’’ پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر ملے‘‘ : دیا کے ۵۷ ویں آن لائن عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش احمد علی برقی اعظمی




دیا کے ۵۷ ویں آن لائن عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
میری ہی طرح وہ مجھے شوریدہ سر ملے
مجھ کو رہِ حیات میں جو ہمسفر ملے
منھ موڑ کر گذر گئے وہ مجھ کو دیکھ کر
میں نے انھیں سلام کیا وہ جدھر ملے
لگتا ہے ان سے شمع کو ہے ایک ربطِ خاص
’’ پروانے ڈھونڈ ڈھونڈ کے لائی جدھر ملے‘‘
جن کے لئے ہیں دیدہ و دل میرے فرشِ راہ
آئیں نہ آئیں ان کی مجھے ہر خبر ملے
کیوں بدگماں ہیں مجھ سے بتائیں تو وہ سہی
پوچھوں گا میں یہ ان سے دوبارہ اگر ملے
در اصل ان کو خود تھی ضرورت علاج کی
ذہنی مریض تھے جو مجھے چارہ گر ملے
ہیں جو زمانہ ساز رہیں مجھ سے دور وہ
مجھ سے ملے خلوص سے کوئی اگر ملے
زد پر تھا برق و باد کی گلزارِ زندگی
دامن دریدہ باغ میں برگ و شجر ملے
دم گُھٹ رہا ہے پینے سے ہر وقت جامِ زہر
تازہ ہوا تو شہر میں شام و سحر ملے
اپنے حصارِ زیست میں محصور ہیں سبھی
ذہنی سکوں بتاؤ تمھیں اب کدھر ملے
جب بھی دیارِ شوق سے میرا گذر ہوا
خانہ بدوش لوگ وہاں در بدر ملے
اک دردِ سر ہے میرے لئے یہ شبِ فراق
سب نالہ ہائے نیم شبی بے اثر ملے
مدعو جہاں تھا اہلِ سیاست کی بزم میں
انساں نما وہاں پہ کئی جانور ملے
دنیائے رنگ و بو میں رہیں سب سکون سے
ہر شخص کو چھپانے کو سر، ایک گھر ملے
برقی کی فضلِ حق سے دعا ہو یہ مستجاب
دل دل سے اور اُن کی نظر سے نظر ملے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں