وہ ساتھ رہ کے بھی اکثر نظر نہیں آتا :سخنداں ادبی فورم کے ۱۱ ویں آن لائن عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۴ کے لئے میری طبع آزمائی : احمد علی برقی اعظمی


سخنداں ادبی فورم کے ۱۱ ویں آن لائن عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۴ کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
وہ ساتھ رہ کے بھی اکثر نظر نہیں آتا
’’ بندھا ہو آنکھ سے صحرا تو گھر نہیں آتا‘

ہمیشہ رہتا ہے اب وہ مرے تصور میں
نہ تھا مجھے کوئی غم وہ اگر نہیں آتا

ہے اِرد گِرد مرے یوں تو حلقۂ یاراں
سکون قلب مجھے وہ مگر نہیں آتا

ہیں میرے دیدہ و دل فرشِ راہ جس کے لئے
کہاں ہے، لے کے خبر نامہ بر نہیں آتا

میں کرلوں چھاؤں میں آرام جس کی پَل دو پَل
دیارِ شوق میں ایسا شجر نہیں آتا

ہمیشہ کرتا تھا جو میری نازبرداری
بُلا رہا ہوں میں کب سے مگر نہیں آتا

گیا تو ایسا گیا پھر نہ لی خبر کوئی
وہ دردِ دل کا مرے چارہ گر نہیں آتا

بیاں میں کس سے کروں جاکے اپنا سوزِ دروں
نظر کوئی بھی سرِ رہگذر نہیں آتا

کہاں رہیں گے مظفر نگر کے خانہ بدوش
امیر شہر کو کیا کچھ نظر نہیں آتا

جو ہوگا وردِ زباں ہر کسی کے بعد از مرگ
مشاعروں میں وہی دیدہ ور نہیں آتا

پڑے ہیں گوشۂ عُزلت میں آج وہ برقی
زمانہ سازی کا جن کو ہُنر نہیں آتا

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں