’’ نظروں میں مری آج بھی عالم ہے وہیں کا ‘‘ ـ زکی کیفی کی زمین میں انحراف کے ۳۷۰ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کےلئے میری نعتیہ کاوش : احمد علی برقی اعظمی



زکی کیفی کی زمین میں انحراف کے ۳۷۰ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کےلئے میری نعتیہ کاوش
احمد علی برقی اعظمی
ہر وقت تصور ہے مدینے کی زمیں کا
’’ نظروں میں مری آج بھی عالم ہے وہیں کا ‘‘
محرومِ سعادت کوئی ہوتا نہیں جس سے
فیضان ہے وہ گنبدِ خضری کے مکیں کا   
معراج کا حاصل یے شَرف صرف اُنھیں کو
ہے کوئی سفر جس نے کیا عرشِ بریں کا
محبوب و مُحِب تھے شبِ معراج وہاں پر
جس جا نہ گذر ہوسکا جبریلِ امیں کا
تخلیق دوعالم کا سبب ذات ہے جن کی
ہے جلوہ فگن نور اسی نورِ مبیں کا
تا عمر امانت میں نہ کی جس نے خیانت
کیا نام سنا آپ نے ہے ایسے امیں کا
تاریخ کے صفحات سے جو محو نہ ہوگا
شق القمر اعجاز ہے اک خاک نشیں کا
ہے سایہ فگن نورِ نبی لوح و قلم پر
صدقہ ہے یہ کونین اسی سرورِ دیں کا
جو ان کی شفاعت کا طلبگار نہیں ہے
کونین میں برقی نہ رہے گا وہ کہیں کا



شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں