احمد علی برقیؔ اعظمی اور اُن کی شاعری عبدالحئی اسسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا، ’’فکر و تحقیق‘‘ اور ’’بچوں کی دُنیا‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی






احمد علی برقیؔ اعظمی اور اُن کی شاعری
عبدالحئی
اسسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا،  ’’فکر و تحقیق‘‘ اور ’’بچوں کی دُنیا‘‘
قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی سحرانگیز شخصیت ایسی ہے کہ جو بھی ان سے ایک دفعہ مل لے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان سے پہلی ملاقات آل انڈیا ریڈیو میں مدن کے چائے خانے پر ہوئی تھی۔ شاید صبح کے سوا چھ بج رہے تھے۔ ان دنوں میں وہاں اُردو یونٹ میں Casual News Reader تھا۔ میرے یونٹ کے ایک سینئر ساتھی نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ انھوں نے میری تعلیم کے متعلق پوچھا۔میں نے  جے۔ این۔ یو۔ کا نام لیا تو انھوں نے فرط مسرت سے گلے لگا لیا اور کہا کہ میں بھی جے۔ این۔ یو۔ کا طالب علم ہوں۔ انھوں نے اپنے تعلیمی دور کے کئی قصے بھی سنائے۔ مجھے اس دن ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ عام سا نظر آنے والا سادگی  پسند شخص مشہور و معروف شاعر برقیؔ اعظمی ہے۔ جو اپنے انداز و اظہار کا یکتا شاعر ہے۔ ان سے بعد میں بھی لگاتار ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کے شاعرانہ جوہر مجھ پر آشکارا ہونے لگے۔ احمد علی برقیؔ اعظمی کو موجودہ دور میں بلاشبہ عہدساز شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ان کی شاعری میں جہاں جدید شاعری کا عکس نظر آتا ہے وہیں کلاسیکی نقوش بھی واضح طور پر موجود ہیں۔ میرے خیال میں موجودہ عہد میں یہ واحد ایسے شاعر ہیں جو کسی بھی موضوع پر یا کسی بھی موقع محل کی مناسبت سے فی البدیہہ اشعار وضع کرسکتے ہیں۔ موضوعاتی شاعری اور مصرع طرح پر شعر موزوں کرنا بے حد مشکل کام ہے اور اس میں شاعر کو شاعری کے فن سے انصاف کرنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن احمد علی برقی اس معاملے میں قابل تعریف ہیں کہ ان کی شاعری فن کی سطح پر بھی کھری اترتی ہے۔
برقیؔ اعظمی کو شاعری اپنے والد رحمت الٰہی برقؔ اعظمی سے ورثے میں ملی ہے جو خود بھی بڑے شاعر تھے۔ برقیؔ اعظمی اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی دسترس رکھتے ہیں اور فارسی میں بھی عمدہ شاعری کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک خاص ندرت و جدت نظر آتی ہے۔ موضوع کلام، بحور و قوافی، موضوع و خیالات، منظر نگاری، تشبیہات و استعارات کا عمدہ استعمال ان کی شاعری کو انفرادی حیثیت دیتا ہے۔ اوزان اور بحور کے انتخاب میں بالغ نظری اور فنی پختگی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے اشعار ان کی قادرالکلامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عصری میلانات، نئی تازگی، والہانہ پن، سلاست روانی، الفاظ کا در و بست، اسلوب کی تازہ کاری وغیرہ ان کی شاعری کے امتیازی جوہر ہیں۔ شعر کو سنوارنے اور اسے خوبصورتی عطا کرنے کا    بے مثال فن انھیں آتا ہے۔
وہ ایک سدابہار اور ہمہ جہت تخلیق کار ہیں۔ برقیؔ اعظمی کو نہ صرف شعر و ادب کی تمام اصناف حمد، نعت، قصیدہ، منقبت، غزل، نظم وغیرہ پر دسترس حاصل ہے بلکہ آج  وہ شاید واحد شاعر ہیں جو انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس کی مدد سے دُنیا کے مختلف حصوں میں معروف و مقبول ہیں۔ انٹرنیٹ پر مختلف ادبی گروپوں کے ممبر ہیں۔ سائبر مشاعرے منعقد کرتے ہیں اور جدید ٹکنالوجی کی مدد سے تمام احباب و سخن شناس ان کے اشعار و قطعات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔
انھوں نے موضوعاتی شاعری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ عظیم شخصیات کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنا ہو، کسی خاص دن پر شعر کہنا ہو، کوئی تہوار ہو، کوئی حادثہ، واقعہ ہو، کسی رسالے کا خاص شمارہ ہو، کوئی کتاب ہو، انھوں نے سبھی کو اپنے منظوم کلام میں سمو کر دوام عطا کیا ہے۔
ان کے مجموعہ کلام ’’روح سخن‘‘ میں حمد و نعت، غزلیں اور یاد رفتگاں کے عنوان کے تحت آرزوؔ لکھنوی، علامہ اقبالؔ، اصغرؔ گونڈوی، فیض احمد فیضؔ، ابن صفی، ابن انشا، مجازؔ، کیفیؔ، مجروؔح وغیرہ شعرا و ادبا پر منظوم خراجِ عقیدت بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ فارسی کلام بھی شامل ہیں۔ ’’روح سخن‘‘ کا سرسری طور پر مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ ان کے کلام میں روایتی و قدیم شاعری کا عکس موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ اشعار تو ایسے ہیں جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اور کئی دنوں تک ذہن میں گونجتے رہیں گے۔ ملاحظہ ہو…
کیا ملے گا اُجاڑ کر تم کو
دل کی دُنیا مرے بسی ہے ابھی
سکون قلب کسی کو نہیں میسر آج
شکست خواب ہے ہر شخص کا مقصد آج

کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں
سو صفر جوڑے مگر برقیؔ نتیجہ تھا صفر

وہ تو کہیے آ گیا احوال پرسی کے لیے
ورنہ اس کا ہجر تھا صبر آزما میرے لیے

رزم گاہِ زیست میں ہر گام پر خود سر ملے
راہزن تھے قافلے میں مجھ کو جو رہبر ملے

عمر بھر جن کو سمجھتا تھا میں اپنا خیرخواہ
آستینوں میں انھیں کی ایک دن خنجر ملے
المختصر یہ کہ احمد علی برقیؔ اعظمی موجودہ عہد کے ایک باصلاحیت اور باکمال شاعر ہیں۔ ’’روح سخن‘‘ کی اشاعت پر ڈھیر ساری مبارکباد، اُمید ہے کہ ان کا یہ مجموعہ کلام اُردو ادب میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرے گا اور اُردو ادب کے ناقدین بھی اس عظیم شاعر کی جانب مزید توجہ دیں گے۔
٭٭٭

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں