بزمِ سخنوراں کے ۱۵۶ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی





بزمِ سخنوراں کے ۱۵۶ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
دیکھنے میں شعلہ ہے اور کبھی وہ شبنم ہے
جب سے اُس کو دیکھا ہے اک عجیب عالم ہے
منتشر نہ ہوجائے زندگی کا شیرازہ
تھا جو جانِ جاں میری آج مجھ سے برہم ہے
کردیا مجھے برباد جس کی بیوفائی نے
پوچھتا ہے وہ مجھ سے تجھ کو کون سا غم ہے
جو کبھی نہیں کرتا میری پرسشِ احوال
میرے اس کی دلجوئی زخمِ دل کا مرہم ہے
حالِ دل کی جو میرے کررہی ہے غمازی
مثلِ ابرِ باراں وہ میری چشمِ پُرنَم ہے
ہے وہ مُفسدِ دوراں آج ایک درپردہ
صلح کا لئے اپنے ہاتھ میں جو پرچم ہے
یاد ہے مجھے برقیؔ اب بھی اس کی سرگوشی
اُس کی نقرئی آواز سازِ دل کا سَرگم  ہے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں