ولی اللہ ولی کی شاعری ۔ ایک تجزیہ ڈاکٹر واحد نظیرؔ اسسٹنٹ پروفیسر اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔ ۲۵


         ولی اللہ ولی کی شاعری ۔ ایک تجزیہ
  ڈاکٹر واحد نظیرؔ
اسسٹنٹ پروفیسر
اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔ ۲۵
ولی اللہ ولی کا شعری مجموعہ ’’آرزوئے صبح‘‘ حمد، مناجات، نعت، غزل اور نظم پر مشتمل ہے۔ اس میں ولیؔ کے گریجویشن کے زمانے سے اب تک یعنی تقریباً پچیس سال کی طویل مدت میں کہے گئے کلام شامل ہیں۔ آپ اسے خام سے تام کے سفر سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہاں نہ کوئی منصوبہ بند اور منظم شاعری کا تصور ہے اور نہ ہی شاعری کے توسط سے ادب میں نمایا ں مقام حاصل کرنے کا جذبہ  کار فرما ہے بلکہ عنفوانِ شباب سے ڈھلتی ہوئی عمر تک ایک حساس انسان کے اندر کیسے کیسے  جذبات و احساسات جنم لیتے ہیں، انھیں شعری روپ دینے کی سادہ سی کوشش ہے اور بس۔ ایسی کوشش جس میں تصنع سے پرہیز اور احساسات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے رویّے سے احتراز آپ قدم قدم پر محسوس کریں گے:
ہستی ہے وہی، رونقِ ہستی بھی اسی سے
گلزار وہی، زینتِ گلزار وہی ہے
جو کچھ بھی تماشا ہے، تماشا ہے اسی کا
مخفی بھی وہی، مظہر و اظہار وہی ہے
پہلے شعر میں حمدیہ شاعری کا بنیادی وصف بیانِ توحید یعنی خدائے واحد کی یکتائی و بے ہمتائی کا نہایت سلیقے سے اظہار ہوا ہے۔ ہستی اور رونقِ ہستی کے لیے گلزار اور زینتِ گلزار کے مناسبات سے شعری لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔ دوسرے شعر میں بھی تو حید کا ہی موضوع بیان ہوا ہے لیکن ’’ہمہ ازوست‘‘ سے زیادہ ’’ہمہ اوست‘‘ کا رنگ غالب ہے۔ ’’تماشا‘‘ کی تکرار اور تما شا کی مناسبت سے ’’مظہرو اظہار‘‘ کا استعمال توجہ طلب ہے۔ یہاں اظہار تماشا ہے اور مظہر تماشا گاہ۔ مخفی اور اظہار کا مضمون ’’ہمہ ازوست‘‘ کے صوفیانہ فلسفے کا نمائندہ تھا لیکن ’’مظہر ‘‘  یعنی  ’’ جائے ظہور‘‘ کی شمولیت نے ’’ہمہ اوست‘‘ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
’’آرزوئے صبح‘‘ میں حمد کے بعد ایک مناجات شامل ہے۔ بارگاہِ رب العزت میں بندے کا فریادی ہونا اور التجائیں کرنا مناجات کا موضوعاتی محور ہے۔
ولیؔ نے بھی خدا کی برتری اور اپنی عاجزی کے توسط سے مختلف الفاظ و انداز میں عرض گزاری کی ہے لیکن ایک شعر ولیؔ کے ایک خاص جذبے کی طرف اشارہ کرتا ہے:
تو مسیحائے کونین ہے میرے مولا
میں مریضوں کے حق میں شفا مانگتا ہوں
میں شاعر کے جس جذبے کی بات کر رہا ہوں آپ نے محسوس کر لیا ہو گا۔ خلقِ خدا سے محبت کا جذبہ، بنی نوعِ انسان کی بھلائی اور بہتری کا جذبہ جو خدمتِ خلق پر آمادہ کرتا ہے، دوسرے مصرعے سے ظاہر ہے۔ مطلقاً مریضوں کے حق میں شفا کی خواستگاری شاعر کی انسانی ہمدردی کو آئینہ کرتی ہے۔ اللہ کو ’’مسیحائے کونین‘‘ سے مخاطب کر کے یہ جواز بھی فراہم کر لیا گیا ہے کہ معبود کی عطائیں اور عبد کی دعائیں دونوں ہی حدو حساب سے پرے ہیں۔
ولیؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن ہر صاحبِ ایمان شاعر کی طرح انھوں نے بھی چند نعتِ پاک کہہ کر مدّاحِ رسول ہونے کی سعادت حاصل کی ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر نعت نہ ہوتی تو نہ صرف یہ کہ شاعری اپنے ہونے کے کسی مستحسن جواز سے محروم ہو جاتی بلکہ قرطاس و قلم بھی سخنہائے لا یعنی کی تحریرو تحفیظ کے مرحلے میں اپنے وجود کے عدم کی دعائیں کرتے۔ ولیؔ نے بھی اپنی شاعری کو عشقِ نبیؐ کے فیضان سے منسوب کر کے جوازِ سخن قائم کیا ہے:
ولیؔ یہ عنایت ہے عشقِ نبیؐ کی
مری شاعری ورنہ کیا شاعری ہے
اللہ نے اپنے محبوب کی تعریف قرآن میں کی ہے اور انسان اس کا نائب ہے۔ لہٰذا نیابت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بھی اللہ کے محبوب کی تعریف کرے۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ محبوبِ خدا کی تعریف ان کے شایانِ شان ممکن نہیں۔ صرف یہ جذبہ کار فرما ہو نا چاہیے کہ ان کے مدحت گزاروں میں اپنا بھی شمار ہو جائے۔ ملّا عبد الرحمن جامیؔ نے ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر ‘‘ اور غالبؔ نے   :
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کآن ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
کہہ کر اس مر لے میں اپنی عجز بیانی اور قاصر الکلامی کا اعتراف و اظہار کیا تھا۔ یہ اعتراف ہر اس شاعر کے یہاں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے، جس نے نعت لکھنے کی سعادت سے اپنے آپ کو مشرف کیا ہے۔ ولیؔ کی نعتوں میں یہ مضمون مختلف انداز میں موجود ہے   ؎
کوئی کیا کرے گا محمدؐ کی مدحت
خدا خود ہی قرآں میں رطب اللساں ہے
مری عقل کو تاہ میں کیا بتاؤں
محمدؐ کا رتبہ خدا جانتا ہے
مکینِ لامکاں کہیے، امام الانبیا کہیے
خدا کے بعد انھی کا ہے مقام و مرتبہ کہیے
مدحتِ رسول بلاشبہ آسان نہیں۔ ذرا سا غلوقابَ قوسین اوا دنیٰ کی حدوں کو توڑ کر الوہیت کے دائرے میں ڈال سکتا ہے اور ذراسی تنقیص ایمان و آخرت کی تباہی کی وجہ بن سکتی ہے۔ آیتِ قرآنی لاترفعوااصواتکم فوقَ صوتِ النبی کا شانِ نزول ہمارے پیشِ نظر ہے۔ حضرت شرف الدین ابو عبداللہ محمد بن زید المعروف بہ امام بو صیری نے نعت گو شعرا کے لیے ایک نہایت پیارا نسخہ اپنے ایک شعر میں پیش کیا ہے:
دَعْ مَا ادَّعَتْہ‘ النَّصاریٰ فِی نَبِیّھِمْ
وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحاً فِیْہِ وَحْتَکِمْ
یعنی اپنے رسولؐ کی تعریف کرتے ہوئے صرف وہ بات چھوڑ دو جس کا دعویٰ نصرانیوں نے اپنے نبی کے بارے میں کیا ہے۔ اس کے بعد جو تمھارا جی چاہے حضور کی مدح میں کہو اور جو حکم چاہو لگاتے جاؤ۔ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر ‘‘ اسی تفصیل کا اجمال ہے اور ولیؔ کا مصرع ’’خدا کے بعد انھی کا ہے مقام و مرتبہ کہیے‘‘ بہ زبانِ اردو اس اجمال کی تصدیق۔
ولیؔ کی نعتوں کے موضوعات پر غور کریں تو وسیع تناظر میں ان کی دو قسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک قسم وہ جس میں ولیؔ نے اپنے داخلی جذبات و کیفیات کو بارگاہِ رسالت مآبؐ میں پیش کیا ہے اور دوسری قسم کا تعلق حیاتِ رسولؐ اور سیرت و شمائل کی پیش کش سے ہے۔ داخلی جذبات سے متعلق اشعار میں آرزو، استغاثہ، اظہارِ عشق و محبت اور مدینے سے جغرافیائی دوری کے احساسات جیسے موضوعات شامل ہیں :
سنا ہے بے کسوں کو وہ کلیجے سے لگاتے ہیں
انھی سے التجا کیجیے، انھی سے مدعا کہیے
غم زندگی جب دکھاتا ہے تیور
نظر سوئے خیرالوریٰ دیکھتی ہے
چھپا لیجیے سرکار دامن میں اپنے
میں عاصی ہوں احساسِ شرمندگی ہے
ہوئی جب سے آقا کی چشمِ عنایت
مقدر بھی مجھ پر بہت مہرباں ہے
ان اشعار میں بنیادی موضوع آرزو اور استغاثہ ہے جہاں عقیدت کے ساتھ عقیدے کا بھی خوبصورت پیرایے میں اظہار ہوا ہے۔ پہلے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص عادتِ شریفہ یعنی بے کسوں او مجبوروں کے ساتھ شفقت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے غم و اندوہ میں ڈوبی دنیا کو استعانت کے لیے بارگاہِ رسولؐ کا پتا بتا یا گیا ہے تو دوسرے شعر میں غم ہائے حیات کی یورش کے مداو ا کے لیے خود شاعر کی نگاہ اس ذاتِ رحمت شعار پر ٹِک جاتی ہے جو غم گساری کا سر چشمہ ہے۔ تیسرے شعر میں شاعر اس اعتراف کے ساتھ دامنِ سرکارؐ میں پناہ کا طالب ہے کہ میرے اعمال اگرچہ اس لائق نہیں ہیں کہ مجھ پر عنایت کی جائے لیکن آپ کی رحمت بے پایاں اور بے کراں ہے۔ چوتھے شعر میں عنایاتِ رسولؐ کے نتیجے میں بخت آوری اور خوش نصیبی کا مضمون نہایت خوبصورتی سے منظوم ہوا ہے۔ عشقِ رسولؐ، عنایاتِ رسولؐ اور نسبتِ رسولؐ کی فیض سامانیوں کا ذکر ولیؔ کی نعتوں میں بار بار اور الگ الگ انداز میں ہوا ہے:
سبب جا کے اس کا ہوا اب عیاں ہے
کہ مہکا ہوا کیوں مرا آشیاں ہے
نبیؐ راضی ہوئے جس سے، خدا راضی ہوا اس سے
رضائے سرورِ دیں کو رضائے کبریا کہیے
مرے خانۂ دل میں جو روشنی ہے
یقیناً یہ فیضانِ حبِّ نبی ہے
آپ کی جس کو نسبت ملی
تھا وہ کیا اور کیا ہو گیا
جب دیا آپؐ کا واسطہ
میں نے جو بھی کہا ہو گیا
عشقِ رسولؐ صاحبِ ایمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے بغیر خانۂ ہستی کے سارے طاق سیاہ ہیں۔ دماغ، دل، نگاہ سب ویرانے ہیں، کھنڈر ہیں، سُنسان ہیں۔ ولیؔ خوش نصیب شاعر ہیں کہ ان کا سینہ عشقِ رسولؐ کا مدینہ ہے۔ انھیں اس کا عرفان ہے کہ اس دولت کے بغیر دل کی وفا شعاری اور محبت شناسی کا تصور، فریب ہے۔ دل کو دل کے اوصاف سے متصف ہونے کے لیے لازم ہے کہ یہ عشقِ نبیؐ کے آداب سے مزین ہو۔ حبِّ نبیؐ کے بغیر دل کے گھر میں اجالا ہو جائے یہ ممکن نہیں۔ نبیؐ کی محبت حاصلِ زندگی ہے، ان کی یاد ہی طاقِ دل کا چراغ ہے۔ ان کا تصور ہی ذہن و دل کے خرابے کو منور کرتا ہے، آباد رکھتا ہے۔ تصور کا یہ حلقہ کبھی     یادِ رسولؐ، کبھی نقشِ کفِ پائے رسولؐ اور کبھی کوچۂ رسولؐ کے اردگرد طواف کرتا ہے:
اگر عشقِ محمدؐسے یہ دل معمور ہو جائے
تو اس کو با وفا کہیے، محبت آشنا کہیے
دل وفا آشنا ہو گیا
عاشقِ مصطفیؐ ہو گیا
مرے خانۂ دل میں جو روشنی ہے
یقیناً یہ فیضانِ حبِّ نبیؐ ہے
نبیِ مکرّمؐ ہیں نورِ مجسّم
کرو یاد اُن کو بہت تیرگی ہے
ہے تصور میں یہ کس کا نقشِ پا
ذہن سے دل تک اجالا ہو گیا
ابھی ذکرِ فردوس رہنے دے واعظ
تصور میں اس دم نبیؐ کی گلی ہے
عشق کی معراج دیدار ہے۔ یہی عاشق کی عید ہے۔ ہجر اسے تڑ پاتا ہے،  بے چین رکھتا ہے۔ حضرت آسیؔ غازی پوری نے کہا تھا:
آج پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسیؔ
آج کی رات ہے اُس گُل سے ملاقات کی رات
چوں کہ قبر میں دیدارِ مصطفیؐ، وعدۂ خداوندی ہے اس لیے عاشقِ رسولؐ کے لیے     یومِ مرگ، اصلاً یومِ عید ہے۔ ہر عاشقِ رسولؐ کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ خواب میں ہی سہی جلوۂ رسولؐ نصیب ہو جائے، عشق کی معراج ہو جائے۔ اس بار گاہِ نورانی کی دید ہو جائے جہاں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں۔ اس شہر اور اُن گلیوں کی خاک نصیب ہو جائے جنھیں رسولؐ کے قدموں کی نسبت میسّر ہے۔ ظاہر ہے ان آرزوؤں میں عاشق تڑپتا ہے، مچلتا ہے، بلکتا ہے، کبھی ہجر کی کیفیات بیان کرتا ہے، کبھی یہ سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ خواب حقیقت ہوں گے تو کیسی سعادت کی گھڑی ہو گی۔ ان داخلی کیفیات و واردات کا شعری اظہار تمام نعت گو شعرا کے یہاں موجود ہے۔ ولیؔ نے اگرچہ چند ہی نعتیں کہی ہیں لیکن اس قبیل کے اشعار ان کے باطن کا پتا دیتے ہیں :
اسے بھی مشرف بہ دیدار کیجیے
بہت مضطرب آپ کا یہ ولیؔ ہے
جو حاصل ہو آقا کے در کی گدائی
تو سمجھوں دو عالم کی دولت ملی ہے
فرشتے جب کہیں گے قبر میں ’یہ کون ہیں بولو‘
صدا یہ دل سے آئے اے ولیؔ صلِّ علیٰ کہیے
گزشتہ سطورمیں میں نے ولیؔ کی نعتوں کی موضوعاتی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے دو حصّوں میں منقسم ہونے کی بات کی تھی۔ داخلی جذبات و احساسات سے متعلق اشعار پر گفتگو کے بعد آئیے ایک نگاہ حیاتِ رسولؐ اور سیرت و شمائل کے موضوعات سے متعلق اشعار پر ڈالتے چلیں۔ حیاتِ رسولؐ اور سیرت و شمائل کے حوالے سے ولیؔ کے یہاں عظمتِ رسولؐ، معجزاتِ رسولؐ او ر اوصافِ رسولؐ وغیرہ سے متعلق اشعار موجود ہیں :
محمدؐ کی منزل سرِلامکاں ہے
محمدؐ کی مٹھی میں سارا جہاں ہے
نبیؐ کا تصرّف ہے دونوں جہاں پر
یہاں سروری ہے، وہاں سروری ہے
لوائے محمدؐ کی عظمت نہ پوچھو
پریشان حالوں کا یہ سائباں ہے
عظمتِ رسولؐ کے حوالے سے یہا ں نہ صرف واقعۂ معراج کا ذکر کرتے ہوئے شاعر نے دنیا و آخرت پر ان کے تصرفات کو ظاہر کیا ہے بلکہ میدانِ حشر میں لوائے محمدی کی عظمت کے بیان سے ’’یہاں سروری ہے وہاں سروری ہے‘‘ کی دلیل بھی فراہم کی ہے۔ دنیا کی شہنشاہی یہ ہے کہ شاہانِ زمانہ ان کی غلامی سے بھی آگے ان کے غلاموں کی غلامی پر بھی ناز کریں اور ’’وہاں سروری‘‘ ہے کی تفصیل یہ ہے کہ رسولؐ مالکِ حوضِ کوثر بھی ہیں اور شافعِ محشر بھی۔
معجزاتِ رسولؐ کا تعلق بھی بلا واسطہ طور پر عظمتِ رسولؐ سے ہی قائم ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو کچھ نہ کچھ معجزے عطا کیے لیکن نبیِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ تمام معجزات مجتمع تھے۔ ’’آنچہ خوبان ہمہ دارندتو تنہا داری‘‘ کا مضمون اسی کا اشارہ ہے۔
ولی اللہ ولیؔ کی نعتوں میں بھی معجزاتِ رسولؐ سے متعلق اشعار نہایت سلیقے سے پیش ہوئے ہیں۔ معجزات کو شعر میں پیش کرتے ہوئے بسا اوقات صداقت کا دامن شعرا کے ہاتھوں سے جاتا رہتا ہے لیکن ولیؔ کے یہاں یہ بہ حسن و خوبی نظم ہوئے ہیں :
قمر دونیم ہوتا ہے، پلٹ آتا ہے سورج بھی
نبیؐ کے ہر اشارے کو یقیناً معجزہ کہیے
عمر ہی کو معلوم ہے یہ حقیقت
کہ کیسی نظر اُن پہ ڈالی گئی ہے
مسیحائی پر اُن کی قربان جاؤں
کہ جن کا لعابِ دہن بھی دوا ہے
کرے نقشِ پا ثبت دل پر
یہ سب کا مقدر نہیں ہے
اُن کا ہونا ہی اِک معجزہ ہے ولیؔ
اس کے بعد اور کیا معجزہ دیکھیے
ان اشعار میں مصطفیؐ  کے اشارے پر نظامِ شمسی کا موقوف ہونا، انگشتِ مصطفیؐ کے تصرفات کا معجزہ ہے۔ حضرت عمر پر نظر پڑتے ہی اُن کے دل کی دنیا کا بدل جانا، نگاہ رسولؐ کی تاثیر کا معجزہ ہے۔ لعابِ پاک سے مریض کا شفا یاب ہونا، زبان و دہن کا معجزہ ہے۔ پائے نبیؐ کے پڑتے ہی سنگ کا موم صفت ہو جانا، قدمِ رسولؐ کا معجزہ ہے۔ گویا انگشت، نگاہ، لعاب اور قدمِ مبارک سے معجزے کا ظہور یہ مزاج دیتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سرتاپا معجزہ ہیں۔ پیش کردہ آخری شعر میں ولیؔ نے اسی مضمون کو باندھنے کی کوشش ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہر نبی کے معجزے کا تعلق ان کے جسمِ مبارک کے کسی ایک عضو سے تھا لیکن پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک عضوِ مبارک سے معجزے کا ظہور ہوا ہے۔
ولی اللہ ولیؔ کی غزلیہ شاعری عصرِ حاضر کی دنیا اور اس دنیا میں زندگی کرنے والے انسانوں کے مسائل کی تشریح و تعبیر سے وجود میں آتی ہے، جہاں مسئلۂ تلاشِ ذات، بیزاری و بے بسی، برگشتگی و برہمی، معاشی عدمِ توازن، سیاسی جبرو استحصال اور ٹوٹتی پھوٹتی قدروں کے نتیجے میں زندگی کے تضادات و کشمکش جیسے مسائل شاعری کا حصہ بنے ہیں۔ میں ابتدائی سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ ولیؔ کے یہاں کسی منظم اور منصوبہ بند شاعری کا تصور نہیں بلکہ عنفوانِ شباب سے ڈھلتی ہوئی عمر تک ایک حساس انسان جن تجربات و مشاہدات سے دو چار ہوتا ہے اور اس کے دل میں جو جذبات و احساسات جنم لیتے ہیں، انھیں بغیر تصنع کے پیش کر دیا گیا ہے۔ اس عمل میں ولیؔ صرف اپنی ذات کے جامِ جہاں نما میں کائنات کی تصویر یں نہیں دیکھتے بلکہ گردشِ ایام کی روداد میں اپنی ذات کے نقوش بھی تلاش کرتے ہیں اور اسی مقام پر وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عرفانِ ذات کے بغیر عرفانِ کائنات ممکن نہیں :
دیکھ کر مجھ کو ہنستی ہے دنیا ولیؔ
جیسے پاگل ہنسے آئینہ دیکھ کر
مخاطب ہونے لگتی ہے خود اپنی زندگی مجھ سے
ولیؔ جب بھی میں شرحِ گردشِ ایام لکھتا ہوں
ساری دنیا کی اس کو خبر ہو گئی
اپنی ہستی سے جو باخبر ہو گیا
مذکورہ پہلے شعر میں ذات کی مناسبت سے آئینہ اور دنیا کی مناسبت سے پاگل کے استعمال سے مضمون کی پیش کش کا سلیقہ سامنے آتا ہے۔ صنعتِ اشتقاق اور صنعتِ تکرار کے علاوہ ’’دیکھ کر‘‘ سے شعر کا آغاز و اختتام ہونے سے صنعتِ ردِّ عجز علی الصدر کی خوبی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ دوسرے شعر میں ذات کے حوالے سے کائنات نہیں بلکہ کائنات کے حوالے سے ذات زیرِ غور آئی ہے۔ تیسرے شعر میں تفہیمِ کائنات کو تفہیمِ ذات پر معلّق کرنے سے جہاں صنعتِ تعلیق کا استعمال سامنے آتا ہے وہیں خبر اور با خبر سے تجنیس و تکرار کی صورت بھی سامنے آتی ہے۔
ولیؔ نے اپنی شاعری کے اسباب و مقاصد اور شعری رویوں سے متعلق جا بجا اشارے کیے ہیں۔ کہیں موہوم اور کہیں واضح۔ اس قبیل کے اشعار سے شاعر او راس کے شاعرانہ منصب پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ان کی شاعری پر مزید گفتگو سے قبل یہ چند شعر ملاحظہ کریں :
ولیؔ شاعری کیا ہے اپنی
یہ بس اپنے دل کی صدا ہے
روشنی جن سے ملے دل کو ولیؔ
ایسے شعروں کو گہر کہتے ہیں لوگ
یہ کہتی ہے زمانے سے مرے اشعار کی خوشبو
روایت ہے مری غزلوں میں پھولوں کے گھرانے کی
آپ کیجیے فکر اس محشر کی لیکن میں ولیؔ
جو بپا ہے آج اس محشر پہ کہتا ہوں غزل
کب تلک الجھی رہے گی زلفِ جاناں میں غزل
دوستو! کچھ آج کے حالات کی باتیں کرو
ایسی اور بھی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو ولیؔ کی شاعری کو سمجھنے میں معاون ہیں۔ ان اشعار سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاعر کے نزدیک شعری مقاصد و مناصب کیا ہیں۔ شاعری صدائے دل بھی ہے اور ایسا گہر بھی جس کی تابانی سے دل کی انجمن روشن ہو۔ شاعری سے خوشبو کا کام بھی لیا جا سکتا ہے اور اپنے عہدو ماحول کی حشر سامانیوں کے ذکر کے ساتھ ایسے امکانات بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں جن سے عصری کربناکیوں سے نجات کی راہ ہموار ہوسکے۔
عہد اور ماحول کے حالات کی ترجمانی خواہ مثبت ہو یا منفی، شاعر کی عصری آگہی اور سماجی انسلا کات کو روشن کرتی ہے۔ ولیؔ کی شاعری میں ایسے معاملات و مسائل گھر سے شروع ہوکر شہر، ملک اور دنیا تک بس پھیلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل بوجھل فکری فضا میں تکمیل کے منازل طے نہیں کرتا بلکہ فطری اندازو رجحان کار فرما رہتا ہے:
بھوکے بچّوں کو سُلانے کے لیے
ماں نے پتھر کو پکایا دیر تک
ایسا ہو گا‘ ویساہو گا‘ کیسا ہو گا چاند
بھوک کے ماروں کو روٹی سا لگتا ہو گا چاند
جس طرف دیکھو قیامت کا سماں ہے
کچھ نہیں باقی فقط آہ و فغاں ہے
کلیاں لہو لہو ہیں چمن داغدار ہے
ہر سمت شورِ ماتمِ قتلِ بہار ہے
جس کی پیشانی سے صبحیں پھوٹتی تھیں
وہ مرا ہندوستاں ڈھونڈو کہاں ہے
امن کی فاختہ بتائے گی
فتنۂ عقل و آگہی کیا ہے
ان اشعار میں حقیقت کے وہ نقوش ہیں، جن کی موجود گی ہر ذی حس انسان کے چہرے کی لکیروں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ولیؔ ان کڑوی سچّائیوں کو صرف دیکھتے ہی نہیں بلکہ انھیں اپنے احساس کا حصہ بنا کر شعر کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ زمانے کی ناہمواری، انسانوں کی کربناکی، رشتوں کی پامالی اور ان سب کے نتیجے میں نفسیاتی الجھن، ذہنی کشمکش اور وجود کی لایعنیت سے شاعر کبھی بے بس نظر آتا ہے اور کبھی مایوسی میں گرفتار ہوتا ہے:
دردِ لا دوا ہوں میں
آہِ نارسا ہوں میں
مرا حال جب مجھ سے پوچھا گیا
زباں چپ رہی آنکھ تر ہو گئی
آپ کی نظروں میں شاید اس لیے اچھا ہوں میں
دیکھتا سنتا ہوں سب کچھ پھر بھی چپ رہتا ہوں میں
اُس کے بارے میں سنتا تھا کیا کیا ولیؔ
اُس کو دیکھا تو سب آئینہ ہو گیا
کوئی اپنے واسطے محشر اٹھا کر لے گیا
یعنی میرے خواب کا منظر اٹھا کر لے گیا
لیکن ان نامساعد حالات سے پیدا شدہ بے بسی و مایوسی فتح آشنا نہیں ہوتی۔ شاعر کے دل میں کہیں نہ کہیں صبحِ روشن اور حالات کی ساز گاری کا چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ وہ اس چراغ کے لیے کبھی مذہب سے روغن مستعار لیتا ہے، کبھی اپنے دیکھنے کے زاویے بدلتا ہے، کبھی حوصلے کا دامن پکڑتا ہے اور کبھی تعبیر کی پروا کیے بغیر خواب بنتے رہنے پر خود کو آمادہ کرتا ہے۔ رحمتِ خداوندی کی بیکرانی پر مکمل یقین، حسنِ اشیا کا حسنِ نظر پر انحصار، پائے تمنا کے حوصلوں کے آگے دشوار گزار راہوں کی بے بسی اور خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کی امیدیں ان شعروں میں ملاحظہ کریں :
کفر ہے مایوس ہونا رحمتوں سے
اے ولیؔ اس کا کرم تو بیکراں ہے
نظر میں اگر حسن ہے تو
ہر اک شے یہاں خوش نما ہے
مجھے کیا روک پائے گی بھلارستے کی دشواری
مرے پائے تمنّا کو ٹھہر جانا نہیں آتا
فکر کیجیے نہ تعبیر کی
خواب بنتے رہا کیجیے
ولیؔ چونکہ بنیادی طور پر فارسی زبان و ادب کے طالب علم رہے ہیں اس لیے زبان و بیان اور فکرو موضوعات میں فارسی شاعری کی روایات بھی اپنی جھلکیاں دکھا جاتی ہیں۔ مرزا عبدالقادر بیدلؔ عظیم آبادی کو اہلِ ایران ’’شاعرِ آئینہ ہا‘‘ یعنی آئینوں کا شاعر اس لیے کہہ کر یاد کرتے ہیں کہ ان کی شاعری میں آئینے کی مختلف جہتیں بار بار مذکور ہوئی ہیں۔ ولیؔ کے یہاں بھی آئینہ کئی زاویوں سے اپنے عکس بکھیر تا ہے۔ آئینے سے متعلق کچھ اشعار دیگر حوالوں سے زیرِ بحث آ چکے ہیں۔ چند شعر اور:
آئینے کے رو برو حیران ہوں
جانے کس کا گم شدہ چہرہ ہوں میں
کیوں وہ میرے سامنے آنے سے ڈرتا ہے ولیؔ
خامشی فطرت ہے میری ایک آئینہ ہوں میں
جیسا دِکھتا ہے ویسا نہیں ہے ولیؔ
پھر بھی ہے آئینہ دیکھیے تو ذرا
کون اب بتائے گا جھوٹ کیا ہے سچ ہے کیا
کھوگیا ہے آئینہ خود حسین چہروں میں
میں ولیؔ سمجھتا ہوں راز یہ مگر چُپ ہوں
کیوں وہ پھول سا چہرہ آئینے سے ڈرتا ہے
ان اشعار میں آئینے کی مختلف جداگانہ معنویتیں پیش کی گئی ہیں۔ کہیں انسانی بے چہرگی کے عرفان کا ذریعہ بنتا ہوا آئینہ حیرانی کا سبب ہے تو کہیں انسان آئینے کا سامنا کرنے سے خوف زدہ ہے کہ اس کے وجود کی قباحتیں اور کریہہ پہلو اسے خود سے اور بھی متنفر نہ کر دیں۔ تیسرے شعر میں سماج کے ان افراد کو بھی آئینے کے توسط سے سامنے لایا گیا ہے جن کے ظاہر و باطن یکساں نہیں ہیں۔ یہاں شاعر نے خود اپنی ذات کو ہدفِ طنز بناتے ہوئے نہ صرف سماج کو فریب میں مبتلا کرنے والے انسانوں کو آئینہ کیا ہے بلکہ اِس رویے کو خود انسان کی فریب خوردگی سے تعبیر کیا ہے۔ آخری شعر میں پھول جیسے چہروں کے پسِ پردہ سنگ صفت وجود رکھنے والے افراد جو سماج میں مرکزِ کشش بنے ہوئے ہیں ان کی دوروئی کو شاعر نے نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
ولی اللہ ولیؔ کے یہاں ’’ماں ‘‘کے موضوع پر بھی جذبات و احساسات کی الگ الگ جہتیں شعری شکل لیتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ وہ موضوع ہے جس کی گرفت میں صرف شاعر ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر فرد کبھی نہ کبھی ضرور آتا ہے۔ ولیؔ اپنے احساسات کا اظہار کبھی لفظ ’’ماں ‘‘ کے استعمال کے ساتھ کرتے ہیں اور کبھی ماں تصور میں ہوتی ہے اور فکر شعر کے پیکر میں ڈھل جاتی ہے:
دردِ دل حد سے ہونے لگے جب سوا
ذہن میں اس مسیحا کو لے آئیے
سر بلندی کیوں نہ ہو مجھ کو عطا
اپنے سر ماں کی دعا رکھتا ہوں میں
جس کے دل پہ برسے گا، ماں کے پیار کا بادل
پھول بن کے مہکے گا، ایک دن فضاؤں میں
ولیؔ میں ہر اک غم سے آزاد ہوں
مرے ساتھ ہے میرے ماں کی دعا
ماں سراپا کرم ہے، سراپا عطا
اُس کا کوئی بدل ہو تو بتلائیے
ادا اس کی رحمت ادا ہے
یقیناً یہ ماں کی دعا ہے
ماں کے چہرے پر نظر جس دم پڑی
دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا
ان اشعار میں ماں کا وجود فیض رسانی کا ایسا منبع ہے جو نزدیک و دور ہر حالت میں شفقتوں اور محبتوں کا چشمہ جاری رکھتا ہے۔ شاعر نے ماں کے تصور کو بھی دافعِ آفات قرار دیا ہے۔ مصائب و آلام میں ماں کی دعا نہ صرف سایۂ رحمت کا کام کرتی ہے بلکہ سر بلندی کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ ماں کے پیار کے بادل میں قوتِ نمو کی ایسی کثرت ہے کہ بچے کے وجود پر جب برستا ہے تو ایسے چمن زار میں تبدیل کر دیتا ہے کہ اس کی خوشبو سے اطراف و جوانب معطر ہو جاتے ہیں۔ ماں کرم کا ایسا مجسمہ ہے جس کا بدل ممکن نہیں۔ ماں کی دعا میں اتنی طاقت ہے کہ اغیار بھی رحمت ادائی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت ہے اور ماں کے دیدارسے یہ دنیا جنت نما ہو جاتی ہے۔
ماں کی مناسبت سے ولیؔ کے یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جو اس نعمتِ عظمیٰ سے محرومی کے احساسات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کیفیت میں شاعر بادل کے ٹکڑوں کو دیکھتا ضرور ہے لیکن ان میں اپنا کوئی حصہ محسوس نہیں کرتا۔ وہ یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ جب ماں کا سایہ سر پر نہ ہو تو لازم ہے کہ ہر قدم سنبھل کر رکھا جائے کہیں ایسانہ ہو کہ وقت اور حالات کی دھوپ زندگی کو جھُلسا دے۔ ھَل جَزاء ا لاِحْسَانَ اِلَّاالا حسانَ کی خاموش تائید کرتے ہوئے عرض گزار بھی ہوتا ہے کہ ایسی محرومیوں میں صبر و شکیبائی کا یہی ایک راستہ ہے کہ اللہ سے ان کے حق میں دعا کی جائے:
سر پہ جب سے ماں ترا آنچل نہیں
کوئی بھی بادل مرا بادل نہیں
آپ کے سر پہ جب ماں کا سایہ نہیں
ہر قدم پھر سنبھل کر چلا کیجیے
ساتھ جن کا نہیں یاد آئیں وہ جب
اُن کے حق میں خدا سے دعا کیجیے
حا صلِ گفتگو کے بہ طور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ولیؔ کی شاعری عمیق نکتے اور دقیق فسلفے سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ احساسات و جذبات اورمسائل و مشاہدات کے پُر خلوص بیان سے عبارت ہے۔ از دل خیز د بردل ریزد کی مصداق اس شاعری میں سادگی بھی ہے اور پُر کاری بھی۔ یہی سبب ہے کہ چھوٹی چھوٹی بحروں میں ایسے اشعار دل کو چھو جاتے ہیں جن میں سہلِ ممتنع سے موسوم ہونے کی صلاحیت اور خوبی موجود ہے:
یہ دنیا فقط دیکھنے میں نئی ہے
وہی بات ہو گی جو ہوتی رہی ہے
مرا حال جب مجھ سے پوچھا گیا
زباں چپ رہی آنکھ تر ہو گئی
محبت کو عیاں کرنا
محبت کی اہانت ہے
نازنیں، نازنیں گلبدن کے لیے
شبنمی، شبنمی پیرہن چاہیے
ان اشعار میں ازلی حقائق کی پیش کش بھی ہے، کربِ ذات کی تصویر یں بھی ہیں، مشاہدے بھی ہیں اور غنائیت بھی۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ ان تمام اوصاف کو نہایت سہل، رواں اور دل پذیر انداز میں شاعری بنا دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ  صَرف و نحو کی پابندی اظہارِ خیال کے ڈھانچے کو نثری پیکر عطا کرتی ہے، جب کہ  صَرف و عروض کی پابندی سے وہی اظہارِ خیال شعر کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ گویا قواعدی اعتبار سے صَرف نثر اور شعر کی مشترک خصوصیت ہے اور نحو یا عروض کی پابندی سے ہی ہم یہ فیصلہ کر پاتے ہیں کہ اظہارِ خیال میں شعری وسیلہ اپنایا گیا ہے یا نثری۔ البتہ اس وسیلے میں اگر صَرف کے ساتھ عروضی اور نحوی دونوں خصوصیات مجتمع ہو جائیں تو ہم یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ اس شعر کی نثر نہیں بنائی جا سکتی اور یہی خصوصیت کسی شعر کو سہلِ ممتنع کے وصف سے متصف کرتی ہے۔ ولی اللہ ولیؔ کے یہاں ایسے درجنوں اشعار ہیں جنھیں سہلِ ممتنع کا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔
٭٭٭




شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں