Ahmad Ali Barqi Azmi: An Introduction Presented by Ahmed Ali Of Bazm e Asaar on facebook


http://lib.bazmeurdu.net/roohe-sukhan-urdu-poetry-book-barqi-aazmi/


روحِ سخن (شاعری) ۔۔۔ احمد علی برقی اعظمی



روح سخن : شعری مجموعہ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
حمد باری تعالیٰ


میں شکر ادا کیسے کروں تیرے کرم کا
’’حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا‘‘
تو اور ترے محبوب کو حاصل یہ شرف ہے
ہے ذات میں پہلو نہیں جن کی کوئی ضم کا
خم سارے جہاں کی ہے جبیں سامنے اس کے
ثانی نہیں کو نین میں کوئی بھی حرم کا
ممکن نہیں تو صیف تری جن و بشر سے
سر سامنے خم ہے ترے اعجازِ قلم کا
رسوائے زمانہ کو ہے عبرت کا یہ اک درس
جمشید کو حاصل نہ ہوا فیض ارم کا
ہے قبضۂ قدرت میں ترے عزت و ذلت
سر چشمہ ہے بس تو ہی ہر اک ناز و نعم کا
طوفانِ حوادث میں ہے برقیؔ کا سفینہ
کرسکتا ہے اب تو ہی ازالہ مرے غم کا
٭٭٭

حمد باری تعالیٰ
ہے تصور میں مرے بس تو ہی تو
عکس ہے ہر شے میں تیرا ہو بہو
تو ہے میرے فکر و فن کی آبرو
تجھ سے ہے گلزارِ ہستی مُشک بو
تجھ سے ہے آباد میرا قصرِ دل
رہتا ہوں تجھ سے ہی محوِ گفتگو
تو ہی ہے شمعِ شبستانِ وجود
تجھ سے روشن ہے جہانِ رنگ و بو
دامنِ ہستی ہے میرا تار تار
میں اسے آخر کروں کیسے رفو
جب سے دیکھا تجھ کو اپنے روبرو
توڑ ڈالے تب سے سب جام و سبو
دل کے آئینے میں برقیؔ صبح و شام
دیکھتا ہوں مصحفِ رُخ با وضو
٭٭٭

حمد باری تعالیٰ
اے خدا تو نے زندگی بخشی
کیف و سرمستی و خوشی بخشی
سبزہ زاروں کو تازگی بخشی
گُلعذاروں کو دلکشی بخشی
تیرے تابع ہے نظمِ کون و مکاں
’’چاند تاروں کو روشنی بخشی‘‘
مصلحت تیری کیا ہے تو جانے
زندگی کیوں یہ عارضی بخشی
تیرا ہر حال میں ہے وہ انعام
جو بھی تو نے بُری بھلی بخشی
تیرا فضل و کرم ہے بے پایاں
تو نے کوئی نہیں کمی بخشی
جو میسر نہیں فرشتوں کو
ہم کو وہ شکلِ آدمی بخشی
بعد اپنے بنیِ اکرمﷺ کو
تو نے ہر شے پہ برتری بخشی
اُن کی زلفوں کی کھا کے تو نے قسم
اُن کو وہ شانِ دلبری بخشی
جس میں اُن کا نہیں کوئی ثانی
اُن کو ایسی پیمبری بخشی
فخر ہے اُمتی ہیں ہم اُن کے
جن کو عالم کی سروری بخشی
دینِ اسلام سب سے ہے ممتاز
جس کو یہ صلح و آشتی بخشی
آ رہی ہے صدائے کُن فیکون
تو نے ہی صوتِ سرمدی بخشی
تیرا منت گزار ہے برقیؔ
جس کے نغموں کو نغمگی بخشی
٭٭٭

نعت رسول مقبولﷺ
’’اے خاصۂ خاصانِ رسل‘‘ شاہِ مدینہ
طوفانِ حوادث میں ہے اُمّت کا سفینہ
اِس دورِ پُر آشوب میں اب جائیں کہاں ہم
ہم بھول گئے ایسے میں جینے کا قرینہ
کچھ کہنے سے قاصر ہے زباں ذہن ہے ماؤف
اب بامِ ترقی کا بھی مسدود ہے زینہ
درکار ہمیں آپ کی ہے چشمِ عنایت
آنکھوں میں نمی اور ہے چہرے پہ پسینہ
وہ آپ ہیں جس سے ملا قرآن کا تحفہ
جو نوعِ بشر کی ہے ہدایت کا خزینہ
واللیل اذا یغشٰی کی خوشبو سے معطّر
ہے آپ کی پیشانیِ اقدس کا پسینہ
بیشک ہے دو عالم کے لئے مطلعِ انوار
یہ آپ کی انگُشتِ شہادت کا نگینہ
احمد علی برقیؔ کی ہے یہ شامتِ اعمال
ہے فضل خدا آپ کی بعثت کا مہینہ
٭٭٭

نعت شریف
تمنا ہے دیکھوں بہارِ مدینہ
ہے صبر آزما انتظارِ مدینہ
مدینہ میں جاؤں تو واپس نہ آؤں
مرے جان و دل ہیں نثارِ مدینہ
وہی جانتے ہیں جو ہیں اہل ایماں
ہے کس درجہ عزّ و وقارِ مدینہ
قسم جس کی زلفوں کی کھائی ہے حق نے
مکیں ہے یہیں وہ نگارِ مدینہ
جو اہلِ بصیرت ہیں اُن کی نظر میں
گُلوں سے بھی بڑھ کر ہے خارِ مدینہ
یہ ہے مسکنِ شافعِ روزِ محشر
’’زہے رحمتِ بیشمارِ مدینہ‘‘
مجھے سیم و زر کی ضرورت نہیں ہے
ہے اکسیر برقیؔ غبارِ مدینہ
٭٭٭

نعت شریف
کیا کوئی کرے شمعِ رسالت کا احاطہ
ممکن نہیں اس نور کی عظمت کا احاطہ
قاصر ہوں رقم کرنے سے میں اُن کے محاسن
میں کیسے کروں ان کی فضیلت کا احاطہ
ہے گُنگ زباں اور قلم میرا ہے ساکت
یہ کیسے کرے عرضِ ارادت کا احاطہ
حد اُن کے فضائل کی نہیں کوئی مقرر
محدود ہے اظہارِ عقیدت کا احاطہ
کونین میں ہیں صرف وہی رحمتِ عالم
رحمٰن ہی کر سکتا ہے رحمت کا احاطہ
جبریل امیں کے پرِ پرواز سے پوچھیں
ان کی شبِ معراج میں رفعت کا احاطہ
ہیں شافعِ محشر وہ جسے چاہیں نوازیں
محدود نہیں اُن کی شفاعت کا احاطہ
ہے شان میں ورفعنا لک ذکرک انہیں کی
ممکن ہی نہیں اُن کی فضیلت کا احاطہ
واللیل اذا یغشی ہی کر سکتی ہے برقیؔ
محبوب و مُحب اور محبت کا احاطہ
٭٭٭

نعت شریف
ہے یہ فیضانِ محمد مصطفی ٰﷺ
روح پرور ہے مدینے کی فضا
ہے جہاں میں کس کا ایسا مرتبہ
جس کی عظمت کا ثنا خواں ہے خدا
جس کی عملی زندگی ہے اک مثال
جس کا ہے قرآنِ ناطق معجزا
رحمت اللعٰلمیں کے فیض سے
ہو رہے ہیں بہرہ ور شاہ و گدا
کوئی بتلائے یہ مجھ سے کون ہے
شافعِ روزِ جزا اس کے سوا
بج رہا ہے جس کا ڈنکا چارسو
چل رہا ہے جس کا سکہ جا بجا
ہے کوئی کون و مکاں میں آج تک
ہے جو سب سے محترم بعد از خدا
مشعلِ رُشد و ہدیٰ ہے جس کی ذات
زندۂ جاوید ہے وہ رہنما
ہے وہی وجۂ وجودِ کائنات
جس کا صدقہ ہیں سبھی ارض و سما
گنبدِ خضرا میں فرشِ خاک پر
جلوہ فرما ہے حبیبِ کبریا
ضو فگن ہے مسجدِ نبوی یہاں
عظمتِ اسلام ہے  جلوہ نما
مطلعِ انوار ہے یہ سرزمیں
جو ہے برقی مرکزِ رشد و ھُدیٰ
٭٭٭

نعتِ رسول مقبولﷺ
مدینے جا رہا ہوں ہیں قدم لغزیدہ لغزیدہ
ابھی سے ہے نگاہِ شوق یہ نمدیدہ نمدیدہ
خدا کا شکر ہے دیکھوں گا اُس کو چشمِ ظاہر سے
ابھی تک دیکھتا تھا میں جسے خوابیدہ خوابیدہ
تھی تصویرِ تصور گُنبدِ خضریٰ کی آنکھوں میں
ہجومِ حسرت و اُمید میں نادیدہ نادیدہ
جہاں پر رحمت اللّعٰلمیںﷺ آرام فرما ہیں
قدم بڑھتے ہیں اُس جانب مرے لرزیدہ لرزیدہ
شفیع المُذنبیںﷺ کے روضۂ اقدس کی جالی کو
نگاہِ شوق سے دیکھوں گا میں دُزدیدہ دُزدیدہ
بفیضِ احمدِ مُرسلﷺ ہیں آساں وہ گزرگاہیں
نظر آتی تھیں جو پہلے مجھے پیچیدہ پیچیدہ
یہاں رہتا تھا میں آزردہ خاطر رات دن اکثر
مرا قلبِ حزیں ہے اب وہاں سنجیدہ سنجیدہ
مئے عشقِ نبیﷺ سے آج ہے سرشار اے برقیؔ
دلِ مُضطر رہا کرتا تھا جو رنجیدہ رنجیدہ
٭٭٭

نعت فارسی
وجہِ وجودِ کون و مکاں سید البشرﷺ
رطب اللسان بہ وصفِ تو ھستند بحر و بر
بادِ صبا کُنی بہ مدینہ اگر سفر
ھمراہِ خود سلامِ مرا ھم بہ او ببر
ھستم دُچارِ گردشِ آشوبِ روزگار
مُشتاقِ دیدِ گنبدِ خضریٰ است چشمِ تر
ای آنکہ قول و فعلِ تو قُرآنِ ناطق است
شق شد بیک اشارۂ انگشت تان قمر
اشکی کہ می چکد بہ فراقت زِ چشمِ من
از شور و شوق و حالِ زبون می دھد خبر
پژمُردہ شد زِ فصلِ خزان گلشنِ حیات
لطفا بدہ زِ نخلِ سعادت بمن ثمر
مثلِ تو نیست دیگری در جملہ کائنات
’’بعد از خُدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘
این ھم رود بسوی مدینہ زِ فضلِ رب
برقیؔ شود زِ فُرصتِ دیدار بھرہ ور
٭٭٭

نعت رسولِ مقبولﷺ
عظیم المرتبت بعد از خدا ہے ذاتِ پیغمبر
خدائے دوجہاں خود پڑھ رہا ہے نعتِ پیغمبر
مِلا ہے جن کو اِذنِ باریابی اُن کے روضے پر
میسر کیوں نہ ہوں اُن کو سبھی برکاتِ پیغمبر
تمام اہلِ جہاں کی ہیں ہدایت کا وہ سرچشمہ
حدیثوں میں ہیں جو محفوظ، وہ رشحات پیغمبر
ہے حسنِ خلق اُن کا تاق  زیامت اسوۂ حسنہ
ہیں مرغوبِ خدائے دوجہاں عاداتِ پیغمبر
انہیں کی ذاتِ اقدس وجۂ تخلیقِ دو عالم ہے
جو کھاتے پیتے ہیں ہم سب وہ ہیں صدقاتِ پیغمبر
کریں اظہارِ عشق اپنا فقط اک روز کیوں اُن سے
رہے وِردِ زباں ہر سانس میں صلواتِ پیغمبر
وہ ہیں خیرالبشر اور  رحمت الللعٰلمیں برقیؔ
بقائے دیں کے تھے ضامن سبھی غزواتِ پیغمبر
٭٭٭

نعت شریف
’’نبیﷺ کی ذات زینت بن گئی ہے میرے دیواں کی‘‘
اُنہیں کا نور ہے جو روشنی ہے بزمِ امکاں کی
وہی ہیں شان میں جن کی ہے ورَفَعنا لک ذکرک
ثنا خواں اُن کی عظمت کی ہر اک آیت ہے قرآں کی
خدا کے بعد ہے سب سے بڑا درجہ محمدﷺ کا
اُنھیں کی ذات ہے معراجِ اکبر نوعِ انساں کی
نہیں ہے اُن کا ثانی اور نہ ہو گا حشر تک کوئی
ہے اُن کی ذات مظہر سر بسر انوارِ یزداں کی
مسلماں ہو کہ ہندو ہو یہودی ہو کہ عیسائی
سبھی پر جاری وساری ہے شفقت ان کے فیضاں کی
اُنھیں کی ذاتِ اقدس منبعِ رُشد و ہدایت ہے
وہی ہیں روشنی کون و مکاں میں شمعِ عرفاں کی
ہے عملی زندگی قرآنِ ناطق اُن کی دُنیا میں
وہی ہیں درحقیقت روح برقیؔ دین و ایماں کی
٭٭٭

غزلیں

احساس کا وسیلۂ اظہار ہے غزل
آئینہ دارِ نُدرتِ افکار ہے غزل
اُردو ادب کو جس پہ ہمیشہ رہے گا ناز
اظہارِ فکر و فن کا وہ معیار ہے غزل
گلدستۂ ادب کا گُلِ سرسبد ہے یہ
ہیں جس میں گُلعذار وہ گلزار ہے غزل
آتی ہے جس وسیلے سے دل سے زبان پر
خوابیدہ حسرتوں کا وہ اظہار ہے غزل
اُردو زبانِ دل ہے غزل اُس کی جان ہے
نوعِ بشر کی مونس و غمخوار ہے غزل
پہلے ’’حدیثِ دلبری ‘‘کہتے تھے اس کو لوگ
اب ترجمانِ کوچہ و بازار ہے غزل
پیشِ نظر اگر ہو ولیؔ دکنی کا طرز
مشاطۂ عروسِ طرحدار ہے غزل
ہے میرؔ و ذوقؔ و غالبؔ و مومنؔ کو جو عزیز
وہ دلنواز جلوہ گہہِ یار ہے غزل
برقیؔ کے فکر و فن کا مرقع اسی میں ہے
برقؔ اعظمی سے مطلعِ انوار ہے غزل
٭٭٭

یادوں کی بازگشت مجھے کر رہی ہے مست
سرمایۂ حیات ہے یہ میرا بود و ہست
آلامِ روزگار سے ہے میرا حال پَست
غالب ہے آج مجھ پہ جو تھا پہلے زیردست
ایسا نہ تھا کبھی مرے خواب و خیال میں
یہ کون کر رہا ہے مرے گِرد و پیش گشت
میری نگاہِ شوق ہے کیوں فرشِ راہ آج
کرتا ہے آج کیوں مرا مُرغِ خیال جَست
یہ جانتے ہوئے کہ نہ آئے گا وہ کبھی
میں کر رہا ہوں اُس کی ضیافت کا بندوبَست
ہے اُس کو میری فکر جو ہے میرا کارساز
مُجھ کو بُتوں سے ڈر نہیں میں ہوں خُدا پرست
مانے نہ مانے کوئی مرا ہے یہ اعتقاد
’’دشمن اگر قوی است نگہباں قوی تر است‘‘
نعمت خُدا کی ہے جوہو ذہنی سکوں نصیب
ہیں ہیچ میرے سامنے برقیؔ یہ تاج و تخت
٭٭٭

ہمیں جو کہنا ہے کہتے رہیں گے وہ بیباک
نہ کر سکے گی ہمیں زیر گردشِ افلاک
بہت سے ہم نے نشیب و فراز دیکھے ہیں
کریں گے خاک سب اس کے عزائمِ ناپاک
بھروسہ قوتِ بازو پہ اپنی ہے جن کو
ہے اُن کے سامنے کوہِ گراں خس و خاشاک
شعار اپنا رہا ہے ہمیشہ حق گوئی
کیا ہے سینۂ باطل کو تیغِ حق نے چاک
تھی اپنے ہاتھ میں مہمیزِ  ا شہبِ دوراں
بنا رہا ہے ہمیں آج یہ جہاں فتراک
عرب ہو یا ہو عجم سب ہیں مُہرۂ شطرنج
بساطِ دہر پہ حاوی ہیں وہ جو ہیں چالاک
نہ جل سکیں گے کبھی ہم اُس آگ میں ہرگز
’’ کہ جس کا شعلہ نہ ہو تُند و سرکش و بیباک‘‘
نہ دیتے گر ہمیں اقبالؔ درسِ فکر و عمل
تو ہوتا حالِ زبوں اپنا اور عبرتناک
کریں گے معرکۂ خیر و شر کو سر برقیؔ
ہماری تاب و تواں کیا ہے ہم کو ہے اِدراک
٭٭٭

کتنا عجب ہے جوشِ جنوں کا میرے یہ افسانہ بھی
میرا یہ کاشانۂ دل آباد بھی ہے ویرانہ بھی
اُس کی نگاہِ ناز کی مستی ایسی اثر انداز ہوئی
’’ہاتھ سے مُنھ تک آتے آتے چھوٹ پڑا پیمانہ بھی‘‘
حِفظِ مراتب کا ہوں قائل سب سے ہے میری راہ و رسم
دیوانوں میں دیوانہ فرزانوں میں فرزانہ بھی
کوئی نہیں ہے آگے پیچھے جس سے کہوں میں حالِ زبوں
تھا جو سکونِ قلب کا باعث نہیں رہا وہ شانہ بھی
بند کیا تھا مرا ناطقہ پیرِ فلک نے پہلے ہی
دشمنِ جاں ہیں عہدِ رواں میں میرے اہل زمانہ بھی
کوئی غمِ دوراں سے ہے نالاں تنگ غمِ جاناں سے کوئی
سوزِ دروں سے اب ہے پریشاں میرا دلِ دیوانہ بھی
ہوتا ہے مجروح تقدس آج عبادت گاہوں کا
زد میں ہے اہلِ سیاست کی اب مسجد بھی بُتخانہ بھی
اپنوں کا تھا جیسا رویہ وقتِ ضرورت میرے لئے
پیش نہ آیا ایسے برقیؔ مُجھ سے کوئی بیگانہ بھی
٭٭٭

وہ ایک جھلک دکھلا بھی گئے، وعدوں سے ہمیں بہلا بھی گئے
اک لمحہ خوشی دے کر ہم کو، برسوں کے لئے تڑپا بھی گئے
دیدار کی پیاسی تھیں آنکھیں، کچھ دیر اگر وہ ٹھہر جاتے
اک چشمِ زدن میں ایسے گئے، ہم کھو بھی گئے اور پا بھی گئے
آنکھوں میں شرابِ شوق لئے، دروازۂ دل سے یوں گزرے
میخانۂ ہستی میں آ کر، وہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
تھا ایسا نگاہوں میں جادو، ہم بھول گئے سب جام و سبو
جیسے ہی نگاہیں ان سے ملیں، ملتے ہی نظر شرما بھی گئے
ہیں غمزہ و ناز و ادا اُن کے، توصیف سے اپنی بالا تر
تھی چال میں ایسی سَبُک روی، ناگن کی طرح بل کھا بھی گئے
ہے رنگِ مجازؔ بہت دلکش، جو شعرو سخن میں تھے یکتا
اپنے اشعار سے جو سب کو، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے
نظمیں ہوں اُن کی یا غزلیں، دیتی ہیں دعوتِ فکر و عمل
وہ زلفِ عروسِ سخن آ کر جو اُلجھی تھی سلجھا بھی گئے
کچھ دیر انھیں نہ لگی برقیؔ، آئے بھی اور گزر بھی گئے
وہ غنچۂ دل کو کھِلا بھی گئے، جو کھِلتے ہی مُرجھا بھی گئے
٭٭٭

امن و صُلح و آشتی ہو جیسے بیماری کا نام
ہے سیاست عہدِ نو میں ایک عیاری کا نام
اُن کا ظاہر اور باطن دیکھ کر ایسا لگا
پارسائی جیسے ہو شاید ریاکاری کا نام
جو زمانہ ساز ہیں،ہیں سب کے منظورِ نظر
ہے تغزل میں ترنم آج فنکاری کا نام
گردشِ حالات سے ہے بند جن کا ناطقہ
وہ زبانِ حال سے لیتے ہیں بیکاری کا نام
ہے گرانی کا وہ عالم الامان و الحفیظ
ڈرتے ہیں لیتے ہوئے اب سب خریداری کا نام
شوخیِ گفتار میں کہہ جاتے ہیں وہ کچھ سے کچھ
دوستی ان کی نظر میں ہے دل آزاری کا نام
پُرمسرت زندگی ہے آج کل خواب و خیال
ہے زباں پر اِن دنوں سب کی عزاداری کا نام
کر رہا ہوں یہ غزل نذرِ ضمیرِؔ جعفری
ہے درخشاں فکر و فن سے جن کے فنکاری کا نام
کیا کشودِ کار کی برقیؔ کوئی صورت نہیں
سب کے ہے وِردِ زباں اب صرف دشواری کا نام
٭٭٭

میں رودادِ دلِ مضطر سنا دوں پھر چلے جانا
تمھیں زخمِ جگر اپنا دکھا دوں پھر چلے جانا
ذرا سی ٹھیس سے یہ شیشۂ دل ٹوٹ جائے گا
تمھیں اِس خوابِ غفلت سے جگا دوں پھر چلے جانا
سمجھتے ہو اسے بازیچۂ اطفال تم شاید
تمھیں آدابِ اُلفت میں سکھا دوں پھر چلے جانا
نہیں روکوں گا جانے سے تمھیں لیکن ذرا ٹھہرو
میں تم کو آج آئینہ دکھا دوں پھر چلے جانا
اگرچہ مُنتشر ہے میرا یہ شیرازۂ ہستی
تمھارے خانۂ دل کو سجا دوں پھر چلے جانا
نشاط و کیف و سرمستی کا ساماں تھے تمھیں میرے
متاعِ جان و دل تم پر لٹا دوں پھر چلے جانا
بنایا رفتہ رفتہ مجھ کو شیدائی سے سودائی
تمھیں بھی اپنا دیوانہ بنا دوں پھر چلے جانا
وہ ہے درپردہ دشمن جو بظاہر دوست ہے برقیؔ
حقیقت کیا ہے یہ تم کو بتا دوں پھر چلے جانا
٭٭٭

رہِ زندگانی میں چلنا سنبھل کے
ملا یہ سبق موجِ طوفاں میں پَل کے
یہ ہیں رہنما دیکھئے آج کل کے
جو ہر روز آتے ہیں چہرے بدل کے
گلوں کی تمنا ہمیں بھی تھی لیکن
شب و روز گذرے ہیں کانٹوں پہ چل کے
غمِ زندگی آج حاوی ہے اس پر
نہیں رہ گئے اب وہ عنواں غزل کے
کہاں سے اُنہیں لا کے دوں چاند تارے
کہا میرے بچوں نے مجھ سے مچل کے
میسر نہیں اُن کو دو گز زمیں بھی
مگر خواب وہ دیکھتے ہیں محل کے
اُنہیں آرہے ہیں نظر دن میں تارے
حساب اُن کو دینے ہیں ایک ایک پَل کے
دکھایا جو آئینہ برقیؔ نے ان کو
تمھیں دیکھ لیں گے وہ کہتے ہیں جَل کے
٭٭٭

خانۂ دل کا باب ہیں آنکھیں
روحِ حسن و شباب ہیں آنکھیں
ہیں یہ مشاطۂ عروسِ حیات
حُسن کی آب و تاب ہیں آنکھیں
جسم میں ہیں یہ مطلعِ انوار
صورتِ ماہتاب ہیں آنکھیں
دستِ قدرت کا شاہکار ہیں یہ
تحفۂ لاجواب ہیں آنکھیں
ہیں یہ شمعِ حیات کی تنویر
ضو فشاں آفتاب ہیں آنکھیں
ایک مدت سے ہے جو لاینحل
وہ سوال و جواب ہیں آنکھیں
ہیں یہ سوزِ دروں کا آئینہ
مظہرِ اضطراب ہیں آنکھیں
جستجو میں کسی کی سرگرداں
دشتِ دل میں سراب ہیں آنکھیں
زندگی میں نہیں ہے کوئی رمق
جب سے زیرِ عتاب ہیں آنکھیں
حسرتِ دید ہے ابھی باقی
اِس لئے نیم خواب ہیں آنکھیں
عالمِ رنگ و بو میں اے برقیؔ
اک حسیں انتخاب ہیں آنکھیں        ٭٭٭

دلکش و دلفگار ہے دُنیا
مظہرِ نور و نار ہے دُنیا
کچھ گُلِ سَرسبَد سمجھتے ہیں
کچھ کی نظروں میں خار ہے دُنیا
ہے فلسطین اِس کی ایک مثال
جیسے اک کارزار ہے دُنیا
دیکھتا ہی نہیں اِدھر کوئی
کتنی غفلت شعار ہے دُنیا
اہلِ غزہ سے پوچھئے جا کر
دامنِ داغدار ہے دُنیا
خونِ انساں یہاں پہ ارزاں ہے
جس کا اک کاروبار ہے دُنیا
وہ ’’فلوٹیلا‘‘ کاروانِ رفاہ
جس کی مِنت گذار ہے دُنیا
اس پہ صیہونیت کی یہ یلغار
دیکھ کر شرمسار ہے دُنیا
ہو اگر امن و صلح کا ماحول
ایسے میں سازگار ہے دُنیا
تنگ ہو عرصۂ حیات اگر
حسرتوں کا مزار ہے دُنیا
کرو عقبیٰ کی فکر اے برقیؔ
’’چار دن کی بہار ہے دُنیا‘‘              ٭٭٭

منظرِ صبح و شام ایک طرف
حُسنِ ماہِ تمام ایک طرف
جامِ مے میں کہاں وہ کیف و سرور
اس کی آنکھوں کا جام ایک طرف
چشمِ میگوں چھلک رہی ہے ادھر
عاشقِ تشنہ کام ایک طرف
ہے یہ جوشِ جنوں کا اک فیضان
میرا اور اُس کا نام ایک طرف
دشمنِ جاں ہے گردشِ دوراں
اشہبِ بے لگام ایک طرف
ہے وہ مشاطۂ عروسِ سخن
میرا حُسنِ کلام ایک طرف
یہ مرے فکر و فن کا سرمایہ
جو ہے نقشِ دوام ایک طرف
آج اپنے وطن میں ہوں گُمنام
ہو گا کل میرا نام ایک طرف
میں ہوں برقؔ اعظمی کے فن کا غلام
جن کا ہے فیضِ عام ایک طرف
ہے مرے لب پہ کلمۂ توحید
ذکرِ خیرالانامﷺ ایک طرف
ہیچ برقیؔ ہیں سب یہ جاہ و حشم
خُسروِ نیک نام ایک طرف  ٭٭٭

میرا جوشِ جنوں والہانہ ہوا، تلخ پھر زندگی کا فسانہ ہوا
اُس سے بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا،جس کے تیرِ نظر کا نشانہ ہوا
اپنی فطرت سے مجبور ہوں اس لئے،سرکشی سے ہمیشہ گریزاں رہا
کرسکا میں تجاوز نہ حد سے کبھی،اس کا جو وار تھا جارحانہ ہوا
کام آیا نہ کچھ میرا سوزِ دروں،وہ بڑھاتا رہا میرا جوشِ جنوں
مرغِ بسمل کی صورت مرا حال تھا، جذبۂ عاشقی قاتلانہ ہوا
تھا وہ صیاد ہر دم مری گھات میں، کر رہا تھا تعاقب جو برسات میں
دامِ تزویر میں اُس کے میں آ گیا، دشمنِ جاں مرا آب و دانہ ہوا
تھی سکونت نہ اُس کی کبھی دیرپا،آمد و رفت کا وقت کوئی نہ تھا
کوئی رہتا نہیں ہے جہاں مستقل،دل مرا ُس کا مہمان خانہ ہوا
خواب میں میرے اکثر وہ آتا رہا،ویسے مجھ سے وہ نظریں چراتا رہا
اُس کے ناز و ادا تھے حیات آفریں،جو بھی سرزد ہوا غائبانہ ہوا
امجد اسلام امجدؔ کا رنگِ سخن، عہدِ حاضر میں ہے مرجعِ اہلِ فن
دلنشیں اُن کا اسلوب اس بحر میں، اِس غزل کا میری شاخسانہ ہوا
کھا رہا تھا میں اُس کا فریبِ نظر، خانۂ دل کے تھے منتظر بام و در
کام آئی نہ کچھ سادہ لوحی مری،کارگر اُس کا برقیؔ بہانہ ہوا
٭٭٭

میں ظلم و جور کا کس طرح سدِ باب کروں
جواب دے کے اسے کیسے لاجواب کروں
جو کر رہا ہے پسِ پردہ میری بیخ کنی
میں کیسے اُس کے عزائم کو بے نقاب کروں
حساب اُس سے کروں گا جگا کے میں اپنا
مرا شعار نہیں اُس کو محوِ خواب کروں
جو ہونا ہو گا وہ ہو جائے گا بفضلِ خدا
میں اپنی نیند بلا وجہہ کیوں خراب کروں
جہاں جمود و تعطل کا ہو نہ کوئی شکار
میں چاہتا ہوں بپا ایسا انقلاب کروں
نہ جانے زندگی کب ساتھ چھوڑ دے میرا
مجھے جو کرنا ہے کیوں کر نہ وہ شتاب کروں
جسے سمجھتا تھا میں رہنما وہ تھا رہزن
میں کیسے اپنے عزائم کو کامیاب کروں
نہیں ہے تیرگی مجھ کو پسند اے برقیؔ
’’میں چاہتا تھا چراغوں کو آفتاب کروں ‘‘
٭٭٭

بات جو اُن کے حُسن کی بزمِ سُخن میں چل گئی
میری جو کیفیت تھی وہ میری غزل میں ڈھل گئی
کہہ کے گئے تھے آئیں گے وہ شبِ وعدہ کل گئی
آج بھی منتظر ہوں میں آئے نہ شام ڈھل گئی
لیتے ہیں بار بار کیوں صبر کا میرے امتحاں
روٹھے ہیں مُجھ سے کس لئے کل کی وہ بات کَل گئی
کرتے ہیں دل لگی یہ کیوں اِس سے ملے گا اُن کو کیا
صُبح سے شام ہو گئی رات بھی آ کے ٹل گئی
موجِ نشاط و سرخوشی ثابت ہوئی نہ دیرپا
نخلِ مُراد کی مرے شاخِ اُمید جل گئی
مُجھ کو دکھا رہے تھے جو وہ تو تھا اُن کا سبز باغ
وعدۂ پُرفریب سے طبعِ حزیں بہل گئی
خانۂ دل میں آ کے وہ بولے ذرا ابھی ٹھہر
اِتنا اُتاولا ہے کیوں کیا تری عقل چَل گئی
برقیؔ متاعِ شوق ہے کیفیتِ اُمید و بیم
تجھ کو ملے گا کیا اگر حسرتِ دل نکل گئی
٭٭٭

وہ کہاں ہیں ہمیں بتاتے تو
ہم چلے آتے وہ بلاتے تو
جان و دل ہم نثار کر دیتے
کاش وہ ہم کو آزماتے تو
خانۂ دل نہ ہوتا خاکستر
ہنس کے بجلی نہ وہ گراتے تو
ہم سے اچھا کوئی نہیں ہوتا
ناز اُن کے جو ہم اُٹھاتے تو
بال کی وہ نکالتے ہیں کھال
عیب اُن کے جو ہم گِناتے تو
وہ دکھاتے ہیں آئینہ ہم کو
آئینہ اُن کو ہم دکھاتے تو
سر پہ وہ آسماں اُٹھا لیتے
ہم اگر اُن کو بھول جاتے تو
آئے تھے تو ذرا ٹھہر جاتے
کاش کچھ دیر وہ نہ جاتے تو
آب بیتی ہماری سنتے وہ
اُن کی ہم سُنتے جو سُناتے تو
ہوتے برقیؔ وہ سب کے نورِ نظر
رسمِ اُلفت اگر نِبھاتے تو
٭٭٭

دیکھا جو اُس کو تیرِ نظر اُس کا چل گیا
لیکن میں اُس کے وار سے بچ کر نکل گیا
اُس کی کُلاہ کج ہے اُسی بانکپن کے ساتھ
رسّی تو جل چکی ہے ابھی تک نہ بل گیا
میں آشنا ہوں اُس کے ہر اک قول و فعل سے
اُس نے کیا تھا وعدۂ فردا جو ٹل گیا
عادی ہوں زندگی کے نشیب و فراز کا
تعمیر کر رہا ہوں وہی گھر جو جل گیا
حالات سے ہمیشہ نبرد آزما ہوں میں
ہر ہر قدم پہ ٹھوکریں کھا کر سنبھل گیا
ناز و نعم میں جس کے گذرتے تھے روز و شب
سر سے ابھی نہ اُس کے خیالِ محل گیا
تھا عرصۂ حیات مرا تنگ اس لئے
آشوبِ روزگارمیں بھی رہ کے پَل گیا
تنکے کا ڈوبتے کو سہارا ہو جس طرح
دلجوئی کی کسی نے تو برقیؔ بَہل گیا
٭٭٭

کرشمے غمزہ و ناز و نظر کے دیکھتے ہیں
دیارِ شوق سے ہم بھی گزر کے دیکھتے ہیں
سُنا ہے خوشنما منظر ہے گُلعذاروں سے
اگر یہ سچ ہے تو ہم بھی ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ہے اُس کی چشمِ فسوں ساز جیسے گہری جھیل
شناوری کے لئے ہم اُتر کے دیکھتے ہیں
خرامِ ناز میں سرگرم ہے وہ رشکِ گُل
چمن میں غنچہ و گُل بھی سنور کے دیکھتے ہیں
جدھر جدھر سے گُذرتا ہے وہ حیات افروز
نظارے ہم وہاں شمس و قمر کے دیکھتے ہیں
حریمِ ناز معطّر ہے اُس کی آمد سے
مزاج بدلے نسیمِ سحر کے دیکھتے ہیں
کبھی ہے خُشک کبھی نَم ہے چشمِ ماہ وشاں
نظارے چل کے وہاں بحر و بَر کے دیکھتے ہیں
جو خواب دیکھا تھا احمد فراز نے برقیؔ
ہم اُس کو زندۂ جاوید کر کے دیکھتے ہیں
٭٭٭

کسی کی یہ تن آسانی کے دن ہیں
’’ہماری تنگ دامانی کے دن ہیں ‘‘
تلاطم خیز موجوں میں گھرے ہیں
نہ تھا معلوم طُغیانی کے دن ہیں
یہ کیسا انقلاب آیا جہاں میں
بہرسو فتنہ سامانی کے دن ہیں
گراں ہر چیز ہے عہدِ رواں میں
ہمارے خوں کی ارزانی کے دن ہیں
ہوا کرتے تھے جو دربان اپنے
اب اُن کی آج سُلطانی کے دن ہیں
نہ جانے کیوں ہے دامنگیر وحشت
جنوں میں چاک دامانی کے دن ہیں
نہیں آیا غزل گوئی کا موسم
ابھی تو مرثیہ خوانی کے دن ہیں
گزر جائیں گے یہ بھی رفتہ رفتہ
ابھی برقیؔ پریشانی کے دن ہیں
٭٭٭

دیارِ شوق میں جس کو بھی ہمسفر جانا
وہ راہ زن تھا اُسے میں نے راہبر جانا
جو اہل فضل و ہُنر تھے وہ تھے پسِ پردہ
زمانہ ساز تھا جس کو بھی دیدہ ور جانا
شعور و فکر نے میرے دیا نہ ساتھ مرا
جو باخبر تھے اُنہیں میں نے بے خبر جانا
بھُگت رہا ہوں سزا اپنی بد گُمانی کی
جو صُلح جو تھا اُسے میں نے فتنہ گر جانا
قصور میرا تھا ملتا ہوں اب کفِ افسوس
جو بارور تھے اُنھیں نخلِ بے ثمر جانا
نہیں ہے  اِس سے بڑی اور کوئی حق تلفی
جو مثلِ لعل و گُہر تھے اُنھیں صِفَر جانا
وفا کا نام جفا رکھ دیا جفا کا وفا
امیرِ شہر نے ظالم کو معتبر جانا
سمجھ میں آئی ہے جب سے مرے حقیقتِ حال
نہیں پسند مجھے اب اِدھر اُدھر جانا
وہ خود فریبی تھی برقیؔ کی یا کہ خوش فہمی
جو اہل ظرف تھے اُن کو ہی کم نظر جانا
٭٭٭

دل میں ہے دلنواز غزل کہہ رہا ہوں میں
تارِ نفس ہے ساز غزل کہہ رہا ہوں میں
مشاطۂ عروسِ غزل ہے مری رفیق
ہر غم سے بے نیاز غزل کہہ رہا ہوں میں
آرائشِ خیال کی ہے جلوہ گاہ ذہن
قسمت ہے کار ساز غزل کہہ رہا ہوں میں
وہ پوچھتے ہیں مجھ سے مرا ماجرائے شوق
ہے اس کا کیا جواز غزل کہہ رہا ہوں میں
یہ نے کا اور نوا کا بھی رشتہ عجیب ہے
ہے کوئی نے نواز غزل کہہ رہا ہوں میں
جب سے ہے کوئی دل کے دریچے میں جلوہ گر
ہے ذہن میرا باز غزل کہہ رہا ہوں میں
یادوں کا اک ہجوم ہے کیوں دل کے آس پاس
سینے میں ہے گداز غزل کہہ رہا ہوں میں
میرا رقیب در پئے آزار ہے مرے
کرتا ہے ساز باز غزل کہہ رہا ہوں میں
برقیؔ نہیں ہے کوئی غرض اس سے مجھ کو آج
کیا ہے نیاز و ناز غزل کہہ رہا ہوں میں
٭٭٭

آ جا تجھ کو خانۂ دل میں اپنا بناؤں گا مہمان
حسرتِ دید کی تیری پیاسی یہ آنکھیں ہیں میری جان
چاروں طرف ہے اک سناٹا کوچۂ جاناں بھی سُنسان
جب سے گیا ہے چھوڑ کے اس کو خانۂ دل ہے یہ ویران
میں نے کہا ہے جو کچھ تجھ سے ہے وہ مرے دل کی آواز
تجھ پہ تصدق ہے یہ متاعِ شوق مری تو مان نہ مان
وعدۂ فردا کر کے نہ آیا فرشِ راہ تھے دیدہ و دل
میں یہ سمجھنے سے ہوں قاصر جان کے بھی کیوں ہے انجان
صفحۂ دل پر اب بھی ہیں محفوظ تری یادوں کے نقوش
دیکھ کے تیرا روئے زیبا آ جاتی تھی جان میں جان
جوشِ جنوں میں اب بھی ہے مجھ کو حدِ ادب کا پاس و لحاظ
تیرا خیالِ خام ہے یہ جو مجھ کو سمجھتا ہے نادان
اُن کے سبھی کرداروں میں شامل تھا اُن کا خونِ جگر
ابنِ صفی کا پیشِ نظر ہے میرے یہ آدرش مہان
وجہِ سعادت میرے لئے ہے اُن کی زمیں میں فکرِ سخن
ابنِ صفی کے طرزِ بیاں پر رنگِ سخن میرا قربان
جاسوسی ناول ہوں برقیؔ یا اُن کے گلہائے سُخن
نظم و نثر میں ابنِ صفی کی الگ ہے اک پہچان
٭٭٭

کیف و سرورِ عشق میں بل کھا کے پی گیا
اُس کی نگاہِ مست سے للچا کے پی گیا
ساقی کے دستِ ناز میں دیکھا جو جامِ مے
قابو رہا نہ دل پہ وہاں جا کے پی گیا
تارِ وجود ہونے لگا مُرتَعِش مرا
اُٹّھی اک ایسی لہر کہ لہرا کے پی گیا
کچھ دیر انتظار کرو آ رہا ہوں میں
وہ مانتا نہیں تھا میں منوا کے پی گیا
اُس نے کہا کہ دُزدِ تہہِ جام ہے بچی
میں کہا کہ دے وہی اور لا کے پی گیا
مُجھ کو جنونِ شوق میں آیا نہ کچھ نظر
جو کچھ بھی آیا سامنے جھنجھلا کے پی گیا
مُجھ کو ازل سے بادۂ عرفاں عزیز تھی
دیوانہ وار اِس لئے میں جا کے پی گیا
ٹوٹے کہیں نہ رندِ بلا نوش کا بھرم
برقیؔ وفورِ شوق میں شرما کے پی گیا
٭٭٭

ہیں اُس کے دستِ ناز میں دلکش حنا کے پھول
اظہارِ عشق اُس نے کیا ہے دکھا کے پھول
بھیجے ہیں خط میں اُس نے جو مُجھ کو چھُپا کے پھول
وجہہِ نشاطِ روح ہیں یہ مدعا کے پھول
ہے مظہرِ خلوص یہ گلدستۂ حسیں
سرمایۂ حیات ہیں درد آشنا کے پھول
اُس کے خرامِ ناز کا عالم نہ پوچھئے
ہیں دلفریب غمزہ و ناز و ادا کے پھول
پاکیزگیِ نفس ہے آرائشِ خیال
ہیں آبروئے حُسن یہ شرم و حیا کے پھول
پھولے پھلے ہمیشہ ترا گلشنِ حیات
میں پیش کر رہا ہوں تجھے یہ دعا کے پھول
ریشہ دوانیوں میں وہ مصروف ہیں مگر
گلشن میں ہم کھلاتے ہیں مہر و وفا کے پھول
برقیؔ ہے بے ثبات یہ دُنیائے رنگ و بو
دیتے ہیں درس ہم کو یہی مسکرا کے پھول
٭٭٭

بات ہے اُن کی بات پھولوں کی
ذات ہے اُن کی ذات پھولوں کی
وہ مجسم بہار ہیں اُن میں
ہیں بہت سی صفات پھولوں کی
گفتگو اُن کی ایسی ہے جیسے
پھول کرتا ہو بات پھولوں کی
گُل ہیں گُلشن میں رونقِ گلزار
اور وہ ہیں حیات پھولوں کی
غُنچہ و گُل کی یہ فراوانی
جیسے ہو اِک برات پھولوں کی
حُسنِ فطرت کا شاہکار ہیں یہ
روح پرور ہے ذات پھولوں کی
روتی ہے فرطِ غم سے شبنم بھی
دیکھ کر مشکلات پھولوں کی
باغباں کی نظر سے دور رہیں
ہے اِسی میں نجات پھولوں کی
درسِ عبرت ہے اہل دل ے لئے
زندگی بے ثبات پھولوں کی
ہے نشاط آفریں بہت برقیؔ
دلنشیں کائنات پھولوں کی
٭٭٭

یادِ ماضی ستاتی رہی رات بھر
خواب میں آتی جاتی رہی رات بھر
دیکھ کر اُس کو میں دم بخود رہ گیا
نیند میری اُڑاتی رہی رات بھر
تیرہ و تار تھا خانۂ دل مرا
وہ اُسے جگمگاتی رہی رات بھر
میرے کانوں میں بجتی تھیں شہنائیاں
زیرِ لب گُنگُناتی رہی رات بھر
شمعِ ہستی کی لو جب بھی مدھم ہوئی
وہ جلاتی بُجھاتی رہی رات بھر
جب بھی شیرازۂ دل ہوا مُنتشر
وہ مسلسل سجاتی رہی رات بھر
میرے تارِ نفس کی وہ مضراب ہے
سازِ دل جو بجاتی رہی رات بھر
تھی وہ شعلہ کبھی اور شبنم کبھی
روٹھتی اور مناتی رہی رات بھر
لے کے صبر و سکوں کا مرے امتحاں
وہ مجھے آزماتی رہی رات بھر
گلشنِ زندگی کی شگفتہ کلی
نِت نئے گل کھلاتی رہی رات بھر
دے کے دستک درِ دل پہ وہ بارہا
مجھ کو برقیؔ جگاتی رہی رات بھر        ٭٭٭

روح پرور ہے اُس کا غمزہ و ناز
شخصیت اُس کی ہے کرشمہ ساز
میرے قلبِ حزیں کا سوز و گداز
اُس پہ ہوتا نہیں اثر انداز
کب وہ چھیڑے گا میرے دل کا ساز
میں ہوں ہر وقت گوش بر آواز
میرا کوئی نہیں ہے محرمِ راز
زندگی ہے پُر از نشیب و فراز
لب پہ میرے لگی ہے مُہرِ سکوت
’’نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز‘‘
جس کو دیکھو ہے مصلحت اندیش
ہے جہاں کارگاہِ ناز و نیاز
ذہن قاصر ہے یہ سمجھنے سے
کیا حقیقت ہے اور کیا ہے مجاز
کون کس سے کرے گا حُسنِ سلوک
اب نہ محمود ہے نہ کوئی ایاز
اہلِ فضل و کمال ہیں گمنام
بامِ شہرت پہ ہیں زمانہ ساز
٭٭٭

ہے ذہن میں میرے ابھی اُس رات کا عالم
برسات میں بیتابیِ جذبات کا عالم
ہے سامنے اُس کی مرے تصویرِ تصور
پُر کیف ہے کس درجہ خیالات کا عالم
جُز اُس کے نہیں اِس کو کوئی چیز بھی مطلوب
ہے عشق کو یہ حُسن کی سوغات کا عالم
ناقابلِ اظہار ہے اب جوشِ جنوں میں
افکارِ پریشاں کی حکایات کا عالم
ہر ایک ادا اُس کی ہے ناقابلِ توصیف
اِس بات کا عالم ہو کہ اُس بات کا عالم
کب ہو گا مرا خواب یہ شرمندۂ تعبیر
جب ہو گا نہ کوئی بھی حجابات کا عالم
ثانی نہیں کوئی بھی تغزل میں جگر کاؔ
کہتا ہے یہ میرے دلِ بیتاب کا عالم
برقیؔ شبِ تنہائی میں یہ شدّتِ احساس
ہے کتنا حسیں یادوں کی بارات کا عالم
٭٭٭

آزمودہ کو آزماتے کیا؟
موت کو ہم گلے لگاتے کیا؟
دی ہے ہم کو خدا نے عقلِ سلیم
نہ کماتے اگر تو کھاتے کیا؟
ہے یہ مخصوص جانِ جاں کے لئے
جان و دل غیر پر لُٹاتے کیا؟
دیکھ کر اس کو در پئے آزار
گر نہ روتے تو مسکراتے کیا؟
کام مجھ سے اگر نہیں ہوتا
میرے گھر یونہی آتے جاتے کیا؟
رقص کرنا جنھیں نہیں آتا
انگلیوں پر انھیں نچاتے کیا؟
ہم کو تفریح کا نہیں کیا حق؟
بارِ غم عمر بھر اٹھاتے کیا؟
ہیں جو اپنے وجود کا حصہ
ان کو ہم یونہی بھول جاتے کیا؟
ہم ہیں ان کے مزاج سے واقف
مانتے گر نہ وہ مناتے کیا؟
نعمتِ حق کا شکر ہے واجب
عاقبت اپنی ہم گنواتے کیا؟
برق برقیؔ کے آگے پیچھے تھی
خانۂ دل کو وہ سجاتے کیا؟                ٭٭٭

اُس نے کیا ہے وعدۂ فردا آنے دو اُس کو آئے تو
نام بدل دینا پھر میرا لوٹ کے واپس جائے تو
عرضِ تمنا کریں گے اُس سے اگر نہ وہ ٹھُکرائے تو
اُس سے ضرور ملیں گے جا کر پہلے ہمیں بُلائے تو
عزتِ نفس کا ہے یہ تقاضا حُسن سلوک کریں دونوں
اُس کو ہم لبیک کہیں گے رسمِ وفا نبھائے تو
صفحۂ ذہن پہ نقش ہے اُس کا میرے ابھی تک نازو نیاز
جیسے شرماتا تھا پہلے ویسے ہی شرمائے تو
روٹھنے اور منانے کے احساس میں ہے اک کیف و سرور
میں نے ہمیشہ اُسے منایا وہ بھی مجھے منائے تو
کیوں رہتا ہے مجھ سے بد ظن ہے جو مرا منظورِ نظر
کچھ نہیں آتا میری سمجھ میں کوئی مجھے سمجھائے تو
خونِ جگر سے سینچوں گا گلزارِ تمنا اُس کے لئے
باغِ حیات میں گلِ محبت آ کر مرے کھلائے تو
فصلِ خزاں میں کیا ہو گا آثار نمایاں ہیں جس کے
فصلِ بہار میں برقیؔ اپنے دل کی کلی مُرجھائے تو
٭٭٭

بعد مدت کے ہوا ہے ختم میرا انتظار
آپ کی چشمِ کرم ہو یونہی مجھ پر بار بار
دامنِ دل میں نہ اُلجھے زندگی بھر کوئی خار
آپ جیسے آج ہیں کل بھی ہوں ویسے گُلعذار
اب بتائیں آپ کیا سرزد ہوئی مُجھ سے خطا
یاد رکھوں تا کہ آئندہ نہ ہو کچھ ناگوار
آپ کا شرمندۂ تعبیر ہو ہر ایک خواب
طبعِ نازک پر نہ ہو میری وجہہ سے کوئی بار
آپ کا باغِ تمنا عمر بھر پھولے پھلے
زندگی کا ماحصل ہو آپ کی بس صرف پیار
منتشر شیرازۂ ہستی نہ ہو یہ آپ کا
ہو فضائے گردشِ دوراں ہمیشہ سازگار
آپ ہوں ہرگز نہ طوفانِ حوادث کے شکار
چہرۂ زیبا نہ ہو آلودۂ گرد و غبار
ہے دُعا احمد علی برقیؔ کی یہ صبح و مَسا
قایم و دایم رہے یہ آپ کا عز و وقار
٭٭٭

مت کرو سرکشی بس بہت ہو گئی
چھوڑ دو دشمنی بس بہت ہو گئی
جا رہے ہو کہاں مجھ سے منھ موڑ کر
کیوں ہے یہ بے رُخی بس بہت ہو گئی
آؤ بیٹھو چلے جانا پھر بعد میں
اُف یہ ناراضگی بس بہت ہو گئی
دیکھو اچھی نہیں ے تمھاری روش
اِس قدر بیحسی بس بہت ہو گئی
جوش اچھا نہیں ہوش سے کام لو
اب یہ دریا دلی بس بہت ہو گئی
اشہبِ وقت اتنا  نہ اِترا کے چل
تیری یہ خودسری بس بہت ہو گئی
وقت کے ساتھ یہ زخم بھر جائیں گے
تیری چارہ گری بس بہت ہو گئی
پَک گئے کان سُن سُن کے برقیؔ کے اب
تیری یہ راگنی بس بہت ہو گئی
٭٭٭

بہت رفتار تھی یوں تو ہوا کی
مری شمعِ وفا پھر بھی جَلا کی
ہے اُس میں جاذبیت اِس بِلا کی
’’بگڑنے پر بھی زُلف اُس کی بَنا کی
نہ دے دھمکی مجھے جورو جفا کی
بتا مجھ سے یہ میں نے کیا خطا کی
رضائے یار میں میری رضا ہے
سزا کی بات ہو یا ہو جزا کی
اسے ہے دستِ قُدرت نے سنوارا
وہ ہے تصویر اک ناز و ادا کی
مرا خونِ جگر ہے اس میں شامل
نظر آتی ہے جو سرخی حِنا کی
میں جس سے کر سکوں عرضِ تمنا
ضرورت ہے اسی درد آشنا کی
بتا دے اے ستمگر اب خدارا
کوئی حد بھی ہے اس جور و جفا کی
ہے شیوہ جس کا برقیؔ بے وفائی
توقع اس سے کیا مہر و وفا کی
٭٭٭

غم و آلام کی بارات نے سونے نہ دیا
مستقل گردشِ حالات نے سونے نہ دیا
گھرگیا موجِ حوادث میں سفینہ میرا
ناگہاں یورشِ برسات نے سونے نہ دیا
جس سے آنا تھا اُسے ہے یہ وہی راہگذر
اُس کے قدموں کے نشانات نے سونے نہ دیا
قصرِ دل نذرِ فسادات ہوا ہے جب سے
مُجھ کو گُذرے ہوئے لمحات نے سونے نہ دیا
ہیں سوالات کئی جن کا نہیں کوئی جواب
بار بار ایسے سوالات نے سونے نہ دیا
پھر مری گُمشدہ میراث ملے گی کہ نہیں
اِنھیں فرسودہ خیالات نے سونے نہ دیا
صبحِ اُمید کب آئے گی نہیں کچھ معلوم
رات بھر مجھ کو اِسی بات نے سونے نہ دیا
دل سے ہوتے ہی نہیں محویہ یادوں کے نقوش
گرمیِ شدّتِ جذبات نے سونے نہ دیا
مجھ پہ جو گزری ہے گزرے نہ کسی پر برقیؔ
خدشۂ ترکِ ملاقات نے سونے نہ دیا
٭٭٭

گُلبدن، غنچہ دہن اور گلابی چہرہ
سرسے پا تک تھا وہ گُل پوش کتابی چہرہ
غمزہ و ناز و ادا اُس کے تھے غارت گرِ ہوش
جلوہ گر بزم میں تھا نیم حجابی چہرہ
دیکھ کر اُس کو کسی گُل کی تمنا نہ رہی
آج تک دیکھا نہیں ایسا جوابی چہرہ
رونقِ گلشنِ ہستی تھا وہ روئے زیبا
پیکرِ حُسنِ گُلِ تَر تھا گلابی چہرہ
ایسا مشاطۂ فطرت نے سنوارا تھا اُسے
دُرِّ شہوار کی مانند تھا آبی چہرہ
وہ تھی تصویرِ تصور جو مرے خواب میں تھی
ہوا بیدار تو غائب تھا حبابی چہرہ
صفحۂ ذہن پہ محفوظ ہیں یادیں اُس کی
مثلِ گُل تھا تر و تازہ وہ شبابی چہرہ
دم بخود دیکھ کے برقیؔ تھا نگاہیں اُس کی
جیسے ہو میکدہ بردوش شرابی چہرہ
٭٭٭

گزرے جدھر جدھر سے وہ زلفیں سنوار کے
تھے مُشکبار جھونکے نسیمِ بہار کے
چشمِ تصورات میں بیحد حسین تھے
نقش و نگار چہرۂ زیبائے یار کے
ہوتے ہیں بحرِ عشق میں جذبات موجزن
نازو نیاز ہوتے ہیں پُر کیف پیار کے
دُنیائے رنگ و بو کا یہ کیسا نظام ہے
گل ساتھ ساتھ رہتے ہیں ہر وقت خار کے
سوزِ دروں ہے اُس کی نگاہوں سے آشکار
’’وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گذار کے‘‘
تیرِ نظر کا گہرا تھا اس درجہ اُس کے وار
اب تک ہرے ہیں زخم دلِ داغدار کے
کچھ بھی ہوا نہ جذبۂ اخلاص کا اثر
دیکھا متاعِ قلب و جگر اُس پہ وار کے
قول و قسم کا اُس کے نہیں کوئی اعتبار
اوقات تلخ ہیں یہ شبِ انتظار کے
ترکِ تعلقات کی دھمکی نہ دے مجھے
سوہانِ روح ہیں یہ ستم بار بار کے
آشوبِ روزگار سے ہے بند ناطقہ
مارے سبھی ہیں گردشِ لیل و نہار کے
ہے فیضیاب فیضؔ سے برقیؔ کا فکر و فن
ہم قدر داں ہیں نابغۂ روزگار کے    ٭٭٭

ہے جانگداز بہت مل کے یہ جُدا ہونا
’’یہ کس سے آپ نے سیکھا ہے بے وفا ہونا‘‘
بہت لطیف ہے فنکار و فن کا یہ رشتہ
مجھے عزیز ہے دونوں کا ایک سا ہونا
کیا ہے خونِ جگر اس نے دلربائی سے
نہ آیا راس مجھے اس کا دلربا ہونا
تھے دم بخود سبھی جلوہ نمائی سے اس کی
عجب تھا محفلِ یاراں میں رونما ہونا
تھا زندگی کا مری یادگار وہ لمحہ
وہ اس کو دیکھ کے اک حشر سا بپا ہونا
جسے سمجھتا تھا اپنا وہ غیر کا نکلا
ہے اک فریبِ نظر اس کا کیا سے کیا ہونا
اچانک آئینہ جھُنجھلا کے اس نے پھینک دیا
جب اُس پہ فاش ہوا اُس کا خود نما ہونا
وہ مل کے دے گیا داغِ مفارقت مجھ کو
نتیجہ آہ کا تھا میری نا رسا ہونا
تھا میری کشتیِ دل کا جو نا خدا برقیؔ
نہ آیا کام مرے اُس کا نا خُدا ہونا
٭٭٭

پردہ رخِ زیبا سے اُس کے نہ اُٹھا ہوتا
ملتا ہی نہیں یا پھر،مل کر نہ جُدا ہوتا
رکھ لیتا بھرم میرا کچھ دیر کو آ جاتا
’’یا رب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا‘‘
کیا اُس کو ملا آخراِس خونِ تمنا سے
بات اُس کی بھی بن جاتی،حق میرا ادا ہوتا
تصویرِ تصور بھی اب اُس کی نہیں باقی
یہ خانۂ دل ایسا ویراں نہ ہوا ہوتا
دل میرا نہیں ہوتا افسردہ و پژمردہ
گلزارِ محبت میں گل کوئی کھلا ہوتا
اُلجھے رہے ہم دونوں دُنیا کے جھمیلے میں
جو تَرکِ تعلق ہے ہرگز نہ ہو ا ہوتا
گھُٹ گھُٹ کے نہیں جیتے دونوں شبِ فرقت میں
اظہارِ محبت پر گر وہ نہ خفا ہوتا
برقیؔ کی جو حسرت تھی دل ہی میں رہی اُس کے
کچھ اُس نے کہا ہوتا،کچھ میں نے سنا ہوتا