ایک زمین کئی شاعر خمار بارہ بنکوی اور احمد علی برقی اعظمی : بشکریہ ناظمِ ایک زمین کئی شاعر۔ اردو کلاسک جناب عمر جاوید خان


ایک زمین کئی شاعر
خمار بارہ بنکوی اور احمد علی برقی اعظمی
خمار بارہ بنکوی
واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے
اک اشک نکل آیا ہے یوں دیدہ تر سے
جس طرح جنازہ کوئی نکلے بھرے گھر سے
رگ رگ میں عوض خون کے مے دوڑ رہی ہے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مخمور نظر سے
اس طرح بسر ہوتے ہیں دن رات ہمارے
اک تازہ بلا آئی جو اک ٹل گئی سر سے
صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اُجڑے ہوئے گھر سے
مِل جائیں ابد سے مرے اللہ یہ لمحے!
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مانوس نظر سے
جائیں تو کہاں جائیں کھڑے سوچ رہے ہیں
اُٹھنے کو خمار اُٹھ تو گئے ہم کسی در سے


احمد علی برقی اعظمی
جاتا نہیں یہ عشق کا سودا مرے سر سے
لوٹ آتا ہوں جا جا کے دوبارہ ترے در سے
میں حال زبوں اپنا کسی سے نہیں کہتا
’’ اک اشک نکل آیا ہے یوں دیدۂ تَر سے ‘‘
دیتا ہے صدائیں مجھے معلوم نہیں کون
آتی ہے اک آواز اِدھر اور اُدھر سے
وحشت زدہ کرتا ہے مجھے اپنا ہی سایہ
کرتا ہے تعاقب کوئی جاتا ہوں جدھر سے
تم سن نہیں سکتے میں سنا بھی نہیں سکتا
کرتا ہوں یہ تحریر رقم خون جگر سے
دیکھا ہے کہیں تم نے مرے رشکِ قمر کو
میں پوچھتا رہتا ہوں یہی شمس و قمر سے
برقی کو کہیں دیکھا ہے تم نے ، تو وہ بولا
وہ خانہ برانداز ہے نکلا ابھی گھر سے


شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں