوئی و بیباکی
 رسوائے زمانہ کے جو جبر کو دکھلا دے
برقی کو عطا کردے وہ ذوقِ جہاں بینی
 دیکھا ہے ابھی تک جو اوروں کو بھی بتلا دے

اردو لٹریری فورم کے ہفتہ وار فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر ۸۲ بتاریخ ۷ جولائی ۲۰۱۲ کے لئے میری طرحی غزل
 احمد علی برقی اعظمی
مجھ کو حق بات سے ہر گز کوئی انکار نہیں
 قولِ ناحق کا میں کرتا کبھی اقرار نہیں
سنگساری کا جو دستور ہے اجرا کرنا
 پہلا پتھر وہی پھینکے جو گنہگار نہیں
حیثیت اُن کی ہے شطرنج کے مہروں کی طرح
 خوابِ غفلت سے جو اس دور میں بیدار نہیں
وار پر وار پسِ پُشت کئے جاتے ہیں
 دوست ہیں دشمنِ جاں اب مرے،اغیار نہیں
بے وفائی کا وہی دیتے ہیں طعنہ مجھ کو
 ملک و ملت کے کبھی بھی جو وفادار نہیں
میر جعفر تو نہیں زندہ ہے اُس کی اولاد
 کون کہتا ہے کہ ہم میں کوئی غدار نہیں
فن کی تخلیق پہ حاوی ہےمزاجِ دوراں
 وقت کا ساتھ جو دیتا نہ ہو ، فنکار نہیں



اردو لٹریری فورم کے ہفتہ وار فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر ۸۲ بتاریخ ۷ جولائی ۲۰۱۲ کے لئے میری دوسری طرحی غزل احمد علی برقی اعظمی
احمد علی برقی اعظمی
مجھ پہ جو گذری ہے وہ قابلِ اظہار نہیں
 کون ہے اپنے جو حالات سے بیزار نہیں
نظمِ عالم ہے جدھر دیکھئے درہم برہم
 نوعِ انساں یہ کہاں برسرِ پیکار نہیں
کس کی ہیں ریشہ دوانی کے سبھی لوگ شکار
 سرنگوں آج سبھی ہیں کوئی سر دار نہیں
مرزا غالب کے ہیں افکار سبھی پر غالب
 قدرداں اُن کے میں فن کا ہوں،طرفدار نہیں
جو دکھاتا ہے زمانے کو قلم کا جوہر
 اُس سے بہتر مری نظروں میں قلمکار نہیں
زیر کرتا ہے قلمکار قلم سے سب کو
 لڑ رہا ہے وہ مگر ہاتھ میں تلوار نہیں
زد میں ہے برق کی ہر وقت نشیمن برقی
 جادۂ شوق میں بھی سایۂ دیوار نہیں
اردو لٹریری ادبی فورم کے ہفتہ وار فی البدیہہ طرحی مشاعرے منعقدہ ۲٣ جون ۲۰۱۲ کے لئے میری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
عالمِ رنگ و بو بتا کیا ہے
 ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے
کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے
 آمد و شُد کا سلسلا کیا ہے
کبھی پوچھا نہیں ہوا کیا ہے
 بدگُمانی کا ماجرا کیا ہے
مجھ کو ہر وقت کوستا کیا ہے
 بول آخر مری خطا کیا ہے
سب روا ہے تو نا روا کیا ہے
 سب ہے اچھا تو پِھر بُرا کیا ہے
یونہی ہنس ہنس کے ٹال دیتے ہو
 ’’ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے‘‘
جب نظر سے نظر ملی، مجھ سے
 ہنس کے بولا کہ دیکھتا کیا ہے
کب تک آخر سہوں غمِ دوری
 بول اس سے بڑی سزا کیا ہے

اردولٹریری فورم کا ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر ۷۵ بتاریخ ۱۲ مئی ۲۰۱۲ سید ضمیر جعفری کے یوم وفات کی مناسبت سے
 احمد علی برقی اعظمی
ہمیشہ وہ جفا پیشہ ریا ہے
 وفا کا درس جو دیتا رہا ہے
بغل میں وہ چھری رکھتا ہے اکثر
 مگر ہاتھوں میں گلدستہ رہا ہے
ہے فطرت اس کی خوں آشام گویا
 مرا خوںاس لئے پیتا رہا ہے
جو دم بھرتا تھامجھ سے دوستی کا
 نگاہوں سے مری بچتا رہا ہے
وہ اب میری سنے گا میں کہوں گا
 میں سنتا تھا جو وہ کہتا رہا ہے
نہ بدلے گا کبھی وہ اپنی فطرت
 اسے جلنے دو وہ جلتا رہا ہے
زمانے نے ہے اس کو جس میں ڈھالا
 اسی سانچے میں وہ ڈھلتا رہا ہے
اسے موجِ حوادث سے ہو کیا ڈر
 جو طوفانوں ہی میں پلتا رہا ہے
بباطن رو رہا ہے خوں کے آنسو
 بظاہر میرا دل ہنستا رہا ہے
دلِ مضطر کو یہ کیا ہو گیا ہے
 ہمیشہ بھیڑ میں تنہا رہا ہے
ہے شامِ زندگی برقی بڑھاپا
 جوانی سے عجب رشتہ رہا ہے

اردولٹریری فورم کے ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمہر۷۴ بیادِ مجید امجد بتاریخ ۵ مئی ۲۰۱۲ کے لئے میری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
میں اپنے پاس جو جامِ جہاں نما رکھتا
 ہمیشہ خانۂ دل میں اسے سجا رکھتا
تمام زندگی غیروں پہ وقف تھی میری
 ’’ میں عمر اپنے لئے بھی تو کچھ بچا رکھتا‘‘
جو اعتبار مجھے ہوتا اس کے وعدوں پر
 ہمیشہ اس کے لئے اپنا در کُھلا رکھتا
قضا و قدر کے ہاتھوں میں تھا مرا سب کچھ
 تمہیں بتاؤ کہ میں اپنے پاس کیا رکھتا
زمانہ ساز ہیں جو وہ ہیں بامِ شہرت پر
 میں کاش خود کو زمانے سے آشنا رکھتا
نہ مجھ سے ہو سکا اپنے ضمیر کا سودا
وگرنہ میں بھی یہ ویران گھر بسا رکھتا
مقام کیا ہے ادب میں مجید امجد کا
 زمانہ کاش یہ اس بات کا پتا رکھتا
نہ ملتی گھر میں پڑی لاش اُن کی لاوارث
 امیر شہر کا تھا فرض یہ پتا رکھتا
دکھاتا مجھ کو جو تصویرِ خیر و شر برقی
 میں کاش ایسا کوئی ایک آئینہ رکھتا
اردو لٹریری فورم کے ہفتہ وار فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر ۷۳ بتاریخ ۲۸ اپریل ۲۰۱۲ کے لئے میری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
گذر رہے ہیں شب و روز کس زمانے میں
 مراہی نام نہیں ہے مرے فسانے میں
شمار کرتا ہوں ایک ایک دن میں اس کے لئے
 ’’اب اور دیر ہے کتنی بہار آنے میں‘‘
تھا عمر بھر کا مری ماحصل یہ خانۂ دل
 لگی نہ دیر اسے بجلیاں گرانے میں
جسے وہ کہتے ہیں اب خرمنِ حیات اپنا
 ہے میرا خونِ جگر اس کے دانے دانے میں
بُھگت رہا ہوں سزا جرمِ بے گناہی کی
 ہے روح جسم کے محصور قیدخانے میں
میں کیسے پیش کروں عرضِ مدعا اپنا
 لگا ہے اپنی ہی وہ داستاں سنانے میں
ہے تیری خاک میں شامل خمیر اعظم گڈھ
 اثر اُسی کا ہے برقی ترے ترانے میں

الف کے ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرہ نمبر ۶۸ بیادِ ضیا جالندھری کے لئے میری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
کیوں ملے آپ بے رخی سے مجھے
 اک توقع تھی آپ ہی سے مجھے
جس سے ملنا تھا جب وہی نہ ملا
 ’’کیا سروکار اب کسی سے مجھے‘‘
موت ہی سے ملے سکوں شاید
 نہ ملا کچھ بھی زندگی سے مجھے
تیرگی سے نہیں کوئی شکوہ
 ایک وحشت ہے روشنی سے مجھے.
کر دیا خود سے مجھ کو بیگانہ
 کس قدر اس نے سادگی سے مجھے
ہے متاعِ عزیز یہ میری
 اُنس ہے ایک بیخودی سے مجھے
دوستوں نے دئے ہیں اتنے فریب
 اب تو نفرت ہے دوستی سے مجھے
جس کو برقی سمجھ رہا تھا دوست
 پیش آیا وہ دشمنی سے مجھے
الف کے آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بیادِ ناصر کاظمی بتاریخ ۳ مارچ ۲۰۱۲ کے لئے میری غزلِ مسلسل
 احمد علی برقی اعظمی
ہر طرف اس کا ہی جلوا ہوگا
 ’’چاند کس شہر میں اُترا ہوگا‘‘
ہے جو اب میری نظر سے روپوش
 تم نے شاید اسے دیکھا ہوگا
مجھ پہ جو گذری نہ اس پر گذرے
 جانے کس حال میں تنہا ہوگا
کئی راتوں سے نہ سویا ہوں میں
 وہ بھی کیا ایسے ہی جاگا ہوگا
میں ہوں راضی بہ رضائے دلبر
 ناطقہ بند نہ میرا ہوگا
روح فرسا ہے بہت لمحۂ ہجر
 حالِ دل کس سے وہ کہتا ہوگا
دل یہ اب کہتا ہے میرا برقی
 جو ہواہوگا وہ اچھا ہوگا
الف کے فی البدیہہ ہفتہ وار طرحی مشاعرے مورخہ ۱۱ فروری ۲۰۱۲ کے لئے میری دوسری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
لمحے ہیں دلفگار شبِ انتظار کے
 دن گِن کے تھک گیا ہوں میں روزِ شمار کے
بادِ خزاں نے کردیا دامن کو تار تار
تھے سازگار جھونکے نسیمِ  بہار کے
رسی تو جل گئی مگر اینٹھن نہیں چھٹی
 شیخی بگھارتا ہے وہ اب جنگ ہار کے
جَل بُھن رہی ہے نرگسِ بیمار دیکھ کر
 گُل ساتھ ساتھ رہتے ہیں گلشن میں خار کے
جب سے ہوا حیات کا شیرازہ منتشر
 ٹکڑے سمیٹتا ہوں دلِ داغدار کے
جانے شکار اپنا بنائیں گے اب کسے
 وہ جارہے ہیں دیکھئے زلفیں سنوار کے
کس دُھن مین فیض لکھ گئے برقی یہ عرضِ حال
 ’’دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے‘‘
الف کے فی البدیہہ ہفتہ وار طرحی مشاعرے مورخہ ۱۱ فروری ۲۰۱۲ کے لئے میری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
قصے ہیں دلفریب بہت حُسنِ یار کے
 گرویدہ اہلِ ذوق ہیں اُس گُلعذار کے
عُمرِ طویل ساتھ میں اس کے گذار کے
 دیکھے ہیں ہم نے رنگ کئی اُس کے پیار کے
کیا جانے گُل کھلائے وہ فصلِ بہار میں
 بیزار ہیں فریب سے ہم بار بار کے
دنیائے رنگ و بو کا نہیں کوئی اعتبار
 قصے ہمیں سنائیں نہ یہ اعتبار کے
پُرسانِ حال کوئی نہیں ہے کسی کا آج
 مارے ہوئے سبھی ہیں غمِ روزگار کے
منھ میں ہمارے خاک اگر آئے یہ خیال
 ’’دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے‘‘
تیرِ نظر کے اس کے نہیں ہیں ہمیں شکار
 برقی ہیں زخم خوردہ کئی اس کے وار کے

الف کے ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے مورخہ ۲۸ جنوری ۲۰۱۲ کے لئے میری کاوش
 احمد علی برقی اعظمی
کتنے ہی نامراد جہاں سے گذر گئے
 ’’جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار،مرگئے‘‘
انجامِ کارِ لیلیٰ و مجنوں ہے سامنے
 دنیا میں نام وامق و عذرا بھی کرگئے
وِردِ زباں ہیں شیریں و فرہاد آج بھی
 سنتے ہیں اُن کا نام وہاں ہم جدھر گئے
تھے میر ناخدائے سخن جن کا ہے یہ قول
’’جِن جِن کو تھا یہ عشق  کا آزار، مرگئے‘‘
کچھ کی نظر میں ہے یہ خلل اک دماغ کا
 کچھ کے نصیب اس کی بدولت سنور گئے
کچھ کھا رہے ہیں ٹھوکریں در در کی آج تک
 کچھ رزمگاہِ زیست میں بے موت مرگئے
برقی کبھی نہ وعدۂ فردا وفا ہوا
 سب نالہ ہائے نیم شبی بے اثر گئے

الف کے ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے مورخہ ۲۸ جنوری ۲۰۱۲ کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
دروازۂ نگاہ سے دل میں اُتر گئے
 تیرِ نظر سے کام جو لینا تھا کر گئے
سوزِ دروں کا حال مرے کچھ نہ پوچھئے
 وہ اک جھلک دکھا کے نہ جانے کدھر گئے
جانے کب اپنا وعدۂ فردا نبھائیں گے
 آئی نہ نیند مجھ کو کئی دن گذر گئے
دنیائے رنگ و بو یہ نظر کا فریب ہے
 ہم اپنے ساتھ لے کے فریبِ نظر گئے
آئے تھے خالی ہاتھ گئے بھی وہ خالی ہاتھ
 خانہ بدوش کتنے جہاں سے گذر گئے
کل کہہ رہا تھا مجھ سے یہ اک مُرغِ نیم جاں
 فصلِ بہار میں وہ مرے پَر کَتَر گئے
صبحِ اُمید کا مجھے اب تک ہے انتظار
 روشن تھے جو فلک پہ وہ شمس و قمر گئے

الف کے ہفتہ وار آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے مورخہ ۲۸ جنوری ۲۰۱۲ کے لئے میری تیسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
’’جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے‘‘
 لے کر دوائے دردِ جگر چارہ گر گئے
شیرازۂ حیات ہوا ایسا مُنتشر
 آنکھوں میں جتنے خواب تھے میری بکھر گئے
جب سے گئے ہیں تنگ ہے یہ عرصۂ حیات
 تھے اُن کے ساتھ جتنے سبھی نامہ بر گئے
کہتے ہیں یہ اطبا مرض ہے یہ لاعلاج
 وہ جاتے جاتے دے کے جو دردِ جگر گئے
اس رزمگاہِ زیست میں سینہ سپر رہیں
 جو درد و غم سے ڈر گئے سمجھو وہ مَر گئے
لکھتے تھے تین تین غزل اک نشست میں
 وہ فیس بُک کو چھوڑ کے جانے کدھر گئے
ممکن ہے یادگار رہے میرا یہ کلام
 دنیا سے میر و غالب و ذوق و جگر گئے




شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں