مرزا غالب کی زمین میں عشق نگراردو شاعری کے ۶۲ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری غزلِ مسلسل




عشق نگراردو شاعری کے ۶۲ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری غزلِ مسلسل
ایک زمین کئی شاعر
مرزا غالب اور احمد علی برقی اعظمی
مرزا غالب
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبح وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے
ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے
مستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیال
تا بازگشت سے نہ رہے مدعا مجھے
کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
واں رنگ ‌ہا بہ پردۂ تدبیر ہیں ہنوز
یاں شعلۂ چراغ ہے برگ حنا مجھے
پرواز‌ ہا نیاز تماشائے حسن دوست
بال کشادہ ہے نگۂ آشنا مجھے
از خود گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے
موج غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے
تا چند پست فطرتیٔ طبع آرزو
یا رب ملے بلندیٔ دست دعا مجھے
میں نے جنوں سے کی جو اسدؔ التماس رنگ
خون جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے
ہے پیچ تاب رشتۂ شمع سحر گہی
خجلت گدازیٔ نفس نارسا مجھے
یاں آب و دانہ موسم گل میں حرام ہے
زنار واگسستہ ہے موج صبا مجھے
یکبار امتحان ہوس بھی ضرور ہے
اے جوش عشق بادۂ مرد آزما مجھے
احمد علی برقیؔ اعظمی
کرکے اسیرِ غمزہ و ناز و ادا مجھے
اے دلنواز تونے یہ کیا دے دیامجھے
جانا تھا اتنی جلد تو آیا تھا کس لئے
ایک ایک پل ہے ہجر کا صبر آزما مجھے
بجھنے لگی ہے شمعِ شبستانِ آرزو
اب سوجھتا نہیں ہے کوئی راستا مجھے
آنکھیں تھیں فرشِ راہ تمہارے لئے سدا
تم آس پاس ہو یہیں ایسا لگا مجھے
یہ دردِ دل ہے میرے لئے اب وبالِ جاں
ملتا نہیں کہیں کوئی درد آشنا مجھے
کشتئ دل کا سونپ دیا جس کو نظم و نسق
دیتا رہا فریب وہی ناخدا مجھے
رہزن سے بڑھ کے اُس کا رویہ تھا میرے ساتھ
پہلی نگاہ میں جو لگا رہنما مجھے
کرتے ہیں تجزیہ سبھی ان کا بقدرِ ظرف
’’ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ‘‘
اب میں ہوں اور خوابِ پریشاں ہے میرے ساتھ
کتنا پڑے گا اور ابھی جاگنا مجھے
کیا یہ جنونِ شوق گناہِ عظیم ہے
کس جُرم کی ملی ہے یہ آخر سزا مجھے
برقیؔ نہ ہو اُداس سرِ رہگذر ہے وہ
پیغام دے گئی ہے یہ بادِ صبا مجھے




شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں