Rahmat Ilahi Barq Azmi ki Tanveer e Sukhan Ki runumaaii رحمت الٰہی برق اعظمی کے شعری مجموعہ تنویرِ سخن کی تقریبِ رونمائی





Rahmat Ilahi Barq Azmi ki Tanveer e Sukhan Ki runumaaii  رحمت الٰہی برق اعظمی کے شعری مجموعہ تنویرِ سخن کی تقریبِ رونمائی

ROOH E MOMIN KI GHIZA RAMZAAN HAI BY AHMAD ALI BARQI AZMI : RECITED BY S...



Rooh e Imaan ki Ghiza
Ramzan Hai by Ahmad Ali Barqi Azmi And Recited 
By Syed Ayaz Mufti

Sukhanwar Chicago Online Aalmi Natia Mushaera, April 18, 2020 Nizamat: Abid Rasheed




سخنور شیکاگو چینل کے عالمی مشاعرے پر منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی
یہ سخنور شیکاگو کی بزم سخن
شاعروں کی ہے اک دلنشیں انجمن
آنلاین سنیں اور انہیں داد دیں
ضوفشاں جن سے ہے محفل فکر و فن
آج ہی اس سے میرا تعارف ہوا
روح پرور ہے جو مثل در عدن
زوم پر نشر ہوتے یہ ویڈیو
قابل دید ہے جن کا یہ بانکپن

لاک ڈاؤن کے دوران سخنور شیکاگو کے زیر اہتمام آنلاین عالمی
نعتیہ مشاعرے کی منظوم روداد
احمد علی برقی اعظمی
تھی شیکاگو سے سخنور کی یہ محفل شاندار
 آنلاین اس میں شرکت تھی یہ وجہہِ افتخار
 میزباں اس محفل شعرا کے تھے عابد رشید
خود بھی ہیں جو اک شیکاگو کے سخنور باوقار
 صدرِ محفل حامدِ امروہوی تھے بزم میں
 سب کے منظورِ نظر ہیں جن کے ادبی شاہکار
 ہند و پاکستان و امریکا سے شعرا تھے شریک
 جن کو حاصل ہے جہانِ فکر و فن میں اعتبار
 نعت گوئی کی یہ محفل تھی نہایت دلنشیں
 جس میں دہلی سے تھا شامل نعت پڑھ کر خاکسار
 تیسری محفل سخنور کی تھی یہ بیحد حسیں
 اس کا ادبی سلسلہ یونہی رہے یہ برقرار
 پیش کرتا ہوں مبارکباد اہل بزم کو
 ہو سبھی شعرا پہ نازل رحمتِ پروردگار
ان کے فکرو فن کا برقی اعظمی ہے قدرداں





ناظم سخنور شیکاگو عالمی مشاعرہ عابد رشید : ایک منظوم تعارف
احمد علی برقی اعظمی نئی دہلی
شاعر خوش فکر و خوش گفتار ہیں عابد رشید
اہل دانش کے معین و یار ہیں عابد رشید
کشور شعرو سخن کے ہیں شیکاگو میں سفیر
علم و دانش کے علمبردار ہیں عابد رشید
مرجع اہل نظر ہیں ان کے افکار جمیل
ترجمان کوچہ و بازار ہیں عابد رشید
ہے سخنور چینل ان کا ان کی اک ادبی شناخت
عہد نو کے زندہ دل فنکار ہیں عابد رشید
دیکھتا رہتا ہوں اکثر ان کی بزم آرائیاں
ہر جگہ اب سرخی اخبار ہیں عابد رشید
قدرداں ہے فکر و فن کا ان کے برقی اعظمی

جس کے اک نادیدہ قلمی یار ہیں عابد رشید


































آج دنیا بھر میں ہیں اردو کے جو خدمتگذار

لاک ڈاؤن کے دوران سخنور شیکاگو کے زیر اہتمام آنلاین عالمی نعتیہ مشاعرے کی منظوم روداد احمد علی برقی اعظمی


لاک ڈاؤن کے دوران سخنور شیکاگو کے زیر اہتمام آنلاین عالمی نعتیہ مشاعرے کی منظوم روداد
احمد علی برقی اعظمی
تھی شیکاگو سے سخنور کی یہ محفل شاندار
 آنلاین اس میں شرکت تھی یہ وجہہِ افتخار
 میزباں اس محفل شعرا کے تھے عابد رشید
خود بھی ہیں جو اک شیکاگو کے سخنور باوقار
 صدرِ محفل حامدِ امروہوی تھے بزم میں
 سب کے منظورِ نظر ہیں جن کے ادبی شاہکار
 ہند و پاکستان و امریکا سے شعرا تھے شریک
 جن کو حاصل ہے جہانِ فکر و فن میں اعتبار
 نعت گوئی کی یہ محفل تھی نہایت دلنشیں
 جس میں دہلی سے تھا شامل نعت پڑھ کر خاکسار
 تیسری محفل سخنور کی تھی یہ بیحد حسیں
 اس کا ادبی سلسلہ یونہی رہے یہ برقرار
 پیش کرتا ہوں مبارکباد اہل بزم کو
 ہو سبھی شعرا پہ نازل رحمتِ پروردگار
ان کے فکرو فن کا برقی اعظمی ہے قدرداں

آج دنیا بھر میں ہیں اردو کے جو خدمتگذار

A MUST WATCH INTERVIEW | RUBARU WITH RAZA SIDDIQI | AHMAD ALI BARQI AZMI...







ادبستان ٹی وی
کی برقی نوازی پر منظوم تاثرات و اظہار امتنان و تشکر

 احمد علی
برقیؔ اعظمی

ادبستان کی ہے
اپنی دنیائے ادب میں اک پہچان

 یہ چینل ہے میری نظر میں
اردو ادب کی شان

ہے یہ رضا صدیقی
کے خوابوں کی حسیں تعبیر

پیشِ نظر رہتا
ہے جن کے ہر ادبی رجحان

عصری ادب کا
آئینہ ہے اردو ادب کا یہ چینل

شعر و ادب کے نمایاں
چہرے ہوتے ہیں  مہمان

ادبی مباحث کا
ہے خزانہ ادبستان کا یہ چینل

 اس میں میسر ہو جاتا
ہے  نظم و نثر کا ہر عنوان

روبرو“ ہو
یا ”بولتا کالم“ ہیں اس کے مشہور

عہد رواں کی
ادبی روایت کی ہیں جو میزان

اس میں ”کتابیں
بولتی ہیں“ اور سنتے ہیں اربابِ نظر

اس کی توجہ کا
مرکز تھے میرے  بھی دو دیوان

دیکھتا ہے یو
ٹیوب پہ اکثر تبصرے اس کے برقیؔ بھی

اس کی اک ادبی
محفل میں یہ بھی تھا مہمان







نئی ریختہ ایپ: عاشقان اردو کے لیے ایک اور تحفہ






نئی ریختہ ایپ: عاشقان اردو  کے لیے ایک اور تحفہ

ریختہ ویب سائٹ کا آغاز اب سے سات برس پہلے چند شاعروں کی تخلیقات اور ادیبوں کی لکھی کچھ کتابوں سے ہوا تھا لیکن آج ریختہ ویب سائٹ دنیا بھر میں کسی بھی زبان اور اس کے ادب کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنے والی ویب سائٹ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس چھوٹے سے عرصے میں ریختہ  کےلیے جو بڑی حصولیابیاں رہی ہیں ان میں اردو کی تمام اچھی شاعری، نثر ی تحریریں، اردو ای- لرننگ پورٹل اور ۸۰ ہزار سے زیادہ اردو   ای-کتابوں کی مفت فراہمی ہے۔

ریختہ فاؤنڈیشن ڈیجٹل اسپیس میں اردو کی ترقی اور ترویج کے لیے مسلسل  کام کرتی جارہی ہے۔اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ریختہ ویب سائٹ کی نئی اینڈرائیڈ ایپلیکیشن  کا اجرا ہے۔ ریختہ ایپلیکیشن پلے اسٹور اور ایپ اسٹور پر پہلے بھی موجود تھی لیکن نئی ریختہ ایپ ٹیکنالوجی کے جدید معیار، صارفین کی نئی توقعات اور سہولت کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے۔ یہاں آپ بہت آسانی  سے اپنی پسند کی شاعری، شاعر،  کہانیاں، اور دیگر ادبی تحریریں تلاش کرسکتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی پسندیدہ تحریروں کا ذاتی گوشہ بنا سکتے ہیں۔ ریختہ ایپ پر اس وقت  چارہزار سے زیادہ شاعروں کی ستر ہزار سے زیادہ تخلیقات، تقریبا چار ہزار اردو کہانیاں اور مضامین مفت دستیاب ہیں۔ اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

نئی ریختہ ایپ میں شاعری کی تقریبا تمام اصناف کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے ریختہ ایپ پر صرف غزلیں، نظمیں اور اشعار دستیاب تھے لیکن اب آپ مرثیہ، قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی جیسی اصنا ف  میں تخلیق کی گئی شاعری  بھی پڑھ سکتے ہیں۔

ایپ کے اس نیے ورژن میں ایک اہم اضافہ نثری تحریروں کی شمولیت ہے۔ اس وقت ریختہ ایپ پر چار ہزار سے زیادہ کہانیاں، مضامین، خاکے اور مزاحیہ تحریریں پڑھی جاسکتی ہیں۔

ریختہ اپلیکیشن  بھی ریختہ ویب سائٹ کی طرح اردو، دیوناگری اور رومن تینوں رسم الخط میں مواد فراہم کرتی ہے۔ مزید یہ کہ قرأت کی آسانی کے لیے تمام متون کے ساتھ انبلٹ  لغت کے ذریعے کوئی بھی قاری کسی بھی لفظ کے معنی لفظ پر کلک کرے قرأت کے دوران ہی جان سکتا ہے۔  انبلٹ لغت کے علاوہ  ’ریختہ لغت‘ ریختہ ویب سائٹ اور ریختہ ایپ کا ایک اہم فیچر ہے۔ ریختہ کی کوشش رہی ہے کہ ایک ایسی لغت تیار کی جائے جو اردو  الفاظ کے معنی اردو کے ساتھ ہندی اور انگلش تینوں زبانوں میں فراہم کرے۔ ریختہ کا یہ پراجیکٹ دنیا بھر میں اردو کی سب سے بڑی اردو لغت بنانے  کا پراجیکٹ ہے۔ ابھی یہ اپنے ابتدائی مرحلے میں اور ریختہ ٹیم اس کے لیے ہر روز ایک نیے جذبے کے ساتھ کام کررہی ہے۔ فی الحال آپ ریختہ ایپ میں لغت کے ابتدائی ورژن سے استفادہ کرسکیں گے۔

مصوَّر شاعری اور  شاعروں کی اپنی آواز اور دیگر فن کاروں کی آواز میں ہزاروں آڈیوز اور ویڈیوز ریختہ ایپ کے دو اور اہم سیکشن ہیں۔ ریختہ کی کوشش رہی ہے کہ تمام شاعروں کی آوازوں کو ان کی شاعری کے ساتھ محفوظ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ریختہ کی کوششیں کامیاب رہی ہیں اور اس وقت ریختہ ایپ پر سات ہزار آڈیوز اور ویڈیوز سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔


اگر آپ اردو زبان وادب سے دلچسپی رکھتے ہیں اور صرف ایک کلک میں اپنی موبائل اسکرین پر اردو شاعری، کہانیاں، مضامین، مزاحیہ  تحریریں پڑھنا چاہتے ہیں تو ریختہ ایپ آپ کے لیے ایک بیش قیمت تحفے سے کم نہیں۔ آپ ریختہ ایپ پلے اسٹور  یا ایپ اسٹو ر سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔

ریختہ ای بکس سے... عالمگیر تنہائی اور وبا کے دنوں میں کتابوں کا سہارا توصیف خان




ریختہ ای بکس سے...
عالمگیر تنہائی اور وبا کے دنوں میں  کتابوں کا سہارا
توصیف خان
اچھی کتاب اپنے قاری کے لیے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے جو اس کو کبھی تنہائی اور اکتاہت کا احساس نہیں ہونے دیتی،  یہ ایک ایسے ہمسفر کی مانند ہے جو اپنے ساتھی کو دور دراز کے علاقوں اور شہروں کی گھر بیٹھے سیر کرادیتی ہے، آج کل ہم کرونا کی وبا کے سبب سفر نہیں کرسکتے، سب اپنے اپنے گھروں میں وقت گزاری کررہے ہیں، زندگی کی یکسانیت نے بور کررکھا ہے، ایسے وقت میں کتاب ہماری بہترین ہم نشین ہو سکتی ہے، کیونکہ مطالعہ انسان سے غم اور بے چینی کو دور کرتا ہے، سستی اور کاہلی کو غالب نہیں آنے دیتا،  ذہنی تناؤ کو ختم کرکے اس کو پرسکون بناتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے، مطالعہ بلند خیالی اور بصیرت کی صفت سے آراستہ کرتا ہے۔ ریختہ ہر برے بھلے وقت میں اپنے قارئین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے، چنانچہ ریختہ  rekhta.org نے اپنے قارئین کے لئے، مختلف حظ و ذائقہ کی دس ایسی کتابوں کا انتخاب کیا ہے جنہیں پڑھ کر اس مشکل وقت کی مغموم فضا کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔
"گویا دبستاں کھل گیا"
 یہ چودھری محمد علی ردولوی کے خطوط کا منتخب مجموعہ ہے، جسے ان کی چھوٹی بیٹی ہما بیگم نے مرتب کیا، اس میں زیادہ تر خطوط بھی انہیں کے نام ہیں، ان خطوط کی سب سب سے بڑی خصوصیت ان کا شگفتہ اسلوب بیان ہے۔ چودھری صاحب خوش مزاج، خوش ذوق، خوش لباس اور خوش گو انسان تھے، ان کے انداز بیان میں ان کی طبیعت کی شوخی جابجا جھلکتی نظر آتی ہے۔
"سوانح عمری مولانا آزاد"
نواب سید محمد آزاد کا شمار "اودھ پنچ" کے معتبر لکھاریوں میں ہوتا ہے، رشید احمد صدیقی نے ان کو اردو کے بڑے طنزیہ نگاروں میں شمار کیا ہے۔ یہ محمد حسین آزاد اور ابوالکلام آزاد کے علاوہ تیسرے انشا پرداز آزاد ہیں، زیر نظر کتاب مصنف کا ایک طنزیہ کارنامہ ہے، ایک فرضی  کردار جس کو اپنے نام سے موسوم کرکے، اس کی خودنوشت تحریر کی ہے، پھر اس کردار کے  ذریعہ معاشرے کی اخلاقی پستی، زبوں حالی اور جہاں جہاں کمزوری نظر آئی اس کی طرف طنزیہ اشارہ کرکے ایک معاشرتی اور تہذیبی خدمت کا فریضہ انجام دیا ہے، اسلوب بیان نہایت دلکش ہے، مرتب نے اس تخلیق کو ایک ظنزیہ ناول قرار دیا ہے، اس میں جگہ جگہ ظرافت کی جھلکیاں دیکھنے کو مل جاتی ہیں، یہ ناول "اودھ پنچ" میں قسط وار شائع ہوا، جس کو اپنے زمانے میں کافی مقبولیت ملی۔ مرتب نے مصنف کے حالات اور فن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
"دکھیارے"
 یہ انیس اشفاق کا زبان و بیان سے لیس ایک بہترین ناولٹ ہے، صلاح الدین درویش نے اس ناولٹ کو اردو کے دس بہترین ناولوں میں جگہ دی ہے، ناول کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، "(ناول) میں لکھنو کے ثقافتی اور تمدنی باقیات سے جڑے بڑے بیانیے کو ایک نیم پاگل شخص کی سرگزشت میں بیان کیا گیا ہے۔ عظیم اور شاندار لکھنو جس نے شمالی ہندوستان کے تہذیبی شہر دلی کے مقابلے میں ریاست کے شیعہ تشخص کو ادب، مجالس، میلوں ٹھیلوں، بازاروں، چوراہوں، گھروں، محلات، کوچوں، مساجد اور امام بارگاہوں کے ذریعے ایک دیکھنے لائق ثقافت میں ڈھال دیا تھا اور اپنی جمالیاتی قدروں کو زمانے سے منوایا تھا۔ نوابی بندوبست کے خاتمے کے ساتھ ہی اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے، غربت محلات سے لے کر امام باڑوں تک کی قیمت لگا دیتی ہے لیکن اس شہر کے باسیوں کی نہ غربت کم ہو پاتی ہے نہ زندگی پر اختیار۔ ناول میں مرکزی کردار بڑے بھائی کے ذریعے گذشتہ لکھنو کی ثقافتی اقدار کو لکھنو کے مجروح تمدنی ماحول میں جہاں ایک طرف ملول دل کے ساتھ تحفظ کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہیں اس شہر کے اطراف میں پھیلتی انسانی آبادیوں میں مسلسل اور بے تحاشا اضافے کے باعث اس شہر کے سکڑتے سکڑتے اس کی عظمت رفتہ کا نوحہ بھی بیان کر دیا ہے۔ اس ناول کے فن میں خوبصورتی یہ ہے کہ مضافات میں پھیلتے شہر میں کوئی شکایت بھی نہیں ملتی۔"
"دلی جو ایک شہر تھا"
 "دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب" ہاں، وہی دہلی جہاں سے علم و ادب کا سورج طلوع ہوا، جو اردو زبان و ادب کی پختہ رصدگاہ ہے، جہاں سے ستارۂ امتیاز کا ظہور ہوتا ہے اور میرو غالب کا پتا ملتا ہے، وہاں جب قہر غم الفت و روزگار پڑتا ہے تب بھی لوگ اسے سینے سے لگائے رہتے ہیں، جہاں کی وضع داری اور محبتیں مشہور ہیں، جو خواجگان کی سرزمین کہلاتی ہے، جس کی تہذیب و تمدن کے اہرام کئی بار مسمار ہوئے، کئی بار تعمیر ہوئے، وہ دلی اور دلی والوں کی خوبیاں اب درگور اور درکتاب ہیں۔ اس کتاب کے مندرجات اسی دلی کی بازیافت ہیں، شاہد احمد دہلوی صاحب اسلوب ادیب ہیں، زبان کا برمحل استعمال اور محاوروں کو برتنے کا سلیقہ انہیں ورثہ میں ملا، ان کے یہاں دلی کی بولی ٹھولی اور ٹکسالی زبان کا استعمال بہت سلیقے  سےکیا گیا ہے۔
"کافکا کے افسانے"
فرانز کافکا کا شمار بیسویں صدی کے بہترین فکشن نگاروں میں کیا جاتا ہے، نئے اردو افسانے پر براہ راست یا بالواسطہ کافکا کا کافی اثر پڑا ہے، کافکا کو ادبیات میں پیچیدہ ترین دماغ کا مالک سمجھا جاتا ہے، اس کی تحریروں میں کئی طرح کی تاویلوں کے جواز موجود ہیں، اس کی تمثیلوں پر تمثیل کا گمان نہیں گزرتا بلکہ اس کا قاری انہونی باتوں کو ایک حقیقت سمجھ کر تسلیم کرلیتا ہے، یہی کافکا کا کمال ہے۔ اس مجموعہ میں کافکا کی چھوٹی بڑی بیس تحریریں شامل ہیں، جن کو نیر مسعود صاحب نے ترجمہ کیا ہے، کہانی کے ساتھ نیر مسعود کے اسلوب بیان سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
"بجنگ آمد"
 یہ کتاب اردو ادب کے مشہور و معروف مزاح نگار کرنل محمد خان  کی زمانۂ جنگ کی گزاری ہوئی زندگی کی داستان پر مبنی کتاب ہے۔ اس کتاب میں جہاں بہت سی ہونی اور ان ہونیوں کا ذکر ہے، جہاں بہت سے پر لطف یادگار اور قابل ذکر واقعات، ادوار اور یارانِ دلدار کا ذکر ہے وہاں انہوں نے اپنی اس کتاب کی معرفت اور اپنی خوش بیانی کی بنا پر ان کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ اس نے ان سب کو داستانِ جاوداں بنا دیا ہے، ممتاز مزاح نگار سید ضمیر جعفری کتاب کے بارے میں فرماتے ہیں، "کہ انسانوں کی طرح کتابیں بھی قسما قسم کی ہوتی ہیں۔ مثلاً "بزرگ کتابیں"، "نادان کتابیں" وغیرہ وغیرہ۔ "بجنگ آمد" ایک "دوست کتاب" ہے یعنی ایسی کتاب جس پردل ٹوٹ کر آجائے۔ جس کے ساتھ وقت گزار کر آدمی دلی راحت محسوس کرے۔ جس سے بار بار گفتگو کرنے کو جی چاہے۔ دوست، جو خوش رو بھی ہے، خوش مذاق بھی۔ شوخ بھی ہے اور دلنواز بھی۔ ذہین بھی ہے اور فطین بھی اور ہنس مکھ اتنا کہ جب دیکھے ہونٹوں پر ہنسی آئی ہوئی ہو"۔
"بہاؤ"
 پاکستان سے شائع ہونے والا اردو ناول ہے جسے اردو کے مشہور و معروف مصنف مستنصر حسین تارڑ نے تحریر کیا ہے۔ اس ناول کا موضوع وادئ سندھ کی تہذیب ہے۔ اس ناول میں تارڑ نے تخیل کے زور پر ایک قدیم تہذیب میں نئی روح پھونک دی۔ "بہا" میں ایک قدیم دریا سرسوتی کے معدوم اور خشک ہوجانے کا بیان ہے،  دریا آہستہ آہستہ اتنا خشک ہو جاتا ہے کہ زندگی تعطل کا شکار ہو جاتی ہے اور پانی جو زندگی کا اہم عنصر ہے مفقود ہو جاتا ہے۔ اس تباہی سے بہت سے حیوانات مر جاتے ہیں۔ کچھ دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔ ڈائنو سار جیسے بڑے جانور ختم ہو جاتے ہیں مگر انسان واحد حیوان ہے جو محفوظ رہتا ہے۔ اس ناول کا دل چسپ عنصر بھی یہ ہے کہ انسان، ایک ایسی عجیب وغریب چیز ہے جو ان تمام حادثات و واقعات اور تباہی (Disaster) کے بعد بھی بچ نکلنے میں کامیاب رہتی ہے۔ اس ناول میں حیران کن چیز، مستنصرحسین تارڑ کا مضبوط تخیل ہے جو پانچ ہزار سال پہلے کی تہذیب ہماری آنکھوں کے سامنے لاکھڑی کرتا ہے۔
’’گمنام آدمی کا بیان‘‘
یہ شاعر و صحافی فاضل جمیلی کا پہلا مجموعہ کلام ہے، فاضل جمیلی ایک باکمال شاعر ہیں، ان کی نظموں میں زندگی رواں دواں دکھائی دیتی ہے ان کا مجموعہ کلام خوبصورت اشعار سے مزین ہے۔ وہ نظم اور غزل پر یکساں قدرت رکھتے ہیں، اس مجموعہ میں غزلوں کے علاوہ چھوٹی بڑی تقریبا ستر نظمیں بھی ہیں، بہت آسان زبان میں کہی گئی ہیں، جن کے مطالعہ سے مختلف قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں، جو کبھی کبھی مایوس بھی کردیتی ہے۔ وہ لفظوں کے مصور ہیں، احساس کو خوبصورتی عطا کرتے ہیں۔ فاضل جمیلی کی شاعری جدید دور کے تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہے، یہ مجموعہ شروع کرنے کے بعد خود کو پڑھواتا اور منواتا ہے، یہاں بہت کچھ ہے۔ سوزوگداز، جدت طرازی، نکتہ رسی، ایسے ایسے پرخیال اشعار جن کو پڑھ کر ایک طرح کا اطمینان ملتا ہے۔
"چلتے ہو تو چین کو چلئے"
یہ ابن انشا کا سفرنامہ چین ہے، چین آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے ویسے ہی کافی چرچے میں ہے، ابن انشاء نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا، جن کا احوال اپنے سفر ناموں میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔ مزاح کے پردے میں ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بلیغ طنز انہی کا طرہ امتیاز ہے۔ پیروڈی کا انداز، وسعت معلومات، سیاسی بصیرت اور صورت واقعہ سے مزاح کشید کرنا وہ خاص عناصر ہیں جن کی بدولت ابن انشا کو ادبی لیجینڈ کا تاج ملا۔ اﺑﻦ ﺍﻧﺸﺎ ﺍﯾﮏ بڑے ﻣﺰﺍﺡ ﻧﮕﺎﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﺰﺍﺡ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﮐﺎ ﺍﺳﻠﻮﺏ ﺍﻭﺭ ٓﮨﻨﮓ ﻧﯿﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﭘﺮﮐﺎﺭﯼ،  ﺷﮕﻔﺘﮕﯽ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮕﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮﯾﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﺩﺑﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﻌﻤﺖ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ مشتاق احمد یوسفی نے ابن انشاءکے مزاحیہ اسلوب کے حوالے سے لکھا، "بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔" ۱۹۸۱ تک یہ سفر مانہ تقریبا ۹ مرتبہ پبلش ہوچکا تھا، اس سے اس سفر نامہ کی کچھ مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
"مجموعہ مرزا عظیم بیگ چغتائی"
یہ مرزا عظیم بیگ چغتائی کی تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں ان کے کچھ ڈرامے، داستان اور مضامین شامل ہیں، اردوزبان کو طنزومزاح سے جن ادیبوں نے پوری طرح مزین کیا، ان میں دیگر فنکاروں کے ساتھ مرزا عظیم بیگ چغتائی کا بھی بڑا حصہ ہے، وہ زندگی کو پیش کرنے والے ادیب ہیں، بہت مشکل حالات میں زندگی بسر کی، انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اپنی تحریروں میں کاروان حیات کےمختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، مرزا عظیم بیگ نے اپنی تحریروں میں خوش مزاجی اور زندہ دلی کو اس طرح شامل کیا کہ وہ معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بن گئیں۔ وہ چہار دیواری کے اندر مچلتی ہوئی خواہشوں کو اتنے چلبلے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری کے لبوں پر نہ صرف تبسم رقص کرنے لگتا ہے بلکہ وہ بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں خود اپنی زندگی کے بعض حالات کو بھی شامل کرکے ان کے کرداروں میں خود اپنی ذات کو بھی شامل کرلیتے ہیں، ان کا پرخلوص انداز اور شائستہ اسلوب واقعی لائق تحسین ہے۔
نوٹ:

 پڑھ کر ضرور بتائیں کہ ریختہ کی یہ پیش کش آپ کو کیسی لگی، آپ اپنی طرف سے بھی کوئی تجویز، کچھ اپنی پسند کی کتابوں کی فہرست پیش کر سکتے ہیں، ریختہ اگلی پیش کش میں آپ کی پسند پر ضرور غور کریگا۔ آپ اپنی رائے ہمیں Ebooks@rekhta.org    پر دے سکتے ہیں۔

ROOH-E-MOMIN KI GHIZA RAMZAAN HAI BY AHMAD ALI BARQI AZMI RECITED BY SYED AYAZ MUFTI


ROOH-E-MOMIN KI GHIZA RAMZAAN HAI  BY AHMAD ALI BARQI AZMI RECITED BY SYED AYAZ MUFTI

محشر خیال میں جناب امین بنجارا کی برقی نوازی




DR. BARQI AZMI : A GREAT POET OF OUR TIMES. BY: Dr. Syeda Imrana Nashtar Khairabadi Atlanta USA.


DR. BARQI AZMI : A GREAT POET OF OUR TIMES.
BY: Dr. Syeda Imrana Nashtar Khairabadi
Atlanta USA.
Dr. Ahmad Ali Barqi Azmi is a great poet of our times. He is a poet of the Urdu language. He is original, indispensable, passionate, vivid and dedicated to his art. He was born in Azamgarh U.P. India on December 25, 1954. He received his Masters in Urdu and Persian, and his Doctorate in Modern/Classical Persian from the Centre of African and Asian Languages of Jawaharlal Nehru University (JNU), New Delhi, India. He has visited many countries, including Iran and Afghanistan, on study tours. Hi is serving as as Translator-cum-Announcer in the Persian Service of the External Services Division of All India Radio New Delhi since last 35 years.He has served the organaization for 33 years & retired from service on 31 December 2014 & presently serving as Casual Broadcaster . He has an illustrious family background. His father, Hazrat Rahmat Elahi Barq, was a great poet of Urdu whose poetry collection entitled “Tanweer-e-Sukhan” is a great treatise of the Urdu language. Dr. Barqi Azmi inherited poetic genius from his father, who also provided him poetic inspiration.
Dr. Barqi’s poetry collection entitled “Rooh-e-Sukhan” is a masterpiece of his art. It is unique in many ways. It is an extensive collection, consisting of approximately 500 pages and thousands of his remarkable ghazals (a form of Urdu poetry). It is notable not only for the masterful way in which the poet Barqi conveys his thoughts and feelings, but also because of its variety of subject matter, topics and poetic styles. It is also important for its significant message in support of global peace and various national and international important issues. For example, he addresses natural disasters including the 2004 tsunami and the 2011 Japan earthquake, scientific expeditions, health topics such as polio and AIDS, and environmental issues such as pollution and global warming. The poet treats modern topics such as Facebook and the Internet, and commemorates international observances such as Earth Day, Mother’s Day, and International Science Day. The poet has also included poetic tributes to living and deceased poets, writers, and artists, including legends like Wali Deccni, Meer Taqi Meer, Ghalib, Iqbaal, Jigar, Sir Syed, Faiz Ahmad Faiz, and many more. His poetry collection “Rooh-e-Sukhan” is the mirror of his soul and a triumph of his poetic achievement, effort, and art.
He himself writes about his poetry collection as follows:
“Majmu-e-Kalam hai “Rooh-e- Sukhan” mera
Peshe nazar hai jismeN yahaN fikr-o-fun mera
Gulhaye raNgaraNg ka Guldasta-e-hasiN
Ash’ar se aya hai yahi hai chaman mera.”
Dr. Barqi has great esteem for his father .He writes about his excellence in the following couplets:
“Mere walid ka nahiN koi jawab
Jo the aqsaayae jahan meN intikhab.
Unka majmu-e-kalam hai”Tanweer-e-Sukhan”
JismeN husn-o-fikro fan hai lajawab
The poet Barqi has great love for his birthplace city, Azamgarh. He writes of it:
“Shahar Azamgarh hai Barqi mera abai vatan
Jiske azmat ke nishaN hain har taraf jalwa figan.”
Dr. Barqi discusses his philosophy of life in the following lines:
“Mera sarmayae hayat hai jo
Vo hai mere zameer ki awaz”
Dr. Barqi Azmi’s spiritual and devotional poetry rose and grew fuelled by his religious faith and doctrines which are deeply rooted in Islam, that is, the religion of peace and love. In the following ash’ars he expresses his great gratitude and thanks towards Almighty Allah (God) for his blessings:
“MaiN shukr ada kaise karooN tere Karam ka
“Haqqa ke Khudawand hai too loho qalam ka”
Toofan-e-hawadis meN hai Barqi ka safeena
Kar sakta hai ab too hi izala mire gham ka”.
The poet Barqi’s love for the prophet Mohammad (SAW) is immense. He expresses his high regard for him as follows:
“Nabi ki zaat zeenat ban gayi hai mere DeewaN ki
Unhi ka noor hai jo roshni hai bazmeN imkaN ki
Wahi hai shan meN jinki hai waraf’ana lak zikrak
SanakhwaN unki azmat ki har ik Ayat hai QuraN ki.”
In another place, the poet writes about Hazrat Mohammad (SAW) as follows:
“Mere Sarkar ane wale haiN
Haq ka paigham lane wale haiN”

About the Holy Quran Pak, Barqi writes:
“Iska ik ik lafz hai rushdo hidayat ka payam
Kar diya barpa jahaN meN jis ne zehni inqilab.”
Dr. Barqi expresses his views about Islam as:
“Mazhab-e Kaynat hai Islam
Sab ki rahe nijat hai Islam.”
ِِِِDr.Barqi defines Urdu Ghazal as:
"Ahsaas ka waseela-e-izhar hai Ghazal
Aainadaar-e nudrate afkar hai Ghazal
Urdu adab ko jispe hamesha rahega naaz
Izhar-e-fikro-fun ka vo mayaar hai Ghazal
Barqi ke fikro-fun ka muraqqa isi meN hai
Barq Azmi se matlae anwar hai ghal".
In another place poet says:

"Wo Ghazal hai rooh-e- Urdu shayri
Jo hadees-e husn ki tafseer ho."

Dr. Barqi writes about his poetry as:

"Aap beeti haiN meri Ghazal ke asha'ar
Sun ke sab log haiN aNgushtbadandaN JanaN."

Dr. Barqi depicts in his poetry many positive aspects of love and life, truth and beauty. His love poetry is powerful and passionate, tender and sensuous, sweet and musical, melancholic and sublime.
“Baat hai unki baat phooloN ki
Zaat hai unki zaat phooloN ki
Wo mujassim bahar haiN unmeN
Hai bohat si sifat phooloN ki
Another example:
“HaiN uske daste naaz meN dilkash hina ke phool
Izhar-e-ishq kiya hai usne dikha ke phool.”
The poet Barqi describes his beloved as:
“Bhara hai phooloN se us Ggulzar ka daman
Wo rashke gul hai mujassim bahar ka daman
Wo ake dekhe to ho jayega yaqeeN us ko
Bohat wasi hai Barqi ke pyar ka daman.”
Please see the following beautiful sher of Dr. Barqi:
“Guzre jidhar se wo zulfeN saNwar ke
The mushk bar jhoNke Naseem-e-Bahar ke”.
About love, the poet Barqi’s outlook is very positive. He declares:
“Ishq hai dar asl husn-e-zindagi
Ishq se hai zidagi meN ab-o-tab.”
Many of Barqi’s ghazals seem the product of self-pity, a search for solace or validation. They are inspired by his everyday life. His love poetry is quite adept and eloquent in expressing sadness:
Meri chashm-e-nam meN hai jo maujzan
Aisi toughiyani kabhi dekhi hai kya.”
Please see another sher:
“MaiN judaai kis tarha sahooN sham ke ba’ad
Bin tire too hi bata kaise rahooN sham ke ba’ad.”
Another sher expresses the same agony:
“Kitni veerani hai ab is meN na pooNch mujhse
Mera kashana-e-dil ab hai mazaroN ki tarha.”
The following ash’ars express the poet Barqi’s saddest thoughts:
“Rooh farsa hai judai ka tasawwur Barqi
Dil pukare hi chala jata hai JaanaaN JaanaaN.”
Veeran hai mera qasre dil ab koi nahiN rahta hai vahaN bas
Baqi bache haiN chand khaNdhar jo dehte dehte deh na sake.”
Despite his growing despair, he is able also to feel immense joy. Love in Barqi’s poetry is not merely a personal voyage. His objective is to show love as a theme in itself, the fundamental fuel of the entire poetic process.
Dr. Barqi describes nature beautifully. He writes:
“Husne fitrat ka nazara hai ye behad shandar
Hai numaya jisse Barqi sana’te parwardigar
Hai ye farhat bakhsh manzar Deeda-o-dil ke liye
Khoobsoorat jheel ke pehloo meN dilkash kosaar.”
Dr. Barqi’s poetry is important for its great message to the world. He says:
“Khud jiyeN auroN ko bhi jeeneN deN
Zinda rahne ki hai sab ko chahat ”
“Sabko deN aman -o-Mohabbat ka pyam
Chorh deN bughz-o-hasad aur nafrat”
“Aao miljul ke kareN kuch aisa
Khatm ho jaye jahaN se vahshat.”
Dr.Barqi says:
Aman-e-alam ki fiza hamwaar hona chahiye
Aadmi ko aadmi se pyaar hona chahiye."
Most great poets throughout the history of language have left their mark through specific works of art and poetry. Dr. Barqi has devoted his entire life to the advancement of Urdu language and literature. His poetic collection “Rooh-e-Sukhan” is his claim to greatness. It covers every point on the spectrum, every topic, every intention, every event, every emotion and sentiment imaginable. It is like a garden of red, red roses. It has vast dimensions of thought. It is significant for its awesome content, its profound poetic tributes, its wonderful form, its elegant language, its beautiful figures of speech, and its rich poetic diction. It is further distinguished by its high and sublime messages of global peace and brotherhood, which are so sorely needed in this incendiary and painful time.
As a poet, Barqi’s output is unsurpassed and unmatched. He employs the creative medium to reflect, interpret, and represent the intersection of his inner workings and the reality of the world around him. For his immense contribution to Urdu language and literature, the poet Dr.Ahmad Ali Barqi Azmi is entitled to the highest admiration and congratulations from innumerable voices all over the world. May Allah bless him.

With best regards, great thanks and high esteem.
By
Dr.Syeda Imrana Nashtar Khairabadi
Atlanta, GA .USA