کس طرح ذکر کروں میں شبِ تنہائی کا : کلاسیکی ادبی روایت کی آئینہ دار ایک فی البدیہہ غزل مسلسل : احمد علی برقی اعظمی



کلاسیکی ادبی روایت کی آئینہ دار ایک فی البدیہہ غزل مسلسل
احمد علی برقیؔ اعظمی
کس طرح ذکر کروں میں شبِ تنہائی کا
حوصلہ اب نہ رہا صبرو شکیبائی کا
ایسے معشوق سے اللہ بچائے سب کو
حال کیا اُس نے کیا اپنے ہی شیدائی کا
وہ رُلاتا ہے کبھی اور ہنساتا ہے کبھی
عجب انداز ہے اُس کی یہ پذیرائی کا
ہر کوئی کرتا ہے انگشت نمائی مجھ پر
سامنا کیسے کروں ذلت و رسوائی کا
کہیں وامقؔ ، کہیں عذرا ؔ کہیں شیریںؔ فرہادؔ
سرمۂ چشم ہیں عشاق کی بینائی کا
آج تاریخِ ادب کی وہ بنا ہے زینت
کوبکو ذکر ہے اُس قیس سے شیدائی کا
عمر بھر ٹوٹ کے چاہا جسے میں نے برقیؔ
یہ صلہ مجھ کو مِلا اُس سے شناسائی کا


شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں