’’ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا‘‘ فی البدیہہ طرحی غزل نذرِ میراجی : احمد علی برقی اعظمی



غزل
احمد علی برقی اعظمی
جوش جنوں میں کون ہے اپنا کون پرایا بھول گیا
’’ نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا‘‘
دیکھ کے اس کا چہرۂ زیبا عرضِ تمنا بھول گیا
مصرعہ ثانی یاد رہا پر مصرعہ اولیٰ بھول گیا
ذہن پہ اس کے حسن کا جادو ایسا اثر انداز ہوا
غمزہ و ناز مین ایسا کھویا کیا کیا دیکھا بھول گیا
چشمِ تصور میں ہے ابھی تک اس کا دھندلا دھندلا عکس
صفحہ دل پر تھا جو لب و رخسار کا خاکہ بھول گیا
آ گیا زد میں تیر نظر کی گُم ہیں اب اس کے ہوش و حواس
دردِ جگر کا خود ہی مسیحا اپنے مداوا بھول گیا
ہونے لگا ہے سوز دروں کی ابھی سے شدت کا احساس
اس کے بغیر کروں گا تنہا کیسے گذارا بھول گیا
دے گا کب دروازۂ دل پر دستک یہ معلوم نہیں
کرکے ہمیشہ برقی سے وہ وعدۂ فردا بھول گیا





شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں