a literary giant professor dr muzaffar hanfi ( a biographic sketch ) Courtesy:World News TV UK پروفیسر مظفر حنفی : ایک تعارف ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی





پروفیسر مظفر حنفی : ایک تعارف
ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی
مرجعِ اہلِ نظر جو ہیں مظفرؔ حنفی
بحرِ ذخارِ ادب کی ہیں وہ دُرِ شہوار
نظم اور نثر پہ حاصل ہے تبحر ان کو
سب کے منظورِ نظر کیوں نہ ہوں ان کے افکار
ان کے اسلوبِ بیاں سے ہے نمایاں سب پر
ندرتِ فکر و نظر اور سخن کا معیار
ان کے گلہائے مضامیں سے معطر ہے فضا
باغِ اردو میں ہیں اس عہد میں وہ مثلِ بہار
ان کی نظموں سے عیاں ہوتا ہے ان کا جوہر
منکشف ان پہ ہیں فطرت کے رموز و اسرار
وہ ہو تنقید کہ تحقیق ہیں سب میں ماہر
مایۂ ناز ہیں اس عہد کے برقی ؔ فنکار

In A Seminar On Urdu Adab Mein Krishna Bhagti At AHM School Chandan Van ...

A TRIBUTE TO KADER KHAN( A BOLLYWOOD WRITER AND ACTOR) BY DR. AHMAD ALI BARQI AZMI RECITED BY NAEEM SALARIA OF LONDON (UK)

مرزا غالب کی زمین میں عشق نگراردو شاعری کے ۶۲ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری غزلِ مسلسل




عشق نگراردو شاعری کے ۶۲ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری غزلِ مسلسل
ایک زمین کئی شاعر
مرزا غالب اور احمد علی برقی اعظمی
مرزا غالب
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے
مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال
تا بازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
واں رنگ ‌ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز
یاں شعلۂ چراغ ہے برگ حنا مجھے
پرواز‌ ہا نیاز تماشائے حسن دوست
بال کشادہ ہے نگۂ آشنا مجھے
از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے
موج غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے
تا چند پست فطرتیٔ طبع آرزو
یا رب ملے بلندیٔ دست دعا مجھے
میں نے جنوں سے کی جو اسدؔ التماس رنگ
خون جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے
ہے پیچ تاب رشتۂ شمع سحر گہی
خجلت گدازیٔ نفس نارسا مجھے
یاں آب و دانہ موسم گل میں حرام ہے
زنار واگسستہ ہے موج صبا مجھے
یکبار امتحان ہوس بھی ضرور ہے
اے جوش عشق بادۂ مرد آزما مجھے
احمد علی برقیؔ اعظمی
کرکے اسیرِ غمزہ و ناز و ادا مجھے
اے دلنواز تونے یہ کیا دے دیامجھے
جانا تھا اتنی جلد تو آیا تھا کس لئے
ایک ایک پل ہے ہجر کا صبر آزما مجھے
بجھنے لگی ہے شمعِ شبستانِ آرزو
اب سوجھتا نہیں ہے کوئی راستا مجھے
آنکھیں تھیں فرشِ راہ تمہارے لئے سدا
تم آس پاس ہو یہیں ایسا لگا مجھے
یہ دردِ دل ہے میرے لئے اب وبالِ جاں
ملتا نہیں کہیں کوئی درد آشنا مجھے
کشتئ دل کا سونپ دیا جس کو نظم و نسق
دیتا رہا فریب وہی ناخدا مجھے
رہزن سے بڑھ کے اُس کا رویہ تھا میرے ساتھ
پہلی نگاہ میں جو لگا رہنما مجھے
کرتے ہیں تجزیہ سبھی ان کا بقدرِ ظرف
’’ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ‘‘
اب میں ہوں اور خوابِ پریشاں ہے میرے ساتھ
کتنا پڑے گا اور ابھی جاگنا مجھے
کیا یہ جنونِ شوق گناہِ عظیم ہے
کس جُرم کی ملی ہے یہ آخر سزا مجھے
برقیؔ نہ ہو اُداس سرِ رہگذر ہے وہ
پیغام دے گئی ہے یہ بادِ صبا مجھے




Waseem Ahmad Saeed in conversation with Prof. Anisur Rahman at Rekhta St...

اسلامی انقلاب اور ایرانی عوام کو خراج تحسین - 08 فروری 2019 بشکریہ سحر ٹی وی ایران

Glimpses of A Function Organized by Iran Culture House New Delhi In Connection With 40th Anniversary Of Revolution Of Islamic Republic of Iran









Glimpses of A Function Organized by Iran Culture House New Delhi In Connection With 40th Anniversary Of Revolution Of Islamic Republic of Iran

اسلامی انقلاب اور ایرانی عوام کو خراج تحسین - 08 فروری 2019 بشکریہ سحر ٹی وی




ہے سحر ٹی وی کی یہ اک   روح پرور پیشکش
مستحق ہے داد  کا  شمشاد کا حسنِ بیاں
پیش کرتا ہوں مبارکباد میں اس کی انھیں
ان کا یہ حسنِ عمل ہو کامیاب و کامراں
احمد علی  برقی اعظمی





حضرت امیر خسرو دہلوی کی ایک فارسی غزل کا منظوم اردو مفہوم ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی بشکریہ شعرووسخن ڈاٹ نیٹ کناڈا



حضرت امیر خسرو دہلوی کی ایک فارسی غزل کا منظوم اردو مفہوم
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
ابرباراں میں ہے اب مجھ سے مرا یار جدا
کیا کروں ایسے میں جب مجھ سے ہو دلدار جدا
چھوڑ کر جاتا ہے بارش میں مجھے یار مرا
میں الگ روتا ہوں روتا ہے الگ یار جدا
باغ سرسبز ہے، موسم ہے حسیں ، سبزہ جواں
رہتے ہیں ایسے میں اب بلبل و گلزار جدا
تونے کررکھا تھا زلفوں میں گرفتار مجھے
کردیا کیوں مجھے اس بند سے یکبار جدا
چشمِ پُرنَم مری خونبار ہے یہ تیرے لئے
تجھ سے رہ سکتا نہیں دیدۂ خونبار جدا
کیا کروں گا میں یہ اب آنکھ کی نعمت لے کر
مجھ سے ہوجائے گی جب نعمتِ دیدار جدا
درمیاں آنکھوں کے ہیں سیکڑوں پردے حائل
لوٹ آ جلد تو اور کردے یہ دیوار جدا
جا ن دے دوں گا اگر چھوڑ کے تو مجھ کو گیا
تجھ میں ہے جان مری مجھ سے نہ ہو یار جدا
حسن باقی نہ رہے گا ترا خسروؔ کے بغیر
گل سے ہرگز نہیں رہ سکتا ہے گلزار جدا

فارسی غزل حضرت امیر خسرو دہلوی
امیرخسرو دهلوی » دیوان اشعار » غزلیات
ابر می بارد و من می شوم از یار جدا
چون کنم دل به چنین روز ز دلدار جدا
ابر و باران و من و یار ستاده به وداع
من جدا گریه کنان، ابر جدا، یار جدا
سبزه نوخیز و هوا خرم و بستان سرسبز
بلبل روی سیه مانده ز گلزار جدا
ای مرا در ته هر موی به زلفت بندی
چه کنی بند ز بندم همه یکبار جدا
دیده از بهر تو خونبار شد، ای مردم چشم
مردمی کن، مشو از دیده خونبار جدا
نعمت دیده نخواهم که بماند پس از این
مانده چون دیده ازان نعمت دیدار جدا
دیده صد رخنه شد از بهر تو، خاکی ز رهت
زود برگیر و بکن رخنه دیوار جدا
می دهم جان مرو از من، وگرت باور نیست
پیش ازان خواهی، بستان و نگهدار جدا
حسن تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسی دیر نماند چو شد از خار جدا





Poetic Compliments Of Ahmad Ali Barqi Azmi In Persian On 40th Anniversary Of Islamic Republic Of Iran

Justice Aftab Alam Speaks in Prize Distribution Function Of Delhi Urdu Academy For The Selected Books 2013