فیس بک ٹا ٗئمز کے ۳۶ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئی میری طبع آزمائی

فیس بک ٹا ٗئمز کے ۳۶ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئی میری طبع آزمائی احمد علی برقیؔ اعظمی مصرعہ طرح : ’’ زندگی کربِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں ‘‘ (رعنا حسین چندا ) ہجر سے بڑھ کے کوئی اور سزا کچھ بھی نہیں ’’ زندگی کربِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں ‘‘ حُسن سیرت میں چھپا ہوتا ہے صورت میں نہیں نہ کسی میں ہو اگر شرم و حیا کچھ بھی نہیں میں نے جاتے ہوئے جب پوچھا کہ کب آؤ گے چل دیا ہنس کے فقط اور کہا کچھ بھی نہیں میرے اظہارِ تمنا کا دیا اُس نے جواب تیری باتوں کا اثر مجھ پہ ہوا کچھ بھی نہیں بدگُمانی کا سبب کیا ہے بتاؤ تو سہی کیا ہوئی مجھ سے خطا ، اُس نے کہا کچھ بھی نہیں کیا کروں ، جاوٗں کہاں ، کس سے کہوں سوزِ دروں ہوگیا جس پہ فدا اُس سے مِلا کچھ بھی نہیں چارہ گر جس کو سمجھتا رہا اپنا تا عمر اُس نے برقیؔ کو بجُز درد دیا کچھ بھی نہیں

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں