موج غزل ادبی گروپ کے۱۷۱ ویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۲۷ جولائی ۲۰۱۷ کے لئے میری طبع آزمائی مصرعہ طرح : روز شعر کہتا ہوں، شاعری کا موسم ہے (ضیا شہزاد )



موج غزل ادبی گروپ کے۱۷۱ ویں عالمی فی البدیہہ طرحی  مشاعرے  بتاریخ ۲۷ جولائی ۲۰۱۷ کے لئے میری طبع آزمائی
مصرعہ طرح : روز شعر کہتا ہوں، شاعری کا موسم ہے (ضیا شہزاد )
احمد علی برقی اعظمی
میرے دیدہ و دل میں تشنگی کا موسم ہے
اُس کی چشمِ میگوں میں میکشی کا موسم ہے
فرشِ راہ ہیں آنکھیں وہ ابھی نہیں آیا
کہہ رہا تھا جو مجھ سے دل لگی کا موسم ہے
اُس کا دلنشیں چہرہ ہے مرے تصورمیں
’’ روز شعر کہتا ہوں شاعری کا موسم ہے‘‘
یاد ہے مجھے اب بھی اس کا وعدۂ فردا
کیسے اُس کو سمجھاؤں آگہی کا موسم ہے
وہ مرے درِ دل پر جانے دے گا کب دستک
میرے قلبِ مضطر میں بے بسی کا موسم ہے
تازگی تھی جواِن میں ہوگئی ہے وہ عنقا
جسم و جاں میں اب میرے خستگی کا موسم ہے
کیا جواب دوں اُن کو زہرخند کا اُن کے
وہ جو مجھ سے کہتے ہیں آپ ہی کا موسم ہے
فصل گل بھی ہے برقی ان دنوں خزاں دیدہ
گلشنِ محبت میں دلکشی کا موسم ہے




شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں