ایک زمین کئی شاعر استاد قمر جلالوی و احمد علی برقی اعظمی


ایک زمین کئی شاعر

استاد قمر جلالوی و احمد علی برقی اعظمی

استاد قمر جلالوی
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بجھ گیا جلتے جلتے

انھیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے جواب ان کا آیا "محبت نہ کرتے
تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا؟ بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے"

مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے

بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے

ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے

بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے

وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈوبے ستارے

قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے

احمد علی برقی اعظمی
جو کی جذبۂ شوق نے دستگیری مری جادۂ عشق میں چلتے چلتے
پہنچ ہی گیا اپنی منزل پہ آخر خراماں خراماں ٹہلتے ٹہلتے
چراغ محبت کی لو ہے جو مدھم نہ بجھ جائے یہ ناگہاں جلتے جلتے
نہ ہو جاؤں میں یونہی دنیا سے رخصت شبِ ہجر کروٹ بدلتے بدلتے
تجھے ناز ہے جس پہ اے جانِ جاناں فقط چاندنی ہے وہ اک چاردن کی
جو بَروقت تو مجھ سے مِلنے نہ آیا ترا حسن ڈھل جائے گا ڈھلتے ڈھلتے
یہ سوزِ دروں مار ڈالے نہ مجھ کو ہر اک وقت رہتا ہے مجھ کو یہ خدشہ
کہیں خاک کردے نہ مجھ کو بالآخر مرے جسم میں خوں اُبَلتے اُبَلتے
کہا اُس سے جب یہ غمِ زندگی سے مرا ذہن کب تک رہے گا یہ بوجھل
وہ بولا ہے میٹھا بہت صبر کا پھل بہل جائے کا دل بہلتے بہلتے
نہ کھائی ہو جس نے کبھی کوئی ٹھوکر وہ کیا جانے کیسے سنبھلتے ہیں گِر کر
ہے گِر گِر کے جس کو سنبھلنے کی عادت سنبھل جائے گا وہ سنبھلتے سنبھلتے
جسے جان پیاری ہے جیتا رہے گا وہ ہر حال میں چاہے جس طرح گذرے
بفضلِ خد آج بھی ہے سلامت وہ بحرِ حوادث میں بھی پلتے پلتے
سلامت روی بھی ہے بیحد ضروری بہت ہوگیا اپنی حد میں رہے وہ
بہت اُڑ رہا ہے جو اوجِ فلک پرکہیں گِر نہ جائے اُچھلتے اُچھلتے
کہاں سے اُسے لا کے دوں چاند تارے بضد ہے وہ لے کر ہی مانے گا مجھ سے
کہا میرے معصوم بچے نے اک دن سرِ راہ مجھ سے مچلتے مچلتے
نہ کام آئی کچھ اُس سے عرضِ تمنا ہوا ٹس سے مس وہ نہ اپنی روش سے

کہا اُس نے برقیؔ سے اک روز ہنس کر گلے گی تری دال بھی گلتے گلتے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں