خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو طرحی غزل نذر میر انیس احمد علی برقی اعظمی
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
طرحی غزل نذر میر انیس
احمد
علی برقی اعظمی
بناکے تختۂ مشقِ ستم زمینوں کو
نہ کردیں ختم مکانوں سے وہ مکینوں کو
بناکے تختۂ مشقِ ستم زمینوں کو
نہ کردیں ختم مکانوں سے وہ مکینوں کو
ہمیشہ
زد مین ہے طوفاں کی اپنی کشتیٔ عمر
بچائیں کیسے تلاطم سے اِن سفینوں کو
بچائیں کیسے تلاطم سے اِن سفینوں کو
نہ اپنے غمزہ و ناز و ادا پہ
اِترائیں
بتادے کاش کوئی جاکے اِن حسینوں کو
بتادے کاش کوئی جاکے اِن حسینوں کو
ہے اب بھی وقت وہ اُٹھ جائیں
خوابِ غفلت سے
’’ خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو‘‘
’’ خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو‘‘
ذرا سی ٹھیس لگے گی تو ٹوٹ
جائیں گے
رکھیں سنبھال کے وہ دل کے آبگینوں کو
رکھیں سنبھال کے وہ دل کے آبگینوں کو
ذلیل و خوار ہیں جن کو جہاں میں
چھوڑ کے وہ
کہو وہ سیکھ لیں اب بھی اُنھیں قرینوں کو
کہو وہ سیکھ لیں اب بھی اُنھیں قرینوں کو
سبھی نے پھیر لیں آنکھیں زوال
کیا آیا
نہ جانے ہو گیا کیا آج ہم نشینوں کو
نہ جانے ہو گیا کیا آج ہم نشینوں کو
دلوں پہ آج بھی جوں حکمراں ہیں
لوگوں کے
نہ سمجھیں ہیچ وہ اِن بوریا نشینوں کو
نہ سمجھیں ہیچ وہ اِن بوریا نشینوں کو
کبھی جو دیکھ کے برقی کو خوف
کھاتے تھے
چڑھائے پھرتے ہیں ہر وقت آستینوں کو
چڑھائے پھرتے ہیں ہر وقت آستینوں کو