دیار شبلی کا ایک با کمال استاد سخن

رحمت الھی برق اعظمی – دیار شبلی کا ایک با کمال استاد سخن

استاد الشعراء حضرت رحمت الھی برق اعظمی (1911-1983) اپنے عھد کے ایک بزرگ اور با کمال شاعر تھے-انھوں نے اردو شاعری کے دھلوی دبستان سے بھی کسب فیض کیا تھا اور لکھنوی دبستان سے بھی- منشی سالگ رام کے توسل سے ایک طرف انکا سلسلہ تلمذ دبستان لکھنؤ کے سرخیل ناسخ تک پھنچتا ھے تو دوسری طرف ناخدائے سخن نوح ناروی کی وساطت سے فصیح الملک داغ دھلوی اور خاقانی ھند شیخ محمد ابراھیم ذوق دھلوی سے بھی نسبت حاصل ھے- یھی وجہ ھے کہ ان کی شاعری میں دونوں دبستانوں کا خوبصورت اور دلکش امتزاج نظر آتا ھے- وہ دیار شبلی کے ان خوش نصیب شعراء میں ھیں جن کے فیض تربیت سے ایک دو نھیں درجنوں سخنور تیار ھو گئے- انھوں نے خود کھا ھے کہ :
مثال شمس تھے ھم بھی کہ جب غروب ھوئے
تو بیشمار ستاروں کو جگمگا کے چلے
حضرت برق اعظمی نے شاعری کی جملہ اصناف پر طبع آزمائی کی ھے- اور جس صنف میں بھی طبع آزمائی کی دیکھنے یا سننے والوں پر یھی تاثر قائم ھوا کہ وہ اسی میدان کے شھسوار ھیں- انھوں نے نظمیں بھی کھی ھیں اور مثنویاں بھی- نعت و مناقب میں بھی طبع آزمائی کی ھے اور سلا م و مراثی اور قصائد میں بھی- قطعات و رباعیات بھی ان کے ان کے شعری ذخیرے میں بڑی تعداد میں موجود ھیں – اور تضمینیں اور قطعات تاریخ بھی- لیکن ان کے مزاج و طبیعت کو غزل سے خصوصی مناسبت تھی – ان کی قدرت کلا م ، فنی چابکد ستی اور استادانہ مھارت کے جوھر ھمیں کامل طور پر غزل ھی میں دیکھنے کو ملتے ھیں-یہ شا ید اس لئے بھی کی بادہ و ساغر کے پردے میں مشاھدہ حق کی گفتگو کے زیادہ مواقع غزل ھی میں رھتے ھیں- چنانچہ خود فرماتے ھیں :
پردے پردے میں کیا ذکر محبت میں نے
شمع کی بات نکالی کبھی پروانے کی

غزل جتنی محبوب و ھر دلعزیز صنف سخن ھے اتنی ھی طویل و قدیم اس کی تاریخ بھی ھے- غزل میں نئے اور نادر مضامین کی دریافت ایک دشوار کام ھے – غزل کے فارم میں دو چار شعرموزوں کر لینا تو بھت آسان ھے لیکن کوئی نادر یا اچھوتا مضمون پیش کرکے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنا ھر کسی کے بس کی بات نھیں ھے- اس کے لئے غیر معمولی مشق ومزاولت کے ساتہ ساتہ وسیع مطالعے اور گھرے مشاھدے کی ضرورت ھے- حضرت برق اعظمی اس سلسلےمیں بڑے خوش نصیب واقع ھوئے ھیں- ان کی غزل میں قاری کو پھلی نظر میں اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلا حیت موجود ھے- ان کے ھاں ھمیں تغزل کے بھی معیاری نمونے ملتے ھیں اور تعمیری واخلا قی قدروں کے بھی-اور وہ ھر چیز بھی بدرجہ اتم ملتی ھے جسے ھم شعریت کھتے ھیں- اس میں کوئی شک نھیں کہ ان کے ھاں ساقی و شراب ، زلف، رخساراور گل و بلبل کا تذکرہ بھی ملتا ھے- لیکن اس کا حوالہ کچہ اور ھوتا ھے-
حضرت برق اعظمی کی شاعری کا اھم وصف ان کے بیان کی سادگی ھے-وہ شعر کچہ اس طرح کھتے ھیں کہ مضمون بالکل عام اورسامنے کی چیز معلوم ھوتا ھے- لیکن جب شعر اپنی مکمل شکل میں سامنے آتا ھے تو اپنی ند رت سے قاری ک چونکا دیتا ھے- اور پوری طرح اسےاپنی گرفت میں لے لیتا ھے - کھتے ھیں-
تجھ کو سینے میں جگہ دی پھر بھی انکا ھو گیا
اے مرے دل تجہ سے بڑہ کر بیوفا کوئی نھیں
نکلا حضور ھی کا مکاں یہ تو کیا کروں
بیٹھا تھا میں تو سایہ دیوار دیکہ کر
اے غم تجھے عزیز نہ رکھوں میں کس طرح
تجہ سا کوئی شریک نھیں زندگی کے ساتہ
آلام روزگار سے گھبرا رھا ھے کیا
دل میں خیال یار کو مھماں بناکے دیکہ
خودسر ھے عقل اس کو بنا تابع جنو ں
کافر ھے نفس اس کو مسلماں بنا کے دیکہ
محبت میں کھاں فرق من و تو یہ وہ منزل ھے
جھاں دل ھے وھیں تم ھو جھاں تم ھو وھیں دل ھے
آپ ان اشعار کوپڑھئے دیکھیں گے کی بات با لکل سامنے کی کھی گئی ھے – الفاظ بھی با لکل صاف و سادہ اور سامنے کے ھیں ، لیکن جس ندرت اور نئے پن کے ساتہ مضمون کو نظم کیا گیا ھے وہ بھر حال قابل توجہ ھے- اپنے دل کو رقیب یا بیوفا کے طور پر دیکھنا ، غم کو شریک زندگی کی حیثیت دینا ، خیال محبوب کو آلام زمانہ کا علاج تصور کرنا- عقل کو تابع جنوں اور نفس کو مسلمان بنانے کی بات کرنا اور محبوب اور دل کو لازم و ملزوم قرار دینا، یہ وہ باتیں ھیں جوبظاھر آسان اور سامنے کی معلوم ھوتی ھیں لیکن شاعر کو بیان کی اس منزل تک پھونچنے کے لئے جس مشق اور ریاض سے گذرنا پڑا ھوگا اس کا ادراک اسی کو ھو سکتا ھے جو خود بھی انھیں مراحل سےگزراھو- بیان کی یھی وہ کیفیت ھے جسے شاعرانہ اصطلاح میں سھل ممتنع کھا جاتا ھے – حضرت برق اعظمی جانشین داغ دھلوی حضرت نوح ناروی کے شاگردتھے جو سھل ممتنع او زبان کی شاعری کے لئے خصوصی شھرت رکھتے تھے- انھیں زبان و بیان کا یہ منفرد و نادر انداز یقینا اپنے استاد سے ملا ھوگا- ان کے درج یل اشعارسے بھی داغ اسکول کی نمایندگی ھو تی ھے-
کتنے میں کس حسیں نے خریدا پتہ نھیں
بس بک گیا میں گرمئی بازار دیکہ کر
سکتے کا سا عالم دم گفتار ھوا ھے
ایسا بھی محبت میں کئی بار ھوا ھے
آتش سیال کی صورت ھے رگ رگ میں لھو
جل رھا ھوںسر سے پا تک اور دھواں ھوتا نھیں
آج آئے ھو تم اے جان تسلی دینے
مر گئے ھوتے جو کل ھجر میں ھم کیا ھوتا
جاں نکلتے ھی سب کلفتیں مٹ گئیں
درد حد سے بڑھا تو دوا ھو گیا
جا تا تو ھےاس جلوہ گہ ناز میں اے دل
کیا ھو گا اگر ضبط کا یارا نہ رھے گا
یاد رکہ اے مجھے دیوانہ بنانے والے
میری رسوائی ھے موجب تری رسوائی کا
حضرت برق اعظمی ایک پختہ کار و صاحب طرز غزل گو شاعرکی حیثیت سے سامنے آتے ھیں ان کی غزل کا یہ امتیاز ھے کہ وہ غزلوں کی بھیڑ میں گم نھیں ھوتی – انکی غزل اپنی ایک پھچان رکھتی ھے- ان کے اشعار اپنے مخصوص زاوئے، منفرد انداز فکر اور نادر طرز گفتار کے سبب لاکھوں کی بھیڑ میں پھچان لئے جاتے ھیں- زبان کی صفائی،بندش کی چستی،محاوروں کی صحت، جذبے کا خلوص،موضوع کی سنجیدگی اور فنی رکہ رکھاؤ ان کی شاعری کے اھم اوصاف ھیں-یہ اوصاف ان کی غزل میں قدم قدم پر دامن دل کھینچتے ھوئےملتے ھیں- ایک شاعر کی حیثیت سے انھیں خود بھی اس کا ادراک ھے- ایک جگہ انھوں نے کھا ھے:
کہ دیا برق کو جو کھنا تھا سن کے اب سر دھنا کرے کوئی
حضرت برق اعظمی کی غزل میں ھمیں اسلوبیاتی سطح پر قدم قدم پرجدید لھریں بھی ملتی ھیں، لیکن روایت کا ایک زندہ و متحرک تصور ان کے شعری رویۓ کی اساس ھے- شعری روایت سے ان کا رشتہ نھایت پختہ اور مستحکم ھے- ان کے شعری شعور نے مشق وممارست کی ایک لازمی حد کوعبور کر کے اجتھاد وفکر کو اپنے فن پارے کا جوھر بنایا ھے – اسلئے کہ وہ اس بات سے پوری طرح باخبرھیں کہ اچھاشعر ، شعر گوئی کی منفرد صلاحیت اور روایت کے مناسب امتزاج سے وجود میں آتا ھے- فنی سلیقہ بندی، فطری توانائی اور زبان پر کامل گرفت ان کی شاعری کے اھم عناصر ھیں – ان کا شعری رویہ ان کی گھری فنی آگھی
یافکر و اظھار پر بھرپور گرفت ،پختہ جمالیاتی شعور اور ترسیل کی کامل استعداد کے آمیزے سے وجود میں آتا ھے-
میں شعرو ادب کو سماج یا تھذیب کا معلم و مصلح سمجھتا ھوں- میرا نقطہ نظر ھے کہ ھر فن پارہ اپنے تخلیق کار کی زندگی اور فکر و خیال کا نمائند ہ ھوتا ھے- کوئی بھی ادیب یا شاعر اپنے عھد ، سماج یا قوم کے خارجی و داخلی ماحول اور تھذیب سے بے نیاز نھیں ھو سکتا اور کسی بھی تخلیق کار کواس کے عھد یا سماج سے الگ کر کے اس کے فن پارے کی تعیین قدر نھیں کی جا سکتی- حضرت برق اعظمی کے کلام کا مطالعہ
کرنے سے اس بات کا ا ندازہ ھوتا ھے کہ ان کے ھاں تغزل کی پاکیزہ قدروں کے ساتہ ساتہ ماضی کی صالح روایتوں سے مستحکم و پایہ دار وابستگی بھی ملتی ھے، حال سے کامل با خبری بھی اور مستقبل پر گھری نظر بھی- انھوں نے اشاروں، کنایوں اور علا متوں کے پردے میں اپنے عھد کے سیاسی،سماجی اور معاشی حالات پر دردمندانہ تنقید بھی کی ھے اورایک ھمدرد، دوربیں اور عاقبت اندیش مصلح کی حیثیت سے سیاد ت و رھنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا ھے- ان کے ھاں اس قسم کے اشعار بھی ملتے ھیں
بھڑکتا ھے چراغ صبح جب بحھنے کو ھوتا ھے
قضا آتی ھے جب چیونٹی کے ھو جاتے ھیں پر پیدا

شھنشاھی کی مانگے بھیک کوئی ھم فقیروں سے
کیےاک کملی والے نے ھزاروں تاجور پیدا

چل دیئے اعزہ سب دفن کر کے مٹی میں
عمر بھر کی الفت کا ھم نے یہ صلا پایا

دیا اتار عزیزوں نے دس قدم چل کرج
مرا جنازہ تھا کاندھوں پہ جیسے بار کوئی

حضرت برق اعظمی ایک خوش فکر و نغز گو شاعر کے ساتہ ایک سچے اورصاحب بصیرت مسلمان بھی تھے اس لئے انھوں نے قلم کی پاکیز گی اور زبان و بیان کی طھارت کا ھمیشہ لحاظ رکھا ھے- انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ زبان و قلم کی دولت اللہ تعالی کی ایک امانت ھے اور اس کے بجا و بیجا استعمال کے لئےھمیں اللہ کے حضورجواب دہ ھونا پڑے گا- یہ احساس انکی شاعری میں متعدد مقامات پر ملتا ھے- نمونے کے طور پر دو شعر پیش کرتا ھوں-

اوروں کی طرح فحش مضامیں نہ کر رقم
اے برق اپنے پاک قلم کا ھی کر لحاظ

فحش غزل اور فکر لطیف
کیا میں ھرن پر لاد دوں گھاس

میں نے حضرت برق اعظمی کی شاعری خصوصا غزل کا بغائر مطالعہ کیا ھے- میں اس نتیجے پرپھنچا ھوں کہ ان کے ھاں لفظ کی بڑی اھمیت ھے – وہ لفظ کی پاکیزگی و طھارت کا پورا لحاظ رکھتے ھیں – انھیں لفظوں کے برتنے اور انھیں ان کے شایان شان استعمال کرنے کا ھنر آتاھے- وہ لفظ کو مردہ اور بے جان نھیںتصور کرتے، اسے ایک زندہ و متحرک حیثیت سے دیکھتےاوراس کے معانی و مفاھیم کی تلاش و جستجو کرتے ھیں- ایسی صورت میں ان کی شاعری اپنا منفرد اورمعنیاتی افق خود بناتی ھے- ان کے اس روئے نے انھیں ایک منفرد اور نغزگو شاعر بنا دیا ھے-


ڈاکٹر تابش مھدی

جی اے/5 ابو الفضل انکلیو- نئی دھلی – 110025

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں