غالب اکیڈمی میں ادبی نشست کا اہتمام






غالب اکیڈمی میں ادبی نشست کا اہتمام
گزشتہ روز غالب اکیڈمی ،نئی دہلی ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے،مضامین بھی پڑھے گئے۔مشہور فکشن نگار مرحوم اظہار اثر پر انجم عثمانی نے اور پرندے پر محمد خلیل نے مضمون پڑھا۔ترنم جہاں شبنم نے تاج محل کے عنوان سے افسانہ پڑھا جو بہت پسند کیا گیا چشمہ فاروقی اوردیویشوری نے افسانہ پیش کیا۔نشست کی صدارت جناب ڈاکٹر جی آر کنول اور پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کی لندن سے تشریف لائیں گلزیب زیبا نے مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔ بیس(20) سے زیادہ شعرا نے اپنے اشعار سے سامین کو محظوظ کیا۔ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔
ایک ہی چھت کے تلے رہتے ہوئے بھی دوستو
روز و شب اس کے الگ میرا زمانہ اور ہے
جی آر کنول
شفق دیکھی تو قاتل میں یہ سمجھا
تیرا دامن نچوڑا ہے کسی نے
ظہیر احمد برنی
پوچھئے دل سے عشق میں ایسے قدم اٹھائے کیوں
خود ہے بنائے دردِ دل کرتا ہے ہائے ہائے کیوں
متین امروہوی
ہیں سماجی زندگی کے فکر و فن آئینہ دار
اس لئے درد آشنا فنکار ہونا چا ہیے
احمد علی برقی اعظمی
بخشش وفا کی دینے سے کترا رہے تھے تم؟
لو! ہم کو اب وفا کی ضرورت نہیں رہی
گلزیب زیبا
ہر ایک ظلم و تشدد کا میں ہوں پروردہ
ہر ایک ظلم و تشدد کا سد باب ہوں میں
امیر امروہوی
ہم اس کے خیالات میں سمٹے رہے لیکن
الفاظ بناتے رہے تصویر مسلسل
شاہد انور
تفتیش کار پانہ سکے جسم پرنشاں
مردے کا زخم روح کی گہرائیوں میں تھا
اسرار رازی
مشورہ ہے یہ میرا ترک تعلق میں ابھی
کوئی کھڑکی،کوئی دروازہ کھلا رہنے دے
سیما اقبال ادا
سر اٹھانے نہ دے گی یہ شرمندگی
پار اترے نہیں تھے اتارے گئے
رعنا زیبا
ایک نظر کے جھکنے میں لاکھ لاکھ معنی تھے
آج تک نہیں سمجھا، اس کا وہ اشارہ میں
الیاس انجم چاند پوری
اسی نے قوس قزاح میں رچائے ہیں یہ رنگ
وہ ایک قطرۂ باراں جو خار زار میں ہے
ساز دہلوی
ہیں کرپشن میں ملوث سب یہاں چھوٹے بڑے
مل نہ پائے گا یہاں حق پھر کسی حقدار کو
نزاکت امروہوی
زندگی ہے کہ تجربات کا تسلسل ہے
اک گذرتا بھی نہیں دوسرا ہوجاتا ہے
سمیر دہلوی
انا مجھ کو بھی کھینچے جا رہی تھی
پلٹ کر اپنے بھی دیکھا نہیں تھا
رضیہ حیدر خان
پکارو جس طرح چاہے پکارو
فقیروں کے لیے نام و نسب کیا
فروغ الاسلام
اس موقع پر خالد محمود، حبیب سیفی،ضمیر ہاپوڑی اور ساگر پریم،عزیزہ مرزا نے بھی اشعار پیش کئے۔


شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں