نہیں جاتی ہے کوئی رایگاں تدبیر بسم اللہ : احمد علی برقی اعظمی




غزل
احمد علی برقیؔ اعظمی
نہیں جاتی ہے کوئی رایگاں تدبیر بسم اللہ
پس ازتخریب کرتے ہیں نئی تعمیر بسم اللہ
لڑائے گی مری تدبیر اب تقدیر سے پنجہ
لکھے گا از سرِ نو کاتبِ تقدیر بسم اللہ
ہمارا عزمِ راسخ کامیابی کی ضمانت ہے
ہمارے حق میں ہوگی خواب کی تعبیر بسم اللہ
ہمارا کام ہے کوشش کریں ہم بازیابی کی
ملے گی اِک نہ اِک دن گمشدہ جاگیر بسم اللہ
پہونچ جائیں گے اپنے کیفرِ کردار کو خود ہی
ستمگر ہیں یہ بیشک لایقِ تعزیر بسم اللہ
’’شبِ تاریک کے دامن سے ہوتی ہے سحر پیدا‘‘
نہ ہوگا مستقل یہ نالۂ شبگیر بسم اللہ
بھروسہ قوتِ بازو پہ رکھ عزمِ مصمم سے
نہ ہوگی پاؤں میں برقیؔ ترے زنجیر بسم اللہ


جسے دیکھو لگا ہے درہم و دینار کے پیچھے : احمد علی برقی اعظمی : بشکریہ قوس قزح



روح سخن شعری مجموعہ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی مبصر : ڈاکٹر طارق ذکی، ماہنامہ ایوان ادب اردو ، اردو اکادمی دہلی


برقی اعظمی کے بارے میں اہلِ نظر کے تاثرات





ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی روح سخن کے آئینے میں بقلم اسلم چشتی


دل پکارے ہی چلے جاتا ہے جاناں جاناں : نذرِ احمد فراز احمد علی برقی اعظمی : بشکریہ روزنامہ آفتاب ادبی گوشہ بتاریخ ۳۰ اگست ۲۰۱۸


کوئی دیوار گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے : نذرِ انور مسعود بشکریہ قوس قزح ادبی گروپ و ایک زمین کئی شاعر گروپ ۔۔۔ قوس قزح ادبی گروپ کے 35 ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش




ایک زمین کئی شاعر
انور مسعود اور احمد علی برقی اعظمی اور شہناز شازی
انور مسعود
پجیرو بھی کھڑی ھے اب تو ان کی کار کے پیچھے
عظیم الشان بنگلہ بھی ھے سبزہ زار کے پیچھے
کہاں جچتی ھے دیسی گھاس اب گھوڑوں کی نظروں میں
کہ سر پٹ‌ دوڑتے پھرتے ہیں وہ معیار کے پیچھے
عجب دیوار اک دیکھی ھے میں نے آج رستے میں
نہ کچھ دیوار کے آگے ، نہ کچھ دیوار کے پیچھے
تعاقب یا پولِس کرتی ھے یا از راہِ مجبوری
کوئی گلزار پھرتا ھے کسی گلنار کے پیچھے
سرہانے سے یہ کیوں اٹھے ، وہ دنیا سے نہیں اٹھاک
مسیحا ہاتھ دھو کر پڑ‌گیا ھے بیمار کے پیچھے
ہوا خواہان سرکاری تو بس پھرتے ہی رہتے ہیں
کوئی سرکار کے اگے کوئی سرکار کے پیچھے
بڑے نمناک سے ہوتے ہیں انور قہقہے تیرے
کوئی دیوار گریہ ھے ترے اشعار کے پیچھے
احمد علی برقی اعظمی
نہیں ہو جیسے کوئی مُفلس و نادار کے پیچھے
جسے دیکھو لگا ہے درہم و دینار کے پیچھے
نہیں شکوہ مجھے کوئی رقیبوں اور غیروں سے
مرے اپنے ہی درپردہ تھے میری ہار کے پیچھے
تھے مارِآستیں جو پَل رہے تھے میرے دامن میں
نہ جانے بھاگتا پھرتا تھا کیوں میں مار کے پیچھے
سمجھ لیں گے دلِ درد آشنا ہے جن کے سینے میں
نہاں سوزِ دروں ہے دیدۂ خونبار کے پیچھے
سبھی اک دوسرے کے حاشیہ بردار ہوں جیسے
کوئی ہے یار کے پیچھے کوئی اغیار کے پیچھے
صحافی کررہے ہیں خوں صحافت کے اُصولوں کا
پڑے ہیں اس لئے وہ میرے ہی کردار کے پیچھے
کرے کوئی بھرے کوئی کا ہے مجھ پر مَثَل صادق
مرا ہی ذکر رہتا ہے ہر اک اخبار کے پیچھے
ریا کاری سے اپنی عاقبت برباد کرتے ہیں
جو ایسا کررہے ہیں جبہ و دستار کے پیچھے
جسے نَم دیدہ ہو جاتے ہیں سن کر اہلِ دل برقی
’’ کوئی دیوار گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے ‘‘
بشکریہ : قوس قزح ادبی گروپ اور ایک زمین کئی شاعر
قوس قزح ادبی گروپ کے 35 ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش
مصرعہ طرح : ’’ کوئی دیوار گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے ‘‘ ( انور مسعود )
احمد علی برقی اعظمی
جو پھرتا ہے ہمیشہ کوچۂ دلدار کے پیچھے
نظر رہتی ہے اس کی شربتِ دیدار کے پیچھے
مجھے معلوم ہے کیا ہے مزاج یار کے پیچھے
رضامندی ہے شامل اس کی اس انکار کے پیچھے
کوئی کہہ دے یہ اُن سے چاردن کی چاندنی ہے یہ
لگے رہتے ہیں جو ہردم لب و رخسار کے پیچھے
جہاں ہر دور میں تھا دشمنِ جاں حق پرستوں کا
ملیں گے سرمد و منصور اب بھی دار کے پیچھے
حقیقی زندگی کیا ہے اگر یہ دیکھنا چاہیں
تو دیکھیں جا کے اس کو کوچہ و بازار کے پیچھے
ہیں نالاں غنچہ و گل باغباں کی باغبانی سے
پڑا ہے ہاتھ دھو کر جو گُل و گُلزارز کے پیچھے
نہ چھوڑے گا کہیں کا آپ کو وہ جان لیں اک دن
نہ جائیں اُس کی اِس شیرینیٔ گفتار کے پیچھے
مصاحب تھا امیرِ شہر کا جو مُفسدِ دوراں
نہیں ہے اب کوئی اُس حاشیہ بردار کے پیچھے
چمن میں جاکے دیکھو خود نظر آجائے گا تم کو
گُلِ اُمید برقی اعظمی ہے خار کے پیچھے

شہناز شازی
قوی اعصاب ہی کافی نہیں تلوار کے پیچھے
شہادت کا جنوں بھی چاہئے یلغار کے پچھے
شب غم نوحہ خوانی میں شریک درد رہتا ہے
کوئی سایہ سا روتا ہے مری دیوار کے پیچھے
میسر ہیں ہمیں جو آج میٹھے پھل گھنے سائے
بزرگوں کی کڑی محنت ہے ان اشجار کے پیچھے
تماشائی بھلا کیا جانے گہرے گھاؤ گھنگھرو کے
ہے رقاصہ کے دل کا درد ہر جھنکار کے پیچھے
چھپا ہے کرب کا اک بیکراں احساس لفظوں میں
'' کوئی دیوار گریہ ہے ترے اشعار کے پیچھے''
بہت اسباب ہیں یوں تو شکست ذات کے لیکن
کسی کی جیت پوشیدہ ہے اپنی ہار کے پیچھے
قرینہ شعر گوئی کا بڑی مشکل سے آتا ہے
جلانا پڑتا ہے خون جگر اشعار کے پیچھے
اداکاری بھی اک فن ہے مگر سچ تو ہے یہ شازی
ہدایتکار کی محنت ہے ہر کردار کے پیچھے



مجھ سے مِلا وہ غمزہ و ناز و ادا کے ساتھ :ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز انٹرنیشنل کے ۵۲ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی



ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز انٹرنیشنل کے ۵۲ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
مجھ سے مِلا وہ غمزہ و ناز و ادا کے ساتھ
لیکن نہ نبھ سکی مری اُس دلربا کے ساتھ
تیر نظر چلاکے ڈراتا ہے جو ہمیں
وہ کرسکے گا زیر نہ جور و جفا کے ساتھ
اُس کا غرورِ ناز مِٹا کر ہی لیں گے دم
دیں گے جواب ہم اُسے صبر و رضا کے ساتھ
منجدھار میں جو ہم کو ڈبونے پہ ہے تُلا
’’ ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ ‘‘
سینہ سپر ہیں موجِ حوادث کے سامنے
اُن میں سے ہم نہیں ہیں چلیں جو ہوا کے ساتھ
’’ دشمن اگرقوی است نگہباں قوی تر است ‘‘
ابرِ سیاہ چَھٹ گیا کالی گھٹا کے ساتھ
برقی نہ تھا ضمیر فروشی مرا شعار
رہزن کے ساتھ تھا تو کوئی رہنما کے ساتھ


قتل کرکے مجھے دکھ جتایا گیا : احمد علی برقی اعظمی ۔۔۔ بشکریہ عشق نگر اردو شاعری


سیانے آج کے بچے بہت ہیں : احمد علی برقی اعظمی ۔۔۔۔ بشکریہ موج سخن


نادیدہ دوست ارجمند مظفر احمد مظفر کی نذر : احمد علی برقی اعظمی


روح سخن.. برقی اعظمی کے فکروفن کا آئینہ : انجینئر محمد فرقان سنبھلی شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ




روح سخن.. برقی اعظمی کے فکروفن کا آئینہ                                          
انجینئر محمد فرقان سنبھلی
شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
برقی ؔ اعظمی کا شمار ان معدودے چند شعراء میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی شاعری کو نہ صرف کلاسیکی روایات شعر و ادب سے پوری طرح ہم آہنگ رکھا ہے بلکہ دور حاضر کے تقاضوں کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ برقی اعظمی فی البدیہہ شعر کہنے میں جیسی مہارت رکھتے ہیں وہ بہت کم شعراء کے حصہ میں آئی ہے۔ برقی اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ ’’روح سخن‘‘ ان کی طویل عرصہ کو محیط شعری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ برقی انٹرنیٹ خصوصاً فیس بک پر بہت فعال ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس کے ذریعہ دنیا بھر میں مقبول ہوچکے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر مختلف ادبی گروپوں کے ممبر ہیں۔ سائبر مشاعرے منعقد کرتے رہتے ہیں۔ فی البدیہہ مشاعروں میں ان کی شرکت مشاعروں کو رونق عطا کرتی ہے۔ فیس بک پر ان کی
۴۰۰۰ سے زائد غزلیں اور نظمیں شائع ہوچکی ہیں اور انھوں نے انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
برقی اعظمی کو موضوعاتی شاعری سے گہرا شغف رہا ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری میں کلاسیکی روایات کے ساتھ ساتھ عصری آگہی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ ’’روح سخن‘‘ میں موضوعاتی شاعری کی کئی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ برقی اعظمی انسان شناسی کے ماہر ہیں اور اسلوب کی تفہیم میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اپنی موضوعاتی نظموں میں برقی نے جس طرح کا منفرد اسلوب اختیار کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔
برقی اعظمی نے موضوعاتی شاعری کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کراتے ہوئے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ عظیم شخصیات کو منظوم خراج عقیدت پیش کرنا، کسی خاص دن پر شعر کہنا، کوئی تہوار، حادثہ یا واقعہ رونما ہونے پر شعر کہنا، رسالے کے خاص شمارہ یا کتاب کی رسم اجرا وغیرہ پر منظوم کلام پیش کرنا ان کا اختصاص ہے۔ ’روح سخن‘ میں انھوں نے ’یادرفتگاں‘ کے عنوان سے اقبال، فیض، مجاز، کیفی، مجروح، اصغر گونڈوی، آرزو لکھنوی وغیرہ پر منظوم خراج عقیدت پیش کرکے اپنی شعری مہارت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ روح سخن میں کئی ایسے اشعارشامل ہیں، جو کہ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
عمر بھر جن کو سمجھتا تھا میں اپنا خیر خواہ
آستینوں میں انھیں کی ایک دن خنجر ملے
کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں
سو صفر جوڑے مگر برقی نتیجہ تھا صفر
بام عروج سے آگیا نیچے
ڈھل گیا سورج ڈھلتے ڈھلتے
ہوا کرتے تھے جو دربان اپنے
اب ان کی آج سلطانی کے دن ہیں برقی اعظمی کی شاعری کا بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے کیونکہ انھیں یہ صنف سخن بہت محبوب ہے۔ ان کی غزلوں کی ایک خامی یا خوبی یہ ہے کہ ان کی بیشتر غزلیں آغاز تا اختتام تقریباً ایک ہی رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہیں ۔ وہ جان بوجھ کر یک رنگی غزل نہیں کہتے در اصل ان کی غزل کا یہ رنگ غیر اختیاری ہے۔ غزل کے تمام اشعار خود اپنے آپ میں مکمل ہوتے ہیں، اگر یہ اشعارتسلسل کے جال میں پھنس جائیں تو ان پر مثنوی یا نظم کا احساس ہونے لگتا ہے۔ برقی اعظمی نے حالانکہ خود کو اس جال سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ برقی اعظمی نے ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو اجاگر کرنے میں بھی غزل کی صنف کا سہارا لیا ہے، جو کہ بیشتر مواقع پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ برقی اعظمی کی غزلوں کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی تقریباً ہر غزل کامرکزی کردار ان کی اپنی ذات سے وابستہ ہے۔برقی اعظمی نے غزل کے روایتی مضامین یعنی عشق وعاشقی کے قصوں سے حتی الامکان دور رہنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کی ہے حالانہ ان کی کچھ غزلوں میں تغزل کا رنگ خوب ابھرا ہے:
چاند سے کم نہیں اس کا روئے حسین
روئے زیبا کی ہے دلکشی چاندنی
کیوں نظر آرہا ہے وہ گم سم
آج کیوں لب کشا نہیں ہوتا
وہ مجسم بہار ہیں ان میں
ہیں بہت سی صفات پھولوں کی
برقی اعظمی خوش فکر شاعر ہیں انھوں نے اپنی فکری بصیرت کی وسعت کا ’’روح سخن‘‘ میں خوب احساس کرایا ہے۔ ان کی فکر کی وسعت عالمی سطح کے افق پر پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ وہ صیہونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں پر کچھ یوں کہتے ہیں:
حالات سے ہے مشرق وسطیٰ کے آشکار
صیہونیت کی زد میں ہے امن و امان پھر
ہے فلسطین اس کی ایک مثال
جیسے اک کارزار ہے دنیا
برقی اعظمی کے شعری موضوعات میں ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی ضرورت، داخلی خلش اور خلفشار، عماء فضلاء کی بے قدری، شہری زندگی کی بیزاری، دنیا کی برق رفتاری اور اس کے نتائج، آزادئ ہندوستان اور اقلیتوں پر فسادات کے عذاب، خدمت خلق کا جذبہ، عظمت رفتہ کی بازیافت کے ساتھ ساتھ ہجر و فراق اور عشق و عاشقی کے مضامین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے فضا کی آلودگی اور عالمی حدت سے بیزاری کے مضامین کو خوبصورتی کے ساتھ اپنی غزلوں میں پیش کرکے نوع انسانی کی تباہی کے متعلق با ربار متنبہ کرنے کی سعی کی ہے:
اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ
رونق بزم جہاں کل ہو نہ ہو
ان کی موضوعاتی نظمیں گلوبل وارمنگ، ماحولیات، پولیو، ایڈز، سائنس اور مختلف دنوں جیسے موضوعات شامل ہیں۔ برصغیر ہندوپاک کی گنگا جمنی تہذیب اور ثقافت کی رنگت سے بھرپور ہے۔
نظر بچاکے وہ ہم سے گزرگئے چپ چاپ
ابھی یہیں تھے نہ جانے کدھر گئے چپ چاپ
ہوئی خبر بھی نہ ہم کو کب آئے اور گئے
نگاہ ناز سے دل میں اترگئے چپ چاپ
برقی اعظمی نے فارسی تراکیب کا استعمال بہت کم کیا ہے حالانکہ وہ فارسی کے ماہر ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ سادہ زبان و بیان کے قائل ہیں۔ سادگی کے باوجود ان کے اشعار میں سوزوگداز کے ساتھ ساتھ محاوروں کا برمحل استعمال بھی ملتا ہے۔ ان کی بعض غزلوں میں غنائیت بھی متاثر کرتی ہے۔
یاد ماضی ستاتی رہی رات بھر
خواب میں آتی جاتی رہی رات بھر
دیکھ کر اس کو میں دم بخود رہ گیا
نیند میری اڑاتی رہی رات بھر
برقی اعظمی کی شاعری میں کچھ متضاد خیالات کا اظہار بھی ملتا ہے مثلاً وہ کہیں کہیں قنوطیت کی طرف مائل ہوتے نظر آتے ہیں۔
ہے عرصۂ حیات مرا تنگ اس قدر
جی چاہتا ہے چل دوں اسے چھوڑ چھاڑ کے
اور دوسری طرف وہ مستقبل سے بڑی حد تک پُرامید بھی ہیں:
آنے والا ہے ابابیلوں کا لشکر ہوشیار
دیرپا ہوتے نہیں ہیں جاہ و حشمت کے چراغ
احمد علی برقی اعظمی کا مجموعہ ’روح سخن‘ نہ صرف یہ کہ برقی اعظمی کی شخصیت سے کسی حد تک واقف کراتا ہے بلکہ زندگی کے نشیب و فراز اور انسان کی پل پل بدلتی ذہنیت کا سچا عکاس بھی ہے۔ برقی اعظمی نے غم جاناں اور غم دوراں کی سچی تصویریں روح سخن میں جمع کی ہیں جو ان کے صاف شفاف دل کے احساسات کو نمایاں کردیتی ہیں۔ ایک پاک دل شاعر جب شکایت کرتا ہے کہ:
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا
تو اہل ادب کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے کرب کو محسوس کریں اور وہ نہ ہونے دیں، جس کے لیے برقی کہتے ہیں:
فصیل شہر کے باہر نہیں کسی کو خبر
بہت سے اہل ہنر یوں ہی مرگئے چپ چاپ
بہرحال ہم اس نیک دل شاعر کے لیے دعا گو ہیں اور پُرامید بھی کہ:
ہر قدم بکھریں گے برقی تیرے قدموں کے نشاں
ایک دن مانے گا تیری عظمتیں سارا جہاں


’’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ :موجِ سخن کے ۴۳ ویں عالمی آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش:احمد علی برقی اعظمی




موج سخن کے ۴۳ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش 
احمد علی برقی اعظمی
عبور کرنا ہے جو وہ ندی نہیں آئی
’’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘
جو پہلے میری روش تھی اسی پہ قایم ہوں
مری وفاؤں میں اب تک کمی نہیں آئی
تھا اُس کا وعدۂ فردا مرے لئے جانسوز
مجھے تھی جس کی تمنا کبھی نہیں آئی
جو میری بیخ کنی کرتا ہے پسِ پردہ
اسے نبھانا کبھی دوستی نہیں آئی
ہے صبر آزما اب اور انتظار مجھے
جسے سمجھتا تھا میں زندگی نہیں آئی
ہمیشہ کرتا ہے یوں تو وہ صلح کی باتیں
امید جس کی تھی وہ آشتی نہیں آئی
وہ سبز باغ دکھاتا ہے اس کا روز مجھے
مگر وصال کی اب تک گھڑی نہیں آئی
ہمیشہ دیکھ کے ہنستا ہے حالِ زار مرا
نگاہِ ناز میں اس کی نمی نہیں آئی
لکھا ہے ٹھوکریں کھانا مرے مقدر میں
اسی لئے مجھے منزل رسی نہیں آئی
بہار میں بھی نمایاں خزاں کے ہیں آثار
شگفتہ گلشنِ دل میں کلی نہیں آئی
بھٹکتا رہتا ہوں میں تیرگی کی راہوں میں
جو رہنما ہو مری، روشنی نہیں آئی
ضروری خونِ جگر ہے سخنوری کے لئے
وہ شعر کہتے ہیں پر شاعری نہیں آئی
تمھاری قدر بھی برقی کریں گے بعد از مرگ
وہ کہہ رہے ہیں ابھی وہ صدی نہیں آئی



اردو سخن پربرقی اعظمی کی شاعری کا یک صفحہ


اردو سخن پربرقی اعظمی کی شاعری کا یک صفحہ



یہ صفحہ اردو سخن پر ہے جو میرا جلوہ گر 
دیتا ہے اہل نظر کو دعوت فکر و نظر

ہے یہ برقی کے شعور فکر و فن کا آئینہ 
فیصلہ اس کا کریں گے دیکھ کر اہل نظر 
احمد علی برقی اعظمی 
بشکریہ اردو سخن


برقی اعظمی کی شاعری کا یک صفحہ : بشکریہ اردو سخن


آنا تھا جسے کرکے وہ وعدہ نہیں آیا : احمد علی برقی اعظمی


مضامیں ڈاٹ کام : منظوم تاثرات احمد علی برقی اعظمی





مضامیں ڈاٹ کام : منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی
سب کا منظورِ نظر ہے یہ مضامیں ڈاٹ کام
ترجمانَ دیدہ ور ہے یہ مضامیں ڈاٹ کام
اس کے مندرجات ہیں آئینۂ نقد و نظر
نخلِ دانش کا ثمر ہے یہ مضامیں ڈاٹ کام
کتنے ہی گمنام چہروں کو ملی اس سے شناخت
بہتر از لعل و گُہر ہے یہ مضامیں ڈاٹ کام
ہر کسی کے اس میں اپنے ذوق کا سامان ہے
ایک سایٹ معتبر ہے یہ مضامیں ڈاٹ کام
ہیں سیاسی تجزئے بھی اس کے اس کی اک شناخت
دیتا اور لیتا خبر ہے یہ مضامیں ڈاٹ کام
اس کی اس برقی نوازی کا نہایت شکریہ
ناشر علم و ہنر ہے یہ مضامیں ڈاٹ کام



برقی اعظمی کی روح سخن بقلم جناب انور خواجہ ، ریزیڈنٹ ایڈیٹرہفت روزہ اردو لنک یو ایس اے


"Khatoon Mashriq" Ek Maqbool E Aam Mahnama Jis Ne Urdu Ko Ghar Ghar Tak ...







عہد حاضر کے ممتاز قلمکار و نقاد حقانی القاسمی کی مشاہیر ادب سے گفتگو کے سلسلے ’’ چلو بات کرکے دیکھتے ہیں‘‘ میں اپنے زمانے کے تاریخ سازماہنامے خاتون مشرق کی موجودہ مدیر چشمہ فاروقی سے گفتگو اور اس رسالے کی ادبی خدمات پر منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی
خوب ہے خاتونِ مشرق کا یہ ادبی تجزیہ
تھا کبھی اردو ادب کا جو رسالہ دلپذیر
اردو کو گھر گھر میں پہنچایا جنھوں نے تا حیات
اس کے عبداللہ فاروقی تھے اک ایسے مدیر
کرتا تھا یہ طبقۂ نسواں کی ذہنی تربیت
کام وہ جو کررہے تھے تھا وہ لانا جوئے شیر
منتظر رہتے تھے اس کے لوگ طول و عرض میں
تھا یہ اپنے وقت کا ایسا جریدہ بے نظیر
چشمہ فاروقی کے ہے زیر ادارت آج جو
کررہا ہے بچیوں کا آج بھی زندہ ضمیر
ہے تعارف کا یہ حقانی کا عمدہ سلسلہ
جس کا ہے مداح برقی خطۂ بر صغیر



"Khatoon Mashriq" Ek Maqbool E Aam Mahnama Jis Ne Urdu Ko Ghar Ghar Tak ...

عہد حاضر کے ممتاز قلمکار و نقاد حقانی القاسمی کی مشاہیر ادب سے گفتگو کے سلسلے ’’ چلو بات کرکے دیکھتے ہیں‘‘ میں اپنے زمانے کے تاریخ سازماہنامے خاتون مشرق کی موجودہ مدیر چشمہ فاروقی سے گفتگو اور اس رسالے کی ادبی خدمات پر منظوم تاثرات
احمد علی برقی اعظمی
خوب ہے خاتونِ مشرق کا یہ ادبی تجزیہ
تھا کبھی اردو ادب کا جو رسالہ دلپذیر
اردو کو گھر گھر میں پہنچایا جنھوں نے تا حیات
اس کے عبداللہ فاروقی تھے اک ایسے مدیر
کرتا تھا یہ طبقۂ نسواں کی ذہنی تربیت
کام وہ جو کررہے تھے تھا وہ لانا جوئے شیر
منتظر رہتے تھے اس کے لوگ طول و عرض میں
تھا یہ اپنے وقت کا ایسا جریدہ بے نظیر
چشمہ فاروقی کے ہے زیر ادارت آج جو
کررہا ہے بچیوں کا آج بھی زندہ ضمیر
ہے تعارف کا یہ حقانی کا عمدہ سلسلہ
جس کا ہے مداح برقی خطۂ بر صغیر

دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں : نذرِ احمد فراز مرحوم ۔۔۔ احمد علی برقی اعظمی ۔۔۔ بشکریہ ایک زمین کئی شاعر، ایک اور انیک اور اردو کلاسک گروپ۔۔۔ احمد فراز کے یوم وفات کی مناسبت سے ان کی زمین میں لکھی گئیں تین فی البدیہہ غزلیں بعنوان خراج عقیدت



احمد فراز کے یوم وفات کی مناسبت سے ان کی زمین میں لکھی گئیں تین فی البدیہہ غزلیں بعنوان خراج عقیدت
ایک زمین کئی شاعر
احمد فراز اور احمد علی برقی اعظمی
احمد فراز
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں !
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
غزل
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
گلبدن، غُنچہ دہن، سروِ خراماں جاناں
سر سے پا تک ہے ترا حُسن نمایاں جاناں
دُرِ دنداں سے خجل دُرِ عدن ہے تیرے
روئے انور ہے ترا لعلِ بدخشاں جاناں
چشمِ میگوں سے ہے سرشار یہ پیمانۂ دل
روح پرور ہے فروغِ رُخِ تاباں جاناں
دیکھ کر بھول گیا تجھ کو سبھی رنج و الم
سر بسر تو ہے علاجِ غمِ دوراں جاناں
تیرہ و تار تھا کاشانۂ دل تیرے بغیر
رُخِ زیبا ہے ترا شمعِ شبستاں جاناں
لوٹ آئی ہے ترے آنے سے اب فصلِ بہار
تھا خزاں دیدہ مرے دل کا گلستاں جاناں
ہیچ ہیں سامنے تیرے یہ حسینانِ جہاں
میری نظروں میں ہے تو رشکِ نگاراں جاناں
کچھ نہیں دل میں مرے تھوک دے غصہ تو بھی
میں بھی نادم ہوں اگر تو ہے پشیماں جاناں
موجِ طوفانِ حوادث سے گذر جاؤں گا
کشتئ دل ہے یہ پروردۂ طوفاں جاناں
تو ہی ہے خواب کی تعبیرِ مجسم میرے
ماہِ تاباں کی طرح جو ہے درخشاں جاناں
یہ مرا رنگِ تغزل ہے تصدق تجھ پر
سازِ ہستی ہے مرا تجھ سے غزلخواں جاناں
ہے کہاں طبعِ رسا میری کہاں رنگِ فرازؔ 
یہ جسارت ہے مری جو ہوں غزلخواں جاناں
روح فرسا ہے جدائی کا تصور برقیؔ 
’’دل پُکارے ہی چلا جاتاہے جاناں جاناں‘‘
غزل
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
تھا مرا خانۂ دل بے سروساماں جاناں
اِس میں وحشت کے تھے آثار نمایاں جاناں
تو ہی افسانۂ ہستی کا ہے عنواں جاناں
سازِ دل دیکھ کے تجھ کو ہے غزلخواں جاناں
کیا ہوا کچھ تو بتا کیوں ہے پریشاں جاناں
آئینہ دیکھ کے کیوں آج ہے حیراں جاناں
شکریہ یاد دہانی کا میں ہوں چشم براہ
یاد ہے وعدۂ فردا ترا ہاں ہاں جاناں
تجھ سے پہلے تھا یہاں صرف خزاں کا منظر
تیرے آنے سے ہے اب فصلِ بہاراں جاناں
بال بانکا نہیں کرسکتا ترا کوئی کبھی
میں ترے ساتھ ہوں تو مت ہو حراساں جاناں
مُرتعش پہلے تھا برقیؔ یہ مرا تارِ وجود
جانے کیوں آج پھڑکتی ہے رگِ جاں جاناں
غزل
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
عہدِ حاضر میں ہے ہر شخص پریشاں جاناں
نہیں انسان سے بڑھ کر کوئی حیواں جاناں
جس طرف دیکھو اُدھر دوست نُما دشمن ہیں
آگیا دام میں جن کے دلِ ناداں داناں
غمِ دوراں سے ہو فرصت تو میں سوچوں کچھ اور
روح فَرسا ہے مری تنگئ داماں جاناں
میری غزلوں میں ہے جو سوزِ دُروں آج نہاں
میری رودادِ محبت کا ہے عُنواں جاناں
مجھ پہ جو گذری ہے اب تک نہ کسی پر گذرے
آئینہ دیکھ کے اب مجھ کو ہے حیراں جاناں
آپ بیتی ہیں مری میری غزل کے اشعار
سن کے سب لوگ ہیں انگشت بدنداں جاناں
ذہن ماؤف ہے برقیؔ کا غمِ دوراں سے
’’ دل پکارے ہی چلے جاتا ہے جاناں جاناں‘‘





برقی اعظمی کی روح سخن بقلم : انور خواجہ ریزیڈنٹ ایڈیٹر اردو لنک یو ایس اے ( امریکا)




برقی اعظمی کی روح سخن
بقلم : انور خواجہ ریزیڈنٹ ایڈیٹر اردو لنک یو ایس اے ( امریکا)
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی جیسے قادر الکلام شاعر کے مجموعۂ شاعری ’’روحِ سخن ‘‘ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے گھبراہٹ سی ہو رہی ہے… کہاں وہ اور کہاں یہ ناچیز۔
برقیؔ اعظمی ایک زود گو شاعر ہیں۔ اُن کی زود گوئی ان کے کلام کے معیار پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اسے مہمیز کرتی ہے۔اُن کی طبیعت میں جو ایک جولانی، جوش ولولہ اور زمزمہ ہے اسے حاصل کرنے میں انھوں نے نہ صرفِ پتہ مارا ہے بلکہ جگر کاوی کی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ ایک ساحر ایک جادوگر ہیں۔ اُن کے سامنے الفاظ تشبیہات تلمیحات اور محاورے قطار اندر قطاردست بستہ سر جھکائے کھڑے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب برقیؔ صاحب حکم دیں اور وہ سجدہ بجا لائیں۔
اُردو ان کے گھر کی لونڈی ہے اور فارسی اُن کی دوست۔انہوں نے ابوالکلام آزاد اور اقبالؔ کی فارسی غزلوں کو جس طرح اُردو کا جامہ پہنایا ہے تو یوں لگتا ہے کہ یہ غزلیں اُردو میں لکھی گئی ہیں۔ برقیؔ اعظمی کی قادرالکلامی ، تخلیقی قوت اور اسلوب کا تہور جان کر مجھے تین شاعر یاد آتے ہیں۔ میر انیسؔ، جوش ملیح آبادی اور جعفر طاہر۔ ان تینوں کو زبان و بیان پر جو قدرت حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ ہیں۔انہوں نے طرح طرح اور متنوع موضوعات کو جس حُسنِ نزاکت اور دلنشینی سے پیش کیا ہے اُسے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا داد صلاحیت ہے۔تخلیقی عمل کا تجزیہ ایک بڑا کٹھن مرحلہ ہے اور اس کے بارے میں کوئی عالم یا نقاد آخری رائے نہیں دے سکتا۔ برقیؔ اعظمی نے ان شاعروں کی صف میں کھڑے ہونے کی کاوش کی۔ انہوں نے ہیئت اور موضوع میں روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جدید تقاضوں کو پس انداز نہیں ڈالا۔ ان کے اسلوب میں جو جوشِ بیان ہے وہ صرف الفاظ سے پیدا نہیں ہوتا اس کا تعلق بحر و آہنگ سے ہے۔ انہوں نے مشکل زمینوں اور لمبی بحروں سے اجتناب کیا۔ وہ اپنے تخیل کی صناعی اور فنکاری کو پورے طور پر بروئے کار لائے اور فن اور اسلوب کو ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک نیا شعری سانچا تخلیق کیا جس میں جذبات کی صداقت،انداز کی شیرینی اور حلاوت قدم قدم پر آپ کو ملتی ہے۔
غزل اپنی تنگ دامنی کی وجہ سے ردیف اور قافیہ میں قید ہے اور بہت سے موضوعات کو اس انداز میں پیش نہیں کرسکتی لیکن ایک قادر الکلام شاعر کے سامنے یہ تنگ دامانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ نے جس طرح غزل کے امکانات میں ایسی وسعت پیدا کی کہ دُنیا کے سارے مسائل کا احاطہ کر لیا۔ برقیؔ اعظمی نے روایات کی پیروی کی وہ جذبات کو مصور کرتے ہیں اور خیالات کی تصویر بناتے ہیں۔
برقیؔ اعظمی نے اپنی غزلوں میں چھوٹی بحر کو استعمال کیا ہے۔ اُردو کے کلاسیکل شاعروں نے بھی یا درمیانی بحریں زیادہ استعمال کی ہیں۔ شاید بہت سے مضامیں کو ان بحروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ میر تقی میرؔ غالباً پہلے شاعر ہیں جنھوں نے نہایت صناعی اور مہارت سے چھوٹی بحروں کا استعمال کیا ایک اور ہر طرح کے مضامین کو ان میں باندھا۔ غالبؔ نے چھوٹی بحریں استعمال کیں لیکن زیادہ نہیں۔ البتہ جدید دور میں جگر مرادآبادی اور ان کے بعد فیض احمد فیضؔ نے چھوٹی بحروں کو نہایت چابکدستی سے برتا۔ برقیؔ اعظمی کی غزلوں کا زیادہ سرمایہ چھوٹی بحروں میں ہے۔ انھوں نے جوش بیان اور معنی کو اس طرح شیر و شکر کیا کہ غزل کی غنائیت اور سوز و گداز ذرا بھی مجروح نہیں ہوا۔
برقیؔ اعظمی کی غزل میں آپ کو جس کلچر کی گونج سنائی دیتی ہے وہ بر صغیر ہند و پاک کی گنگا جمنی رنگت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا لہجہ اسلامی ہے۔ میں ثبوت کے طور پر ان کی چند غزلیں پیش کرتا ہوں۔
دیارِ شوق میں تنہا بُلا کے چھوڑ دیا
حسین خوابِ محبت دکھا کے چھوڑ دیا
کیا تھا وعدہ نبھانے کا رسمِ اُلفت کا
دکھائی ایک جھلک مُسکرا کے چھوڑ دیا
وہ سبز باغ دکھاتا رہا مجھے اور پھر
نگاہِ ناز کا شیدا بنا کے چھوڑ دیا
اُجاڑنا تھا اگر اُس کو تو بسایا کیوں
نگارخانۂ ہستی سجا کے چھوڑ دیا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہاں سے جاؤں کہاں
عجیب موڑ پہ یہ اُس نے لا کے چھوڑ دیا
ہے آج خانۂ قلبِ حزیں یہ تیرہ و تار
جلا کے شمعِ تمنا بُجھا کے چھوڑ دیا
٭٭٭
نظر بچا کے وہ ہم سے گزر گئے چُپ چاپ
ابھی یہیں تھے نہ جانے کِدھر گئے چُپ چاپ
ہوئی خبر بھی نہ ہم کو کب آئے اور گئے
نگاہِ ناز سے دل میں اُتر گئے چُپ چاپ
دکھائی ایک جھلک اور ہو گئے روپوش
تمام خواب اچانک بکھر گئے چُپ چاپ
یہ دیکھنے کے لئے منتظر ہیں کیا وہ بھی
دیارِ شوق میں ہم بھی ٹھہر گئے چُپ چاپ
کریں گے ایسا وہ اِس کا نہ تھا ہمیں احساس
وہ قول و فعل سے اپنے مُکر گئے چُپ چاپ
فصیلِ شہر کے باہر نہیں کسی کو خبر
بہت سے اہل ہنر یوں ہی مر گئے چُپ چاپ
دکھا رہے تھے ہمیں سبز باغ وہ اب تک
اُنھیں جو کرنا تھا برقیؔ وہ کر گئے چُپ چاپ
٭٭٭
اُردو کلچر اور ادب کو اس دَور میں جو مخدوش حالات درپیش ہیں ان پر سیاسی مذہبی ثقافتی اور ہُنری نظریات کی ایک زبردست یلغار ہے۔ اس یلغار کو صرف برقیؔ اعظمی جیسے دانشور اپنی تخلیقات سے روک سکتے ہیں۔
عظیم ادب کے دو اصول ہوتے ہیں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اس شہ پارے میں وہ ساری خوبیاں اور جوہر موجود ہوں جن کو ہم داخلی خصوصیات کہتے ہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ہیئت واسلوب سے زیادہ اہم شاعر کا پیغام ہوتا ہے جو اعلیٰ ترین خیالات اور تصورات کا مرقع ہوتا ہے۔
شاعری جزویست از پیغمبری
اس نظریہ کی روشنی میں اگر دُنیا کے عظیم شاہکاروں کو پرکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عظیم ادب وہ ہے جو عظیم تصورات پیش کرتا ہے۔ اس اصول،کا اطلاق برقیؔ اعظمی کی شاعری پر پوری طرح ہوتا ہے۔
برقیؔ اعظمی کی شاعری کا ایک پہلو ایسا ہے جس پر بہت شاعروں نے طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ موضوعاتی شاعری ایک کٹھن، مشکل اور خشک فن ہے۔ انھوں نے ’’یادِ رفتگاں ‘‘ کے عنوان کے تحت زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں شخصیات پر نظمیں کہی ہیں۔ اکثر نظمیں فی البدیہہ ہیں۔ برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری کلاسیکی روایاتِ شعر و ادب سے پوری طرح ہم آہنگ ہے لیکن اس میں عصرِ حاضر کا رنگ بھی پوری طرح آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اعظمی صاحب کے یہاں موضوعات کے انتخاب میں ایک آفاقیت ہے۔ وہ رنگ و نسل اور مذہب کی حدود پار کر جاتے ہیں۔ان کے دل میں انسانیت کا گہرا درد موجود ہے۔ انہوں نے جو نقش رنگا رنگ پیش کئے اس کی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی۔ اعلیٰ انسانی اقدار اور آفاقی محبت ان کی موضوعاتی شاعری کا سمبل ہے۔ اس طرح وہ ایک تاریخی شعور سے آشنا ہوتے ہیں جو ان کو صوفیوں کے حلقہ میں لے آتا ہے۔ میرے نزدیک وہ جدید دور کے سچے صوفی ہیں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ ان کے شعری مجموعے ’’ روحِ سخن‘‘ کی نہ صرف ادبی حلقوں بلکہ عوام میں بھی پذیرائی ہو گی۔ میری نیک تمنائیں اور دُعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
٭٭٭
انور خواجہ
ریزیڈینٹ ایڈیٹر، ہفت روزہ ’’اُردو لنک‘‘
امریکہ

--