مجاز کی زمین میں ایک غزل (نذرِ مجاز ) احمد علی برقی اعظمی






یک زمین کئی شاعر
احمد علی برقی اعظمی اور مجاز لکھنوی
مجاز لکھنوی

تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئی، وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی، واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے

آشفتگیِ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں، ہم رازِ تبسّم پا بھی گئے

رُودادِ غمِ الفت اُن سے، ہم کیا کہتے، کیوں کر کہتے
اِک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

اربابِ جنوں پر فرقت میں، اب کیا کہیے، کیا کیا گزری
آئے تھے سوادِ الفت میں، کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے

یہ رنگِ بہارِ عالم ہے، کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تری سونی نہ ہوئی، کچھ اُٹھ بھی گئے، کچھ آ بھی گئے

اِس محفلِ کیف و مستی میں، اِس انجمنِ عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے، ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

مجاز کی زمین میں ایک غزل (نذرِ مجاز )
احمد علی برقی اعظمی

وہ ایک جھلک دکھلا بھی گئے،وعدوں سے ہمین بہلا بھی گئے

اک لمحہ خوشی دےکر ہم کو،برسوں کے لئے تڑپا بھی گئے

دیدار کی پیاسی تھین آنکھیں،کچھ دیر وہ کاش ٹھہر جاتے

اک چشمِ زدن میں ایسے گئے،ہم کھو بھی گئے اور پا بھی گئے

آنکھوں مین شرابِ شوق لئے،دروازۂ دل سے یوں گذرے

میخانۂ ہستی مین آکر ،وہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

ہے رنگِ مجاز بہت دلکش،جو شعرو سخن میں تھے یکتا

اپنے اشعار سے جو سب کو ،بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

کچھ دیر انہیں نہ لگی برقی،آئے بھی اور گذر بھی گئے
وہ غنچۂ دل کو کھلا بھی گئے،جو کِھلتے ہی مُرجھا بھی گئے


شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں