SAHEEFA-E-HAMD-O-NAAT KE SHORA KA KALAAM



SAHEEFA-E-HAMD-O-NAAT KE SHORA KA KALAAM
POET'S NAME: DR. AHMAD ALI BARQI AZAMI OF DEHLI INDIA KITAB KA NAAM: TALAUL BADRU ALAINA RELEASED: 12 RABIUL AWAL, 2015…

Barqi Azmi Recites A poem in IIC Lodhi Road New Delhi Organised by Poetry Society Of India

NAZR E AQEEDAT BAHUZOOR SYYEDNA IMAM HUSSAIN ALAYHI SALAM

NAZR E AQEEDAT BAHUZOOR SYYEDNA IMAM HUSSAIN ALAYHI SALAM

NAZR E AQEEDAT BAHUZOOR SYYEDNA IMAM HUSSAIN ALAYHI SALAM

http://universalurdupost.com/?p=30790

 
گزرگاہِ خیال فورم کی دس رکنی بین الاقوامی جیوری کی جانب سے شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو بالاتّفاقِ آرا “فخرالمتغزلین” کا خطاب

Rahmat Ilahi Barq Azmi ki Tanveer e Sukhan Ki runumaaii

گزرگاہِ خیال فورم کی بین الاقوامی جیوری کی جانب سےشاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو بالاتّفاقِ آرا "فخرالمتغزلین" کا خطاب

گزرگاہِ خیال فورم کی دس رکنی  بین الاقوامی جیوری کی جانب سے شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو بالاتّفاقِ آرا "فخرالمتغزلین" کا خطاب

گزرگاہِ خیال فورم شاعرِ خلیج محترم جلیل ؔنظامی کی شاعرانہ  صلاحیتوں کو  تسلیم کرتی ہےاوربطور خاص اُن کی  غزل گوئی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اور بالاتّفاقِ آرا موصوف کو بتاریخ ١٠ ستمبر ٢٠١٥ بروز جمعرات  بمقام لايتوال ہوٹل ، قطر 'شامِ مرزا غالب'  کے موقع پر "فخرالمتغزلین" کے خطاب سے متّصف کرتی ہے-

عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم گزرگاہِ خیال فورم نے ١٠ ستمبر ٢٠١٥ بروز جمعرات، لایتوال ہوٹل المطار قدیم، قطر  میں "شام غالب" کے عنوان سے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا- گزرگاہِ خیال فورم ٢٠٠٩ سے ادبی منظر نامے پر متحرک ہے- ٢٠١٢ سے گزرگاہ خیال فورم نے غالب مذاکروں کی شروعات کی تھی جس کے تحت ہر ماہ تواتر سے غالب مذاکرہ ترتیب دیا جاتا ہے جس میں قطر کی معروف ادبی شخصیات شرکت فرماتی ہیں- اس خصوصی پروگرام کا اہتمام  پچھلے تین برس میں فورم کے غالب کی پچاس غزلوں پر مباحثوں کی تکمیل کے حوالے سے کیا گیا تھا-

اس خصوصی نشست میں شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو دس اراکین پر مشتمل بین الاقوامی جیوری کے فیصلے کے مطابق  'فخر المتغزلین' کے خطاب سے نوازا گیا- جیوری کے چئیرمین صدارتی ایوارڈ یافتہ اقبال اکیڈمی اسکینڈینیویا ڈنمارک کے بانی و چئیرمین اور ماہر اقبالیات جناب جی صابر ہیں- جیوری اراکین میں ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی (ہندوستان)، ڈاکٹر احمد ندیم رفیع (امریکہ)، علامہ اعجاز فرخ (ہندوستان)، ڈاکٹر فیصل حنیف (قطر)، جناب نصر ملک (ڈنمارک)، پروفیسر ناصر علی سید (پاکستان)، ڈاکٹر نور صوبرس خان (برطانیہ)، جناب شمس الغنی (پاکستان)،  اور جناب سید عبد الحئی (قطر) شامل ہیں-

گزرگاہ خیال فورم  کی مجلس انتظامیہ نے جیوری کے اراکین کا انتخاب چھے ممالک (ڈنمارک، ہندوستان، پاکستان، قطر، برطانیہ اور امریکہ) سے جیوری اراکین کے منفرد علمی اور ادبی مقام کو نظر میں رکھ کر کیا ہے- قطر سے باہر خاص طور پر ان ممتاز شخصیات کا انتخاب کیا گیا جو جناب جلیل نظامی سے ذاتی طور پر واقف نہیں تاکہ کسی قسم کی جانبداری کا شائبہ تک نہ ہو- جناب جلیل نظامی کی زیر طباعت کتاب 'مور کے بازو کھلے' کا مسودہ جیوری کے تمام اراکین کو ارسال کیا گیا اور ان سے ان کی آرا مانگی گئی- اس منظم، غیر جانبدار، اور شفاف طریقہ کار کو عمل میں لا کر جناب جلیل نظامی کو جیوری کے متفقہ فیصلے کے مطابق "فخرالمتغزلین" کے خطاب سے نوازا گیا-

جیوری کا تعارف و کلمات (اسمائے گرامی کے حروف تہجی کے اعتبار سے) پیش ہے:

جناب جی صابر (ڈنمارک): جیوری کے چئیرمین جناب جی صابر ١٩٢٥ میں مراد آباد ہندوستان میں پیدا ہوئے- گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا- جگر مراد آبادی موصوف کے والد کے دوستوں میں سے تھے- جناب صابر صاحب کو جگر اور اس دور کے بڑے شعراء کو نجی محفلوں اور مشاعروں میں سننے اور ان سے ملنے کے ان گنت مواقع ملے- ١٩٤٠ کی دہائی میں جگر کی زبان سے سنا یہ شعر اکثر یاد کرتے ہیں:
زندگی آج بھی زندہ ہے انھی کے دم سے
حسن اک خواب سہی، عشق اک افسانہ سہی

جناب صابر صاحب ماہر اقبالیات اور  اقبال اکیڈمی اسکینڈینیویا ڈنمارک کے بانی و چئیرمین ہیں- حال ہی میں اقبال پر تحقیقی کام کے صلے میں انھیں حکومت پاکستان کی جناب سے  صدارتی ایوارڈ عطا کیا گیا ہے- پیشہ وارانہ  طور پر ایئر لائن میں  اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے-  اردو اور انگریزی زبان میں چھے کتابوں کے مصنف ہیں- ان کی کتابوں کے ترجمے ڈینش اور فارسی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں-

گزرگاہ خیال کے بانی و صدر ڈاکٹرفیصل حنیف کو لکھتے ہیں "میں نے جناب جلیل نظامی کی حیران کن شاعری جو آپ نے بھیجی تھی، پڑھی اور اس سے خوب حظ اٹھایا- جناب جلیل نظامی کے اشعار آپ کی زبانی سن کر بے حد لطف اندوز ہوا- "ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں ترا !" واہ واہ- ملک غزل میں جلیل چھپا رستم معلوم ہوتا ہے- "فخرالمتغزلین" کا خطاب اس کا حق ہے- "

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی (ہندوستان)  : ١٩٥٤کو ریاست اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے- والد صاحب رحمت الٰہی برق اعظمی دبستان داغ دہلوی سے تعلق رکھتے تھے، اور خود بھی ایک باکمال استاد شاعر تھے- تعلیم شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ میں ہوئی. ١٩٧٧میں برقی اعظمی دہلی آئے . ١٩٨٤میں آل انڈیا ریڈیو کے شعبہ فارسی سے منسلک ہوگئے-  فارسی میں ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی- سردست برقی صاحب آل انڈیا ریڈیو میں شعبہ فارسی کے انچارج کے عہدے کو بھی بخوبی سنبھالا۔ بحیثیت مترجم  اور اناؤنسر اپنے فرائض بخوبی انجام دیے۔ فی لحال آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی سے وظیفہ یاب ہوئے اور دہلی میں مقیم ہیں۔ اردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہتے ہیں- فی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں بھی آپ کو ملکہ حاصل ہے-

 ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی جناب جلیل نظامی کے خطاب کے بارے میں رقمطراز ہیں " مجھے نامور شاعر جناب جلیل نظامی کو 'فخرالمتغزلین' کا خطاب عطا کرنے  کے لیے بطور رکن جیوری دلی مسرت ہو رہی ہے- شاعر خلیج جلیل نظامی قطر میں اردو کے سفیر ہیں جن کی اردو زبان و ادب کے حوالے سے خدمات کا عرصہ ٤٠ سے کچھ اوپر ہے- بلاشبہ موصوف اس خطاب کے حقدار ہیں- میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ مجھے جیوری کے رکن کی حیثیت سے منتخب کیا گیا- میں نے جلیل نظامی کی کتاب کا مسودہ شعر بہ شعر پڑھا ہے جو شاعر کی قادر الکلامی  اور استادی کا نا قابل تردید ثبوت ہے- جناب ڈاکٹر فیصل حنیف نے جناب جلیل نظامی کے لیے اس خطاب کو تجویز کر کے ایک  قابل ستائش کام کیا ہے- "

ڈاکٹر احمد ندیم رفیع (امریکہ): امریکہ میں مقیم پیشے کے اعتبار سے طبیب ہیں- آسمان شاعری کے ماہ منیر،  ڈاکٹر احمد ندیم رفیع ایک کہنہ مشق شاعر ہیں جن کی سخنوری کی شہرت ان کے اعلی صفت کلام کے میعار کی بدولت ہے- ان کے شعروں میں مٹھاس ایسی ہے کہ مصرع پڑھتے  ہی منہ میں مصری کی ڈلیاں گھلنے لگتی ہیں-

 ڈاکٹر رفیع لکھتے ہیں " شکریہ آپ نے جلیل نظامی صاحب کا غیر مطبوعہ دیوان بھجوایا- میں نے پوری کتاب ایک دن میں پڑھ ڈالی- مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ جناب جلیل نظامی اردو زبان کے حالیہ ادب کے ممتاز ترین شعراء میں سے ایک ہیں- میں جناب جلیل نظامی کو 'فخرالمتغزلین' کے خطاب کا حقدار جانتا ہوں- یہ خطاب ان کے شاعرانہ قد کے لیے موزوں ترین ہے- جناب نظامی کو ان کی آنے والی کتاب پر بہت مبارکباد-"

علامہ اعجاز فرخ (ہندوستان):  پیشے کے اعتبار سے سابق ہوا باز (پائلٹ) نابغۂ روزگار بزرگ شخصیت، صاحب طرز ادیب ، دانشور ، صحافی ، مورخ اور خطیب علامہ اعجاز فرخ اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے معاون صدر ہیں جن کا تعلق ہندوستان سے ہے- علامہ صاحب آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں-  سابق صدر شعبہ اردو ‘حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی پروفیسر رحمت یوسف زئی کی زبانی علامہ اعجاز فرخ کا مختصر تعارف سنیے "علامہ اعجاز فرخ کی شخصیت ہمہ جہات کی حامل ہے۔ شعر و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا، ذاکری ان کا محبوب مشغلہ، ہوائی جہاز کو آسمانوں میں اڑانا ان کا سابق ذریعۂ معاش، تنظیمی امور میں بے پناہ مہارت ان کی خصوصیت، ایکسپورٹ ان کا ضمنی شغل،مختلف زبانوں اور بیشمار علوم و فنون پر ان کی دسترس …..کن کن باتوں کا ذکر کیا جائے …. یہ اور ایسے بے شمار گوشے ہیں جن میں اتمام حجت کا وسیلہ تلاش کرنا ہو تو علامہ اعجاز فرخ کی رائے سب سے زیادہ مدلل اور دل کو چھو لینے والی ہو گی۔ کئی سال گزرے …. شاید ١٩٦٢یا ١٩٦٣کی بات ہے جب میں نےاعجاز فرخ کو پہلی بار دیکھا۔ منڈی میر عالم کے قریب کسی حویلی کی دوسری منزل پر ایک مشاعرہ تھا جس میں میں نے بھی شرکت کی تھی۔ اس مشاعرے میں اگر کسی شاعر نے بے حساب داد بٹوری تو وہ اعجاز فرخ تھے۔ لہجہ استاد شعراء کا ہم پلہ، اسلوب نیا اور عصری حسیت سے معمور… اب یہ تو یاد نہیں کہ انھوں نے کون سی غزل سنائی تھی لیکن غزل کی چاشنی اور انداز غزل گوئی نے مجھے ایسا مسحور کیا تھا کہ آج تک ان کا اسیر ہوں۔ "

علامہ صاحب جناب جلیل نظامی کی شاعری اور خطاب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "غزل کے تعلق سے میں یہ کہوں کہ کمان ابرو خوباں کا بانکپن ہے غزل اور اس اعتبار سے غزل کی پوری نزاکتوں اور آب و تاب کے ساتھ نہ صرف یہ کہ غزل کو محسوس کیا جائے بلکہ غزل کہنے سے پہلے شاعر کا خود غزل مزاج ہونا ضروری ہے- اور غزل مزاجی کے یہ معنی نہیں کہ فقط محبوب سے گفتگو کرنے کا فن آتا ہو بلکہ غزل پھولوں کی گھٹڑی ہے، ریشم کا لچھا ہے، تاروں کی لڑی ہے، نسترن ہے، سمن ہے، جوہی ہے- شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب غزل کہنے پہ آمادہ ہو تو وہ اس کی مہک کو محسوس کرے، اس کے بدن کو محسوس کرے- جلیل نظامی کی شاعری ایسی ہے کہ ان کی پوری غزل کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کرنوں سے بنی ہوئی ہے- جہاں کوئی کرن چھو لیتی ہے، اندر سے رنگ اچھال دیتی ہے- ایسی شاعری اگر ہو تو اسی کو غزل کا پاسباں کہیے، اسی کو کمان ابرو خوباں کا بانکپن کہیے- دراصل جلیل نظامی نے علامتوں اور استعاروں سے اپنی غزل کو بوجھل نہیں کیا- ان کی غزل استعاروں اور علامتوں کی حمالی نہیں کرتی بلکہ خود اپنے آپ میں غزل اس لیے ہوتی ہے کہ وہ پرانے اوزار سے نئی غزل تراشتے ہیں- اس اعتبار سے ان کے لہجے کا بانکپن بھی ابھر کر سامنے آتا ہے اور غزل کا بدن خود بخود واضح ہو کر اپنی جلوہ فرمائی کرتا ہے- ایسے غزل کار کو فخرالمتغزلین کہیے-"

ڈاکٹر فیصل حنیف (قطر): پاکستان سے تعلق رکھنے والے، پیشہ وارانہ طور پر مالی اور اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر فیصل حنیف انگریزی اور اردو کے ادیب محقق،اور تنقید نگار ہیں جو پچھلی تین دہایوں سے قطر میں مقیم ہیں- ڈاکٹر حنیف نے کاروبار اور مینجمنٹ سے متعلق ماسٹرز اور معاشیات اور بینکاری میں  پی ایچ ڈی  بالترتیب جرمنی اور برطانیہ سے حاصل کی ہیں - ڈاکٹر حنیف، گزرگاہ خیال فورم کے بانی و صدر، اقبال اکیڈمی مڈل ایسٹ کے بانی و چئیرمین، قطر کی قدیم ترین اردو تنظیم بزم اردو کے قطر کے چئیرمین، اور قطر میں پہلے اردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب  گزرگاہ خیال ٹوسٹ ماسٹرز کے بانی صدر ہیں-

 ڈاکٹر حنیف جناب جلیل نظامی کے باب میں لکھتے ہیں: "آج کے شاعری کے انحطاط کے دور میں جہاں ہزاروں شاعر اردو زبان کی گردن پر مشق ناز کر رہے ہیں اور زبان اور ادب کو نا قابل تلافی  نقصان پہنچا رہے ہیں وہاں جلیل نظامی ایسے نابغۂ روزگار شاعر کی شاعری اہل ذوق و نظر کے لیے کسی نعمت اور کرامت  سے کم نہیں- ان کا کلام سخن فہموں اور شاعر شناسوں کو چونکا دیتا ہے - ذوق شعر ان کی فطرت میں شامل ہے - شاعری میں  انھیں مجروح سلطانپوری  کی شاگردی کا شرف حاصل ہے -  ایسا کامیاب شاگرد کہ استاد کو ان کی مہارت  شعری پر ناز ہو- دبستان قطر میں اپنی طرز کے واحد شاعر ہیں جن کی شاعری میں کلاسیکی شاعری نے ایک نیا اور خوبصورت روپ دھار لیا ہے -  اردو، فارسی اور عربی میں بے پناہ درک رکھنے والے اس دور کے چند شعراء میں جلیل نظامی کا نام بھی آتا ہے- ان کی شاعری قدیم انداز اور روایتی اسلوب لیے ہوئے  ہے لیکن ان کا انداز بیاں اور طرز تحریر ایسا ہے کہ پڑھنے والے کو اچھی پرانی اور نئی  شاعری کے سارے محاسن اس میں نظر آ جاتے ہیں- انداز بیاں اور انداز فکر ایسا کہ جو  اساتذہ کی شاعری کا طرہ امتیاز تھا- الفاظ نگوں کی مانند یوں  جڑتے ہیں  کہ ایک ایک لفظ میں ایک ایک مضمون چھپا دکھائی دیتا ہے- جلیل نظامی کے ہاں  اچھوتے مضامین، نرالی تشبیہات و تمثیلات اور  نئے استعارے  کثیر تعداد میں ہیں- استعارہ اور کنایہ سے جلیل نے وہ کام لیا ہے جو صرف اساتذہ کا خاصہ ہے-  جلیل  کے کلام کی ایک نمایاں خصوصیات تصویر کشی ہے- مصور قلم لے کر بیٹھے تو ایسی تصویر نہیں کھینچ سکتا جو انھوں نے الفاظ سے بنا ڈالی ہے- ایجاز و کمال بلاغت ایسی کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے- جلیل کے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جہاں ایک مصرعے میں معنی کی دنیا آباد ہے- - جلیل کے کلام میں معنی آفرینی اور نکتہ آفرینی بکثرت نظر آتی ہے- تراکیب کی جدت اور حسن، مضامین کی وسعت اور قدرت کلام، عمدہ تخیل، الفاظ کا چابکدستی سے استعمال جہاں حسن  کلام جلیل میں اضافہ کرتا ہے وہاں ان کے حسن کلام میں گہرائی اور گیرائی دونوں کا ضامن ہے- 'فخرالمتغزلین' کے خطاب کے لیے جناب جلیل نظامی سے زیادہ مستحق کوئی ہو ہی نہیں سکتا-"

نصر ملک (ڈنمارک): نامور ادیب، شاعر، افسانہ نگار، محقق، مترجم، اور صحافی جناب نصر ملک ٤٣ برس سے  ڈنمارک میں مقیم ہیں- کئی بین الاقوامی اخبارات سے بطور صحافی اور مدیر منسلک رہے- پچھلی کئی دہایوں سے ڈینش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اردو سروس کوپن ہیگن، ڈنمارک کے ایڈیٹر اور مدیر ہیں- عالمی شہرت یافتہ اردو جریدے 'ہمعصر' کے بانی اور مدیر اعلی ہیں-

 جناب نصر ملک لکھتے ہیں "جلیل نظامی صاحب کے مجموعہ غزل کا مطالعہ کرنے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ موصوف کی شاعری اُن کے خیالات کی سنجیدگی، ذہنی ٹھہراؤ اور اُن کی عملی و ادبی شخصیت کے متوازن پن کا ٹھوس نمونہ ہے ۔  میں سمجھتا ہوں کہ جناب جلیل نظامی صاحب، اپنی سوچ و فکر کو شعر میں ڈھالتے ہوئے جس طرح الفاظ و زبان کا استعمال کرتے ہیں وہ صرف شعر کے حسن کو پُر اثر اور اثر انگیز بنا دیتا ہے بلکہ اس کے حسن کو بھی نکھار بخشتا ہے اور یہی کمال فن ہے ۔میری رائے میں جناب جلیل نظامی صاحب کی شاعری جو اُن کے  مجموعہ غزل 'مور کے بازو کھلے'  میں شامل ہے، اُسے سامنے رکھتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں ذرہ بھر بھی باک نہیں کہ جناب جلیل نظامی صاحب، جذبے کی شدت اور شائستگی کے شاعر ہیں اور جذبے کا سچا و کھرا اظہار اُن کا کمال فن ہے ۔  انہوں نے جس خیال کو موضوعِ شعر بنایا ہے اُسے رفعت عطا کی ہے اور بڑی فنکارانہ ہوشیاری سے اُس کی قدامت کو جدت میں بدل دیا ہے ۔  اُن کی شاعری کے زیر و بم میں روح عصر کی گونج اور کھرا پن صاف سنائی دیتا ہے ۔ اور یوں یہ شاعری منفرد، جمیل اور ماضی کی خبر دیتے ہوئے،  حال کی نشاندھی کرتی ایک مستقبل گیر شاعری ہے یعنی سدا بہار۔ اپنے اِس لکھے کی بنیاد پر میں جناب جلیل نظامی صاحب کو اُس اعزاز کا مستحق سمجھتا اور قرار دیتا ہوں جس کا اعلان گرزگاہ خیال فورم کی جانب سے کیا گیا ہے ۔  میری طرف سے جناب جلیل نظامی صاحب کو یہ اعزاز مبارک ہو ۔"

پروفیسر ناصر علی سید(پاکستان)  : نامور ادیب اور شاعر، پروفیسر، ڈرامہ نگار، صحافی اور ہفتہ وار ادب سرائے کے مدیر پروفیسر ناصر علی سیدکا تعلق پاکستان سے ہے-

 پروفیسر سید، جناب جلیل نظامی کے باب میں لکھتے ہیں: " جب میں نے جلیل نظامی کے شعری منظر نامہ کو ان کی کئی ایک خوبصورت ،مکالمہ کرتی اور تغزل سے مملو غزلوں کے حوالے سے دیکھا تو مجھے یک گونہ مسرت ہوئی کہ ابھی عروسِ غزل کا چاند گہنایا نہیں ہے ۔تغزل کا جادو ابھی جواں ہے ،اب بھی غزل سے اپنی تنہائی کو مہکایا جا سکتا ہے ،بھلے سے فراز کہتا رہے کہ ’’ اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں  ‘‘دیکھئے  یہ جو بڑا تخلیق کار ہوتا ہے یہ اپنے زمانے میں رہتے ہوئے بھی کچھ ایسا ہنر دکھا جاتا ہے کہ  بعد کے زمانے بھی اس کی گرفت میں آجاتے ہیں  کوئی بھی ادب کب کلاسیک کا درجہ حاصل کرتا ہے اس کے لیے کوئی لگا بندھا اصول یا فارمولا نہیں ہے ۔ایسے  میں مجھے بار بار غالب کا خیال آتا ہے کہ وہ  ماڈرن ہے ،کلاسیکل ہے یا ان کے مابین رابطہ کا ایک ذریعہ ہے ۔ تب میں جلیل نظامی کو پڑھتا ہوں،مجھے اس کا شعر بھی روایت کے کینوس پر جدید لہجے اور جدید تر حسیات کی عمدہ تصویر لگتا ہے ، اسے فخرالمتغزلین کہیئے یا تاجدارِ تغزل کہیئے سب اچھے خطابات و القبات اس بے بدل شاعر پر جچتے ہیں۔"

ڈاکٹر نور صوبرس خان(برطانیہ): تاریخ دان، محقق، ادیب اور کیوریٹر ڈاکٹر نور صوبرس خان مشہور زمانہ  کیمبرج یونیورسٹی کی تحصیل یافتہ ہیں جہاں سے انہوں نے  اورینٹل سٹڈیز میں بی اے ( عربی اور فارسی ) اور تاریخ خلافت عثمانیہ میں پی ایچ ڈی حاصل کی ہے- ڈاکٹر خان لندن میں سینٹ میریز یونیورسٹی کالج اور کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ خلافت عثمانیہ ، صفوی اور مغلیہ خاندانوں کی سماجی اور ثقافتی تاریخ، الہیات،  مملوکی اور سلجوقی تاریخ،  اور جدید مشرق وسطی کی تاریخ  کے موضوعات پر بطور لیکچرار منسلک رہی ہیں- فی الوقت ڈاکٹر خان برٹش لائبریری لندن میں ساؤتھ ایشیا کے لیے لیڈ کیوریٹر کے عہدے پر فائز ہیں-

ڈاکٹر خان جناب جلیل نظامی کے لیے 'فخرالمتغزلین' کے خطاب کو منظور کرتے ہوئے لکھتی ہیں " جناب جلیل نظامی کی شاعری فارسی اور اردو کے  شاعرانہ منظر نامے کی  لفظی تصویر اور منظر کشی کی روایت اور زبان کے بیچ ایک مضبوط ربط کا ثبوت ہے- ان کی شاعری میں فلسفہ ہے جو فصاحت لیے ہوئے حق و باطل کے موضوعات کو شاعرانہ طرز پر پیش کرتا ہے اور ایک کہنہ مشق شاعر کی  داخلی و خارجی، اور  ذہنی و جذباتی کیفیات سے بھرپور طریقے سے روشناس کرواتا ہے- میں نے جناب جلیل نظامی کی کتاب کا مسودہ بغور پڑھا اور خوب لطف اٹھایا- یہ واقعی ایک بڑی کامیابی ہے"-

شمس الغنی (پاکستان) :  پاکستان سے تعلق رکھنے والے جناب شمس الغنی ایک مستند و معتبر شاعر کی حیثیت سے اردو دنیا میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کے دو مجموعۂ کلام ’’سانپوں کا نگر‘‘ اور ’’کوفۂ سخن‘‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۱۹۴۳ میں ہندوستان کے شہر بدایوں میں ہوئی ۔آپ نے اعلیٰ تعلیم کی متعدد اسناد حاصل کیں اور بینکر کی حیثیت سے مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔ اردو شاعری کے علاوہ آپ نے اردو کے پانچ بڑے شعراکے تقریباً سات سو اشعار کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ نیز معاشیات اور مالیات پر آپ کے تین سو سے زیادہ مضامین معروف انگریزی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

جناب شمس الغنی لکھتے ہیں: "میرے ذہن میں جناب جلیل نظامی کی شاعری کا عکس ایسا بن رہا تھا جس کا تعلق روایت سے جڑتا دکھائی دیتا ہے- عجب مشکل آن پڑی تھی کہ روایت اور جدیدیت کے بیچ  جلیل نظامی کا مقام کیا ہے اور کہاں ہے- یہ تفرقہ یکبارگی مٹ گیا جب میری نظر سے جلیل کا یہ شعر گزرا-

ہم جلیل ایسے میں شاہکار غزل کیا کہتے
عقل غالب کی طرفدار ہے، دل میر کے ساتھ

بس پھر کیا تھا، میرے تخیل کے طاق کھل گئے اور میں نے جلیل کے کلام کو نئی فکر و نظر سے دیکھنا شروع کیا- اب میں واضح طور پر جلیل کی شاعری  میں میر کا حزن و ملال اور الفاظ کے استعمال میں غیر معمولی سلاست اور  استادانہ چابکدستی دیکھ سکتا تھا- غالب کے فلسفیانہ خیالات، جمالیات،  جائز تعلی، محبوب سے راز و نیاز کا بیان، اور رقیبوں سے حجت جلیل کی شاعری میں ملتی ہے- ہاں مگر جلیل کو دنیاوی مراعات کم حاصل رہی- جلیل نے اصولوں کا سودا نہیں کیا- اپنی شاعری پر  کبھی سمجھوتہ نہ کیا، اور اپنے دشمنوں کے باب میں کبھی درمیانہ اور منافقانہ رویہ نہ اپنایا-

میں پرزور انداز میں جلیل کی شاعری میں میر اور غالب کا اتباع دیکھتا ہوں- لیکن کسی طور اس کا یہ مطلب نہیں کہ جلیل نے آنکھیں بند  کر کے اساتذہ کی تقلید کی- اس کے برعکس، جلیل نے اپنے انتہائی منفرد انداز اور رنگ کو قایم رکھا- جلیل کے مضامین اور اس کا تخیل اس کا اپنا ہے، اور وہ وہ ان مضامین کو تخیل بنا کر شعر میں ڈھالنے کے فن میں ماہر ہے- مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جلیل نظامی کی غزل روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک مضبوط اور قابل اعتماد کڑی ہے- یہ کڑی نہ صرف دو مختلف ادوار کو آپس میں جوڑتی ہے بلکہ ایک مثبت، صحتمندانہ اور بامعنی مفاہمت اور مطابقت کے در وا کرتی ہے- جلیل نظامی اپنے شعر کے حوالے سے  'فخرالمتغزلین' کے خطاب کے مکمل حقدار ہیں- "

  سید عبد الحئی (قطر) : خلیج اور بالخصوص قطر کے ادبی منظر نامے پر ہندوستان سے تعلق رکھنے والے جناب سید عبد الحئی ایک اہم نام ہیں- ٥٧ برس سے قطر میں مقیم جناب  سید عبد الحئی ایک تاجر اور ادب نواز اور سماجی شخصیت ہیں جن کی اردو زبان کے حوالے سے خدمات کو بیان کرنے کے لیے حفیظ جالندھری کے 'نصف صدی' کے قصے کو مزید طول دینا پڑے گا، کیونکہ قطر میں اردو زبان و ادب کی ترقی اور ترویج میں  جناب سید عبد الحئی کا جو حصہ ہے وہ ساٹھ برس کا قصہ ہے دو چار برس ، دس بیس برس ، تیس چالیس برس ، یہانتک کہ نصف صدی کا قصہ بھی نہیں- موصوف قطر میں آئیڈیل انڈین سکول کے بانی رکن، بزم اردو قطر کے سینئر سر پرست، آئی سی سی ٹوسٹ ماسٹرز کے صدر، کرناٹکا مسلم کلچرل ایسو سی ایشن کے سابق صدر انڈو قطر اردو مرکز کے اور گزرگاہ خیال اردو ٹوسٹ ماسٹرز  کے نائب صدر ہونے کے علاوہ کئی کاروباری، سماجی اور ادبی تنظیموں کے رکن اور سرپرست ہیں-

جناب سید عبد الحئی جناب جلیل نظامی کے باب میں رقمطراز ہیں کہ "جلیل نظامی کو خطاب دینے کے لیے اس جیوری میں شمولیت میرے لیے اعزاز کی بات ہے- میں جلیل نظامی کو 'فخرالمتغزلین' کا  خطاب دینے کی بھرپور تائید کرتا ہوں- جلیل بلاشہ اس کا مستحق ہے-"

گزرگاہِ خیال فورم کی 'شام غالب' کی اس خصوصی نشست میں انڈیا اردو سوسایٹی کے بانی، شاعر خلیج جناب جلیل نظامی اوربزم اردو قطر کے سرپرست اعلی، قطر کی معروف سماجی شخصیت اور تاجر جناب عظیم عبّاس نے بطور مہمان  اعزازی، لایتوال ہوٹل کے جنرل مینجر جناب مرزا عمران بیگ اور  انڈیا اردو سوسایٹی کے صدر جناب عتیق انظر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی-  یہ شام بزم اردو قطر کے سینئر سرپرست جناب سید عبد الحی کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس کی نظامت بزم اردو قطر کے صدر جناب محمد رفیق شاد اکولوی نے کی-
شاعر خلیج فخرالمتغزلین جناب جلیل نظامی کی ایک غزل سن لیجیے-

شام بے کیف سہی ،شام ہے ڈھل جائے گی
دن بھی نکلے گا ،طبیعت بھی سنبھل جائے گی
اس قدر تیز ہے دل میں مرے امید کی لو
نا امیدی مرے پاس آئی تو جل جائے گی
نرم شانوں پہ نہ بکھراو گھنیری زلفیں
ان گھٹاؤں سے شب تار دہل جائے گی
مست آنکھوں کے دریچوں سے نہ جھانکا کیجے
جام ٹکرائیں گے ،میخواروں میں چل جائے گی
بن سنور کر مجھے سمجھانے نہ آو ، ورنہ
پھر تمنائے دل زار مچل جائے گی
ماہ نو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
اتنا سج دھج کے عیادت کو نہ آیا کیجے
ورنہ کچھ سوچ کے یہ جان نکل جائے گی
کیوں پریشاں ہو شب ہجر کی آمد پہ جلیل
گردش وقت ہے ،آج آئی ہے کل جائے گی

·        
عہدِ حاضر کے ممتاز سخنور شاعر خلیج ، جلیلؔ نظامی کے ’’ فخرالمتغزلیں‘‘ اعزاز سے سرفراز ہونے پر منظوم تاثرات
احمد علی برقیؔ اعظمی
دلنشیں ہیں جلیل ؔ کے اشعار
روح پرور ہے اُن کا عزووقار
کہتے ہیں شاعرِ خلیج انہیں
ہیں قطر میں ادب کے خدمتگار
شعری مجموعہ دیکھ کر یہ لگا
عہدِ نو کے ہیں عبقری فنکار
اُن کا رنگِ سخن ہے فکر انگیز
شاعری کا بلند ہے معیار
ندرتِ فکروفن کلام میں ہے
دیکھ کر جس کو روح ہے سرشار
ہے تغزل میں اُن کے شیرینی
اُن کے اسلوب میں ہے جس سے نکھار
ان کے شعر و سخن کے قالب میں
ہے عیاں روحِ کوچہ و بازار
فخر متغزلین ہیں اب وہ
ایک مدت سے جس کے تھے حقدار
پیش کرتا ہوں میں مبارکباد
ندرتِ فکرو فن ہو ان کا شعار
قدرداں ان کا کیوں نہ ہو برقیؔ
طرزِ نو کے ہیں وہ علمبردار


روداد نگار:  ڈاکٹر فیصل حنیف
بانی و صدر، گزرگاہِ خیال فورم

دوحہ ، قطر


گزرگاہِ خیال فورم کی دس رکنی بین الاقوامی جیوری کی جانب سے شاعر خلیج جناب جلیل نظامی کو بالاتّفاقِ آرا "فخرالمتغزلین" کا خطاب

Naat by Ahmad Ali Barqi Azmi Recited by Asif Qadri.flv

Naat By Ahmad Ali Barqi Azmi Recited by Asif Qadri

Courtsey : Raza Siddiqi for Production of this Video

Detail-Rahmat Ilahi Barq Azmi's Poetic Comlpiments On Haj Ceremony.

Detail

Detail

Detail

Salaam Bahuzur Sarwar-e-Do-Alam By Ahmad Ali Barqi Azmi:Recited by Syed Ayaz Mufti

ZIKR SARKAAR-E-DO ALAM KA-ZIKR SARKAAR-E-DO ALAM KAأ-Naat Recited by Syed Ayaz Mufti POET: DR. AHMAD ALI BARQI AZAMI

HAMARA NABI:Naat -Ahmad Ali Barqi Azmi Recited by Syed Ayaz Mufti

KEE KHUDA NE MUSTAFA KEE WO PAZIRAI KE BUS:Ahmad Ali Barqi Azmi -Recited by Syed Ayaz Mufti

LA ILAHA ILLALLAH - HAMD-E-BARI TA'ALA-Poet Ahmad Ali Barqi Azmi: Recited by Syed Ayaz Mufti

Eid-e-Meelad-un-Nabi- Naat-e-Rasool

YA-ALLAH -HAMD-E-BAARI TA'ALA

خاکسار کے یونیورسل اردو پوسٹ ڈاٹ کام کی جانب سے توصیفی سند سے سرفراز ہونے پر منظوم اظیار امتنان و تشکر بشکریہ : یونیورسل اردو پوسٹ ڈاٹ کام http://universalurdupost.com/?p=29455


خاکسار کے یونیورسل اردو پوسٹ ڈاٹ کام کی جانب سے توصیفی سند سے سرفراز ہونے پر منظوم اظیار امتنان و تشکر بشکریہ : یونیورسل اردو پوسٹ ڈاٹ کام http://universalurdupost.com/?p=29455


Certificate Of Appreciation To Dr. Ahmad Ali Barqi Azmi As A Mark of Commendation in Recognition Of Valuable Services To The Cause Of Urdu Literature By http://universalurdupost.com/

A POETIC TRIBUTE TO FREEDOM FIGHTER ALLAMA FAZL E HAQ KHAIRABADI :AHMAD ...

VEDIO GHAZAL OF DR AHMAD ALI BARQI AZMI Recited By Mohammad Rafique Shaikh

A POETIC TRIBUTE TO FREEDOM FIGHTER ALLAMA FAZL E HAQ KHAIRABADI :AHMAD ...

Poetic Tribute to Our Late Ex .President Dr. A.P. J. Abdul kalam :Ahmad Ali Barqi Azmi


Poetic Tribute to Our Late Ex .President Dr. A.P. J. Abdul kalam
HO GAYE RUKHSAT JAHAAn SE A.P.J ABDUK KALAM
AHMAD ALI BARQI AZMI
KITNI HAI MANHOOS 27 JULY KI SHAAM
HO GAYE RUKHSAT JAHAAN SE A.P.J ABDUL KALAM
APNE TARZ E KAAR SE THE SAB MEIN WOH HAR DIL AZEEZ
UN KA ABNA E WATAN KARTE THE BEHAD EHTERAM
MARDW MISSILE BHI THE WOH AUR SADR E MUMLIKAT
ASHHAB E SCIENCR KI THI UN KE HATHOn MEIN LAGAM
UN KA THA YEH TARGET AAINDA 13 SAAL MEIN
HIND KA HOGA TARAQQI YAFTA MULKON MEIN NAAM
CHAHTE THE IS LIYE WHO TECHNOLOGY KA FUROGH
TA KI HO FIKR O AMAL KA IS SE MUSTAHKAM NIZAM
MULK O MILLAT KI TARAQQI UN KA NASBUL AIN THA
JARI O SARI RAHE GA UN KA YUNHI FAIZ E AAM
NAU NIHALAN E WATAN SE UN KO THA BEHAD LAGAAO
UN KI SHAFQAT SE SABHI CHHOTE BADE THE SHADKAAM
KAAM SE THE APNE WOH SARE JAHAANMEIN SAR BULAND
AALAMI TAREEKH MEIN RAUSHAN RAHE GA UN KA NAAM
KARTE KARTE NAGAHAAN TAQREER RUKHSAT HOGAYE
JANNATUL FIRDAUS MEIN UN KO MILEAALA MUQAAM
KHAKSARI KA THI PAIKAR UN KI AMALI ZINDAGI
PESH KARTA HAI UNHEIN AHMAD ALI BARQI SALAM

Barqi Azmi's Photo Album created By Mohammad Hussain Abu Dhabi UAE.

100_4936.MOV Dr..Ahmad Ali Barqi Azmi Reciting His ghazals in a mushaira...

Justice Aftab Alam Speaks in Prize Distribution Function Of Delhi Urdu A...

Barqi Azmi Recites Naat On DD Urdu Channel

Manam Miskeen(Persian Naat By Ahmad Ali Barqi Azmi) Recited by Farhan...

Barqi Azmi Recites Naat On DD Urdu Channel

Barqi Azmi's Rooh e Sukhan Awarded by Delhi Urdu Acadmy On 22nd August 2014

Ahmad Ali Barqi Azmi: An Introduction Presented by Ahmed Ali Of Bazm e Asaar on facebook


http://lib.bazmeurdu.net/roohe-sukhan-urdu-poetry-book-barqi-aazmi/


روحِ سخن (شاعری) ۔۔۔ احمد علی برقی اعظمی



روح سخن : شعری مجموعہ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
حمد باری تعالیٰ


میں شکر ادا کیسے کروں تیرے کرم کا
’’حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا‘‘
تو اور ترے محبوب کو حاصل یہ شرف ہے
ہے ذات میں پہلو نہیں جن کی کوئی ضم کا
خم سارے جہاں کی ہے جبیں سامنے اس کے
ثانی نہیں کو نین میں کوئی بھی حرم کا
ممکن نہیں تو صیف تری جن و بشر سے
سر سامنے خم ہے ترے اعجازِ قلم کا
رسوائے زمانہ کو ہے عبرت کا یہ اک درس
جمشید کو حاصل نہ ہوا فیض ارم کا
ہے قبضۂ قدرت میں ترے عزت و ذلت
سر چشمہ ہے بس تو ہی ہر اک ناز و نعم کا
طوفانِ حوادث میں ہے برقیؔ کا سفینہ
کرسکتا ہے اب تو ہی ازالہ مرے غم کا
٭٭٭

حمد باری تعالیٰ
ہے تصور میں مرے بس تو ہی تو
عکس ہے ہر شے میں تیرا ہو بہو
تو ہے میرے فکر و فن کی آبرو
تجھ سے ہے گلزارِ ہستی مُشک بو
تجھ سے ہے آباد میرا قصرِ دل
رہتا ہوں تجھ سے ہی محوِ گفتگو
تو ہی ہے شمعِ شبستانِ وجود
تجھ سے روشن ہے جہانِ رنگ و بو
دامنِ ہستی ہے میرا تار تار
میں اسے آخر کروں کیسے رفو
جب سے دیکھا تجھ کو اپنے روبرو
توڑ ڈالے تب سے سب جام و سبو
دل کے آئینے میں برقیؔ صبح و شام
دیکھتا ہوں مصحفِ رُخ با وضو
٭٭٭

حمد باری تعالیٰ
اے خدا تو نے زندگی بخشی
کیف و سرمستی و خوشی بخشی
سبزہ زاروں کو تازگی بخشی
گُلعذاروں کو دلکشی بخشی
تیرے تابع ہے نظمِ کون و مکاں
’’چاند تاروں کو روشنی بخشی‘‘
مصلحت تیری کیا ہے تو جانے
زندگی کیوں یہ عارضی بخشی
تیرا ہر حال میں ہے وہ انعام
جو بھی تو نے بُری بھلی بخشی
تیرا فضل و کرم ہے بے پایاں
تو نے کوئی نہیں کمی بخشی
جو میسر نہیں فرشتوں کو
ہم کو وہ شکلِ آدمی بخشی
بعد اپنے بنیِ اکرمﷺ کو
تو نے ہر شے پہ برتری بخشی
اُن کی زلفوں کی کھا کے تو نے قسم
اُن کو وہ شانِ دلبری بخشی
جس میں اُن کا نہیں کوئی ثانی
اُن کو ایسی پیمبری بخشی
فخر ہے اُمتی ہیں ہم اُن کے
جن کو عالم کی سروری بخشی
دینِ اسلام سب سے ہے ممتاز
جس کو یہ صلح و آشتی بخشی
آ رہی ہے صدائے کُن فیکون
تو نے ہی صوتِ سرمدی بخشی
تیرا منت گزار ہے برقیؔ
جس کے نغموں کو نغمگی بخشی
٭٭٭

نعت رسول مقبولﷺ
’’اے خاصۂ خاصانِ رسل‘‘ شاہِ مدینہ
طوفانِ حوادث میں ہے اُمّت کا سفینہ
اِس دورِ پُر آشوب میں اب جائیں کہاں ہم
ہم بھول گئے ایسے میں جینے کا قرینہ
کچھ کہنے سے قاصر ہے زباں ذہن ہے ماؤف
اب بامِ ترقی کا بھی مسدود ہے زینہ
درکار ہمیں آپ کی ہے چشمِ عنایت
آنکھوں میں نمی اور ہے چہرے پہ پسینہ
وہ آپ ہیں جس سے ملا قرآن کا تحفہ
جو نوعِ بشر کی ہے ہدایت کا خزینہ
واللیل اذا یغشٰی کی خوشبو سے معطّر
ہے آپ کی پیشانیِ اقدس کا پسینہ
بیشک ہے دو عالم کے لئے مطلعِ انوار
یہ آپ کی انگُشتِ شہادت کا نگینہ
احمد علی برقیؔ کی ہے یہ شامتِ اعمال
ہے فضل خدا آپ کی بعثت کا مہینہ
٭٭٭

نعت شریف
تمنا ہے دیکھوں بہارِ مدینہ
ہے صبر آزما انتظارِ مدینہ
مدینہ میں جاؤں تو واپس نہ آؤں
مرے جان و دل ہیں نثارِ مدینہ
وہی جانتے ہیں جو ہیں اہل ایماں
ہے کس درجہ عزّ و وقارِ مدینہ
قسم جس کی زلفوں کی کھائی ہے حق نے
مکیں ہے یہیں وہ نگارِ مدینہ
جو اہلِ بصیرت ہیں اُن کی نظر میں
گُلوں سے بھی بڑھ کر ہے خارِ مدینہ
یہ ہے مسکنِ شافعِ روزِ محشر
’’زہے رحمتِ بیشمارِ مدینہ‘‘
مجھے سیم و زر کی ضرورت نہیں ہے
ہے اکسیر برقیؔ غبارِ مدینہ
٭٭٭

نعت شریف
کیا کوئی کرے شمعِ رسالت کا احاطہ
ممکن نہیں اس نور کی عظمت کا احاطہ
قاصر ہوں رقم کرنے سے میں اُن کے محاسن
میں کیسے کروں ان کی فضیلت کا احاطہ
ہے گُنگ زباں اور قلم میرا ہے ساکت
یہ کیسے کرے عرضِ ارادت کا احاطہ
حد اُن کے فضائل کی نہیں کوئی مقرر
محدود ہے اظہارِ عقیدت کا احاطہ
کونین میں ہیں صرف وہی رحمتِ عالم
رحمٰن ہی کر سکتا ہے رحمت کا احاطہ
جبریل امیں کے پرِ پرواز سے پوچھیں
ان کی شبِ معراج میں رفعت کا احاطہ
ہیں شافعِ محشر وہ جسے چاہیں نوازیں
محدود نہیں اُن کی شفاعت کا احاطہ
ہے شان میں ورفعنا لک ذکرک انہیں کی
ممکن ہی نہیں اُن کی فضیلت کا احاطہ
واللیل اذا یغشی ہی کر سکتی ہے برقیؔ
محبوب و مُحب اور محبت کا احاطہ
٭٭٭

نعت شریف
ہے یہ فیضانِ محمد مصطفی ٰﷺ
روح پرور ہے مدینے کی فضا
ہے جہاں میں کس کا ایسا مرتبہ
جس کی عظمت کا ثنا خواں ہے خدا
جس کی عملی زندگی ہے اک مثال
جس کا ہے قرآنِ ناطق معجزا
رحمت اللعٰلمیں کے فیض سے
ہو رہے ہیں بہرہ ور شاہ و گدا
کوئی بتلائے یہ مجھ سے کون ہے
شافعِ روزِ جزا اس کے سوا
بج رہا ہے جس کا ڈنکا چارسو
چل رہا ہے جس کا سکہ جا بجا
ہے کوئی کون و مکاں میں آج تک
ہے جو سب سے محترم بعد از خدا
مشعلِ رُشد و ہدیٰ ہے جس کی ذات
زندۂ جاوید ہے وہ رہنما
ہے وہی وجۂ وجودِ کائنات
جس کا صدقہ ہیں سبھی ارض و سما
گنبدِ خضرا میں فرشِ خاک پر
جلوہ فرما ہے حبیبِ کبریا
ضو فگن ہے مسجدِ نبوی یہاں
عظمتِ اسلام ہے  جلوہ نما
مطلعِ انوار ہے یہ سرزمیں
جو ہے برقی مرکزِ رشد و ھُدیٰ
٭٭٭

نعتِ رسول مقبولﷺ
مدینے جا رہا ہوں ہیں قدم لغزیدہ لغزیدہ
ابھی سے ہے نگاہِ شوق یہ نمدیدہ نمدیدہ
خدا کا شکر ہے دیکھوں گا اُس کو چشمِ ظاہر سے
ابھی تک دیکھتا تھا میں جسے خوابیدہ خوابیدہ
تھی تصویرِ تصور گُنبدِ خضریٰ کی آنکھوں میں
ہجومِ حسرت و اُمید میں نادیدہ نادیدہ
جہاں پر رحمت اللّعٰلمیںﷺ آرام فرما ہیں
قدم بڑھتے ہیں اُس جانب مرے لرزیدہ لرزیدہ
شفیع المُذنبیںﷺ کے روضۂ اقدس کی جالی کو
نگاہِ شوق سے دیکھوں گا میں دُزدیدہ دُزدیدہ
بفیضِ احمدِ مُرسلﷺ ہیں آساں وہ گزرگاہیں
نظر آتی تھیں جو پہلے مجھے پیچیدہ پیچیدہ
یہاں رہتا تھا میں آزردہ خاطر رات دن اکثر
مرا قلبِ حزیں ہے اب وہاں سنجیدہ سنجیدہ
مئے عشقِ نبیﷺ سے آج ہے سرشار اے برقیؔ
دلِ مُضطر رہا کرتا تھا جو رنجیدہ رنجیدہ
٭٭٭

نعت فارسی
وجہِ وجودِ کون و مکاں سید البشرﷺ
رطب اللسان بہ وصفِ تو ھستند بحر و بر
بادِ صبا کُنی بہ مدینہ اگر سفر
ھمراہِ خود سلامِ مرا ھم بہ او ببر
ھستم دُچارِ گردشِ آشوبِ روزگار
مُشتاقِ دیدِ گنبدِ خضریٰ است چشمِ تر
ای آنکہ قول و فعلِ تو قُرآنِ ناطق است
شق شد بیک اشارۂ انگشت تان قمر
اشکی کہ می چکد بہ فراقت زِ چشمِ من
از شور و شوق و حالِ زبون می دھد خبر
پژمُردہ شد زِ فصلِ خزان گلشنِ حیات
لطفا بدہ زِ نخلِ سعادت بمن ثمر
مثلِ تو نیست دیگری در جملہ کائنات
’’بعد از خُدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘
این ھم رود بسوی مدینہ زِ فضلِ رب
برقیؔ شود زِ فُرصتِ دیدار بھرہ ور
٭٭٭

نعت رسولِ مقبولﷺ
عظیم المرتبت بعد از خدا ہے ذاتِ پیغمبر
خدائے دوجہاں خود پڑھ رہا ہے نعتِ پیغمبر
مِلا ہے جن کو اِذنِ باریابی اُن کے روضے پر
میسر کیوں نہ ہوں اُن کو سبھی برکاتِ پیغمبر
تمام اہلِ جہاں کی ہیں ہدایت کا وہ سرچشمہ
حدیثوں میں ہیں جو محفوظ، وہ رشحات پیغمبر
ہے حسنِ خلق اُن کا تاق  زیامت اسوۂ حسنہ
ہیں مرغوبِ خدائے دوجہاں عاداتِ پیغمبر
انہیں کی ذاتِ اقدس وجۂ تخلیقِ دو عالم ہے
جو کھاتے پیتے ہیں ہم سب وہ ہیں صدقاتِ پیغمبر
کریں اظہارِ عشق اپنا فقط اک روز کیوں اُن سے
رہے وِردِ زباں ہر سانس میں صلواتِ پیغمبر
وہ ہیں خیرالبشر اور  رحمت الللعٰلمیں برقیؔ
بقائے دیں کے تھے ضامن سبھی غزواتِ پیغمبر
٭٭٭

نعت شریف
’’نبیﷺ کی ذات زینت بن گئی ہے میرے دیواں کی‘‘
اُنہیں کا نور ہے جو روشنی ہے بزمِ امکاں کی
وہی ہیں شان میں جن کی ہے ورَفَعنا لک ذکرک
ثنا خواں اُن کی عظمت کی ہر اک آیت ہے قرآں کی
خدا کے بعد ہے سب سے بڑا درجہ محمدﷺ کا
اُنھیں کی ذات ہے معراجِ اکبر نوعِ انساں کی
نہیں ہے اُن کا ثانی اور نہ ہو گا حشر تک کوئی
ہے اُن کی ذات مظہر سر بسر انوارِ یزداں کی
مسلماں ہو کہ ہندو ہو یہودی ہو کہ عیسائی
سبھی پر جاری وساری ہے شفقت ان کے فیضاں کی
اُنھیں کی ذاتِ اقدس منبعِ رُشد و ہدایت ہے
وہی ہیں روشنی کون و مکاں میں شمعِ عرفاں کی
ہے عملی زندگی قرآنِ ناطق اُن کی دُنیا میں
وہی ہیں درحقیقت روح برقیؔ دین و ایماں کی
٭٭٭

غزلیں

احساس کا وسیلۂ اظہار ہے غزل
آئینہ دارِ نُدرتِ افکار ہے غزل
اُردو ادب کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز
اظہارِ فکر و فن کا وہ معیار ہے غزل
گلدستۂ ادب کا گُلِ سرسبد ہے یہ
ہیں جس میں گُلعذار وہ گلزار ہے غزل
آتی ہے جس وسیلے سے دل سے زبان پر
خوابیدہ حسرتوں کا وہ اظہار ہے غزل
اُردو زبانِ دل ہے غزل اُس کی جان ہے
نوعِ بشر کی مونس و غمخوار ہے غزل
پہلے ’’حدیثِ دلبری ‘‘کہتے تھے اس کو لوگ
اب ترجمانِ کوچہ و بازار ہے غزل
پیشِ نظر اگر ہو ولیؔ دکنی کا طرز
مشاطۂ عروسِ طرحدار ہے غزل
ہے میرؔ و ذوقؔ و غالبؔ و مومنؔ کو جو عزیز
وہ دلنواز جلوہ گہہِ یار ہے غزل
برقیؔ کے فکر و فن کا مرقع اسی میں ہے
برقؔ اعظمی سے مطلعِ انوار ہے غزل
٭٭٭

یادوں کی بازگشت مجھے کر رہی ہے مست
سرمایۂ حیات ہے یہ میرا بود و ہست
آلامِ روزگار سے ہے میرا حال پَست
غالب ہے آج مجھ پہ جو تھا پہلے زیردست
ایسا نہ تھا کبھی مرے خواب و خیال میں
یہ کون کر رہا ہے مرے گِرد و پیش گشت
میری نگاہِ شوق ہے کیوں فرشِ راہ آج
کرتا ہے آج کیوں مرا مُرغِ خیال جَست
یہ جانتے ہوئے کہ نہ آئے گا وہ کبھی
میں کر رہا ہوں اُس کی ضیافت کا بندوبَست
ہے اُس کو میری فکر جو ہے میرا کارساز
مُجھ کو بُتوں سے ڈر نہیں میں ہوں خُدا پرست
مانے نہ مانے کوئی مرا ہے یہ اعتقاد
’’دشمن اگر قوی است نگہباں قوی تر است‘‘
نعمت خُدا کی ہے جوہو ذہنی سکوں نصیب
ہیں ہیچ میرے سامنے برقیؔ یہ تاج و تخت
٭٭٭

ہمیں جو کہنا ہے کہتے رہیں گے وہ بیباک
نہ کر سکے گی ہمیں زیر گردشِ افلاک
بہت سے ہم نے نشیب و فراز دیکھے ہیں
کریں گے خاک سب اس کے عزائمِ ناپاک
بھروسہ قوتِ بازو پہ اپنی ہے جن کو
ہے اُن کے سامنے کوہِ گراں خس و خاشاک
شعار اپنا رہا ہے ہمیشہ حق گوئی
کیا ہے سینۂ باطل کو تیغِ حق نے چاک
تھی اپنے ہاتھ میں مہمیزِ  ا شہبِ دوراں
بنا رہا ہے ہمیں آج یہ جہاں فتراک
عرب ہو یا ہو عجم سب ہیں مُہرۂ شطرنج
بساطِ دہر پہ حاوی ہیں وہ جو ہیں چالاک
نہ جل سکیں گے کبھی ہم اُس آگ میں ہرگز
’’ کہ جس کا شعلہ نہ ہو تُند و سرکش و بیباک‘‘
نہ دیتے گر ہمیں اقبالؔ درسِ فکر و عمل
تو ہوتا حالِ زبوں اپنا اور عبرتناک
کریں گے معرکۂ خیر و شر کو سر برقیؔ
ہماری تاب و تواں کیا ہے ہم کو ہے اِدراک
٭٭٭

کتنا عجب ہے جوشِ جنوں کا میرے یہ افسانہ بھی
میرا یہ کاشانۂ دل آباد بھی ہے ویرانہ بھی
اُس کی نگاہِ ناز کی مستی ایسی اثر انداز ہوئی
’’ہاتھ سے مُنھ تک آتے آتے چھوٹ پڑا پیمانہ بھی‘‘
حِفظِ مراتب کا ہوں قائل سب سے ہے میری راہ و رسم
دیوانوں میں دیوانہ فرزانوں میں فرزانہ بھی
کوئی نہیں ہے آگے پیچھے جس سے کہوں میں حالِ زبوں
تھا جو سکونِ قلب کا باعث نہیں رہا وہ شانہ بھی
بند کیا تھا مرا ناطقہ پیرِ فلک نے پہلے ہی
دشمنِ جاں ہیں عہدِ رواں میں میرے اہل زمانہ بھی
کوئی غمِ دوراں سے ہے نالاں تنگ غمِ جاناں سے کوئی
سوزِ دروں سے اب ہے پریشاں میرا دلِ دیوانہ بھی
ہوتا ہے مجروح تقدس آج عبادت گاہوں کا
زد میں ہے اہلِ سیاست کی اب مسجد بھی بُتخانہ بھی
اپنوں کا تھا جیسا رویہ وقتِ ضرورت میرے لئے
پیش نہ آیا ایسے برقیؔ مُجھ سے کوئی بیگانہ بھی
٭٭٭

وہ ایک جھلک دکھلا بھی گئے، وعدوں سے ہمیں بہلا بھی گئے
اک لمحہ خوشی دے کر ہم کو، برسوں کے لئے تڑپا بھی گئے
دیدار کی پیاسی تھیں آنکھیں، کچھ دیر اگر وہ ٹھہر جاتے
اک چشمِ زدن میں ایسے گئے، ہم کھو بھی گئے اور پا بھی گئے
آنکھوں میں شرابِ شوق لئے، دروازۂ دل سے یوں گزرے
میخانۂ ہستی میں آ کر، وہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
تھا ایسا نگاہوں میں جادو، ہم بھول گئے سب جام و سبو
جیسے ہی نگاہیں ان سے ملیں، ملتے ہی نظر شرما بھی گئے
ہیں غمزہ و ناز و ادا اُن کے، توصیف سے اپنی بالا تر
تھی چال میں ایسی سَبُک روی، ناگن کی طرح بل کھا بھی گئے
ہے رنگِ مجازؔ بہت دلکش، جو شعرو سخن میں تھے یکتا
اپنے اشعار سے جو سب کو، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے
نظمیں ہوں اُن کی یا غزلیں، دیتی ہیں دعوتِ فکر و عمل
وہ زلفِ عروسِ سخن آ کر جو اُلجھی تھی سلجھا بھی گئے
کچھ دیر انھیں نہ لگی برقیؔ، آئے بھی اور گزر بھی گئے
وہ غنچۂ دل کو کھِلا بھی گئے، جو کھِلتے ہی مُرجھا بھی گئے
٭٭٭

امن و صُلح و آشتی ہو جیسے بیماری کا نام
ہے سیاست عہدِ نو میں ایک عیاری کا نام
اُن کا ظاہر اور باطن دیکھ کر ایسا لگا
پارسائی جیسے ہو شاید ریاکاری کا نام
جو زمانہ ساز ہیں،ہیں سب کے منظورِ نظر
ہے تغزل میں ترنم آج فنکاری کا نام
گردشِ حالات سے ہے بند جن کا ناطقہ
وہ زبانِ حال سے لیتے ہیں بیکاری کا نام
ہے گرانی کا وہ عالم الامان و الحفیظ
ڈرتے ہیں لیتے ہوئے اب سب خریداری کا نام
شوخیِ گفتار میں کہہ جاتے ہیں وہ کچھ سے کچھ
دوستی ان کی نظر میں ہے دل آزاری کا نام
پُرمسرت زندگی ہے آج کل خواب و خیال
ہے زباں پر اِن دنوں سب کی عزاداری کا نام
کر رہا ہوں یہ غزل نذرِ ضمیرِؔ جعفری
ہے درخشاں فکر و فن سے جن کے فنکاری کا نام
کیا کشودِ کار کی برقیؔ کوئی صورت نہیں
سب کے ہے وِردِ زباں اب صرف دشواری کا نام
٭٭٭

میں رودادِ دلِ مضطر سنا دوں پھر چلے جانا
تمھیں زخمِ جگر اپنا دکھا دوں پھر چلے جانا
ذرا سی ٹھیس سے یہ شیشۂ دل ٹوٹ جائے گا
تمھیں اِس خوابِ غفلت سے جگا دوں پھر چلے جانا
سمجھتے ہو اسے بازیچۂ اطفال تم شاید
تمھیں آدابِ اُلفت میں سکھا دوں پھر چلے جانا
نہیں روکوں گا جانے سے تمھیں لیکن ذرا ٹھہرو
میں تم کو آج آئینہ دکھا دوں پھر چلے جانا
اگرچہ مُنتشر ہے میرا یہ شیرازۂ ہستی
تمھارے خانۂ دل کو سجا دوں پھر چلے جانا
نشاط و کیف و سرمستی کا ساماں تھے تمھیں میرے
متاعِ جان و دل تم پر لٹا دوں پھر چلے جانا
بنایا رفتہ رفتہ مجھ کو شیدائی سے سودائی
تمھیں بھی اپنا دیوانہ بنا دوں پھر چلے جانا
وہ ہے درپردہ دشمن جو بظاہر دوست ہے برقیؔ
حقیقت کیا ہے یہ تم کو بتا دوں پھر چلے جانا
٭٭٭

رہِ زندگانی میں چلنا سنبھل کے
ملا یہ سبق موجِ طوفاں میں پَل کے
یہ ہیں رہنما دیکھئے آج کل کے
جو ہر روز آتے ہیں چہرے بدل کے
گلوں کی تمنا ہمیں بھی تھی لیکن
شب و روز گذرے ہیں کانٹوں پہ چل کے
غمِ زندگی آج حاوی ہے اس پر
نہیں رہ گئے اب وہ عنواں غزل کے
کہاں سے اُنہیں لا کے دوں چاند تارے
کہا میرے بچوں نے مجھ سے مچل کے
میسر نہیں اُن کو دو گز زمیں بھی
مگر خواب وہ دیکھتے ہیں محل کے
اُنہیں آرہے ہیں نظر دن میں تارے
حساب اُن کو دینے ہیں ایک ایک پَل کے
دکھایا جو آئینہ برقیؔ نے ان کو
تمھیں دیکھ لیں گے وہ کہتے ہیں جَل کے
٭٭٭

خانۂ دل کا باب ہیں آنکھیں
روحِ حسن و شباب ہیں آنکھیں
ہیں یہ مشاطۂ عروسِ حیات
حُسن کی آب و تاب ہیں آنکھیں
جسم میں ہیں یہ مطلعِ انوار
صورتِ ماہتاب ہیں آنکھیں
دستِ قدرت کا شاہکار ہیں یہ
تحفۂ لاجواب ہیں آنکھیں
ہیں یہ شمعِ حیات کی تنویر
ضو فشاں آفتاب ہیں آنکھیں
ایک مدت سے ہے جو لاینحل
وہ سوال و جواب ہیں آنکھیں
ہیں یہ سوزِ دروں کا آئینہ
مظہرِ اضطراب ہیں آنکھیں
جستجو میں کسی کی سرگرداں
دشتِ دل میں سراب ہیں آنکھیں
زندگی میں نہیں ہے کوئی رمق
جب سے زیرِ عتاب ہیں آنکھیں
حسرتِ دید ہے ابھی باقی
اِس لئے نیم خواب ہیں آنکھیں
عالمِ رنگ و بو میں اے برقیؔ
اک حسیں انتخاب ہیں آنکھیں        ٭٭٭

دلکش و دلفگار ہے دُنیا
مظہرِ نور و نار ہے دُنیا
کچھ گُلِ سَرسبَد سمجھتے ہیں
کچھ کی نظروں میں خار ہے دُنیا
ہے فلسطین اِس کی ایک مثال
جیسے اک کارزار ہے دُنیا
دیکھتا ہی نہیں اِدھر کوئی
کتنی غفلت شعار ہے دُنیا
اہلِ غزہ سے پوچھئے جا کر
دامنِ داغدار ہے دُنیا
خونِ انساں یہاں پہ ارزاں ہے
جس کا اک کاروبار ہے دُنیا
وہ ’’فلوٹیلا‘‘ کاروانِ رفاہ
جس کی مِنت گذار ہے دُنیا
اس پہ صیہونیت کی یہ یلغار
دیکھ کر شرمسار ہے دُنیا
ہو اگر امن و صلح کا ماحول
ایسے میں سازگار ہے دُنیا
تنگ ہو عرصۂ حیات اگر
حسرتوں کا مزار ہے دُنیا
کرو عقبیٰ کی فکر اے برقیؔ
’’چار دن کی بہار ہے دُنیا‘‘              ٭٭٭

منظرِ صبح و شام ایک طرف
حُسنِ ماہِ تمام ایک طرف
جامِ مے میں کہاں وہ کیف و سرور
اس کی آنکھوں کا جام ایک طرف
چشمِ میگوں چھلک رہی ہے ادھر
عاشقِ تشنہ کام ایک طرف
ہے یہ جوشِ جنوں کا اک فیضان
میرا اور اُس کا نام ایک طرف
دشمنِ جاں ہے گردشِ دوراں
اشہبِ بے لگام ایک طرف
ہے وہ مشاطۂ عروسِ سخن
میرا حُسنِ کلام ایک طرف
یہ مرے فکر و فن کا سرمایہ
جو ہے نقشِ دوام ایک طرف
آج اپنے وطن میں ہوں گُمنام
ہو گا کل میرا نام ایک طرف
میں ہوں برقؔ اعظمی کے فن کا غلام
جن کا ہے فیضِ عام ایک طرف
ہے مرے لب پہ کلمۂ توحید
ذکرِ خیرالانامﷺ ایک طرف
ہیچ برقیؔ ہیں سب یہ جاہ و حشم
خُسروِ نیک نام ایک طرف  ٭٭٭

میرا جوشِ جنوں والہانہ ہوا، تلخ پھر زندگی کا فسانہ ہوا
اُس سے بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا،جس کے تیرِ نظر کا نشانہ ہوا
اپنی فطرت سے مجبور ہوں اس لئے،سرکشی سے ہمیشہ گریزاں رہا
کرسکا میں تجاوز نہ حد سے کبھی،اس کا جو وار تھا جارحانہ ہوا
کام آیا نہ کچھ میرا سوزِ دروں،وہ بڑھاتا رہا میرا جوشِ جنوں
مرغِ بسمل کی صورت مرا حال تھا، جذبۂ عاشقی قاتلانہ ہوا
تھا وہ صیاد ہر دم مری گھات میں، کر رہا تھا تعاقب جو برسات میں
دامِ تزویر میں اُس کے میں آ گیا، دشمنِ جاں مرا آب و دانہ ہوا
تھی سکونت نہ اُس کی کبھی دیرپا،آمد و رفت کا وقت کوئی نہ تھا
کوئی رہتا نہیں ہے جہاں مستقل،دل مرا ُس کا مہمان خانہ ہوا
خواب میں میرے اکثر وہ آتا رہا،ویسے مجھ سے وہ نظریں چراتا رہا
اُس کے ناز و ادا تھے حیات آفریں،جو بھی سرزد ہوا غائبانہ ہوا
امجد اسلام امجدؔ کا رنگِ سخن، عہدِ حاضر میں ہے مرجعِ اہلِ فن
دلنشیں اُن کا اسلوب اس بحر میں، اِس غزل کا میری شاخسانہ ہوا
کھا رہا تھا میں اُس کا فریبِ نظر، خانۂ دل کے تھے منتظر بام و در
کام آئی نہ کچھ سادہ لوحی مری،کارگر اُس کا برقیؔ بہانہ ہوا
٭٭٭

میں ظلم و جور کا کس طرح سدِ باب کروں
جواب دے کے اسے کیسے لاجواب کروں
جو کر رہا ہے پسِ پردہ میری بیخ کنی
میں کیسے اُس کے عزائم کو بے نقاب کروں
حساب اُس سے کروں گا جگا کے میں اپنا
مرا شعار نہیں اُس کو محوِ خواب کروں
جو ہونا ہو گا وہ ہو جائے گا بفضلِ خدا
میں اپنی نیند بلا وجہہ کیوں خراب کروں
جہاں جمود و تعطل کا ہو نہ کوئی شکار
میں چاہتا ہوں بپا ایسا انقلاب کروں
نہ جانے زندگی کب ساتھ چھوڑ دے میرا
مجھے جو کرنا ہے کیوں کر نہ وہ شتاب کروں
جسے سمجھتا تھا میں رہنما وہ تھا رہزن
میں کیسے اپنے عزائم کو کامیاب کروں
نہیں ہے تیرگی مجھ کو پسند اے برقیؔ
’’میں چاہتا تھا چراغوں کو آفتاب کروں ‘‘
٭٭٭

بات جو اُن کے حُسن کی بزمِ سُخن میں چل گئی
میری جو کیفیت تھی وہ میری غزل میں ڈھل گئی
کہہ کے گئے تھے آئیں گے وہ شبِ وعدہ کل گئی
آج بھی منتظر ہوں میں آئے نہ شام ڈھل گئی
لیتے ہیں بار بار کیوں صبر کا میرے امتحاں
روٹھے ہیں مُجھ سے کس لئے کل کی وہ بات کَل گئی
کرتے ہیں دل لگی یہ کیوں اِس سے ملے گا اُن کو کیا
صُبح سے شام ہو گئی رات بھی آ کے ٹل گئی
موجِ نشاط و سرخوشی ثابت ہوئی نہ دیرپا
نخلِ مُراد کی مرے شاخِ اُمید جل گئی
مُجھ کو دکھا رہے تھے جو وہ تو تھا اُن کا سبز باغ
وعدۂ پُرفریب سے طبعِ حزیں بہل گئی
خانۂ دل میں آ کے وہ بولے ذرا ابھی ٹھہر
اِتنا اُتاولا ہے کیوں کیا تری عقل چَل گئی
برقیؔ متاعِ شوق ہے کیفیتِ اُمید و بیم
تجھ کو ملے گا کیا اگر حسرتِ دل نکل گئی
٭٭٭

وہ کہاں ہیں ہمیں بتاتے تو
ہم چلے آتے وہ بلاتے تو
جان و دل ہم نثار کر دیتے
کاش وہ ہم کو آزماتے تو
خانۂ دل نہ ہوتا خاکستر
ہنس کے بجلی نہ وہ گراتے تو
ہم سے اچھا کوئی نہیں ہوتا
ناز اُن کے جو ہم اُٹھاتے تو
بال کی وہ نکالتے ہیں کھال
عیب اُن کے جو ہم گِناتے تو
وہ دکھاتے ہیں آئینہ ہم کو
آئینہ اُن کو ہم دکھاتے تو
سر پہ وہ آسماں اُٹھا لیتے
ہم اگر اُن کو بھول جاتے تو
آئے تھے تو ذرا ٹھہر جاتے
کاش کچھ دیر وہ نہ جاتے تو
آب بیتی ہماری سنتے وہ
اُن کی ہم سُنتے جو سُناتے تو
ہوتے برقیؔ وہ سب کے نورِ نظر
رسمِ اُلفت اگر نِبھاتے تو
٭٭٭

دیکھا جو اُس کو تیرِ نظر اُس کا چل گیا
لیکن میں اُس کے وار سے بچ کر نکل گیا
اُس کی کُلاہ کج ہے اُسی بانکپن کے ساتھ
رسّی تو جل چکی ہے ابھی تک نہ بل گیا
میں آشنا ہوں اُس کے ہر اک قول و فعل سے
اُس نے کیا تھا وعدۂ فردا جو ٹل گیا
عادی ہوں زندگی کے نشیب و فراز کا
تعمیر کر رہا ہوں وہی گھر جو جل گیا
حالات سے ہمیشہ نبرد آزما ہوں میں
ہر ہر قدم پہ ٹھوکریں کھا کر سنبھل گیا
ناز و نعم میں جس کے گذرتے تھے روز و شب
سر سے ابھی نہ اُس کے خیالِ محل گیا
تھا عرصۂ حیات مرا تنگ اس لئے
آشوبِ روزگارمیں بھی رہ کے پَل گیا
تنکے کا ڈوبتے کو سہارا ہو جس طرح
دلجوئی کی کسی نے تو برقیؔ بَہل گیا
٭٭٭

کرشمے غمزہ و ناز و نظر کے دیکھتے ہیں
دیارِ شوق سے ہم بھی گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے خوشنما منظر ہے گُلعذاروں سے
اگر یہ سچ ہے تو ہم بھی ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ہے اُس کی چشمِ فسوں ساز جیسے گہری جھیل
شناوری کے لئے ہم اُتر کے دیکھتے ہیں
خرامِ ناز میں سرگرم ہے وہ رشکِ گُل
چمن میں غنچہ و گُل بھی سنور کے دیکھتے ہیں
جدھر جدھر سے گُذرتا ہے وہ حیات افروز
نظارے ہم وہاں شمس و قمر کے دیکھتے ہیں
حریمِ ناز معطّر ہے اُس کی آمد سے
مزاج بدلے نسیمِ سحر کے دیکھتے ہیں
کبھی ہے خُشک کبھی نَم ہے چشمِ ماہ وشاں
نظارے چل کے وہاں بحر و بَر کے دیکھتے ہیں
جو خواب دیکھا تھا احمد فراز نے برقیؔ
ہم اُس کو زندۂ جاوید کر کے دیکھتے ہیں
٭٭٭

کسی کی یہ تن آسانی کے دن ہیں
’’ہماری تنگ دامانی کے دن ہیں ‘‘
تلاطم خیز موجوں میں گھرے ہیں
نہ تھا معلوم طُغیانی کے دن ہیں
یہ کیسا انقلاب آیا جہاں میں
بہرسو فتنہ سامانی کے دن ہیں
گراں ہر چیز ہے عہدِ رواں میں
ہمارے خوں کی ارزانی کے دن ہیں
ہوا کرتے تھے جو دربان اپنے
اب اُن کی آج سُلطانی کے دن ہیں
نہ جانے کیوں ہے دامنگیر وحشت
جنوں میں چاک دامانی کے دن ہیں
نہیں آیا غزل گوئی کا موسم
ابھی تو مرثیہ خوانی کے دن ہیں
گزر جائیں گے یہ بھی رفتہ رفتہ
ابھی برقیؔ پریشانی کے دن ہیں
٭٭٭

دیارِ شوق میں جس کو بھی ہمسفر جانا
وہ راہ زن تھا اُسے میں نے راہبر جانا
جو اہل فضل و ہُنر تھے وہ تھے پسِ پردہ
زمانہ ساز تھا جس کو بھی دیدہ ور جانا
شعور و فکر نے میرے دیا نہ ساتھ مرا
جو باخبر تھے اُنہیں میں نے بے خبر جانا
بھُگت رہا ہوں سزا اپنی بد گُمانی کی
جو صُلح جو تھا اُسے میں نے فتنہ گر جانا
قصور میرا تھا ملتا ہوں اب کفِ افسوس
جو بارور تھے اُنھیں نخلِ بے ثمر جانا
نہیں ہے  اِس سے بڑی اور کوئی حق تلفی
جو مثلِ لعل و گُہر تھے اُنھیں صِفَر جانا
وفا کا نام جفا رکھ دیا جفا کا وفا
امیرِ شہر نے ظالم کو معتبر جانا
سمجھ میں آئی ہے جب سے مرے حقیقتِ حال
نہیں پسند مجھے اب اِدھر اُدھر جانا
وہ خود فریبی تھی برقیؔ کی یا کہ خوش فہمی
جو اہل ظرف تھے اُن کو ہی کم نظر جانا
٭٭٭

دل میں ہے دلنواز غزل کہہ رہا ہوں میں
تارِ نفس ہے ساز غزل کہہ رہا ہوں میں
مشاطۂ عروسِ غزل ہے مری رفیق
ہر غم سے بے نیاز غزل کہہ رہا ہوں میں
آرائشِ خیال کی ہے جلوہ گاہ ذہن
قسمت ہے کار ساز غزل کہہ رہا ہوں میں
وہ پوچھتے ہیں مجھ سے مرا ماجرائے شوق
ہے اس کا کیا جواز غزل کہہ رہا ہوں میں
یہ نے کا اور نوا کا بھی رشتہ عجیب ہے
ہے کوئی نے نواز غزل کہہ رہا ہوں میں
جب سے ہے کوئی دل کے دریچے میں جلوہ گر
ہے ذہن میرا باز غزل کہہ رہا ہوں میں
یادوں کا اک ہجوم ہے کیوں دل کے آس پاس
سینے میں ہے گداز غزل کہہ رہا ہوں میں
میرا رقیب در پئے آزار ہے مرے
کرتا ہے ساز باز غزل کہہ رہا ہوں میں
برقیؔ نہیں ہے کوئی غرض اس سے مجھ کو آج
کیا ہے نیاز و ناز غزل کہہ رہا ہوں میں
٭٭٭

آ جا تجھ کو خانۂ دل میں اپنا بناؤں گا مہمان
حسرتِ دید کی تیری پیاسی یہ آنکھیں ہیں میری جان
چاروں طرف ہے اک سناٹا کوچۂ جاناں بھی سُنسان
جب سے گیا ہے چھوڑ کے اس کو خانۂ دل ہے یہ ویران
میں نے کہا ہے جو کچھ تجھ سے ہے وہ مرے دل کی آواز
تجھ پہ تصدق ہے یہ متاعِ شوق مری تو مان نہ مان
وعدۂ فردا کر کے نہ آیا فرشِ راہ تھے دیدہ و دل
میں یہ سمجھنے سے ہوں قاصر جان کے بھی کیوں ہے انجان
صفحۂ دل پر اب بھی ہیں محفوظ تری یادوں کے نقوش
دیکھ کے تیرا روئے زیبا آ جاتی تھی جان میں جان
جوشِ جنوں میں اب بھی ہے مجھ کو حدِ ادب کا پاس و لحاظ
تیرا خیالِ خام ہے یہ جو مجھ کو سمجھتا ہے نادان
اُن کے سبھی کرداروں میں شامل تھا اُن کا خونِ جگر
ابنِ صفی کا پیشِ نظر ہے میرے یہ آدرش مہان
وجہِ سعادت میرے لئے ہے اُن کی زمیں میں فکرِ سخن
ابنِ صفی کے طرزِ بیاں پر رنگِ سخن میرا قربان
جاسوسی ناول ہوں برقیؔ یا اُن کے گلہائے سُخن
نظم و نثر میں ابنِ صفی کی الگ ہے اک پہچان
٭٭٭

کیف و سرورِ عشق میں بل کھا کے پی گیا
اُس کی نگاہِ مست سے للچا کے پی گیا
ساقی کے دستِ ناز میں دیکھا جو جامِ مے
قابو رہا نہ دل پہ وہاں جا کے پی گیا
تارِ وجود ہونے لگا مُرتَعِش مرا
اُٹّھی اک ایسی لہر کہ لہرا کے پی گیا
کچھ دیر انتظار کرو آ رہا ہوں میں
وہ مانتا نہیں تھا میں منوا کے پی گیا
اُس نے کہا کہ دُزدِ تہہِ جام ہے بچی
میں کہا کہ دے وہی اور لا کے پی گیا
مُجھ کو جنونِ شوق میں آیا نہ کچھ نظر
جو کچھ بھی آیا سامنے جھنجھلا کے پی گیا
مُجھ کو ازل سے بادۂ عرفاں عزیز تھی
دیوانہ وار اِس لئے میں جا کے پی گیا
ٹوٹے کہیں نہ رندِ بلا نوش کا بھرم
برقیؔ وفورِ شوق میں شرما کے پی گیا
٭٭٭

ہیں اُس کے دستِ ناز میں دلکش حنا کے پھول
اظہارِ عشق اُس نے کیا ہے دکھا کے پھول
بھیجے ہیں خط میں اُس نے جو مُجھ کو چھُپا کے پھول
وجہہِ نشاطِ روح ہیں یہ مدعا کے پھول
ہے مظہرِ خلوص یہ گلدستۂ حسیں
سرمایۂ حیات ہیں درد آشنا کے پھول
اُس کے خرامِ ناز کا عالم نہ پوچھئے
ہیں دلفریب غمزہ و ناز و ادا کے پھول
پاکیزگیِ نفس ہے آرائشِ خیال
ہیں آبروئے حُسن یہ شرم و حیا کے پھول
پھولے پھلے ہمیشہ ترا گلشنِ حیات
میں پیش کر رہا ہوں تجھے یہ دعا کے پھول
ریشہ دوانیوں میں وہ مصروف ہیں مگر
گلشن میں ہم کھلاتے ہیں مہر و وفا کے پھول
برقیؔ ہے بے ثبات یہ دُنیائے رنگ و بو
دیتے ہیں درس ہم کو یہی مسکرا کے پھول
٭٭٭

بات ہے اُن کی بات پھولوں کی
ذات ہے اُن کی ذات پھولوں کی
وہ مجسم بہار ہیں اُن میں
ہیں بہت سی صفات پھولوں کی
گفتگو اُن کی ایسی ہے جیسے
پھول کرتا ہو بات پھولوں کی
گُل ہیں گُلشن میں رونقِ گلزار
اور وہ ہیں حیات پھولوں کی
غُنچہ و گُل کی یہ فراوانی
جیسے ہو اِک برات پھولوں کی
حُسنِ فطرت کا شاہکار ہیں یہ
روح پرور ہے ذات پھولوں کی
روتی ہے فرطِ غم سے شبنم بھی
دیکھ کر مشکلات پھولوں کی
باغباں کی نظر سے دور رہیں
ہے اِسی میں نجات پھولوں کی
درسِ عبرت ہے اہل دل ے لئے
زندگی بے ثبات پھولوں کی
ہے نشاط آفریں بہت برقیؔ
دلنشیں کائنات پھولوں کی
٭٭٭

یادِ ماضی ستاتی رہی رات بھر
خواب میں آتی جاتی رہی رات بھر
دیکھ کر اُس کو میں دم بخود رہ گیا
نیند میری اُڑاتی رہی رات بھر
تیرہ و تار تھا خانۂ دل مرا
وہ اُسے جگمگاتی رہی رات بھر
میرے کانوں میں بجتی تھیں شہنائیاں
زیرِ لب گُنگُناتی رہی رات بھر
شمعِ ہستی کی لو جب بھی مدھم ہوئی
وہ جلاتی بُجھاتی رہی رات بھر
جب بھی شیرازۂ دل ہوا مُنتشر
وہ مسلسل سجاتی رہی رات بھر
میرے تارِ نفس کی وہ مضراب ہے
سازِ دل جو بجاتی رہی رات بھر
تھی وہ شعلہ کبھی اور شبنم کبھی
روٹھتی اور مناتی رہی رات بھر
لے کے صبر و سکوں کا مرے امتحاں
وہ مجھے آزماتی رہی رات بھر
گلشنِ زندگی کی شگفتہ کلی
نِت نئے گل کھلاتی رہی رات بھر
دے کے دستک درِ دل پہ وہ بارہا
مجھ کو برقیؔ جگاتی رہی رات بھر        ٭٭٭

روح پرور ہے اُس کا غمزہ و ناز
شخصیت اُس کی ہے کرشمہ ساز
میرے قلبِ حزیں کا سوز و گداز
اُس پہ ہوتا نہیں اثر انداز
کب وہ چھیڑے گا میرے دل کا ساز
میں ہوں ہر وقت گوش بر آواز
میرا کوئی نہیں ہے محرمِ راز
زندگی ہے پُر از نشیب و فراز
لب پہ میرے لگی ہے مُہرِ سکوت
’’نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز‘‘
جس کو دیکھو ہے مصلحت اندیش
ہے جہاں کارگاہِ ناز و نیاز
ذہن قاصر ہے یہ سمجھنے سے
کیا حقیقت ہے اور کیا ہے مجاز
کون کس سے کرے گا حُسنِ سلوک
اب نہ محمود ہے نہ کوئی ایاز
اہلِ فضل و کمال ہیں گمنام
بامِ شہرت پہ ہیں زمانہ ساز
٭٭٭

ہے ذہن میں میرے ابھی اُس رات کا عالم
برسات میں بیتابیِ جذبات کا عالم
ہے سامنے اُس کی مرے تصویرِ تصور
پُر کیف ہے کس درجہ خیالات کا عالم
جُز اُس کے نہیں اِس کو کوئی چیز بھی مطلوب
ہے عشق کو یہ حُسن کی سوغات کا عالم
ناقابلِ اظہار ہے اب جوشِ جنوں میں
افکارِ پریشاں کی حکایات کا عالم
ہر ایک ادا اُس کی ہے ناقابلِ توصیف
اِس بات کا عالم ہو کہ اُس بات کا عالم
کب ہو گا مرا خواب یہ شرمندۂ تعبیر
جب ہو گا نہ کوئی بھی حجابات کا عالم
ثانی نہیں کوئی بھی تغزل میں جگر کاؔ
کہتا ہے یہ میرے دلِ بیتاب کا عالم
برقیؔ شبِ تنہائی میں یہ شدّتِ احساس
ہے کتنا حسیں یادوں کی بارات کا عالم
٭٭٭

آزمودہ کو آزماتے کیا؟
موت کو ہم گلے لگاتے کیا؟
دی ہے ہم کو خدا نے عقلِ سلیم
نہ کماتے اگر تو کھاتے کیا؟
ہے یہ مخصوص جانِ جاں کے لئے
جان و دل غیر پر لُٹاتے کیا؟
دیکھ کر اس کو در پئے آزار
گر نہ روتے تو مسکراتے کیا؟
کام مجھ سے اگر نہیں ہوتا
میرے گھر یونہی آتے جاتے کیا؟
رقص کرنا جنھیں نہیں آتا
انگلیوں پر انھیں نچاتے کیا؟
ہم کو تفریح کا نہیں کیا حق؟
بارِ غم عمر بھر اٹھاتے کیا؟
ہیں جو اپنے وجود کا حصہ
ان کو ہم یونہی بھول جاتے کیا؟
ہم ہیں ان کے مزاج سے واقف
مانتے گر نہ وہ مناتے کیا؟
نعمتِ حق کا شکر ہے واجب
عاقبت اپنی ہم گنواتے کیا؟
برق برقیؔ کے آگے پیچھے تھی
خانۂ دل کو وہ سجاتے کیا؟                ٭٭٭

اُس نے کیا ہے وعدۂ فردا آنے دو اُس کو آئے تو
نام بدل دینا پھر میرا لوٹ کے واپس جائے تو
عرضِ تمنا کریں گے اُس سے اگر نہ وہ ٹھُکرائے تو
اُس سے ضرور ملیں گے جا کر پہلے ہمیں بُلائے تو
عزتِ نفس کا ہے یہ تقاضا حُسن سلوک کریں دونوں
اُس کو ہم لبیک کہیں گے رسمِ وفا نبھائے تو
صفحۂ ذہن پہ نقش ہے اُس کا میرے ابھی تک نازو نیاز
جیسے شرماتا تھا پہلے ویسے ہی شرمائے تو
روٹھنے اور منانے کے احساس میں ہے اک کیف و سرور
میں نے ہمیشہ اُسے منایا وہ بھی مجھے منائے تو
کیوں رہتا ہے مجھ سے بد ظن ہے جو مرا منظورِ نظر
کچھ نہیں آتا میری سمجھ میں کوئی مجھے سمجھائے تو
خونِ جگر سے سینچوں گا گلزارِ تمنا اُس کے لئے
باغِ حیات میں گلِ محبت آ کر مرے کھلائے تو
فصلِ خزاں میں کیا ہو گا آثار نمایاں ہیں جس کے
فصلِ بہار میں برقیؔ اپنے دل کی کلی مُرجھائے تو
٭٭٭

بعد مدت کے ہوا ہے ختم میرا انتظار
آپ کی چشمِ کرم ہو یونہی مجھ پر بار بار
دامنِ دل میں نہ اُلجھے زندگی بھر کوئی خار
آپ جیسے آج ہیں کل بھی ہوں ویسے گُلعذار
اب بتائیں آپ کیا سرزد ہوئی مُجھ سے خطا
یاد رکھوں تا کہ آئندہ نہ ہو کچھ ناگوار
آپ کا شرمندۂ تعبیر ہو ہر ایک خواب
طبعِ نازک پر نہ ہو میری وجہہ سے کوئی بار
آپ کا باغِ تمنا عمر بھر پھولے پھلے
زندگی کا ماحصل ہو آپ کی بس صرف پیار
منتشر شیرازۂ ہستی نہ ہو یہ آپ کا
ہو فضائے گردشِ دوراں ہمیشہ سازگار
آپ ہوں ہرگز نہ طوفانِ حوادث کے شکار
چہرۂ زیبا نہ ہو آلودۂ گرد و غبار
ہے دُعا احمد علی برقیؔ کی یہ صبح و مَسا
قایم و دایم رہے یہ آپ کا عز و وقار
٭٭٭

مت کرو سرکشی بس بہت ہو گئی
چھوڑ دو دشمنی بس بہت ہو گئی
جا رہے ہو کہاں مجھ سے منھ موڑ کر
کیوں ہے یہ بے رُخی بس بہت ہو گئی
آؤ بیٹھو چلے جانا پھر بعد میں
اُف یہ ناراضگی بس بہت ہو گئی
دیکھو اچھی نہیں ے تمھاری روش
اِس قدر بیحسی بس بہت ہو گئی
جوش اچھا نہیں ہوش سے کام لو
اب یہ دریا دلی بس بہت ہو گئی
اشہبِ وقت اتنا  نہ اِترا کے چل
تیری یہ خودسری بس بہت ہو گئی
وقت کے ساتھ یہ زخم بھر جائیں گے
تیری چارہ گری بس بہت ہو گئی
پَک گئے کان سُن سُن کے برقیؔ کے اب
تیری یہ راگنی بس بہت ہو گئی
٭٭٭

بہت رفتار تھی یوں تو ہوا کی
مری شمعِ وفا پھر بھی جَلا کی
ہے اُس میں جاذبیت اِس بِلا کی
’’بگڑنے پر بھی زُلف اُس کی بَنا کی
نہ دے دھمکی مجھے جورو جفا کی
بتا مجھ سے یہ میں نے کیا خطا کی
رضائے یار میں میری رضا ہے
سزا کی بات ہو یا ہو جزا کی
اسے ہے دستِ قُدرت نے سنوارا
وہ ہے تصویر اک ناز و ادا کی
مرا خونِ جگر ہے اس میں شامل
نظر آتی ہے جو سرخی حِنا کی
میں جس سے کر سکوں عرضِ تمنا
ضرورت ہے اسی درد آشنا کی
بتا دے اے ستمگر اب خدارا
کوئی حد بھی ہے اس جور و جفا کی
ہے شیوہ جس کا برقیؔ بے وفائی
توقع اس سے کیا مہر و وفا کی
٭٭٭

غم و آلام کی بارات نے سونے نہ دیا
مستقل گردشِ حالات نے سونے نہ دیا
گھرگیا موجِ حوادث میں سفینہ میرا
ناگہاں یورشِ برسات نے سونے نہ دیا
جس سے آنا تھا اُسے ہے یہ وہی راہگذر
اُس کے قدموں کے نشانات نے سونے نہ دیا
قصرِ دل نذرِ فسادات ہوا ہے جب سے
مُجھ کو گُذرے ہوئے لمحات نے سونے نہ دیا
ہیں سوالات کئی جن کا نہیں کوئی جواب
بار بار ایسے سوالات نے سونے نہ دیا
پھر مری گُمشدہ میراث ملے گی کہ نہیں
اِنھیں فرسودہ خیالات نے سونے نہ دیا
صبحِ اُمید کب آئے گی نہیں کچھ معلوم
رات بھر مجھ کو اِسی بات نے سونے نہ دیا
دل سے ہوتے ہی نہیں محویہ یادوں کے نقوش
گرمیِ شدّتِ جذبات نے سونے نہ دیا
مجھ پہ جو گزری ہے گزرے نہ کسی پر برقیؔ
خدشۂ ترکِ ملاقات نے سونے نہ دیا
٭٭٭

گُلبدن، غنچہ دہن اور گلابی چہرہ
سرسے پا تک تھا وہ گُل پوش کتابی چہرہ
غمزہ و ناز و ادا اُس کے تھے غارت گرِ ہوش
جلوہ گر بزم میں تھا نیم حجابی چہرہ
دیکھ کر اُس کو کسی گُل کی تمنا نہ رہی
آج تک دیکھا نہیں ایسا جوابی چہرہ
رونقِ گلشنِ ہستی تھا وہ روئے زیبا
پیکرِ حُسنِ گُلِ تَر تھا گلابی چہرہ
ایسا مشاطۂ فطرت نے سنوارا تھا اُسے
دُرِّ شہوار کی مانند تھا آبی چہرہ
وہ تھی تصویرِ تصور جو مرے خواب میں تھی
ہوا بیدار تو غائب تھا حبابی چہرہ
صفحۂ ذہن پہ محفوظ ہیں یادیں اُس کی
مثلِ گُل تھا تر و تازہ وہ شبابی چہرہ
دم بخود دیکھ کے برقیؔ تھا نگاہیں اُس کی
جیسے ہو میکدہ بردوش شرابی چہرہ
٭٭٭

گزرے جدھر جدھر سے وہ زلفیں سنوار کے
تھے مُشکبار جھونکے نسیمِ بہار کے
چشمِ تصورات میں بیحد حسین تھے
نقش و نگار چہرۂ زیبائے یار کے
ہوتے ہیں بحرِ عشق میں جذبات موجزن
نازو نیاز ہوتے ہیں پُر کیف پیار کے
دُنیائے رنگ و بو کا یہ کیسا نظام ہے
گل ساتھ ساتھ رہتے ہیں ہر وقت خار کے
سوزِ دروں ہے اُس کی نگاہوں سے آشکار
’’وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گذار کے‘‘
تیرِ نظر کا گہرا تھا اس درجہ اُس کے وار
اب تک ہرے ہیں زخم دلِ داغدار کے
کچھ بھی ہوا نہ جذبۂ اخلاص کا اثر
دیکھا متاعِ قلب و جگر اُس پہ وار کے
قول و قسم کا اُس کے نہیں کوئی اعتبار
اوقات تلخ ہیں یہ شبِ انتظار کے
ترکِ تعلقات کی دھمکی نہ دے مجھے
سوہانِ روح ہیں یہ ستم بار بار کے
آشوبِ روزگار سے ہے بند ناطقہ
مارے سبھی ہیں گردشِ لیل و نہار کے
ہے فیضیاب فیضؔ سے برقیؔ کا فکر و فن
ہم قدر داں ہیں نابغۂ روزگار کے    ٭٭٭

ہے جانگداز بہت مل کے یہ جُدا ہونا
’’یہ کس سے آپ نے سیکھا ہے بے وفا ہونا‘‘
بہت لطیف ہے فنکار و فن کا یہ رشتہ
مجھے عزیز ہے دونوں کا ایک سا ہونا
کیا ہے خونِ جگر اس نے دلربائی سے
نہ آیا راس مجھے اس کا دلربا ہونا
تھے دم بخود سبھی جلوہ نمائی سے اس کی
عجب تھا محفلِ یاراں میں رونما ہونا
تھا زندگی کا مری یادگار وہ لمحہ
وہ اس کو دیکھ کے اک حشر سا بپا ہونا
جسے سمجھتا تھا اپنا وہ غیر کا نکلا
ہے اک فریبِ نظر اس کا کیا سے کیا ہونا
اچانک آئینہ جھُنجھلا کے اس نے پھینک دیا
جب اُس پہ فاش ہوا اُس کا خود نما ہونا
وہ مل کے دے گیا داغِ مفارقت مجھ کو
نتیجہ آہ کا تھا میری نا رسا ہونا
تھا میری کشتیِ دل کا جو نا خدا برقیؔ
نہ آیا کام مرے اُس کا نا خُدا ہونا
٭٭٭

پردہ رخِ زیبا سے اُس کے نہ اُٹھا ہوتا
ملتا ہی نہیں یا پھر،مل کر نہ جُدا ہوتا
رکھ لیتا بھرم میرا کچھ دیر کو آ جاتا
’’یا رب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا‘‘
کیا اُس کو ملا آخراِس خونِ تمنا سے
بات اُس کی بھی بن جاتی،حق میرا ادا ہوتا
تصویرِ تصور بھی اب اُس کی نہیں باقی
یہ خانۂ دل ایسا ویراں نہ ہوا ہوتا
دل میرا نہیں ہوتا افسردہ و پژمردہ
گلزارِ محبت میں گل کوئی کھلا ہوتا
اُلجھے رہے ہم دونوں دُنیا کے جھمیلے میں
جو تَرکِ تعلق ہے ہرگز نہ ہو ا ہوتا
گھُٹ گھُٹ کے نہیں جیتے دونوں شبِ فرقت میں
اظہارِ محبت پر گر وہ نہ خفا ہوتا
برقیؔ کی جو حسرت تھی دل ہی میں رہی اُس کے
کچھ اُس نے کہا ہوتا،کچھ میں نے سنا ہوتا