’’ میں نے بس خواب سے محبت کی ‘‘ : انحراف ادبی گروپ کے ۳۶۸ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی : احمد علی برقی اعظمی



انحراف ادبی گروپ کے ۳۶۸ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی

ہم نے کی پیروی جہالت کی
حد بھی ہوتی ہے کوئی غفلت کی

کیوں کریں سب نہ اس کا استحصال
خود کمی جس میں ہوقیادت کی

تھی رذالت خمیر میں جس کے
اس سے امید کی شرافت کی

فکر تعبیر کی نہ تھی مجھ کو
’’ میں نے  بس خواب سے محبت کی ‘‘


خونِ ناحق ہے جس کے دامن پر

بات کرتا ہے مِہر و اُلفت کی

تب مِلا جاکے اقتدار سے
خونِ انساں کی جب تجارت کی

زہر سے اس کے خود نہ مَر جائے
فصل جو بورہا ہے نفرت کی

زد پر ہردم وجود ہے میرا
عہدِ حاضر کی اس سیاست کی

اس کا الزام میرے  سر آیا
جو کسی اور نے شرارت کی

کرکیا قطع رابظہ مجھ سے
چاہ میں اس نے مال و دولت کی

جس نے ایسا کیا اسے برقی
مِل رہی ہے سزا حماقت کی




شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں